نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

اگست 03, 2010

آخری معرکہ

اگر کامیاب دفاعی حکمت کاری استعماری احکامات وخواہشات کی دست بستہ بجا آوری کا نام ہے تو پاکستان کا دفاع واقع رشک کی ا علی ترین بلندیوں پر فائز ہے۔ نائن الیون سے لے کرروزِموجودہ تک اگر اسلام کے اس انوکھے قلعے کی امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریزیوں کو مجتمع کیا جائے تو جنوں خیز بندگی کی ایک نئی داستان وجود میں آسکتی ہے۔پاکستان کے وہ مایہ ناز عسکری ماہرین جن کی مہارت امریکی احکامات کو پاکستان کی ضرورت بنا کر پیش کرنے کا نام ہے اور وہ نامور عسکری راہنما جن کی سپہ گری کی پرواز امریکی آگ سے اپنا وجود جلا کر نگاہِ فرنگ میں درجہ محبو بیت پر فائز ہو جانے تک محدود ہے پچھلے نو سالوں سے اہلِ پاکستان کو اس مضحکہ انگیز جھوٹ پر ایمان لانے کا درس دیتے آرہے ہیں جس پر اگر خوف ان کے اعصاب پر اور عاقبت نا اندیشی ان کی عقلوں پر سوار نہ ہوگئی ہوتی تو وہ خود بھی یقین نہ کرتے۔ بزدلی و کم ہمتی کے جوہڑ میں رینگتے ہمارے یہ بد راہ ا ہلِ حکم بتِ استعمارکے سامنے تابعداریوں کی وہ تاریخ رقم کر رہے ہیں جس کا ڈیڑھ دو صدی قبل کے برکاتِ سرکارِ انگلشیہ کا راگ الاپتے ہمارے قدیمی محسن تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔

مئی 29, 2010

نئے دو قومی نظریے کی ضرورت

وہ سادہ لوح پاکستانی جو درسی کتابوں میں ناقابلِ تسخیر ملکی دفاع اور دشمنوں کے دانت کٹھے کرنے کے مظاہروں پر مشتمل ایمان افروز قصے پڑھ پڑھ کر پاکستان کے دفاع کو واقع سیسہ پلائی ہوئی دیوار سمجھنے لگے تھے اب قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرونز کے پے در پے حملوں پر نہایت غصے میں بھرے بیٹھے ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ جری فوج جو دشمن کی ذرہ بھر جارحیت کا نصابی کتابوں میں منہ توڑ جواب دیا کرتی تھی برستے میزائلوں کی بارش میں بھی اب ٹس سے مس کیوں نہیں ہو رہی۔ نسیم حجازی کے جوش آور ناولوں میں زندہ رہنے والے یہ بے چارے پاکستانی اتنا نہیں جانتے کہ دورِ جدید میں زمینی تقاضوں کے بدلنے سے اندازِ دفاع میں بھی بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں چناچہ اب خالد کی تلواریاٹیپو کی للکاربننے کی بجائے امریکہ کا حاشیہ بردارہو جانازیادہ فائدے کا سودا ہے۔

مئی 17, 2010

کھوئے ہوؤں کی جستجو

ایسا نہ تھا کہ اس دیس کے کوچہ و بازار میں پرویزیت کا طاعون پھیلنے سے پہلے دودھ کی نہریں بہتی ہوں، خوشیوں کے زمزمے گونجتے ہوںیا امن و آشتی کی ہوائیں چلتی ہوں۔ ظلم و جبر کی سیاہ آند ھیاں اہلِ گلشن کے چین کو تب بھی اجاڑے رکھتی تھیں، بھوک و افلاس کے ناگ ان کے سکون پر تب بھی اپنا بد رو پھن پھیلائے پھنکارتے رہتے تھے اور اہلِ حکم امریکی در پر سجدہ ریزی کو تب بھی حزرِ جاں بنائے ہوئے تھے پراس دورِ سیاہ سے قبل ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ ہوسِ اقتدار میں اندھے ہو کر کسی نا عاقبت اندیش نے اپنے دیس کی عفتوں کادام و درہم کے عوض کسی استعماری سوداگر سےسودا کر لیا ہواورایسابھی کبھی نہ ہو ا تھا کہ قوم نے اجتماعی بے غیرتی کی چادر اس سہولت کے ساتھ اتنے طویل عرصے تک تانے رکھی ہو۔

