tag:blogger.com,1999:blog-12165890838202203122024-03-14T14:54:33.688+05:00Greater Pakistan Blogاٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں۔۔۔۔۔نفسِ سوختہ شام و سحر تازہ کریںشاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.comBlogger55125tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-69315963126572865222015-02-28T16:55:00.000+05:002015-02-28T16:57:09.226+05:00حقیقی جمہوریت کا آخری وارث<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی
بہادری، دانشمندی اور فہم و فراست کے قصے صدیوں یاد رکھے جائیں گے۔ آنے
والی نسلیں جب ملک و قوم کے لیے ان کی قربانیوں اور خدمات کو یاد کریں گی
تو فرطِ جذبات سے ان کی گھگی بندھ جائے گی اور وہ حیرت کے تالاب میں غوطے
کھاتے ہوئے سوچیں گی کہ کبھی پاکستان کی دھرتی بھی ایسے سپوت جنم دیا کرتی
تھی! ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ
کرنا کسی بشر کے لیے ممکن نہیں لیکن ذیل میں ہم ان کے سب سے بڑے کارنامے
یعنی پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے فروغ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔
ان کے اس کارنامے کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اگلے روز ایک
</span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://2.bp.blogspot.com/-CJxQFgqZj84/VPGqTJM6C7I/AAAAAAAABmA/oltGbZeTJf4/s1600/musharaf.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://2.bp.blogspot.com/-CJxQFgqZj84/VPGqTJM6C7I/AAAAAAAABmA/oltGbZeTJf4/s1600/musharaf.jpg" height="377" width="640" /></a></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">بیان میں ایک مرتبہ پھر ہماری کم فہم قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ
پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا پودا انہوں نے ہی لگایا تھا ۔ہمیں ڈر ہے کہ
پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ان کے اس بیان کوزیادہ سنجیدگی سے نہیں لے گی
۔ اس لیے سطورِ ذیل میں ہم ان کے اس ارشاد کی ذرا کھل کر وضاحت کریں گے ۔<br />
<br />
لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں حقیقی جمہوریت کی تعریف کو
سمجھ لیا جانا ضروری ہے۔ حقیقی جمہوریت ایک نہایت ہی پیچیدہ فلسفہ ہے جس کا
ادراک ابھی تک پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ہو
سکا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ ممالک کو
اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجودابھی تک اس فلسفے کی سمجھ نہیں آئی ۔ جمہوریت
کا وہ سچا علم جو زمباوے کے موغابے، روانڈا کے کاگامے ، یوگنڈا کے
موسوینی ، ایتھوپیا کے جیارجس اور پاکستان کے مشرف کو حاصل ہے یورپ اور
امریکا کے فوجی بھائی اور سیاست دان اس سے یکسر نابلد ہیں۔ ہمارے ماضی پر
نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو متعارف
کروانے کا سہراایوب خان کے سر ہے جنہوں ن<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">ے</span>قومی سلامتی کے تقاضوں کی آواز پر
لبیک کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور جب تک لوگوں سے کتا کتا کے نعرے
نہیں سن لیے اس فریضے سے سبکدوش نہ ہوئے۔ یحییٰ خان کا حقیقی جمہوریت کا
سفر نسبتاً مختصر رہا کیونکہ مشرقی بنگال کے لوگوں نے ان کی حقیقی جمہوریت
کی بجائے مجیب الرحمن کی غیر حقیقی جموریت کو ترجیح دی۔ ضیا الحق گیارہ سال
تک اسی جمہوریت کے پودے کی آبیاری کرتے رہے اور اسی پودے کو سینچتے سینچتے
ایک دن فضا میں آموں کی کمپنی میں پھٹ گئے ۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> <br />
مشرف صاحب کا کیس ان کے پیشرؤں سے ذرامختلف ہے۔ حقیقی جمہوریت کے سفر میں
ایوب خان اور یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے کے بعد کبھی دوبارہ پلٹ کر ان
کوچوں سے گزرنے کا بھی نہ سوچا لیکن مشرف صاحب نہ صرف پلٹ کر میدانِ سیاست
میں آئ<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">ے</span>بلکہ انہوں نے ایک نئی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی جسے ان کے مخالفین
حسد کے مارے تانگہ پارٹی بھی کہتے ہیں ۔اگر ایوب خان اور یحیٰ خان کے دور
میں فیس بک کا وجود ہوتا اور ان کے پیچ پر لاکھوں فین ان کو دیوانہ وار
بلاتے تو وہ بھی اقتدار سے علیحدگی کے بعد یوں گوشہ گمنامی میں نہ سڑتے ۔
مشرف صاحب جدید دور کے لیڈر ہیں جو ہار کر بھی نہیں ہارتے ۔ یہ اقتدار کے
ایوانوں سے چلتے کر بھی دیے جائیں تو فیس بک کے ایوان ان کے انقلابی نعروں
سے گونجتے رہتے ہیں ۔<br />
<br />
اکتوبر ۱۹۹۹ ء کو جب مشرف آسمان سے زمین پر اترے اور پاکستان میں حقیقی
جمہوریت کا ایک اور سورج طلوع ہوا تو نواز شریف کی حکومت پہلے ہی اپنے بھار
ی مینڈیٹ کے بوجھ تلے دب کر اپنا ذہنی توازن بڑی حد تک کھو چکی تھی۔ کاغذ
کا وہ پرزہ جسے آئین کہا جاتا ہے اور جو حقیقی جمہوریت کے راستے میں ہمیشہ
روڑے اٹکاتا ہے مشرف صاحب نے اسے اس کی ذمہ داریوں سے عارضی طور پر سبکدوش
کر کے ایل ۔ایف ۔او کو نیا پاکستان بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ آئین ہمیشہ
سے حقیقی جمہوریت کا دشمن رہا ہے اس لیے اس تاریخی موقع پر اس کا قلع قمع
کیا جانا نہایت ضروری تھا۔ عدلیہ کے ججوں سے تین سال کے پرمٹ پر سائن
بالجبر لینے کے بعدمشرف صاحب نے ایک ایسے جمہوری سفر کا آغاز کیا جس کی
دھول ابھی تک اٹھ رہی ہے۔<br />
<br />
یہ بات دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کے لگ بھگ نو سالہ سفر
میں مشرف صاحب نے تمام مشکلات کا کمانڈو وار مقابلہ کیا۔ امریکہ کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈال کر دہشت گردی کی جنگ میں اس کا حکم ماننے کا فیصلہ ہو یا
سپریم کورٹ کے ججوں کو لائن حاضر کرنے کی کوشش مشرف صاحب نے جرات اور
دانشمندی سے تمام معاملاتِ ملکی کو نبھایا۔ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں
کے ذریعے جدید تہذیب سے دور پہاڑوں میں بسنے والے قبائلیوں کو بھی نئی
ٹیکنالوجی کی لذتوں سے متعارف کروایا گیا۔ روایتی اسلحہ سازی میں پاکستان
کی مہارت کے عملی نمونے دکھانے کے لیے بلوچستان میں نواب اکب بگٹی جیسے
بزرگ راہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ نہ صرف بلوچستان کے عوام حقیقی
جمہوریت کی برکات سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکیں بلکہ دشمنوں پر بھی ہماری
طاقت اور وحشت کی دھاک پوری طرح بیٹھ جائے۔ <br />
<br />
یہ امر قابلِ غور ہے کہ مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے لیے کیے جانے والے
تمام اقدامات لالچ اور حرص کی تمام آلائشوں سے پاک تھے۔ انہوں نے سب سے
پہلے پاکستان کا نہ صرف نعرہ دیا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا۔ خود کو
چیف ایگزیکٹو بنانا ہو یا پانچ سال کے لیے صدر کی کرسی پر بیٹھنے کا فیصلہ ،
مونہہ زور ججوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اقدام ہو یا
این آر او کے ذریعے تمام کرپٹ لوگوں کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ مشرف صاحب کے
تمام جمہوری اقدامات سے بے غرضی اور اخلاص ٹپکتا ہوا صاف نظر آتا ہے ۔ <br />
<br />
آج کل کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کو مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے فلسفے
کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی غیر حقیقی جمہوریت کو مستقبل کے کسی
آنے والے مشرف سے محفوظ رکھ سکیں ۔ اگرچہ جمہوریت کی جو کھچڑی موجودہ دور
میں پکائی جا رہی ہے اس کے اجزائے ترکیبی بھی کم و بیش وہی ہیں جو مشرف
صاحب کی حقیقی جمہوریت کے تھے اورفرق صرف پیش کیے جانے کے انداز سے ہے لیکن
میڈیا کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی ، ججوں کی دیدہ دلیریوں اور ملکی حالات کو
مد نظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ مشرف ایو ب خان کے شروع کیے گئے حقیقی
جمہوریت کے سلسلے کے آخری وارث ہیں! کیا مشرف واقعتا حقیقی جمہوریت کے آخری
وارث ہیں؟ اس ملین ڈالرسوال کے جواب میں ہی پاکستان کی بقا ہے ۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-52807344778933613072014-11-26T17:06:00.001+05:002014-11-26T17:06:55.414+05:00کچھ پیغمبری پیشے کے بارے میں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
میں ایک استاد ہوں! ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کا واحد
مقصد نوکری حاصل کرنا اور تعلیم دینے کا واحد مقصدروزی کماناہو، ایک ایسا
معاشرہ جہاں قوم کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے والے استاد کی بجائے زمینوں کی
الٹ پھیر کرنے والا پٹواری زیادہ مہان سمجھا جاتا ہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کانظام لاگو ہو اور لاٹھی والوں کے سامنے قلم و
کتاب والوں کی اوقات کمی کمین سی ہوایسے معاشرے میں استاد ہونے کا رسک لینا
نہایت ہی دل گردے کا کام ہے ! لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اور مجھ
سے ہزاروں دیوانوں نے نہ صرف ہنسی خوشی یہ رسک لیا ہے بلکہ ہمیں اپنے فیصلے
پر ناز بھی ہے ۔ استاد کے بارے میں معاشرتی رویوں میں نازیبا حد تک زوال
کے باوجود ہم لوگ دھڑا دھڑ</span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://1.bp.blogspot.com/-sDaRXSjrd1I/VHXAlgyIdtI/AAAAAAAABlU/VRYMuv-l4As/s1600/teacher.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://1.bp.blogspot.com/-sDaRXSjrd1I/VHXAlgyIdtI/AAAAAAAABlU/VRYMuv-l4As/s1600/teacher.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> اس پیشے کو اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں ۔تسلیم
کہ ہم میں سے بہت سے مجبوری کی بیساکھیاں گھسٹتے اس قریے میں داخل ہوئے
ہیں لیکن ان کی بھی کمی نہیں جوشوق کی رتھ پر سوار ہو کراس کوچے میں دوڑے
چلے آئے ہیں۔بحر حال وجہ جو بھی رہی ہو علم کے پیشے سے منسلک ہونے والوں کی
بہتات بتاتی ہے کہ قلم ، کتاب اور استاد سے اس معاشرے کا رشتہ ابھی پوری
طرح نہیں ٹوٹا۔علم کے کاروبار اور استادوں کے سوداگر بن جانے کے باوجود
ہماری روایات نے ہمیں مکمل شکست و ریخت سے اب تک بچائے رکھا ہے۔</span><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
</span><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
اچھے وقتوں میں استاد کو قوم کو محسن کہا جاتا تھا لیکن اب نہ معاشرہ اس
احسان کو ماننے کے لیے تیار ہے نہ ہی استاد معاشرے پر کسی قسم کا کوئی
احسان کرنے کے موڈ میں ہیں ۔یہ نوبت کیوں آئی کہ معاشرے نے استاد پر تکیہ
کرنا چھوڑ دیا اور استاد نے معاشرے کو سنوارنے کے آسمانی مشن سے مونہہ موڑ
لیا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے زوال کی دردناک کہانی کا ایک نہایت ہی شرمناک
باب ہے۔ لیکن میرا مقصد تعلیم اور استاد کے زوال پر نوحہ پڑھنا نہیں ۔
میری تسلی کے لیے یہی کافی ہے کہ استاد اور تعلیم کا زوال آمادہ ہونا کوئی
انوکھا یا حیران کن عمل نہیں بلکہ یہ ہماری معاشرتی قدروں کے اجتماعی زوال
کا ہی ایک ناقابلِ فخر حصہ ہے ۔ جب معاشرے کا ہر شعبہ زوال کی سیڑھی پر
لڑھک رہا ہو تو استاد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر بغیر
کوئی خم کھائے ایستادہ رہے ایک آئیڈیلسٹ کے نزدیک تونہ صرف عین ممکن بلکہ
ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ استاد
بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے اس لیے معاشرہ کے سردو گرم اس پر بھی اسی طرح
اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح باقی افرادِ معاشرہ پر ! لیکن کیا استاد کا
معاشرے کے ساتھ زوال کی گھاٹیوں میں بہک جانا جائز ہے ؟ کیا استاد کا کام
یہ نہیں کہ وہ بھٹکوں ہوؤں کی راہبری کرئے اور بکھرے ہوؤں کو علم کے سر تال
سے یک سو کر دے؟ کیا استاد کا بھٹکے ہوئے کارواں کے ساتھ خود بھی بھٹک
جانا علم کی شریعت میں جائز ہے؟<a name='more'></a></span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
پڑھنے پڑھانے کے عمل کو پیغمبری پیشہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ استاد بھی
پیغمبر کی طرح سچ کی تعلیم دیتا اور جھوٹ سے روکتا ہے ، استاد بھی پیغمبر
ہی کی طرح ظلم ، ناانصافی اور جہالت کی تاریکیوں کو دور کرنے کے لیے
جدوجہد کرتا ہے اور پیغمبر ہی کی طرح استاد بھی حق سے محبت کرنے اور باطل
سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے ۔ جس طرح پیغمبر معاشروں میں تبدیلی لانے اور ایک
نیا معاشرہ تشکیل دینے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں عین اسی طرح استاد بھی
تبدیلی کے پیامبر ہو تے ہیں ۔ کسی معاشرے میں صحیح معنوں میں تبدیلی لانے
کی صلاحیت اگر کسی میں ہے تو وہ استاد ہی ہے۔ ۔ استاد چاہے تو نئی نسل کے
قلب و روح میں محبت کی کونپلیں کھلا د ے اور چاہے تو ان کے دل و دماغ نفرت
کے انگاروں سے بھر دے ۔ یہ چاہے تو طالب علموں کو امن و آشتی کا علمبردار
بنا دے اور چاہے تو انہیں جنگ و جدل کے ایک بے مہار مہرے میں ڈھال دے۔ نئی