مئی 08, 2010

سابق صدر سے بیہمانہ سلوک اور ہماری ذمہ داریاں

پاکستانی قوم ابھی اپنے عظیم قائد پرویز مشرف کے سکیورٹی سکواڈ کے ویزوں میں توسیع نہ دینے کے غیر منصفانہ بر طانوی فیصلے پرچیں بہ جبیں ہونے کی تیاری کر ہی رہی تھی کہ امریکی ائیر پورٹ پر روشن خیالی کے امام عالی مقام ہمارے کمانڈو قائد کو بیلٹ اور جوتے اتروائی کی مضحکہ خیز رسم سے گزار کر امریکا نے ہمیں بھو نچکا ہونے پر مجبور کر دیا ۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہمارے قائد نے امریکی دوستوں سے وفاداری کی وہ درخشاں تاریخ رقم کی ہے کہ اب احسان مند امریکی تا حیات ان کے گن گائیں گے اور ان کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے لیکن بد ترین طوطا چشمی کے اتنے شرمناک مظاہرے کا تو ہم تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ جنگِ دہشت گردی کے اس جری سپہ سالارکی یوںمعمولی ائیر پورٹ اہلکاروں سے دن دیہاڑے توہین کر وائی جائے گی۔

مئی 01, 2010

قاید تحریک کی للکار

ایم کیو ایم کے تا ریخی پنجاب کنونشن نے بدامنی اور مہنگائی کے ستائے ہوئے پنجاب کے مظلوم عوام کو جہاں ایک طرف سستی تفریح فراہم کی ہے وہیں اس اجتماع نے ستم رسیدہ پنجابیوں کو الطاف حسین جیسے عظیم راہنما کی صورت میں وہ نجات دہندہ بھی فراہم کیا ہے جو ان کے تمام مسائل و مصائب کو بوریوں میں بند کر کے انہیں ان سے دائمی نجات دلانے کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔اس کنونشن میں ظالم جاگیرداروں کے خلاف الطاف حسین کے نعرہِ مستانہ نے جو اہلِ پنجاب کی اصطلاح میں بڑھک کہلاتاہے بے چارے چو دھریوں اور سرداروں پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور انہیں اپنی چودھراہٹیں اور سرداریاں شدید خطرے میں نظر آنے لگی ہیں۔

اپریل 24, 2010

یہ اعزاز کہیں چھن نہ جائے

اگر دنیا کی صابر ترین اقوام کی فہرست مرتب کی جائے تو پاکستانی قوم کانام بلاشبہ سرِ فہرست ہوگا۔ مثل تھرمامیٹر کے صبر ماپنے کا اگر کوئی آلہ ہوتا اور اس سے پاکستانی قوم کی قوتِ برداشت کو جانچا جاتا تو نتائج حیران کن نکلتے۔ راہ گزر کے وہ پتھر جو ہمیشہ ٹھوکروں کی ضد میں رہتے ہیں اور اس دیس کے عوام جو ازل سے ظلم و ستم کی چکی میں پستے آئے ہیں ہر دو کا درجہِ برداشت ایک سا نکلتا۔ ہر طلوع ہونے والاسورج پاکستانی قوم کے صبر کا ایک نیا امتحان لیتا ہے اوراس منفرد قوم کو ہر ابتلا سے ٹھنڈے پیٹوں سرخرو ہوتا دیکھ کر انگلیاں دانتوں میں داب لیتا ہے۔  اس قوم کے چوسٹھ سالہ عرصہِ حیات میں کبھی یوں نہیں ہوا کہ ظلم و استبداد کی ہوائے سنگین سے گھبرا کر اس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہو یا جبرو استحصال کے نیزوں کی ضرب سے اس کی برداشت کی حدیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہوں ۔ بتِ بے خبر کی طرح ایستادہ اس قوم کو ظلم سہنے کی ان تھک عادت تو ہے پر بغاوت کرنے کا ذرہ بھر مادہ بھی شاید قدرت نے اس کے اندر نہیں رکھا۔