نسل کے دل و دماغ پر لکھی گئی استاد کی تحریر قوم کی تقدیر بن جاتی ہے ۔ </span><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
</span><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ اس پیشے کو اختیار کرتے ہوئے میرے دل و دماغ میں
شاید یہ تمام آئیڈیاز اور آئیڈیلز نہیں تھے ۔ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ
اس پیشے سے منسلک ہوتے ہوئے میں کسی پیغمبری جذبے سے بھی سرشار نہیں تھا۔
لیکن اس پیشے سے منسلک رومانوی طلسم وہ جادوئی ڈوری تھی جو مجھے اس کی طرف
کھینچ کر لے گئی ۔ الفاظ کی ڈور جس سے استاد اور طالبِ علم کا رشتہ جڑا
ہوتا ہے میرے خیال میں وہ طلسمی بندھن ہے جو معاشروں کو زندہ و تابندہ
رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ میں نے فائلوں میں سر کھپانے ، وردی پہن کر قومی
وقار کا تحفظ کرنے یاکی بورڈ پر ٹھک ٹھک کرنے کی بجائے نوجوان طلبا کے
نوخیزاذہان پر دستک دینے کو اس لیے ترجیح دی کہ مردہ فائلوں اور سرخ فیتے
کی آبیاری کرنے کی بجائے نسلِ نو کے ساتھ علم کو شئیر کرنا ایک زیادہ
زندگی بخش تجربہ ہے ۔ میرے نزدیک جھوٹی افسریوں اور غلامانہ ماتحتیوں کی
راہداریوں میں بھٹکنے کے بجائے علمی مباحثوں کے چمن زار میں چہل قدمی زیادہ
فرحت انگیزعمل ہے۔</span><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
</span><br /><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> معاشرے کے منافقانہ رویوں کا مشاہدہ بعض اوقات دل و دماغ پر مایوسی اور
قنوطیت طاری کرتا ہے لیکن نئی نسل سے روزانہ کی تدریسی ملاقاتیں اس کو مٹا
کر ایک توانا امید اور نہ ختم ہونے والی رجائیت کو جنم دیتی ہیں۔ سکولوں ،
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہونے والا ہر نیا طالبِ علم ملک و قوم کے
لیے امید کا ایک نیا پیغام لے کر آتا ہے۔ایک واعظ ، ایک سیاست دان ، ایک
ریفارمر ، ایک سماجی ورکراور ایک مذہبی راہنما تواپنے کٹھن سفرمیں کسی نہ
کسی موڑ پر مایوسی کی دلدل میں اتر سکتے ہیں لیکن استاد کی لغت میں اس لفظ
کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ہر استاد نئی نسل کے نوخیز دل و دماغ سے اٹھتی
ہوئی امید کی مہک سے معطر رہتا ہے۔ کلاس روم میں پڑھایا جانے والا ہر سبق
اور طلبا کو دیا جانے والا ہر لیکچر جس الوہی فرحت و انبساط کی دولت سے
استاد کو سر شار کرتا ہے وہ اور کسی پیشے میں کہاں نصیب!اپنے لیے اور اپنی
قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کا احساس ہر استاد کو سر شاری کی جس کیفیت سے
دوچار کرتا ہے وہ صرف اسی پیشے کا خاصہ ہے<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">۔</span></span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span>
<br />
دولت ، شہرت اور جاہ و جلال کی دوڑ میں بدحال اس معاشرے میں استاد ایک بے
نام اور بے وقعت ہستی سہی لیکن تبدیلی لانے کے لیے معاشرے کو اسی بے وقعت
ہستی کا سہارا لینا پڑے گا ۔جلسے جلوسوں ، ریلیوں اور دھرنوں سے مصر کی طرز
پر ایک مصنوعی تبدیلی توشاید آسکتی ہے جس میں بڑے مونہہ والے آمر حسنی
مبارک کی بجائے چھوٹے مونہہ والاآمر السیسی حکومت پر قابض ہو جائے لیکن
گراس روٹ لیول تبدیلی کے لیے استاد کا کردار مرکزی ہے۔دل کی دنیا جب تک نہ
بدلے باہر کا جہان تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور دل کی دنیا بدلنے کے لیے
استاد کی راہنمائی ناگزیر ہے<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">۔</span></span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-52329403509972456282014-11-11T16:00:00.001+05:002014-11-11T16:00:54.323+05:00احساس کی چڑیا اور میڈیا کی غلط فہمی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">گذشتہ کچھ دنوں سے یہود و ہنود کے اشاروں پر چلنے والا ہمارا میڈیا تھر کی
بھوک اور پیاس کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کی
ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ میڈیا نے اس سازش کے ذریعے
سندھ میں بہنے والی دودھ اور شہد کی نہروں میں پتھر پھینکنے کی کوشش کی
ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ میڈیا نے جمہوریت کی برکات سمیٹتے تھر کے باسیوں
کے انجوائے منٹ میں پہلی دفعہ خلل ڈالا ہو۔ صرف ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو
قائم علی شاہ کے مثالی طرزِ حکومت سے پہلے ارباب غلام رحیم کے مشرف بہ
پرویز دور میں بھی میڈیا ایسی گھناؤنی سازشیں کرتا نظر آتا ہے ۔میڈیا نہ
آمریت کے جھولے میں چپکا بیٹھ سکا اور نہ ہی آج اسے جمہوری پینگ کے ہلکورے
خاموش کر سکے ہیں ۔ تھر میں اگتی بھوک<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<a href="https://1.bp.blogspot.com/-sYOz1eA62Lk/VGHpolETo2I/AAAAAAAABlE/AsIyKo-7jfU/s1600/express.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" height="378" src="https://1.bp.blogspot.com/-sYOz1eA62Lk/VGHpolETo2I/AAAAAAAABlE/AsIyKo-7jfU/s640/express.jpg" width="640" /></a></div>
کی فصلیں اور پیاس کے دریا اس کی
سنسنی پھیلانے والی حس کی تسکین کے لیے وافر سامان مہیا کر ہے ہیں۔اس لیے
اور کوئی بولے نہ بولے میڈیا تو بول رہا ہے ۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">لیکن اگر ہمارا میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ سیاست کے نقار خانے میں اس کے تھر کے
لیے کئے گئے واویلوں پر کوئی کان دھرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی
ہے ۔موجودہ قحط کی صورتِ حال سالِ گذشتہ سے جاری خشک سالی کا نتیجہ ہے ۔
پچھلے سال بھی میڈیا نے بہتیرا شور مچایا تھا کہ تھر میں بچے بھوک سے مر
رہے ہیں اور امداد کے لیے بھجوائی گئی گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی پڑی
سڑ رہی ہیں ۔ گزشتہ سال بھی میڈیا ہڈیوں کے ڈھانچوں کی صورت بنتے بچوں کی
کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کے ضمیروں کو خواب خرگوش سے جگانے کی
بھرپور کوشش کرتا رہا تھا لیکن سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی جمہوریت
کے لیے دی گئی اپنی قربانیوں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ اس تک تھر
کی بھوکی آواز نہ پہنچ سکی۔بدقسمتی سے آج بھی صورتِ حال جوں کی توں ہے اورہمارے حکمرانوں کے کانوں پر
کسی جوں کے رینگنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔۔ آج بھی تھر
کے متاثرین کے لیے بھجوائی جانے والی گندم کی بوریوں سے مٹی نکل رہی ہے ۔آج
بھی متاثرین کے لیے بھجوایا جانے والا پانی ان تک پہنچنے کی بجائے گوداموں
میں ہچکولے کھا رہا ہے ۔ تھر کے صحرا میں بھوک اور پیاس سے بلکتے غریبوں
کے لیے حکمراں جماعت کے دفتر میں جھوٹی تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
میڈیا لاکھ چیخے چلائے لیکن پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی اور اسکے
بقا کے لیے جو لازوال قربانیاں دی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا
امکاننظر نہیں آتاکہ اتنی بڑی جماعت چند سو لوگوں کے بھوک پیاس سے مرنے کے
چھوٹے سے مسئلے پر ہڑبڑا اٹھے گی۔فی الحال پیپلز پارٹی کے روزنامچے میں
راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔<a name='more'></a> </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
میڈیا نے تھر کی خبریں چلا چلا کر جہاں بزرگ سیاستدان قائم علی شاہ کے آرام
میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ہے وہیں پیپلز پارٹی کے نوخیز چیر مین بلاول
بھٹو کے جوان خون کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ منظور وسان کی لیک شدہ
رپورٹ پر چیرمین صاحب نے تیش میں آ کر سندھ میں پیپلز پارٹی کی ان دو
تاریخی شخصیات کو جو شو کاز نوٹس جاری کیے انہیں غالباً اسی خدشے کے تحت
واپس لے لیا گیا ہے کہ ان عظیم سیاست دانوں نے اگر واقعتا اصل ’کاز‘ کو
’شو ‘ کر دیا تو پیپلز پارٹی کہیں کوئی ’شو‘ کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔
کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ بدا نتظامی، بے عملی ، نااہلی ، اقربا پروری اور
بدعنوانی کو اگر یکجا دیکھنے کی خواہش ہو تو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت سے
بہتر ماڈل کہیں نہیں مل سکتا تھرکے تناظر میں دیکھا جائے تو بہت حد تک درست
معلوم ہو تا ہے ۔حیرت ہے کہ بلوچستان والوں سے رئیسانی جیس<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">ے</span>دلچسپ و
عجیب حکمران کا سایہ تو اٹھ گیا لیکن سندھ کے باسیوں کے سر قائم علی شاہ کے
سائے سے نہیں نکل پا رہے۔ <br />
<br />
ہمارے میڈیا پر دکھایا جانے والا تھر اور اس میں بسنے والے وہ پاکستانی جن
کے لیے پینے کا پانی بھی ایک عیاشی ہے اورجن کی حالت افریقہ کے قحط زدہ
ملکوں سے بھی کہیں ابتر ہے یہ واضح پیغام دے رہے ہیں کہ احساس نامی
چڑیا کا سندھی حکمرانوں کے محلوں سے کبھی گزر نہیں ہوتا۔ سیاست کو کھیل
سمجھ کر الٹی سیدھی چالیں چلنے والے یہ حکمران انسانی ہمدردی کے بنیادی
جذبے سے بھی عاری دکھائی دیتے ہیں ۔ کرپشن کی دلدل میں یہ یوں پھنسے ہیں کہ
اب بھوک پیاس سے جاں بلب مظلوموں کے نام پر دی جانے والی امدادکی حریصانہ
بندر بانٹ ان کے لیے ایک معمول کا کھیل ہے۔ نااہلی ان کا امتیازی نشان اور
کرپشن ان کا طرہِ امتیاز ہے۔یہ کفن بیچ کر پیسے ڈکارنے والوں کے قبیلے سے
ہیں اور ان کا قبیلہ ہی سیاست کا سب سے معتبر قبیلہ ہے ۔ سیاست میں نئے
قبیلے کے آنے تک تھر والوں کو انہی کی چاکری کرنی ہے، بھوک سے تڑپنا ہے،
پیاس سے بلکنا ہے اور مٹی سے بھری بوریاں وصول کر کے جئے جئے کے نعرے لگانے
ہیں کہ یہی ہماری سیاست ہے یہی ہمارا مقدر ہے<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">۔</span></span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-41040747823855655202014-09-23T16:04:00.000+05:002014-09-23T21:06:52.358+05:00لے کے رہیں گے، بٹ کے رہے گا<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
پیپلز پارٹی نے سابقہ دورِ حکومت میں اپنی روز افزوں کرپشن اور نااہلیوں پر
پردہ ڈالنے کے لیے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کاجو<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">شوشہ چھوڑا </span>تھا وہ
اب بر گ و بار لاناشروع ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں لسانی تعصب کو ہوا دے
کرپیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکارکھیلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلم لیگ
نون کی سیاسی قوت توڑنے کے ساتھ ساتھ اس شوشے کا بڑا مقصد محرومی کے شکار
عوام کے دکھوں کا استحصال کر کے اپنی شرمناک پرفارمنس سے ان کی توجہ ہٹانی
تھی۔مئی 2013 کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کے عوام نے پیپلز پارٹی کو یکسر مسترد کر
کے یہ واضح پیغام دیا کہ نئے صوبے کے سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بنانے
کا زمانہ اب گزر چکا ہے ۔ سرائیکی صوبے کے نعرے پر خود جنوبی پنجاب والوں
سے زیادہ ایم کیو ایم کو جو خوشی ہوئی وہ دیدنی </span></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://1.bp.blogspot.com/-Ffq8aLEffu4/VCFHo54_bWI/AAAAAAAABiI/Zm80kuNLSeE/s1600/siraki%2Bsoba.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://1.bp.blogspot.com/-Ffq8aLEffu4/VCFHo54_bWI/AAAAAAAABiI/Zm80kuNLSeE/s1600/siraki%2Bsoba.jpg" height="480" width="640" /></a></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">تھی۔ ایم کیو ایم نے نہ صرف
اس مطالبے کی دل و جان سے حمایت کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر صوبہ ہزارہ کی
پھلجڑی بھی چھوڑ دی۔ اہلِ نظر کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ ہو نہ ہو دال
میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے خیال
پر یوں ریجھ ریجھ نہ جاتی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
<br />
اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو
لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائےجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں
کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس
نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر
پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف
کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا
ہے۔حیرت ہے کہ<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span>جب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث
چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ
انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم
نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے
تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا
نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا
مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے
گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود
اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
پنجاب کو تقسیم کرنے اور سندھ کو تقسیم نہ ہونے دینے کا دعویٰ کر کے پیپلز
پارٹی دراصل خود کو ایک قومی جماعت کی بجائے </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-1KG0CKwT0cw/VCFIyGteN-I/AAAAAAAABiU/QsVYYV32sPI/s1600/Hazara.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-1KG0CKwT0cw/VCFIyGteN-I/AAAAAAAABiU/QsVYYV32sPI/s1600/Hazara.jpg" height="232" width="320" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">علا قائی پریشر گروہ بنانے پر
مصر ہے ۔ یہ منطق نہایت<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span>مضحکہ خیز ہے کہ پنجاب میں چونکہ پیپلز پارٹی کا
ووٹ بینک محدود ہے اور اس کی تقسیم کی صورت میں نون لیگ کو زک پہنچنے کا
چانس ہے اس لیے یہ تقسیم نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے جبکہ<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span>سندھ میں چونکہ
پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے اس لیے تقسیم کی صورت میں اسے نقصان
پہنچنے کا اندیشہ ہے پس یہ تقسیم نہ صرف ناجائز بلکہ سخت حرام ہے ۔ جہاں
مخالف جماعت کی طاقت توڑنے کی بات ہو وہاں تقسیم مباح اور جہاں اپنے
مفادات
کو ٹھیس لگنے کا احتمال ہو وہاں حرام، پیپلز پارٹی کے اس فلسفے کو سمجھنا
آسان نہیں۔
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> پنجاب کی تقسیم کے خوشی خوشی منصوبے گھڑتے ہوئے اگرپیپلز پارٹی یہ سمجھ
رہی تھی کہ یہ انگارے سندھ میں اس کے گھر تک نہیں پہنچیں گے تو یہ اس کی
بہت بڑی خوش فہمی تھی۔ پنجاب کی تقسیم کا آئیڈیا پیش کرنے کے بعد پیپلز
پارٹی کے لیے یہ ثابت کرنا آسان نہیں کہ سندھ کی موجودہ جغرافیائی حد بندی
چونکہ آسمانی صحیفہ ہے اس لیے اس میں ردو بدل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دلیل
یہ دی جائے کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ہے تو سندھ کی آبادی بھی کچھ
کم نہیں۔ اگر دس کروڑ آبادی والے صوبے کو تقسیم کیا جا سکتا ہے تو پانچ
کروڑ کی آبادی والے صوبے کو تقسیم کرنے میں کیا حر ج ہے؟</span></span><br />
<br /></div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://4.bp.blogspot.com/-ljddeo2jY2U/VCFI7QGYmkI/AAAAAAAABic/Nhf_vCsM36s/s1600/muhajir%2Bsoba.jpg" imageanchor="1" style="clear: right; float: right; margin-bottom: 1em; margin-left: 1em;"><img border="0" src="http://4.bp.blogspot.com/-ljddeo2jY2U/VCFI7QGYmkI/AAAAAAAABic/Nhf_vCsM36s/s1600/muhajir%2Bsoba.jpg" height="240" width="320" /></a></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
ایم کیو ایم بھی انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کے پردے میں اپنے لسانی
تعصب کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ اس کی نظریں کراچی
کے الگ صوبے پر ہیں جس کو بھلے ہی انتظامی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے لیکن
اس میں لسانی عنصر بحرحال غالب رہے گا۔ یہی حال ہزارہ اور سرائیکی صوبے کا
ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ترقی کے کتنے بھی زینے کیوں نہ طے کر
جائیں ان کی سوچ اور نظر کی تنگی چھپائے نہیں چھپتی۔ نئے صوبے کے قیام کا
خیال برا نہیں بلکہ وقت کی عین ضرورت ہے لیکن جہاں نیتوں میں کھوٹ ہو وہاں
اچھے اچھے منصوبے فتنہ و فسادکا موجب بن جاتے ہیں ۔سیاسی بحران کی جس کیفیت
سے ملک گزر رہا ہے اس میں ایک نئے مسئلے کو چھیڑ دینا بے وقت کی راگنی
نہیں بلکہ ایم کیو ایم کی نہایت نپی تلی چال ہے۔ اب اس چال کی لپیٹ میں کون
آتا ہے ، کون پٹتا ہے اور کس کی نیا پار لگتی ہے اس کا تعین آنے والا وقت
کرے گا۔ یوں لگ رہا ہے کہ ’لے کے رہیں گے اور بٹ کے رہے گا‘ کے نعرے
دوبارہ گونجنے کا وقت آ پہنچا ہے ۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
</div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com2tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-49900044798638694782014-09-20T20:00:00.000+05:002014-09-23T13:55:12.340+05:00تبدیلی کیوں ناگزیر ہے؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ابھی ہم پی آئی اے کے طیارے سے رحمان ملک اور رمیش کمار کے بے آبرو ہو کر
نکلنے کی خوشی میں بغلیں بجا ہی رہے تھے اور ایک دوسرے کو تبدیلی کی نویدیں
سنا سنا کرلوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ نئے پاکستان کے اس خوش کن منظر کو پرانے
پاکستان کے ایک کریہہ نظارے نے دھندلا کر رکھ دیا۔<a href="http://dailypakistan.com.pk/crime-and-justice/18-Sep-2014/144611" target="_blank"> مظفر گڑھ کے ایک گاؤں مبارک آباد میں ایک پیر صابر علی نے اپنے مریدنیاز علی کو حیات بعد از مرگ کی کرامت دکھانے کے لیے اپنے آستانے پر بلا کر ذبح کر دیا </a>اور یاعلی کے
نعرے لگاتے ہوئے اس کی لاش پر دیوانہ وار بھنگڑے ڈال کر ایٹمی پاکستان کی
تہذیب و ترقی کے راز طشت از بام کرتا رہا ۔ اس کی اس ’کرامت ‘ کو گاؤں
والوں نے اردگر د کے مکانوں کی چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کرلائیودیکھا اور
منتظر رہے کہ کب مردے کو پیر صاحب زندہ کریں گے لیکن جب پیر صاحب اپنی
کرامت مکمل کیے بغیر وہاں سے کھسکنے لگے تو کھلبلی مچی </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-7CDSMy5vjKo/VCExJXz6k6I/AAAAAAAABh4/endtK5L5QaY/s1600/karamat.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-7CDSMy5vjKo/VCExJXz6k6I/AAAAAAAABh4/endtK5L5QaY/s1600/karamat.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">۔پیرصاحب کی
کرامت کے اس ناکام مظاہرے پر اگرچہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ
ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے کے مونہہ پر ،جسے اسلامی معاشرہ ہونے کا بھی
دعویٰ ہے ، ایک نہایت ہی زوردار طمانچہ ہے۔ ہم چونکہ ازل سے طمانچے کھانے کے
عادی ہیں اس لیے اس واقعے کا بھی ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور
ہم حسبِ معمول باقی دنیا کوجاہل ، جنگلی اور بد تہذیب جبکہ خود کو درخشاں
اسلامی روایا ت کا واحد وارث، امین اور ٹھیکیدار سمجھتے رہیں گے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><b>یہ اور اسی قبیل کے دوسرے واقعات آئے روز</b> ہمارے دیس کی گلیوں گاؤں اور
گوٹھوں میں اپنا بھیانک روپ دکھا کر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تبدیلی اس ملک
کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے لیکن ہم بے عملی کی چادر اوڑھے کسی کرامت کے منتظر
ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آسمان سے ہمارے لیے تبدیلی اترے گی اور ہم
اسے گلے لگا کر جھومنے لگیں گے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے ہماری کایا پلٹ جائے
گی اور ہم ککھ پتی سے لکھ پتی بن جائیں گے، ایک دن ہماری آنکھ کھلے گی تو
دنیا بدل چکی ہو گی اور ہم ترقی کے جھولے جھول رہے ہوں گے۔ ہم انہونیوں پر
اپنی ذات سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے گاؤں دیہات کے صابر علی جیسے
پیروں سے لے کر قومی سطح کے سیاسی و مذہبی لیڈروں تک میں سے ہر ایک کے
ہاتھوں الو بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ہم ہر موڑ پر بے وقوف بننے
کے لیے دل و جان سے راضی ہوتے ہیں بس ہمیں کسی ایسے سیانے کی تلاش رہتی ہے
جو کسی نئی تیکنیک سے کسی نئے ڈھنگ یا ڈھونگ سے ہمیں بے وقوف بنا سکے ۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">مبینہ طور پر نیاز علی کی بیٹی پر آسیب کا سایہ تھا۔ پیر صاحب نے اس کا یہ
مسئلہ حل کر کے نیاز علی کو اتنا گرویدہ کر لیا تھا کہ جب فائنل کرامت کے
موقع پر اسے ذبح ہونے کے لیے زمین پر لیٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ بخوشی سر
زمین پر رکھ اپنے پیر کی کرامت کا ایک کردار بن گیا۔ ہمارے سیاسی راہنما
بھی صابر علی کے طریقہ واردات کے پیر و ہیں۔ یہ پہلے کسی چھوٹی موٹی
’کرامت‘ سے ہمیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں پھر ہماری کھال تک اتار کر لے جاتے
ہیں اور ہم بخوشی نئی کھال ملنے کی آس میں ان کی اس کرامت کے ہونق کردار بن
کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ہمیں محلوں کے سبز باغ دکھا کر ہم سے ہمارے جھونپڑے تک
چھین کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی احمقوں کی جنت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ
جاتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ پلک جھپکنے میں ہمارے سارے مسائل حل کر
دیں گے، ہماری ساری پریشانیاں دور کر دیں، ساری مصیبتیں بھگا دیں گے اور
ازل سے چمٹے ہوئے ہمارے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدل دیں گے۔ یہ ہمیں بتاتے
ہیں کہ ان کے پاس الہٰ دین کا ایسا چراغ ہے کہ بس ان کے اقتدار میں آتے ہی
سب کچھ بدل جائے گا اور ہم آنکھیں بند کر کے ان کے ان تمام دعووں پر
ایمان لاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ان جعلی مسیحاؤں کے ہاتھوں روز ذبح
ہوکر دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنتے ہیں ۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">تجربے نے ثابت کیا ہے کہ قومیں اسلحوں کے انبار لگانے سے مہذب اور ترقی
یافتہ نہیں ہو جایا کرتیں ۔ایٹم بم کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی گارنٹی
ہوتا تو آج ہمارے دیس میں صابر علی جیسوں کے آستانے آباد نہ ہوتے ۔ <a href="http://www.bbc.com/news/world-asia-india-29235319" target="_blank">ایٹم بم سے قومیں سلیقہ شعار اور تہذیب یافتہ ہونے لگتیں تو انڈیا میں دوسو دیہاتی ایک بندر کے مرنے پر گنجے ہو کر نہ بیٹھے ہوتے۔</a> سماج کی سوچ میں
ترقی ہی اصل ترقی ہے۔ افرادِ معاشرہ کی شعوری سطح جب تک پیروں کی کرامتوں
کے چکر سے بلندنہیں ہوتی ترقی کے زینے پر قدم نہیں رکھا جا سکتا۔ فضول
رسومات اور لایعنی توہمات کی زنجیریں توڑے بغیر مہذب ہونے کا خواب تو دیکھا
</span><br />
<div class="separator" style="clear: both;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-3yk08OdY8sM/VB2T15eqhwI/AAAAAAAABho/ZGCdDW8EASA/s1600/pir.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-3yk08OdY8sM/VB2T15eqhwI/AAAAAAAABho/ZGCdDW8EASA/s1600/pir.jpg" height="362" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">جاسکتا ہے لیکن اسے عملی تعبیر نہیں دی جا سکتی۔ ہم مغرب کو گالیاں دیتے
اور اس سے مقابلہ کرنے کی بھڑکیں مارتے ہیں جبکہ حالت ہماری یہ ہے کہ
اکیسویں صدی میں بھی ہم بیماریوں سے شفا پانے کے لیے مزاروں کی مٹی اور
چوکھٹوں کے محتاج ہیں، بچے پیدا کرنے کے لیے ہماری عورتیں ابھی تک تعویذوں
گنڈوں اور پیروں کے آسرے پر بیٹھی ہیں اور دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے
لیے کے ہم ابھی تک جادو ٹونے کے چکر میں خوار رہے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ہمیں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ایک ایسی تبدیلی کی جو ہمیں زمانہ جاہلیت میں
بھٹکنے والی روحوں کی بجائے قرنِ نو کے جیتے جاگتے مہذب انسان بنا دے ۔
لیکن یہ تبدیلی صرف اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ ہر فرد کے دل کے نہاں
خانوں میں بپا ہونے سے آئے گی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم جاہل رہے لیکن
ہمارے حکمراں عالم فاضل ہو ں ، ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم فراڈاور دغابازی
سے کام لیتی رہے لیکن ہمارے حکمراں ایماندار ہو ں ، ہمارا خیال ہے کہ ہم
سب جھوٹ بولتے رہیں اور ہمارے حکمراں صادق اور امیں سے کمتر نہ ہوں ، ہم سب
کرپشن کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر اس عارضے
میں بالکل مبتلا نہ ہوں، ہم میں سے ہر فرد محلوں میں رہنے کے خواب دیکھتا
ہے لیکن لیڈر ایسے چاہتا ہے جو عمرؓ کی طرح پیوند لگے کپڑے پہنے اور سڑکوں
پر سوئے۔ تبدیلی کا عمل ہر فرد کو خود سے شروع کرنا ہو گا۔ کنٹینروں سے
حکومتیں بدلی جا سکتی ہیں دل کی دنیا بدلنے کے لیے ہمیں خود کو بدلنا ہو گا
۔اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نیاز علی کی طرف جھوٹی تبدیلیوں اور لایعنی
کرامات کے لالچ میں آئندہ بھی اسی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔ </span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-61223157583392316412014-09-18T22:35:00.001+05:002014-09-18T22:35:58.088+05:00کیا ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<a href="http://3.bp.blogspot.com/-bUGZC6WL0SE/VBsVjxPM9qI/AAAAAAAABhQ/MAkJR2WaFGY/s1600/protesters%2Bbeating%2Bpoliceman.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں یا انتشار کی دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دھرنے کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے بتوں کو سامنے رکھ
کراپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے پاکستان کو جنت بنانے
والے انقلابی گانوں کی دھن میں خود کو انقلاب کے دھانے پر بیٹھے ہوئے محسوس
کررہے ہیں جبکہ دھرنے کے مخالفین کواس میں شر اور شرارت کے علاوہ اور کچھ
نظر نہیں آرہا۔ گرم توے پر بیٹھی حکومت کے مونہہ سے انتشار کے خدشات ایک
معمول کی بات بن چکی ہے کہ وہ اپنا تخت بچانے کے لیے کسی بھی جھوٹی سچی
منطق کا سہارا لے سکتی ہے لیکن اب عمران خان نے بھی خانہ جنگی کی بات کر
کے سب کو چونکا دیاہے۔ یہ واضح نہیں کہ عمران اس ہولناک خدشے کا اظہار کر
کے حکومت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں یا ملک کے اصلی حکمرانوں کو ان کے غیر
جانبدار رہنے کے اعلان پر کوئی پیغام دینا </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-bUGZC6WL0SE/VBsVjxPM9qI/AAAAAAAABhQ/MAkJR2WaFGY/s1600/protesters%2Bbeating%2Bpoliceman.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-bUGZC6WL0SE/VBsVjxPM9qI/AAAAAAAABhQ/MAkJR2WaFGY/s1600/protesters%2Bbeating%2Bpoliceman.jpg" height="410" width="640" /></a>چاہتے ہیں۔ خانہ جنگی کی دھمکی
کو عمران اگر ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو
وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی حماقت کرنے جا رہے ہیں ۔ اپنی خفت کو
سمیٹ کر کچھ دن کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے
سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے ۔ </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا
ہے ۔ لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ
دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس
کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور
سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن
تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے
ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے
ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن
زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس
فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا
بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے
کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر
سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔</span><br />
<a name='more'></a><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عمران کے دھاندلی زدہ حکومت کے خلاف اعلانِ بغاوت کے روز اول سے لے کر اب
تک تمام سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار یک زبان ہیں کہ دھونس اور دھمکی سے
نواز حکومت کو گھر بھیجنا ممکن نہیں۔ پچھلے ایک مہینے سے عمران اور قادری
تاریخوں پر تاریخیں دیے چلے جا رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔
اگر تیس دن کی بجائے ہمارے انقلابی تیس مہینے تک بھی دھرنا دیے بیٹھے رہیں
تو جب تک ’وہ ‘ اشارہ نہیں کریں گی نواز حکومت اپنا بوریا بستر نہیں سمیٹے
گی۔ اور اتنا تو نئے پاکستان کے نوخیز سیاسیے بھی جانتے ہیں کہ ’ان ‘کے آنے
کے بعد اصولوں کی سیاست کو لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیا جاتا ہے اور
سیاست دانوں کی ایک نئی پود اگائی جاتی ہے جو جی حضوری اور مالش کرنے میں
یدِطولیٰ رکھتی ہے۔ قادری صاحب جیسوں کے مونہہ میں تو ایسے کسی نظام کا
سوچ کر پانی بھر آنا سمجھ میں آتا ہے لیکن عمران جیسا کھرا اور بے باک
سیاست دان اس کنوئیں میں چھلانگ کیوں لگا نا چاہتا ہے یہ بات سمجھ سے
بالاتر ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
حکومت کو للکارتے للکارتے اب عمران خان پاکستانی ریاست کے تمام اداروں کو
بھی آہستہ آہستہ اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔ اپنی تقریروں میں پارلیمنٹ ،
عدلیہ ، سول بیوروکریسی اور پولیس کے لتے لینے کے بعد اب عمران عملی طور پر
میدان میں کود پڑے ہیں ۔ اگلے روز تھانے پر ریڈ کر کے انہوں نے اپنے ماننے
والے نوجوانوں کو جس سلطان راہیانہ سیاست کا درس دیا ہے اس کے پاکستانی
سیاست اور سوسائٹی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ تھانوں میں پکڑ کر لائے
گئے ملزموں میں سے کون مجرم ہے اور کون بے قصور اس کا فیصلہ اگر عدالتوں
کی بجائے سیاسی اور مذہبی پارٹیاں کرنے لگیں تو پاکستان کو طوائف الملوکی
کی دلدل میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
انقلابی دھرنے اور بے عملی کا شکار حکومت حالات کو اس نہج کی طرف دھکیل رہے
ہیں جہاں ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے فوج کو اپنا کردار ادا کرنا
پڑے گااور موجودہ حالات میں فوج غیر جانبدار رہ کر اسی ناگزیر موڑ کا بڑے
ٹھنڈے دل سے انتظار کر رہی ہے ۔ عمران خان قادری کے جنونی پیرو کاروں کے
آسرے پر بیٹھے ہیں لیکن شاید وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ قادری کا یہاں کچھ
بھی داؤ پر نہیں لگا ۔ ملک انتشار کی دلدل میں گرے یا خانہ جنگی کے دھکتے
الاؤ کا شکار ہو قادری صاحب نے کان لپیٹ کرکینیڈا کوچ کر جا نا ہے ۔ آمریت
کو مسلط کروانے کا طعنہ ہو یا ملک کو انتشار کی بھٹی میں جھونکنے کا الزام
عمران کی سیاست یہ وار سہہ نہیں پائے گی اور بقول جاوید ہاشمی ساری زندگی
وضاحتیں دیتے گزار دے گی! عمران کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انا اور جمہوری
پاکستان کی بقا میں سے کوئی ایک ہی جانبر ہو پائے گا ۔ فیصلے کی اس گھڑی
میں اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کس پر کس کو قربان کرتے ہیں ۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-37643767166574213642014-09-15T21:22:00.000+05:002014-09-15T21:22:35.536+05:00رینٹ اے انقلابی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">حق کے خلاف باطل کی سازشی فیکٹری ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک چلتی رہے گی ۔
یہ فیکٹری چوبیس گھنٹے اہلِ حق کو نیچا دکھانے کے لیے نت نئی سازشیں بُنتی
رہتی ہے ۔اس سے برآمد ہونے والی پراڈکٹس میں نئے نئے فلیور کے جھوٹ ، نئی
نئی طرز کی تہمتیں اور نت نئے فیشن کے الزامات بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔یہ
طاغوتی فیکٹری پچھلے کچھ دنوں سے اسلام آباد میں دھرنے دینے والوں کے خلاف
جھوٹ کات رہی ہے اور طاہر القادری جیسی بزرگ ہستی کے خلاف ایسے الزامات لگا
رہی ہے جن پر ایمان لانا تو دور کی بات صرف ان کو سوچنے سے بھی ایمان کھونے
کا دھڑکا لگارہتا ہے ۔ طاغوت کے دو برطانوی ہر کاروں بی بی سی اور رائٹرز
نے اپنی دو مختلف رپورٹس میں شیخ الاسلام کے انقلابیوں پر کرائے کے انقلابی
ہونے </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://2.bp.blogspot.com/-a69tRC4cGfE/VBcR_00fxeI/AAAAAAAABhA/fAqGz-3eOjY/s1600/Rent%2BA%2BInqilabi.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://2.bp.blogspot.com/-a69tRC4cGfE/VBcR_00fxeI/AAAAAAAABhA/fAqGz-3eOjY/s1600/Rent%2BA%2BInqilabi.jpg" height="376" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">کے ایک ہی جیسے الزامات لگا کر ہمارے اس شک کومزید تقویت دی ہے کہ
یہود و نصاریٰ پورے زور و شور سے انقلابی پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن
رہے ہیں۔ جیسے جیسے دھرنا طوالت پکڑ رہا ہے نئے پاکستان کے امکانات روشن
سے روشن تر ہوتے جارہے ہیں اور اس روشنی سے چونکہ یہودو نصاریٰ کی آنکھیں
چندھیا رہی ہیں اس لیے وہ اس طرح کی من گھڑت خبروں سے نئے پاکستان کے سورج
کو طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب کردیناچاہتے ہیں۔ </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
قادری صاحب کے سالِ گذشتہ کے تاریخی دھرنے کے موقع پر بھی غیر ملکی خبر
رساں ایجنسیوں پر انحصار کرنے وال<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';">ے</span>بعض کج بیں حضرات کی طرف سے کچھ اسی طرح
کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا کہ قادری صاحب کے غیر معمولی ڈسپلنڈ
مریدین یا تو ان کے منہاج سکول نیٹ ورک کے ملازم ہیں یا پھر کرائے پر لائے
گئے بے روزگار ! لیکن اُس وقت بھی ایسی افواہوں کی قادری صاحب نے سختی سے
تردید کر کے ان کے سر کچل دیے تھے اور اِس سال بھی قادری صاحب بی بی سی اور
رائٹرز کی پھیلائی گئی افواہ نما خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری طرح
مستعد ہیں ۔ ہم نے سازش کا سرا تو ڈھونڈ لیا ہے لیکن اس سازش کے پس پردہ
محرکات تک پہنچنا نہ صرف نئے اور انقلابی پاکستان بلکہ پرانی امتِ مسلمہ کی
فلاح و بہبود کے لیے بھی اشد ضروری ہے ۔ اس بات کا کھوج لگانا کہ بی بی
سی اور رائٹرز انقلاب سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں نہایت ہی اہم ہے۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
ہمارے خیال میں قادری صاحب کے انقلابی نعرہِ مستانہ سے مغرب کے بت کدوں
میں پیدا ہونے والی ہلچل کی چند بنیادی وجوہات ہیں ۔سب سے پہلی وجہ تو یہ
ہے کہ قادری صاحب پاکستان کے وہ واحد داعیِ انقلاب ہیں جن کے پاس ذہنِ رسا
کے ساتھ ساتھ تخیلِ بے بہا کی دولت نہایت فراوانی سے موجود ہے ۔وہ مادی
دنیا سے بلند ہو کر عالمِ رویا میں ان ہستیوں سے رابطہ کرنے کی صلاحیت سے
بھی مالامال ہیں جن کے بارے میں سوچنے سے بھی عام آدمی کے پر جلتے ہیں۔
مغرب یہ جانتا ہے کہ پاکستان جیسے امتِ مسلمہ کے واحد ایٹمی ملک کی باگ ڈور
اگر قادری صاحب کے ہاتھ میں آ گئی تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں بچے گا۔ قادری
صاحب اپنے زمینی علم اور آسمانی رابطوں کی مد دسے اس ملک کی کا یا پلک
جھپکنے میں الٹ پلٹ سکتے ہیں ۔ جب زمین و آسمان کی قوتیں مل جائیں تو
پاکستان کو آگے بڑھنے سے بھلا کون روک سکے گا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
قادری صاحب کا انقلابی اصلاحاتی ایجنڈہ بھی مغرب کے کان کھڑے کر دینے کے
لیے کافی ہے ۔اپنے دس انقلابی نکات کی مدد سے جس طرح کی فلاحی ریاست قادری
صاحب بنانا چاہتے ہیں وہ مغرب کو کسی صورتِ قبول نہیں ہو سکتی۔ اپنی خیالی
ریاست میں شیخ الاسلام جس قسم کی سہولیات دینے کاوعدہ کر رہے ہیں مغرب اپنی
ہوش ربا ترقی کے باوجود آج تک ایسی سہولیات اپنے ہاں مہیا نہیں کر سکا۔ آج
بھی یورپ اور امریکا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھری کے عذاب سے گزر
رہی ہے، آج بھی وہاں لوگ بے روزگار ہیں، صحت اور تعلیم ابھی تک وہاں مفت
مہیا نہیں کی جاسکیں اور نصف قیمت پر اشیائے خوردو نوش کی خریداری آج بھی
وہاں ایک خواب ہے۔ قادری صاحب کے انقلابی پاکستان کی صورت میں مغرب کو مشرق
سے ابھرتا ہوا اپنا ایک ایسا حریف نظر آ رہا ہے جس نے مغرب کے سارے
کھوکھلے طمطراق کا بیڑہ غرق کر دینا ہے۔ بی بی سی اور رائیٹرز کی من گھڑت
خبریں مشرق کے اسی ابھرتے ہوئے سورج کے خلاف مغرب کی بوکھلاہٹ کا واضح
اظہار ہیں۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
قادری صاحب کے معصوم اور پر عزم انقلابیوں کوتین چار سو کے دیہاڑی دار
قراردے کران غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں نے بالکل اسی طرح کی متعصبانہ حرکت
کی ہے جیسے ایمل کانسی کے مقدمے میں ایک امریکی عدالتی اہلکار نے یہ کہہ
کر کی تھی کہ پاکستانی ڈالر کے عوض اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔ تب کی تہمت
اور آج کے الزامات میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ نہ اس وقت پاکستانی ڈالروں کے
عوض مائیں بیچ رہے تھے نہ آج پیسے لے کر انقلابی بنے ہوئے ہیں۔ رینٹ اے
انقلابی کے کاروبار کا الزام نہ صرف غیور پاکستانیوں کی توہین ہے بلکہ یہ
انقلابی لیڈروں کی شان میں ناقابلِ معافی گستاخی بھی ہے۔ ہمیں بہ حیثیتِ
قوم اس مذموم سوچ کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے اور بہ بانگِ دہل یہ کہنا
چاہیے کہ پاکستانی قوم رینٹ پر دستیاب نہیں ہے۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-90272285283274769432014-09-12T18:36:00.000+05:002014-09-13T12:53:03.635+05:00انقلاب کی دلدل<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">دنیا بھر میں انقلاب کا لفظ تبدیلی کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ سماجی،
سیاسی، معاشی ، یا مذہبی ڈھانچے میں یک لخت وقو ع پذیر ہونے والی تبدیلی کو
انقلاب کہتے ہیں۔اس لحاظ سے انقلاب اور تبدیلی دونوں جڑواں بہن بھائی ہیں
،جہاں انقلاب آئے وہاں تبدیلی ناگزیر ہے اور جہاں تبدیلی آ جائے وہاں
انقلاب کودر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دونوں کا جنم جنم کا ساتھ ہے ۔کسی
بھی معاشرے میں یہ دونوں اکٹھے پیدا ہوتے اکٹھے پروان چڑھتے اور اکٹھے
مرتے ہیں ۔ ان دونوں کے اہداف ، کارگزاریوں اور کارناموں پر پوری پاکستانی
قوم پچھلے۲۶ روزہ کورس میں مکمل عبور حاصل کر چکی ہے۔ تبدیلی کے موضوع </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پر
عمران خان کی جذباتی تقریروں اور انقلاب کے شانِ نزول پر طاہر القادری