اپریل 20, 2010

نقلی ویڈیو کے اصلی فائدے

پاکستانی قوم کو روشن خیال اعتدال پسندی کے جھولے پے اٹھکیلیاں کرتے ابھی کچھ زیادہ مدت نہیں بیتی لیکن اس کے ثمرات نے اس دیس کے کوچہ و بازار کوابھی سے معطر کرنا شروع کر دیا ہے۔ چارسو پھیلتی حسینانِ توبہ شکن کے جاں فزا جلوں کی بہتات ،  پروینانِ نیک آرا کے عاشقانِ پاک طینت کے ہمراہ بھاگنے کے روز افزوں واقعات اور رشوت ستانی و بد عنوانی کے پھلتے پھولتے کاروبار پہ ہمارے حکمرانوں کا شفقت بھرا ہاتھ یہ سب واضح علامات ہیں اس امر کی کہ روشن خیالی کے نخل نے برگ و بار لانا شروع کر دیے ہیں اور اب پاکستان بھی ترقی و خوشحالی کی ریس میں سرپٹ دوڑنے کے قابل ہو گیا ہے۔

اپریل 10, 2010

صبح نو کا پیام

بدامنی، لاقانونیت اور مہنگائی کی مسموم گھٹاؤں میں گھرے ہوئے مظلوم پاکستانیوں کے لیے یقیناًیہ خبر بادِ صبا کے کسی روح پرور جھونکے سے کم نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کی بھٹکتی ہوئی ناؤ کو پار لگانے کے لیے پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی جماعت کے قیام کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ پاکستانی عوام اگر سیاسی شعور کی دولت سے بہرہ ور ہوتے تو وہ اِس نویدِ مسرت پر خوشی کے شادیانے بجاتے ، اپنے گھروں پے گھی کے چراغ جلاتے اور اس مسیحا سے جو بعض بیہودہ وجوہات کی بنا پر مجبوراََ دیس سے بھاگ کر پر دیس جاچھپا ہے واپس لوٹ آنے کی التجا کرتے۔

اپریل 02, 2010

پاکستان کا دکھ

اس روح فرسا خبر نے کہ ہمارا ازلی دوست امریکا افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور سنگ دل طالبان سے کامل نو سال تک سر ٹکرانے کے بعد اب وہاں سے با عزت طور پر بھاگنے کے منصوبے بنا رہا ہے ہمیں شدید غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ امریکا ایک طویل مدت تک سرزمینِ افغانستان پر گولہ بارود کے ذریعے اپنی تہذیب و شائستگی کے پھول بکھیرتا رہے گااور دہشت گردی کی جنگ کے صدقے ہم پر امریکا اور آسمان سے رحمتوں کے نزول کا سلسہ جاری رہے گالیکن ایسا اندو ناک منظر تو ہم اپنے بدترین خواب میں بھی تصور نہ کر سکتے تھے کہ ہمارا فاتح عالم دوست اجڈ اور گنوار طالبان کے چھوٹے چھوٹے حملوں سے ڈر کر اتنی جلدی سر پر پائوں رکھ کر بھاگنے کی نیت کر لے گا۔