صاحب کے پر مغز خطبات نے ہم میں سے ہر<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span>ایک کو اس موضوع پر اچھا خاصا عالم
بنا دیاہے ۔ چناچہ اب ہم دنیا کو صداقت ، عدالت اور شجاعت کے ساتھ ساتھ<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq';"> </span>انقلاب کا </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://1.bp.blogspot.com/-iFvaQTDj0aQ/VBP2lW9DnqI/AAAAAAAABg0/1hTrMevqYOk/s1600/inqilab.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://1.bp.blogspot.com/-iFvaQTDj0aQ/VBP2lW9DnqI/AAAAAAAABg0/1hTrMevqYOk/s1600/inqilab.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">درس بھی با آسانی دے سکتے ہیں۔ انقلاب اور تبدیلی کے شعبہ جات
میں ہماری یہ خود کفالت یقیناًحاسدوں کے حسد میں دن دگنی رات چگنی اضافہ
کر رہی ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
انقلاب اور تبدیلی کی بہت سی اقسام اور نسلیں ہیں اور ہر نسل کی اپنی اپنی
خصوصیا ت ہیں لیکن ان تمام اقسام اور قبیلوں میں سنجیدگی کی قدر مشترک ہے
۔دنیا میں کہیں بھی انقلاب قوالیوں پر تالیاں پیٹتے ہوئے نہیں آیا نہ ہی
گانوں پر جھومتے ہوئے کہیں تبدیلی کو آتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ لیکن دنیا نے
جو کبھی نہیں دیکھا ہم وہی اس کو دکھانا چاہتے ہیں ۔ دنیا کے لیے انقلاب
جینے مرنے کا معاملہ ہو گا ہمارے لیے یہ ٹھٹھے مخول سے زیادہ حیثیت نہیں
رکھتا۔ دنیا تبدیلی کے لیے کڑھتی مرتی ہو گی ہم گانوں کی سر تال پر جھومتے
جھامتے تبدیلی لا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے انقلابی لیڈر کئی کئی سال تک قید و
بند کی صعوبتیں جھیل کر اور خون کی ندیاں عبور کر کے انقلاب لاتے ہیں ہمارا
انقلاب بلٹ پروف ہے اس لیے یہ ان مراحل سے گزرے بغیر لیلیِٰ اقتدار کی زلف
تک رسائی چاہتا ہے۔ہمارا انقلاب عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ایسا
معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں کارکن سڑک پر اور انقلاب ائیر کنڈیشنڈ
کنٹینر میں سوئے۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />سنجیدہ سیاسی انقلاب تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں نظامِِ
موجودہ کی نفی کی جاتی ہے، دوسرا مرحلہ قائم قدروں کی شکست و ریخت پر مشتمل
ہوتا ہے جسے تخریب کا عمل کہا جاتا ہے جبکہ آخری مرحلے میں نئی انقلابی
سوچ اور فکر کے مطابق تعمیر کے عمل کا آغاز ہوتا ہے۔ ہمارے انقلابی لیڈر
پہلے مرحلے میں جزوی کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ ستائیس روز کی شبانہ روز
انقلابی تبلیغ کے بعد پاکستانیوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد سنجیدگی سے یہ
سمجھنے لگی ہے کہ جمہوریت ایک فضول نظام ہے جس کا فائدہ صرف چند خاندانی
پارٹیوں کو ہوتا ہے ، موجودہ حکمران فرعون، نمرود، یزید جیسے تاریخی ظالموں
کا جدید ورژن ہیں اور آفاتِ آسمانی سے لے کر بلیا تِ زمینی تک سب کے ذمہ
دار یہ ظالم جابر حکمران ہی ہیں۔پڑھے لکھے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بہ
قائمی ہوش وحواس اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ انقلاب کے آتے ہی پاکستان میں
لڑکیوں کے جہیز کے خانگی معاملات سے لے کر سیلاب تک کے آسمانی معاملات
فوراً حل ہو جائیں گے ۔ غربت کا نام و نشان نہیں رہے گا، بے روزگار ی یکلخت
مٹ جائے گی، ظلم و استحصال کو دیس نکالا مل جائے گا، بے گھروں کوگھر، بے
زمینوں کو زمینیں اور بے آسروں کو آسرا مل جائے گا اور دودھ و شہد کی نہریں
محاوروں سے نکل کر عملی طور پر پاکستان کے شہروں میں فراٹے بھرنے لگیں گی۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
پہلے مرحلے میں موجودہ سیاسی نظام اور حکمرانوں کو مجسم شیطان بنا کر پیش
کرنے کے بعد دوسرا اور زیادہ اہم مرحلہ شروع ہوتا ہے جسے صرف
تقریروں،بڑھکوں، گانوں اور قوالیوں سے پار نہیں کیا جا سکتا۔ اس مر حلے میں
نظامِ باطل سے عملی طور پر ٹکرایا جاتا ہے اور اسے پارہ پارہ کرنے کی سعی
کی جاتی ہے ۔طاہر القادری اور عمران خان اپنی تقریروں کی حد تک تو پارلیمنٹ
کو نیست و نابود کرنے کے ساتھ ساتھ نواز شریف اور ان کے وزرا کو سڑکوں پر
گھسیٹ چکے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا کرنے کے لیے جس جنون اور دل گردے کی
ضرورت ہے وہ ان کے اندر مفقود ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ یہ دونوں لیڈر چھوٹی
موٹی جھڑپوں کے ذریعے لہو لگواکر شہیدوں میں نام لکھوانا چاہتے ہیں اور
اپنے کارکنوں کی طاقت سے زیادہ فرشتوں کی غیبی امداد کے منتظر ہیں ۔ تھرڈ
ایمپائر جس کا ذکر عمران خان جاوید ہاشمی کے لنکا ڈھانے سے پہلے بڑے تواتر
سے کرتے رہے ہیں شاید اب انقلاب کے لیے کوئی اتنے پر جوش نہیں رہے اس لیے
ہمارے انقلابی لیڈ یہ آسرا چھن جانے کے بعد اب ایک عجیب مخصمے کا شکار
ہیں!یوں لگ رہا ہے کہ انقلاب اپنے دوسرے مرحلے پر آکرخوابوں کی وادی سے نکل
کر حقیقت کی دلدل میں پھنس گیا ہے ۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
عمران خان کے پاس ابھی بھی انتخابی اصلاحات اور دھاندلی کی شفاف تحقیقات کی
چادر اوڑھ کر تبدیلی نہ لانے کی خفت سے بچ نکلنے کا ایک محفوظ راستہ موجود
ہے اور قرین قیاس یہی ہے کہ وہ اسی کو اختیار کریں گے لیکن طاہر القادری
انقلاب کی دلدل میں پوری طرح دھنس چکے ہیں ۔اگرچہ ان کے پاس بھی مریدین کی
ایک ایسی تعداد موجود ہے جن کی مدد سے وہ اسلام آباد میں کشت و خون کروا
کر باقی زندگی اسی خون کے چالیسووں پر اپنی انقلابی سیاست کو زندہ رکھ سکتے
ہیں۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">انقلاب اور تبدیلی
جویک جان دو قالب بن چکے ہیں ان دونوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یوں
لگتا ہے کہ تین ہفتوں تک ایک ہی راگ الاپنے کے بعد اب عمران خان تو تبدیلی
کو چھوڑنا چاہ رہے ہیں لیکن تبدیلی انہیں چھوڑنے پر راضی نہیں اسی طرح
قادری انقلاب کے کمبل سے دستبردار ہونے کے لیے تو تیارہیں لیکن یہ کمبل اب
ان کی جان چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ۔انقلاب سچا ہو یا جھوٹا اس کا تیرکمان
سے نکل جائے تو خون کی بھینٹ لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھتا۔ اب دیکھنا یہ ہے
کہ خون کی اس بھینٹ کے لیے قربانی کے بکرے کس باڑے سے نکلتے ہیں۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-91493789155888991212014-09-06T12:49:00.000+05:002014-09-07T14:01:12.576+05:00سیاسی عطائی <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں فنکاروں کی ایک خاص کلاس کو عطائی
کہتے ہیں جو کسی ڈرامے یا فلم کی بجائے عملی زندگی میں اپنی اداکاری سے
لوگوں کے دل موہتی اور جیبیں ہلکی کرتی ہے !کھمبیوں کی طرح یہ عطائی ہر
شہر ہر قصبے ہر کوچے اور ہر گلی میں وقتاً فوقتاً اگتے ہیں ،کچھ عرصہ اپنی
مہارت سے علاقے کے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔
نبض دیکھ کر مرض جان لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور تبخیرِ
معدہ سے لے کر کینسر تک جیسے امراض کے شافی علاج میں انہیں پیدائشی مہارت
حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ دوا کی ایک ہی پڑیا سے سارے امراض کو بھگانے
کا محیر العقول کارنامہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ ہر طرف سے نا امید مریضوں
کوونویدِ شفا دیتے ان کے اشتہار جا بجا دیواروں </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-H1oNLHLODFg/VArSURyW0FI/AAAAAAAABgI/3k1oh3IeJhA/s1600/Siasi%2BAttai.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-H1oNLHLODFg/VArSURyW0FI/AAAAAAAABgI/3k1oh3IeJhA/s1600/Siasi%2BAttai.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پر نقش ہوتے ہیں ۔ عام
طبیبوں کی نسبت یہ کم خرچ میں بڑے بڑے پیچیدہ امراض کے پیچ و خم کھولنے کا
دعویٰ کرتے ہیں اس لیے ان کی دکان خوب چلتی ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عطائیوں کی یہ خصوصیات تیسری دنیا میں پھیلی ان کی ساری فنکار برادری کا
مشرکہ ورثہ ہیں لیکن تیسری دنیا کیباقی ممالک کے برعکس پاکستانی عطائیے صرف
لوگوں کی قبض رفع کرنے اور ان کی بواسیر بھگانے کے فن تک ہی محدود نہیں
بلکہ انہوں نے کئی اور شعبوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ے ہیں۔میدانِ
سیاست میں ان کی ترک تازیاں بالخصوص قابلِ ذکرہیں۔ اس میدان میں اب تو
عطائیوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ اصلی اور نقلی میں تمیز کرنا بہت مشکل
ہوگیاہے ۔ میڈیا کیمروں کی چکا چوند میں عطائی سیاست دانوں کی دکانیں زیادہ
چمکتی ہیں کیوں کہ تماشا لگانا انہیں خوب آتا ہے۔ لوگوں کی توجہ اپنی طرف
کھینچنے کے فن میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل ہوتی ہے چناچہ کبھی طنز و مزاح
سے ، کبھی رو رلا کر ، کبھی چٹکلے سنا کر یہ حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ان
کی یہ مہارت میلوں ٹھیلوں اور لاری اڈوں پر دانت کے درد کی دوا اور سانڈے
کا تیل بیچنے والے مداریوں سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہے ۔یہ مداری بھی اپنی
دوا بیچنے کے لیے سسپنس اور تھرل کے ہتھیاروں سے کام لیتے ہیں اور بھولے
بھالے سامعین کو گھنٹوں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیرے رکھتے ہیں ۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
سیاسی عطائیوں کو پہچاننا مشکل تو ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ان کی خاص
پہچان یہ ہے کہ ان کے پاس ہر قومی اور ملی مسئلے کا نقد حل موجود ہوتا ہے ۔
یہ کرپشن کو چند دنوں میں جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں، غربت کو پلک جھپکنے میں
مٹا سکتے ہیں، بے روزگاری کو لمحوں میں غائب کر سکتے ہیں ، لاقانونیت کو
منٹوں میں ختم کرسکتے ہیں، توانائی کے مسائل آناً فاناً ٹھیک کر سکتے ہیں
اور معیشت کی بدحالی کو کھڑے کھڑے خوش حالی میں بدل سکتے ہیں ۔ عام سیاست
دانوں کو جن مسائل کی گتھیاں سلجھاتے سالوں لگ جاتے ہیں عطائی سیاست دانوں
کی زنبیل میں ان کے فوری اور تیر بہدف حل ہر وقتکلبلا رہے ہوتے ہیں ۔ اقربا
پروری، مفاد پرستی، انا پرستی سمیت تمام قسم کی پرستیوں سے یہ یکسر پاک
ہوتے ہیں۔ ان میں اور فرشتوں میں بس انیس بیس کا ہی فرق رہ جاتاہے ۔ یہ
اپنے ماننے والوں کے دلوں میں پنی شرافت اور نیکو کاری کی دھاک بٹھانے کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اس نیک مقصد کے حصول کے لیے اپنی
بزرگی کے قصے بڑی بے اعتنائی سے اکثر سناتے رہتے ہیں چناچہ ان کے ماننے
والے بڑی سنجیدگی سے انہیں اوتار سمجھنے لگتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو مجسم
شیطان بنا کر پیش کر نا ان کا وہ حربہ ہے جس کی مدد سے یہ حق و باطل کی
تاریخی جنگوں کے جدید ورژن میں کبھی حسین بن بیٹھتے ہیں توکبھی موسیٰ کا
کردار اپنے لیے مختص کر لیتے ہیں۔<br /><br />
پچھلے کئی روزسے اسلام آباد میں جاری سیاسی بحران بھی کچھ سیاسی عطائیوں کے
ہاتھ کی ہی صفائی ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان کی دھواں دھار تقاریر
سے اگر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پارلیمنٹ ہاؤ س کے سامنے سانڈے کا تیل بیچا
جا رہا ہے تو اس میں کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔پچھلے تئیس روزکے دونوں
راہنماؤں کے اقوالِ زریں کا نچوڑ نکالا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نقلی
جمہوریت سے اصلی آمریت ہزار درجے بہتر ہے۔ یہ تو واضح نہیں کہ ان دونوں
مسیحاؤں کو کسی متوقع اصلی آمریت کے ہنڈولے میں جھولا جھولنے کا اشارہ
ملاہے یا نہیں لیکن اتنا سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ کسی ایسی مقدس آس پر
دھرنے کو طول دے رہے ہیں جس کا تعلق عوامی طاقت سے کسی بھی طرح نہیں ۔</span><br />
<br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عمران
خان کو پاکستان کے نوجوانوں نے اس امید پر اپنا لیڈر بنایا تھا کہ وہ ان
کو پسماندگی وبد حالی کے تپتے صحرا سے نکال کر خوش حالی کے نخلستان میں
لاکھڑا کریں گے، اس آس پر وہ راہنماچنے گئے تھے کہ اس ملک کو ذلت کی دلدل
سے نکال کر خودداری و خودکفالت کی مسند پر لا بٹھائیں گے پر افسوس عمران
خان عطائیوں کی صحبت میں بہک گئے اور اس راستے پر چل نکلے جہاں انا کی جنگ
تو شاید وہ جیت جائیں جمہور اور جمہوریت کی جنگ میں ہار ان کا مقدر بن چکی
ہے ! عمران سچا آدمی تھا لیکن جھوٹوں کی مجلس میں بیٹھنے والا بھلا کب تک
سچائی پر قائم رہ سکتا ہے!کیا سیاسی عطائیوں کے جھرمٹ میں عمران کی جون بدل
رہی ہے؟؟ آنے والے ماہ و سال اس کا جواب دیں گے۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-72691405338302636162014-09-05T14:13:00.001+05:002014-09-05T19:16:25.734+05:00کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے
خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں
ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی
تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے
شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا
تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں
بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے
پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں
کا خمیر تھا۔</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز
پارٹی کی </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-tMY0w62NetQ/VAl9vX3Z9kI/AAAAAAAABf8/BaUiis5fltI/s1600/Nawaz%2BSharif.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-tMY0w62NetQ/VAl9vX3Z9kI/AAAAAAAABf8/BaUiis5fltI/s1600/Nawaz%2BSharif.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش
فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے
ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی
شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو
کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا
جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری
بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ
مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں
ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا
سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے
ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر
حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام
کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری
کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں
انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے
ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک
میں مل رہا ہے ۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
ہماری حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے ڈھول کا پول بھی ان دھرنوں نے کھول کر
رکھ دیا ہے ۔ سارے پنجاب کو کنٹینروں سے بند کرنے سے لے کر جا بجا خندقیں
کھودنے تک حکومت نے اپنی حواس باختگی کے نہایت مضحکہ خیز نمونے جگہ جگہ
بکھیر دیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کو ناتجربہ کاراور سیاسی نالغ ہونے کا طعنہ
دینے والی مسلم لیگ نو ن کی حکومت کے تین دہائیوں پر پھیلے تجربے کا نچوڑ
دیکھ کر قوم دنگ ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ نون لیگ کے اعصاب پر ابھی تک ۱۲
اکتوبر ۱۹۹۹ء کا آسیب سوار ہے اور اس کے تمام فیصلے اسی کے زیرِ اثر کیے
گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے افسروں اور جوانوں کو قربانی کا بکرا
بنا کر حکومت نے خود اس سے جس طرح بری الذمہ ہونے کی کوشش کی اس کا لامحالہ
نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مورال اس حد
تک گر جائے کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہوکر حکومت کی احکامات سے روگردانی
کرنے لگیں۔ دھرنے کے دوران پولیس افسران کی بار بار تبدیلی نے اس تاثر کو
تقویت دی کہ حکومت کا کنٹرول قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کمزور پڑ چکا
ہے۔ فیصلہ سازی کے فقدان نے حکومت کی رٹ کو متاثر کرنے میں نہایت اہم کردار
ادا کیا۔ حکومت نے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی بجائے کبھی اپوزیشن کی سیاسی
جماعتوں اور کبھی راحیل شریف کے پیچھے چھپنے کی جو حکمتِ عملی اپنائی اس
نے اس حکومت کے کھوکھلے پن کوبری طرح عیاں کر دیا ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ساری سیاسی جماعتوں نے حکومت اور جمہوریت کے
ساتھ جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ
ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کی بار بار
مداخلت سے تنگ آ کر اس نکتے پر متحد ہو چکی ہیں کہ انہیں ہر حال میں
جمہوریت کا تحفظ کرنا ہے۔ آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے شاہ محمود قریشی
کا خطاب بھی یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ تحریکِ انصاف پارلیمنٹ پر یلغار
کرنے کے اپنے فیصلے پر پشیمان ہے ۔حکومت کو اس موقع پر بڑنے پن کا ثبوت
دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کو فیس سیونگ دینی ہو گی ورنہ حالات کو بگاڑنے والے
ابھی بھی اس تاک میں بیٹھے ہیں ۔ایم کیو ایم کے قائد کا اسمبلیوں سے
استعفیٰ دینے کا اعلان بے وقت کی راگنی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی چال ہے۔اس
امر کا تعین چند روز میں ہو جائے گا کہ الطاف حسین کا یہ فیصلہ تحریکِ
انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے ہے یا اس کے
تانے بانے لندن میں عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں پچھلے دنوں ہونے
گرفتاری سے ہیں۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس اعصاب شکن بحران سے نکلنے کے بعد کچھ سبق
سیکھتی ہے یا اپنی پرانی روش برقرار رکھتی ہے۔ ماضی کو مدنظر رکھیں تو اس
کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں کہ نواز شریف اس بحران سے بخیر و عافیت
نکلنے کے بعد بھی اپنے شاہانہ رویوں میں کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔ عمران خان
اور طاہر القادری کا سب سے بڑا اور موثر الزام یہ تھا کہ نون لیگ کی حکومت
ایک خاندانی بادشاہت ہے جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ اس جماعت
میں نواز شریف کا رشتہ دار ہونا وہ سب سے بڑی کوالیفیکیشن ہے جس کو سامنے
رکھتے ہوئے وزارتوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے۔ نواز شریف ا ور ان کی جماعت
پر یہ الزام نیا نہیں ان کے سابقہ دورِ حکومت میں بھی اس کی صدائیں سنائی
دیتی رہی ہیں لیکن عمران خان اور طاہر القادری نے اس پرانے الزام میں جان
ڈال دی ہے اور اب ہر شخص خواہ اس کی ہمدردیاں تحریکِ انصاف سے ہیں یا نہیں
اس الزام کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ نواز شریف اوران کی
حکومت کے لیے ۱۲ اکتوبر کا بحران موجودہ دھرنوں سے کہیں زیادہ شدید تھا جب
انہیں حکومت سے ہاتھ دھو کر ملک بدر ہونا پڑا تھا اگر اس جماعت اور اس کی
شاہی قیادت نے اُس مارشل لا سے کچھ نہیں سیکھا تو اب بھی یہ کچھ نہیں
سیکھیں گے اور کسی نئے بحران کے انتظار میں خوش فعلیاں کرتے ہوئے وقت
گزارتے رہیں گے۔ جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد عمران خان کے جمہوری رویوں
کابھی پردہ چاک ہو گیا ہے اور یہ تلخ حقیقت مزید عیاں ہوگئی ہے کہ ہماری
پرانی و نئی تمام سیاسی جماعتیں بنیادی جمہوری قدروں سے عاری ہیں ۔ جمہوریت
کا تحفظ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہو
۔ جو اپنی جماعت میں برابری نہیں لا سکتے وہ جمہور کو کیا انصاف دیں گے۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-60022434398882110112014-08-31T01:26:00.001+05:002014-08-31T01:29:28.753+05:00جب غیرت پنکچر ہو جائے <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<div style="text-align: right;">
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
</div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ستم گر عالمی میڈیا گاہے گاہے پاکستان کے مجروح قومی وقار پر سنگ باری کرتا
رہتا ہے ۔ ہم جس شدو مد سے زندہ قوم ہونے کے نعرے بجاتے اور گیت گاتے ہیں
دنیا اسی شدو مد سے ہمیں ہماری اصل اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔ غیرت و حمیت
کے ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو بے حمیتی کے طعنے دیتے ہیں
لیکن حقیقت کی سنگلاخ زمین پر اترتے ہی اپنی پتلی حالت دیکھ کر ہماری حالت
غیر ہو جاتی ہے۔ عالمی میڈیا کو ہماری کمزوریوں کا پورا پورا ادراک ہے اس
لیے یہ ہمیں زیادہ وقت ہوائی قلعوں میں نہیں گزارنے دیتا۔ ابھی ہم ایک زخم
کی دوا کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک اور تیر ہماری غیرت کی قبا کو چھلنی کرتا
ہوا گزر جاتا ہے اور ہم پرانے زخم کو بھول کر نئے کی دوا دھونڈنے لگتے ہیں ۔
شاید عالمی میڈیا یہ جان چکا ہے کہ اس قوم </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://1.bp.blogspot.com/-4DpY3uQ-icw/VAIx5GczxWI/AAAAAAAABfA/NUSS2XyWfBs/s1600/Afia.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://1.bp.blogspot.com/-4DpY3uQ-icw/VAIx5GczxWI/AAAAAAAABfA/NUSS2XyWfBs/s1600/Afia.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">کی غیرت کو وقتاً فوقتاً پنکچر
کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ شیخی بگھارنے لگتی ہے اور ساری دنیا کی غیرت پر
سوال اٹھانے لگتی ہے۔ ہمارا پانی اتارنے کے لیے عالمی میڈیا کے پاس بہت سے
ریڈی میڈ فارمولے موجود ہیں۔ان آزمودہ فارمولوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کا
ذکر بھی ہے ۔ گلا پھاڑتی ، چھاتیاں پھلاتی، مسل دکھاتی پاکستانی قوم کو
میوٹ کرنے کا اس سے بہتر شاید ہی کوئی نسخہ ہو ۔</span><br />
</div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ڈاکٹر عافیہ صدیقی کومقامی سوداگروں نے ۲۰۰۳ کے موسمِ بہار میں پاک سر
زمیں سے اٹھایا اور چنگھاڑتے دہاڑتے امریکی استعمار کے حوالے کر دیا لیکن
اس وقت پاکستانی قوم روشن خیالی کی گنگا میں اشنان کر رہی تھی اس لیے اس
لین دین سے اس کی قومی غیرت کا کوئی بال بیکا نہ ہوا۔ پانچ سال تک عافیہ
افغانستان کے زندانوں میں پرتشدد اسیری کے دن کاٹتی رہی اور پاکستانی حکومت
بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے اس کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔جولائی ۲۰۰۸ ء کو
جب ا یوان ریڈلی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی پریس کانفرنس میں قیدی نمبر
۶۵۰ کا قصہ بیان کیا تو پاکستانیوں کی قومی غیرت نے اپنی ایک بیٹی کی غیروں
کے ہاتھوں اسیری کی آنچ محسوس کرنی شروع کی ۔ عافیہ پر ڈھائے جانے والے
اندھے مظالم کی کہانیاں آہستہ آہستہ زنداں خانوں سے نکل کر پاکستانی قوم تک
پہنچنا شروع ہوئیں تو قومی غیرت کو ابال آنے لگا ۔ وہ جنہوں نے عافیہ کو
دام و درم کے عوض بیچ دیا تھا ان کے خلاف نفرت کے لاوے پکنے لگے۔ نعروں،
اجتجاجوں ، قراردادوں ، ریلیوں اور مظاہروں کا دامن تھام کر پاکستانی قوم
نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدو جہد شروع کر دی لیکن جب اہلِ حکم اپنے
ضمیر گروی رکھ چکے ہوں تو قوم لاکھ سر پٹکے اپنی غیرت کا دفاع نہیں کر
سکتی۔</span><br />
<a name='more'></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">اب عافیہ صدیقی کی اسیری کو گیارہ سال ہوچکے ہیں۔ پاکستان قوم اس دوران ایک
آمریت اور ایک عددجمہوری حکومت کی برکات سے پوری طرح مستفید ہو کر دوسری
جمہوری حکومت کے پھل کھا رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حکومتیں
عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بڑی ’درمندی ‘سے کوششیں کرتی رہی ہیں لیکن
امریکی جبر و سطوت کے سامنے کیا یہ پدیاں اور کیا ان کا شوربہ ! پاکستان کی
عدالتیں، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیمیں، مذہبی اور سیاسی جماعتیں
یک زبان ہیں کہ عافیہ کو امریکی قید سے رہائی ملنی چاہیے لیکن عالمی
استعمار کے نقار خانے میں ان طوطیوں کی آوازبھلا کون سنتا ہے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ایک لاحاصل جدوجہد کے بعد اب عافیہ کے لیے اٹھنے والی آوازیں ماند پڑتی
جارہی ہیں اور پاکستان قوم نے اپنی گھائل غیرت پر لگنے والے اس زخم کو
تقدیر کا لکھا سمجھ کر ا س سے نظریں چرانی شروع کر دی ہیں لیکن عراق و شام
میں برسرِ پیکار عسکریت پسندوں نے ایک اغوا شدہ امریکی خاتون صحافی کے بدلے
عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر کے ہمارے پرانے زخموں کو پھر کرید دیا
ہے ۔ جب عدل و انصاف مر جائے اور جس کے ہاتھ لاٹھی ہو وہی دنیا کو ہانکنے
لگے تو انصاف حاصل کرنے کے لیے ایسی آوازوں کااٹھنا کچھ اچنبھے کی بات نہیں
لیکن پاکستانی قوم دہشت گردی کے ساتھ نتھی ہونے پر بجا طور پر برانگیختہ
ہے۔ ہمیں عافیہ کی رہائی چاہیے لیکن عالمی قوانین کی مرگھٹ کے اندر رہ کر
کیوں کہ ہم امن پسند جمہوری قوم ہیں۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">سن دو ہزار گیارہ میں ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ہو یا یا اس سال جول کاکس کی گرفتاری و رہائی
ایک امر طے ہو چکا ہے کہ امریکہ نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہر قاعدے
اور ہر قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں۔امریکہ نے اپنی قومی غیرت کے جھوٹے سچے
تصور کے تحفظ کے لیے اپنی راہ میں آنے والی ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ کو روندا
اور ساری دنیا کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص یہ بلواسطہ پیغام دیا
کہ قومی حمیت کا تحفظ مطالبات اور مظاہروں سے نہیں کیا جاتا۔ ہم کئی سالوں
سے عافیہ کے لیے مِن مِن کر رہے ہیں، ہمارے وزرا ، ہمارے وزرائے اعظم ،
ہمارے جج صاحبان ، ہمارے دانشور اور ہمارے مذہبی راہنما کئی سالوں سے
ٹہنیاں پھاندتے پھر رہے ہیں لیکن ساری تگ و دو لا حاصل ہے کیوں کہ ہماری