مارچ 28, 2010

قومی یک جہتی

بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ہندو بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے اسکی شاطر نظریں وہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں جس کا ہم عموماََ ادراک نہیں کر پاتے ۔تشکیلِ پاکستان کے وقت نہرو ریڈکلف گٹھ جوڑ اسی ذہنیت کو آشکار کرتا ہے ۔ ایک سازش کے تحت جونا گڑھ کا مسلم اکثریتی علاقہ بھارت کو دے دیا گیاتا کہ وہ اس کے رستے کشمیر جنت نظیر میں اپنی ناپاک فوجیں داخل کر سکے۔وہ جانتا تھا کہ کشمیر نہ صرف سیاحت کے اعتبار سے سونے کی چڑیا ثابت ہوگابلکہ یہ پاکستان میں بہنے والے تمام بڑے دریاوں کا منبع بھی ہے اور اس پر قابض ہو کروہ کسی بھی وقت پاکستان کو بنجر و بیابان کرسکتا ہے۔

مارچ 23, 2010

ہاے لوڈ شیڈنگ

ہمار ے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر صاحب جو پچھلے ڈیڑھ سال تک دسمبر 2009 میں قوم کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کا مژدہ سنا کر اس کے مردہ دہانوں میں جان ڈالا کرتے تھے آج کل امتدادِ زمانہ کے سبب کچھ حقیقت پسند ہو گئے ہیں۔ چناچہ اب وہ کوئی متعین تاریخ دینے سے گریز کرتے ہیں اور قوم کو مزید دو تین سال تک صبرِ ایوبی کا درس دے کر اپنے فرضِ منصبی سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

مارچ 13, 2010

ذ کر چالیس چوروں کا

رائے ونڈ والے میاں صاحب نے اگلے روز ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تئیں بڑی جگت ماری کہ مشرف کو علی بابا اور ان کے جملہ حواریوں کو چالیس چور قراردیا۔ ہمارے خیال میں مشرف اور اس کے قبیلے کی سات آٹھ سالہ کار کردگی اور ملک و قوم کے لیے وسیع تر خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا کہنا صریح زیادتی ہے۔ مخالفین مشرف اور اس کے ساتھیوں کو بھانڈ کہہ سکتے ہیں مسخرے کا لقب دے سکتے ہیں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ڈاکو اور لٹیرے بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ان جیسی نادر روزگار ہستیوں کو چورٹھہرانا حد درجے کی بد ذوقی ہے۔
 چوری ایک نہایت بزدلانہ اور غیر معقول فعل ہے جس کا پرویزی کابینہ پر الزام دراصل ان کے کارناموں کوگٹھاکر پیش کرنے کی ایک سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

مارچ 06, 2010

بسنتی بہار

باتوں سے پھول جھڑنے کا ذکر ہم نے فرازصاحب مرحوم کی شاعری میں تو سنا تھا لیکن آپ اسے ہماری کور نگاہی کہئے یا بدنصیبی کہ ہمیں آج سے چند روز قبل تک کسی غنچہ دہن کے لبِ لعلیں سے لفظوں کے جھڑتے پھول دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ ہماری اس حسرتِ دیرینہ کو اگلے روز ہمارے نہایت ہر دل عزیز گورنر صاحب نے اپنے بسنتی اعلان سے پورا کرکے ہمیں باغ باغ کر دیا۔
 جب گورنر صاحب اپنے اس عظمِ صمیم کا برملا اظہار فرما رہے تھے کہ وہ عدالت کے بسنت کش فیصلوں اور شہباز حکومت کی معصوم پتنگ بازوں کے خلاف جاری لٹھ برداری کے باوجود نہ صرف اس سال بسنت منائیں گے بلکہ اس کارِخیر کو تاحیات جاری رکھیں گے تو ہمیں واقعتا یوں لگ رہا تھا جیسے گورنر صاحب کا دہن مبارک کوئی موتیے کا لدا پھندا بوٹا ہو جس سے دھڑا دھڑ پھول کلیاں جھڑ رہی ہوں۔