قومی غیرت غیروں کی کاسہ لیسی کے سبب پنکچر ہو چکی ہے۔ ہم لاکھ کوشش کریں
کہ ان چھیدوں کو بلند بانگ نعروں سے چھپا سکیں لیکن دنیا جانتی ہے کہ جو
ایک دفعہ بیٹیاں بیچ دیں وہ کبھی سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتے ۔ جب تک
عافیہ کو بیچنے والے ہماری راہنمائی سے دستبردار نہیں ہوتے ہماری قومی غیرت
کا استہزا اسی طرح اڑتا رہے گا۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-74052365221660254442014-08-23T20:04:00.004+05:002014-08-23T20:26:08.033+05:00امریکی صحافی کا قتل اور عافیہ صدیقی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">مبینہ امریکی صحافی جمیز فولی کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت نے عالمی
ضمیر کو ایک بار پھر ہڑ بڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ضمیر پچھلے
کچھ ماہ سے افیون زدگی کی حالت میں اونگھ رہا تھااور غزہ میں کئی ہفتوں سے
جاری قتل وغارت ،جنگی طیاروں اور میزائلوں کی چنگھاڑتی آوازوں اورفلسطینی
بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار میں بھی مدہوش پڑا تھا لیکن شکرہے کہ جیمز
فولی کے گلے پر چلنے والے خنجر کی آواز سے اس کی نیند ٹوٹ گئی ۔ اب امید کی
جاسکتی ہے دنیا بھر کے دکھیاروں کے لیے آواز اٹھے گی اور جیمز فولی کی موت
عالمی ضمیر کی حیات ثابت ہو گی۔</span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://2.bp.blogspot.com/-Z9hTTh3xcNM/U_itOAfQ9JI/AAAAAAAABec/YpdQKh9kdUY/s1600/James%2BFoley.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://2.bp.blogspot.com/-Z9hTTh3xcNM/U_itOAfQ9JI/AAAAAAAABec/YpdQKh9kdUY/s1600/James%2BFoley.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
جیمزفولی صحافیوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو فاتح امریکی افواج کے
پہلو بہ پہلو مفتوح علاقوں پر نازل ہوتے ہیں۔ یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ
اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، ہنستے بولتے اور گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی
فتوحات کو فلم بند کرکے امریکی قوم کے ایڈونچرانہ جذبے کی تسکین کرتے ہیں۔
مفتوح قوموں کی جہالت ، کسمپرسی، اور بد تہذیبی کی عکس بندی کر کے امریکی
حملوں کو تہذیبی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی ان کے جاب پروفائل کاحصہ
ہوتا ہے۔چونکہ امریکی عوام کا باقی دنیاکے بارے میں جنرل نالج شرمناک حد
تک کم ہے اس لییامریکی میڈیا میں موجود جیمز فولی جیسے صحافی ہی باقی دنیا
کے لیے ان کی کھڑکی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صحافی امریکا کے کسی ملک پر
حملے سے پہلے ایک ایسا ہیجان برپا کر دیتے ہیں کہ سارے امریکی ایک کورس میں
جنگی ترانے گانے شروع کر دیتے ہیں اور حملے کے بعد یہ قبضے کی طوالت کو حلال
ثابت کرنیکے لیے وقتا فوقتا کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکا بھیجتے رہتے ہیں
۔بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگی صحافیوں کی یہ کھیپ دراصل امریکا
خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ہو تی ہے جنہیں صحافیوں کے روپ
میں فوج کے ساتھ یا پیچھے پیچھے روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صحافتی آزادیوں کے
سبب فوج کے لیے دشمن کی سر زمین میں جاسوسی کرنے کے فریضے سر انجام دیتے
ہیں اور ایسا کرتے ہوئے فوجیوں سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا سامنا کرتے
ہیں لیکن سخت جانی کے سبب پیچھے نہیں ہٹتے ۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
جیمز فولی کا سفر امریکا کے افغانستان پر حملے سے شروع ہوا لیکن اس نے شہرت
لیبیا کی خانہ جنگی میں قذافی کی فوج کے ہاتھوں گرفتاری سے حاصل کی۔
اپریل۲۰۱۱ ء میں جیمز کو تین دوسرے صحافیوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ یہ
وہ وقت تھا جب امریکی ترغیب پر عالمی برادری نیٹو کو لیبیا میں نو فلائی
زون اور حملوں کا اختیار دے چکی تھی ۔ لیبیا کی فوج کوخانہ جنگی کے ساتھ
ساتھ نیٹو افواج کے فضائی حملوں کا بھی سامنا تھا۔ جیمز اور دوسرے ساتھیوں
کی گرفتاری نے امریکی غیض و غضب میں کئی گنا اضافہ کر دیا ۔جیمز ۴۴ دن قید
رہنے کے بعد رہا ہوا اور واپس امریکا پہنچا تو امریکی قوم کا ہیرو بن چکا
تھا۔ہیرو انہ خصلت کے عین مطابق اس نے تھوڑے ہی عرصے بعددوبارہ جنگ زدہ
لیبیا میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۱ ء کو جب لیبیا کے
مفرورصدر معمر قذاٖفی کے قافلے پر سرت گاؤں کے قریب نیٹو افواج نے فضائی
اور باغیوں نے زمینی حملہ کیا تو حیران کن طور پر جیمز اپنی ایک ساتھی کے
ساتھ وہاں موجود تھا۔ باغیوں کے ہاتھوں معمر قذافی پر تشدد اور قتل کی وڈیو
دنیا تک جیمز فولی ہی کے کیمرے کے ذریعے پہنچی۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> <br />
لیبیا کے محاذ پر فتوحات کے جھنڈے گاڑنے کے بعد فولی نے عراق کا رخ کیااور
دنیا تک عراقی جنگ کی کہانیاں اپنی تصویروں کے ذریعے پہنچاتا رہا۔ بشار
الاسد کے خلاف سنی قبائل کی بغاوت نے اس کو شام کی صورت ایک نیا محاذ مہیا
کیا لیکن اسے نومبر ۲۰۱۲ء کو شام میں اغوا کر لیا گیا۔ دو سال تک قید کی
گمنامی میں کھوئے رہنے کے بعد اب دولتِ اسلامیہ نامی عسکریت پسند گروپ کے
ہاتھوں مارے جانے کی ویڈیو نے جیمز کو دوبارہ خبروں کا موضع بنا دیا ہے۔
جیمز کے والدین کو اغواکاروں کی طرف سے بھیجی جانے والی آخری ای میل نے
جیمز کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی عالمی توجہ مرکوز کر دی ہے ۔ اس ای میل
میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی جیل میں قید پاکستانی نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو رہا کیا جائے ۔ ہم پاکستانی عافیہ صدیقی کے لیے اپنی مہین
آوازیں نکال نکال کر شاید اب تھک کر بیٹھ گئے ہیں اور اس دکھیاری کو امریکی
جیل میں سسکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے لیکن عافیہ کے لیے اٹھنے والی عالمی
آوازیں ابھی ماند نہیں پڑیں۔ ایک سخت گیر عسکریت پسند گروہ کے دل میں،جس
کا پاکستان سے بظاہر کوئی تعلق نہیں،عافیہ صدیقی کے لیے ہمدردی کی لہر بہت
سے سوالات کو جنم دیتی ہے ۔ کیا دولتِ اسلامیہ میں پاکستانی عسکریت
پسندشامل ہو چکے ہیںیا پھر عافیہ مسلمانوں کی اجتماعی مظلومیت کی ایک علامت
بن چکی ہے اور دولتِ اسلامیہ کے مزاحمت کاراس کا نام استعمال کر کے عالمِ
اسلام سے اپنے لیے ہمدردی اکٹھی کرنا چاہتے ہیں ؟ جواب ڈھونڈنا آسان نہیں ۔<br />
<br />
وجہ جو بھی رہی ہو عافیہ کا نام جب جب دنیا کے کسی بھی کونے میں لیا جائے
گا پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے کالے کرتوتوں کی یاد تازہ ہو کر
حساس پاکستانیوں کے دلوں کو افسردہ کرتی رہے گی۔بے لگام ڈکٹیٹر وں کے
اٹھائے گئے بے مغز اقدامات کی سزا قوموں کوکئی کئی دہائیوں تک برداشت کرنی
پڑتی ہے۔پاکستانی قوم بھی مشرف کے غیروں سے کیے گئے سودوں کے وبال اٹھا رہی
ہے۔ جانے کب ہمارے ستارے مشرف کے منحوس اثر سے آزاد ہوں گے؟ کم از کم اس
وقت تک تو نہیں جب تک عافیہ کا نحیف جسم کینساس کے زنداں خانے میں سسک رہا
ہے</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-34389168522580872262014-08-22T20:33:00.000+05:002014-08-26T00:26:00.751+05:00دھاندلی کے بارے میں کچھ تہلکہ خیز انکشافات <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پاکستان معجزات کی سر زمین ہے ۔یہاں انہونیاں کثرت سے وقو ع پذیر ہوتی ہیں،
ناممکنات پل جھپکنے میں ممکن ہو جاتے ہیں اور محیر العقول عناصر پل پل
تقدیریں بدلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑوں میں
بھی کچھ ایسے پراسرار عناصر کا عمل دخل ہے جن سے پردہ اٹھا نا اب ناگزیر
ہو گیا ہے ۔ ہوشربا انکشافات پر مشتمل یہ سطریں پڑھتے ہوئے یقیناًآپ کے
رونگٹے کھڑے ہوں جائیں گے اور آپ بے یقینی کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے
بار بار یہ سوال کریں گے کہ کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ، کیا
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ایسے ساحر موجود ہیں جو الٹے کو
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"></span>سیدھا اور سیدھے کو الٹا کر </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://2.bp.blogspot.com/-qsG-BlPVuq0/U_uNQ_b3-0I/AAAAAAAABew/ZogirvB8TtQ/s1600/express.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://2.bp.blogspot.com/-qsG-BlPVuq0/U_uNQ_b3-0I/AAAAAAAABew/ZogirvB8TtQ/s1600/express.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">دیں جو مجنوں کو لیلیٰ اور لیلیٰ کو مجنوں بنا
دیں، کیا سائنسی ایجادات کی بھرمار کے باوجود انسان ابھی تک پراسرار طاقتوں
کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا ہے ؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات بے
یقینی کے ناگ بن کرآپ کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کریں گے اور آپ کو ان
سطروں کو محض ٹھٹھہ یا مذاق سمجھ کر نظر انداز کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش
کریں گے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پورا مضمون پڑھنے کے بعد آپ بھی
میری طرح نہ صرف پر اسرار طاقتوں کے قائل ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے
میری ہی طرح آپ بھی ان کے حصول کے لیے سر پٹ دوڑ لگا دیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">اس قصے کی ابتدا میری ایک زرد پوش بزرگ سے ملاقات سے ہوئی جن کے چہرے سے
جلا ل ٹپک ٹپک ان کی ریش مبارک کو تر کر رہا تھا۔ ان کی سرخی مائل ہلالی
آنکھوں میں ایسا رعب تھا کہ مارے ہیبت کے میری گھگی بندھ گئی ۔ میں نے گھگی
پر بہ مشکل قابو پاکر ڈرتے ڈرتے سوال کیا : یا حضرت پاکستان کے موجودہ
سیاسی بحران کا حل کیا ہے ؟ حضرت نے اس کے جواب میں جو حل بتایا وہ عمران
خان کے بیان کیے گئے حل سے ملتا جلتا تھا ۔ میں نیحیران ہو کر ان کی طرف
دیکھا لیکن سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ مجھے سراپا حیرت پا کر وہ خندہ لب
ہوئے اور فرمایا کہ ان کا پی ٹی آئی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں کیوں کہ
وہ مادی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہاں پی ٹی آئی کے بھنگڑے اور
صوفیانہ رقص ان کے روحانی تاروں کو ضرور چھیڑتے ہیں۔ میں نے ہمت مجتمع کی
اور پھر سوال کیا : یا شیخ دھاندلی کے الزامات میں کتنی صداقت ہے ؟ اس پر
کچھ دیر وہ خلا میں نہایت معجوبانہ انداز سے گھورتے رہے پھر گویا ہوئے اور
جلالی انداز میں محض اتنا کہا ’’دھاندلی ہوئی ہے ضرور ہوئی ہے ‘‘۔ میرے
استفسار پر کہ دھاندلی کیسے ہوئی ان کے اور میرے درمیان سوال وجواب کا ایک
مکالمہ شروع ہواجس کا خلاصہ میں یہاں من و عن درج کر رہا ہوں</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">بابا جی سائیں گیسو دراززرد لباس نے ہوشربا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ
انتخابات سے پہلے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو عمران خا ن کی مقبولیت
کا اندازہ ہو چکا تھا ۔ انہیں یقین تھا کہ عمران خان انتخابات میں جھاڑو
پھیر دے گا اور ان دونوں کو سیاست سے ہمیشہ کے لیے ریٹائر کر دے گا اس لیے
انہوں نے لالو کھیت میں ایک مزار کے احاطے میں بھیس بدل کرخفیہ ملاقات کی
اور دھاندلی کا منصوبہ بنایا۔ بہت سارے طریقوں پر غور وحوض کرنے کے بعد بھی
جب ان کے خالی دماغ خالی رہے اور دھاندلی کا کوئی طریقہ کارگر نہ لگا تو
انہوں نے بیرونی مدد تلاش کرنی شروع کر دی۔انتخابات میں دھاندلی کروانا
انہیں اس لیے مشکل لگ رہا تھا کہ فخرو بھائی کو ایمانداری کی سخت بیماری
تھی جس کے متعدی اثرات الیکشن کمیشن کے باقی ممبران پر بھی نمایاں طور پر
نظر آرہے تھے ۔ عدلیہ بحالی کے بعد بہت مونہہ زور ہو چکی تھی اور مختلف سوچ
و فکر رکھنے والے پورے پاکستان میں پھیلے سینکڑوں سول و سیشن ججوں کو رام
کرنا ناممکن لگ رہا تھا۔ الیکشن عملے کے طور پر ڈیوٹی دینے والے ہزاروں
ماسٹر اور ماسٹرنیاں بھی ان سے کچھ ایسے خوش نہ تھے کہ ان کے دھاندلی والے
منصوبے میں شریک ہوتے، بیو رو کریسی پر انحصار کرنا بھی اپنے پاؤں پر کلہا
ڑی مارنے کے مترادف لگ رہا تھا اس لیے ایک آؤ ٹ آف دا باکس حل نکالا گیا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">یہ حل بہت غیر روایتی اوربظاہربڑا عجیب و غریب تھا لیکن مرتے کیا نہ کرتے
کے مصداق نواز وزرداری کو یہ ہی اختیار کرنا پڑا۔ کوہ ہمالیہ کی چوٹی میں
چلہ کاٹنے والے ایک جوگی کو تلاش کیا گیا جس نے بنگال کے جنگلوں میں ہاتھی
کی سونڈ پر بیٹھ کر بن مانسوں کے درمیان کالا جادو سیکھا تھااور خود پیلا
ہو گیا تھا۔ اس ساحر نے جوجو گی کا بہروپ دھارے ہوئے تھا فیس بک پر کاہنوں
اور جادو گروں کا ایک خفیہ گروپ بنا رکھا تھا جن کے ساتھ وہ رابطے میں رہتا
تھا۔ زرداری و شریف کی جوڑی نے مختلف ذرائع سے اس سے رابطہ کیا اور اپنی