فروری 25, 2010

اب ہمیں لطیفے بھی سنانے ہیں

ہمیں حیرت ہے کہ امریکا بہادر ہمارے ناتواں کندھوں پر ذمہ داریوں کے اور کتنے بوجھ لادے گا ۔ ہماری کمر ابھی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے بوجھ سے ہی سیدھی نہیں ہوئی تھی کہ اب امریکا نے ہمارے ذمے اپنے پالیسی سازوں کو ہنسنے ہنسانے کا جانگسل کام بھی لگا دیا ہے۔

فروری 15, 2010

پر تین حرفNRO

این -آر-او پر تین حرف بھیجنے والے سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے نے جہاں عوام کو یہ امید افزاء پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی عدالتیں نظریہ ضرورت کے منحوس آسیبی چکر سے نکل کرآزادانہ اپنے فیصلے کرنے کا اپنا حق حاصل کر چکی ہیں وہیں اس اہم فیصلے نے ان چند لوگوں کے چہروں پر پڑے ملمعے بھی اتار دیئے ہیں جو اب تک کسی ذاتی مفادو کی تار سے بندھے آزاد عدلیہ کے نعرے لگاتے تھکتے نہ تھے۔ اس فیصلے نے جہاں کرپٹ اور اور غیر کرپٹ عناصر کے درمیان حدِ فاصل کھینچ دی ہے وہیں اس نے پھسپھسے حیلے بہانوں اور لولی لنگڑی دلیلوں سے کرپشن کا دفاع کرنے والے مکروہ چہروں سے بھی نقاب اتار کے رکھ دیا ہے ۔

فروری 13, 2010

سارا فساد میڈیا کا ہے

حالات کی بلاکم و کاست ٹھیک ٹھیک تصویر کشی کرنامیڈیاکا بنیادی فرض ہے جس کو پورا کرنے میں بدقسمتی سے ہمارا میڈیا بری طرح ناکام رہا ہے۔ اس ناکامی کا ایک مظاہرہ اگلے دن اس وقت سامنے آیا جب میڈیا نے ہماری عوامی حکومت کے خلاف نہایت شر انگیز انداز میں یہ رپورٹ سامنے لائی کہ زندگی پچھلے دو سالوں میں عام آدمی کے لیے پچاس فیصد مہنگی ہو گئی ہے ۔

فروری 11, 2010

بھونڈ حملے

راست گوئی میں رسوائی کا کٹھکا تو لگا ہی رہتا ہے لیکن کا ر زارِ سیاست میں سچ گوئی کا پھل کبھی کبھی گالیوں اورجوتوں کی صورت میں بھی کھانا پڑتا ہے اس لیے ہمارے سیاست دان عموماًسچ بولنے سے احتراز برتتے ہیں اورعوام کو جھوٹ کی میٹھی گولیاں کھلا کر اپنی دھوتی صاف بچا لے جاتے ہیں ۔ اس عمومی روایت سے البتہ چندایسے سیاست دان مستشنیٰ ہیں جو ہر حال میں حق گوئی اور بے باکی کا دامن تھامے راستی از فتنہ انگیز کو دروغ ازمصلحت آمیز پر ترجیح دیتے ہیں

جنوری 29, 2010

مہنگائی کے جن کی درگت

ہماری عوامی حکومت نے اگلے روز پیٹرول کی قیمت میں یکلخت 64پیسے کی کمی کر کے عوام پر شادی مرگ کی سی کیفینت طاری کر دی ہے ۔ جہاں بہت سے عوام کے منہ اس خوشخبری پر استعجابِ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے ہیں وہیں ایک کثیر تعداد کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس نویدِ مسرت پر ہنسیںیاروئیں۔ مہنگائی کا وہ ستمگرجن جو پچھلے کچھ عرصے سے ہمہ وقت عوام کے اعصاب پر سوار دندناتا پھرتا تھا حکومت کے اس انقلابی فیصلے سے اب واپس اپنی بوتل میں بند ہو کر تھر تھر کانپ رہا ہے اور اسے پہلی دفعہ عوامی جمہوریت کی طاقت کا صحیح اندازہ ہواہے ۔