مشکل اس کے سامنے رکھی۔ بڑی منتوں ترلوں کے بعد وہ ہمالہ سے نیچے اترنے پر
تیار ہوا۔ اس ساحر کو جس کا نام بابا جی نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر خفیہ
رکھادھاندلی کے منصوبے کا انچارج بنا دیا گیا۔ اس نے دنیا بھر سے منجھے
ہوئے عاملوں اور جادو گروں کو اکٹھا کیا اور اس بھیانک دھاندلی کا آغاز ہوا
جس کو سوچ کر بھی جھر جھری آ جاتی ہے ۔ فخرو بھائی اور الیکشن کمیشن کے
ممبران کو ہپناٹائز کرنے کے بعد ساحروں کے اس گروپ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ
پر ایک خاص طرح کا جادو کیا جس سے چیف جسٹس اس جادو کے کیرئر بن گئے چناچہ
انہوں نے جب ریٹرننگ افسروں سے خطاب کیا تو ان کے الفاظ کے ذریعے یہ جادو
وہاں بیٹھے تمام ججوں پر طاری ہو گیا۔ ریٹرننگ افسروں کے ذریعے دماغ کو غیر
حاضر بنا دینے والا یہ جادو ان ٹیچروں میں منتقل کیا گیا جو الیکشن ڈیوٹی
پر تھے ۔ سیکرٹری داخلہ سے لے کر تمام صوبوں کے متعلقہ پولیس افسران تک پر
مختلف عاملوں نے ایسا سحر طاری کر دیا کہ وہ دھاندلی کے عمل میں جی جان سے
شریک ہوگئے ۔ بابا جی نے یہ بھی بتایا کہ ججوں پر ساحرانہ عمل جسٹس رمدے کے
گھر میں ایک خفیہ میٹنگ میں کیا گیا ۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">تو قارئین اسطرح دھاندلی کو جادو کے زور پر الیکشن کے عمل میں شامل تمام
افراد پر طاری کر دیا گیا اور ان سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے گئے ۔
ٹیچروں کی تعداد چونکہ ہزاروں میں تھی اس لیے یہ ڈر تھا کہ شاید کسی پر سحر
طاری نہ ہوا ہو ۔ احتیاطی تدبیر کے طور پر الیکشن میں مہروں کے لیے
استعمال ہونے والی سیاہی کی ہر بوتل میں ایک ایک موکل بٹھا دیا گیا تاکہ
الیکشن عملہ مطلوبہ نتائج کے حصول میں کمزور جادو کی وجہ سے اگر کچھ غفلت
بھی کرے تو یہ موکل مہروں پر بیٹھ جائیں اورووٹروں سے مرضی کے نشان پر ثبت
کروائیں۔الیکشن عملے کے طور پر کام کرتے ایک ٹیچر نے مجھے خود یہ بتایا کہ
ہر بوتل کو جب کھولا جاتا تھا تو اس میں سے ایک پر اسرار سی بو آتی تھی ۔
یہ بو یقیناًموکلین کی ہی ہوسکتی ہے۔ کچھ لوگ یہ اعتراض کریں گے کہ اگر
سارے ریٹرننگ افسروں پر چیف جسٹس کے ذریعے افسوں طاری کیا گیا تھا تو پھر
تحریکِ انصاف خیبر پختونخواہ میں کیسے جیت گئی۔ میں نے بھی بابا جی سے یہ
سوال پوچھا تو انہوں نے یہ عجیب بات بتائی کہ جو لو گ قہوہ زیادہ پیتے ہیں
ان پر جادو کا اثرنہیں ہوتا ۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">بابا جی کے انکشافات سن کر میں تو دم بہ خو د ہوں اور سمجھ نہیں آرہی کہ
نواز و زرداری کے ٹولے کو اس دھاندلی پر کیسے گالیاں دوں ۔ جی چاہ رہا ہے
کہ جعلی مینڈیٹ کی اس دھاندلی شدہ حکومت کے خلاف گریبان چاک کر کے دھمال
ڈالنا شروع کر دوں اوردھمال ڈالتے ڈالتے عالمِ بے خودی میں کوہِ ہمالہ کی
چوٹی پر دھونی رمائے اس ملعون جوگی کے سامنے جا پہنچوں جو اس سارے فساد کا
ذمہ دار ہے اور اسے گھسیٹتا ہوا نئے پاکستان کے دھرنے میں لے آؤں۔اگر نواز
شریف سیدھی طرح استعفیٰ نہیں دیتے تو آخری چارہ کار کے طور پر مجھے یہ کرنا
ہی پڑے گا۔بھانڈا پھوٹنے سے پہلے پہلے نواز حکومت مستعفی ٰ ہو جائے تو اسی
میں اس کی بھلائی ہے۔ </span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">آخر میں ایک وضاحت کرتا چلوں کہ بابا جی سے میری یہ ملاقات عالمِ رویا میں ہوئی تھی اس لیے جملہ دروغ بر گردنِ بابا جی ۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-34684228858051776802014-08-20T09:52:00.000+05:002014-08-24T20:54:07.532+05:00جب دیوتا بونے بنتے ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">سیاسی بصیرت اور قائدانہ بالغ نظری اگر کسی چڑیا کا نام تھا تو وہ اب تک
تحریکِ انصاف کے گھونسلے سے پرواز کر چکی ہے ۔ سول نافرمانی اوراسمبلیوں سے
استعفے کے بعد ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ تحریکِ انصاف کی قیادت
سے زیادہ اس مارچ میں آئے ہوئے لاہور کے ماجھے گامے اور پشاور کے گل خان کر
رہے ہیں۔ جب قیادت اپنے کارکنوں کے ہاتھوں </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">یرغما ل بن جائے اور سڑک چھاپ
کارکن فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگیں تو پھر سیاست پر فاتح پڑھ لینی چاہیے۔
عمران خان اپنی شعلہ بیانی کے زعم میں نواز شریف اور ان کی پارٹی کے خلاف
جنوں بھوتوں کے جو قصے اپنے جنونیوں کو سناتے رہے ہیں</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://4.bp.blogspot.com/-KCRAqh2qooE/U_R-oDZmkEI/AAAAAAAABdE/_pEGwhcosqA/s1600/imran%2B1.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://4.bp.blogspot.com/-KCRAqh2qooE/U_R-oDZmkEI/AAAAAAAABdE/_pEGwhcosqA/s1600/imran%2B1.jpg" height="377" width="640" /></a>اب انہوں نے ثمر دینا
شروع کر دیے ہیں۔ اٹھارہ سال کی شبانہ روز تگ و دو سےعمران خان نے اپنا جو
بت اپنے ماننے والوں </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">کے ذہنوں میں تراشا تھااب اس کی پوجا شروع ہوگئی ہے
اور پجاری ہر قربانی دینے کے لیے بظاہر تیار بیٹھے ہیں۔ آزادی مارچ میں
بھڑکیلی تقریروں سے دیوتا عمران خان کا قد شاید کچھ اور بڑھ گیا ہو لیکن
سیاست دان عمران خان بہت بونہ لگنے لگا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
کچھ لوگو ں کا یہ خیال کہ مارچ میں دس لاکھ لوگوں کو لانے میں ناکامی کی
خفت کا بدلہ عمران خان پاکستان کی مظلوم و مقہور جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں
اس وقت درست دکھائی دینے لگتا ہے جب عمران اور پی ٹی آئی کی قیادت واشگاف
الفاظ میں مارشل لا لگنے کے خدشے کا اعتراف کر تی دکھائی دیتی ہے ۔ نواز
شریف کی ہٹ دھرمی پر اسے کوسنے دیتے ہوئے تحریکِ انصاف اپنی انا پرستی سے
صرف نذر کر جاتی ہے اور ممکنہ مارشل لا کا سارا ثواب نون لیگ کی جھولی میں
ڈالتی دکھائی دے رہی ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ عمران مارچ کی بند گلی میں
پھنسنے کے بعد اب بے نیل و مرام واپس جانے کی شرمندگی برداشت کرنے کی سکت
نہیں رکھتے ۔ نہ ڈرنے والا نہ جھکنے والا لیڈر بھلا اپنے مطالبے سے الٹے
پیروں واپس آنے کی خفت کیسے ہضم کر سکتا ہے ۔ خود کو ہرکولیس اور سپر مین
بنا کر پیش کرنے میں یہی مسئلہ ہے کہ پھر لیڈر عام انسان نہیں بن سکتا۔ وہ
عام انسان جو خون خرابے سے بچنے کے لیے اپنی انا کی قربانی دینے میں
ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔عمران خان اپنے خیالی جنت کے حصول میں اس وقت ایک
ایسے راستے کی طرف چل پڑا ہے جہاں وہ اپنے کارکنوں کے خون سے اقتدار کی
سیڑھی کو سینچنا چاہتا ہے۔ خود عمران خان اور ان کی جماعت خیبر پختونخواہ
کے تجربے سے یہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ پاکستان کے گنجلک مسائل ایک سال
میں اللہ دین کا جن بھی حل نہیں کر سکتااس لیے نون لیگ کے خلاف صرف ایک سال
بعد یورش کا تعلق انتخابی دھاندلی یاگڈ گورننس سے کسی طرح بھی نہیں ہے اس
جہاد کے تانے بانے کہیں اور جا کے ملتے ہیں۔</span><br />
<a name='more'></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
موجودہ بحران میں مسلم لیگ نون پی ٹی آئی اور اس کے ساتھ شامل تانگہ
پارٹیوں کے علاوہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کی سازشوں کے نشانے پر بھی
دکھائی دے رہی ہے۔ قادری صاحب کے انقلاب کو ماڈل ٹاؤن سے اٹھا کر اسلام
آباد لا بٹھانے کا سہرا ایم کیو ایم کے سر ہے جس نے یہ ضمانت لی تھی کہ
قادری صاحب کا انقلاب پر امن رہے گا لیکن اب جبکہ قبلہ قائدِ انقلاب
مذاکراتی ٹیموں سے ملنے سے انکاری ہو چکے ہیں تو ایم کیو ایم کی طرف سے
پراسرار خاموشی معنی خیز ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جس کے جمہوری
چمپیئن لیڈر نون لیگ کو بڑے خلوص سے یہ مشورہ دیتے رہے تھے کہ اجتجاج کر نا
ہر پارٹی کا جمہوری حق ہے اس لیے قادری و عمران کو اسلام آباد میں میلہ
سجانے دیناچاہیے اب جبکہ حالات بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں تو جمہوریت پر کوئی
آنچ نہ آنے دینے کے پھسپھسے نعروں کے علاوہ یہ کچھ بھی کرنے پر آمادہ
دکھائی نہیں دے رہے۔ یہ خیال بعید از قیاس نہیں کہ نون لیگ کی حکومت کا
دھڑن تختہ کرنے کی سازش میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آزادی اور انقلاب
مارچ کے پسِ پردہ حمایتی ہوں کیوں کہ ۲۰۱۸ تک انتظار کرنا شاید ان پارٹیوں
کے لیے بھی کوئی اتنا مرغوب نہیں ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
سازشیں جہاں بھی بنتی اور پھوٹتی رہی ہوں پاکستان کے سیاست دان آج اگر
جمہوریت کو عمران خان کی ہٹ دھرمی اور قادری کی ضد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں
تو پھر یہ ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مارشل لاؤں سے پے درپے ماریں
کھانے اور قربانیاں دینے کے باوجود انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ آزادی
اور انقلاب مارچ والے لیڈروں کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے جمہوریت کی بساط
لپٹ گئی تو ان کا نیا اور انقلابی پاکستان ان کے مر جھاے ہوئے خوابوں میں
ہی کسمساتا رہ جائے گا کیونکہ آمریتیں پرانے پاکستان کو زیادہ پسند کرتی
ہیں! اقتدار کی خواہش ایک مثبت جذبہ ہے لیکن جب یہ جذبہ حد سے بڑھ جائے اور
عملی جامہ پہننے کے لیے خون مانگنے لگے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ فرزانگی
اور دیوانگی کے درمیان باریک خطِ فاصل عبور کی جاچکی ہے ۔ دیوانے قصے
کہانیوں اور غزلوں میں مست خرامی کرتے تو اچھے لگتے ہیں اسلام آباد کی
سڑکوں پر ڈنڈے لہراتے انقلاب اور نئے پاکستان کے نعرے لگاتے مناسب نہیں
لگتے ۔ ایٹمی پاکستان کی آج جگ ہنسائی ہو گی ، قد آور لیڈر آج بونے بنیں گے
یا پاکستان اس ابتلا سے بھی سرخرو ہوگا اگلی چند گھڑیاں اس کا فیصلہ کریں
گی۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-66955961294280630172014-08-19T13:20:00.000+05:002014-08-24T20:54:36.293+05:00کیا مارچر مارشل لا کے منتظر ہیں<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے سجائی گئی خوابوں
کی جنت کو دو دن بیت چکے ہیں ۔جنتیوں کے جنون اور عقیدت کے پیمانے ابھی
لبریز ہیں اورحکومت کو ابھی کچھ اور دن شاید انقلابی لیڈروں کی بے معنی
للکاریں برداشت کرنی پڑیں۔ </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">دنیا بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیروکاراپنے اپنے لیڈروں کو وہ
مسیحا سمجھتے ہیں جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے ۔ دنیا بھر کی
جماعتوں کے سیاسی ورکر اپنے لیڈر وں کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت
تیار </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://4.bp.blogspot.com/-qXvN_PN2EsA/U_SBv933-zI/AAAAAAAABdM/6KfaUSSBMpY/s1600/imran%2B2.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://4.bp.blogspot.com/-qXvN_PN2EsA/U_SBv933-zI/AAAAAAAABdM/6KfaUSSBMpY/s1600/imran%2B2.jpg" height="377" width="640" /></a>رہتے ہیں ۔ وہ ان کے اشاروں پر ریلیاں نکالتے، مارچ کرتے اور دھرنے
دیتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لیے یہ ہر طوفان سے ٹکراتے ہیں، مصائب و مسائل کی
آندھیوں کامقابلہ کرتے ہیں اورانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے
ہیں۔ سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے ۔
جہاں یہ ایندھن ٹھنڈا پڑتا ہے سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عرش سے فرش پر آ
گرتے ہیں۔ فرش نشیں ہونا سیاسی لیڈروں کو چونکہ اتنا پسند نہیں ہوتا اس
لیے یہ اپنے ورکروں کے جنون کو جھوٹے سچے نعروں سے ہوا دیتے رہتے ہیں ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پاکستان کے سیاسی ورکر دنیا بھر کے سیاسی ورکروں کی جملہ خصوصیات کے ساتھ
ساتھ کچھ ایسی منفرد خاصیتیں بھی رکھتے ہیں جو دنیا کے کسی اور گوشے میں
نہیں پائی جاتیں ۔ہمارے سیاسی ورکر اپنے لیڈرو ں میں پیغمبرانہ خصوصیات پر
بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر ہر خطاؤں سے مبرا ہے ۔
جھوٹ ،منافقت ، موقع پرستی اور ابن الوقتی سے کوسوں دور اور ذاتی منفعتوں
کی آلائشوں سے یکسر پاک ہے۔ یہ سمجھتے ہیں ان کا لیڈر عام انسانوں سے بلند
اللہ کا وہ ولی ہے جس سے غلطی سر زد ہونے کا ایمان رکھنا سیاسی کفر ہے ۔ یہ
اپنے لیڈر کے مونہہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو وحی سمجھتے ہیں اور اس سے
اختلاف رکھنے والے سے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ
تاریخ ایسے الوہی لیڈروں اور ان کے فدائی حشیشین سے بھری ہوئی ہے ا وراگر
بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی ’’ ہوش ربا ترقی‘‘ کا راز بھی یہ
لیڈر اور ان کے سیاسی ورکر ہی ہیں۔</span><br />
<a name='more'></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
پاکستان تحریکِ انصاف کے عمران خان اور ان کے جنونی ورکر اسی سلسلے حشیشیہ
کا جدید ترین ور ژن ہیں ۔ عمران خان نے اپنی ولایت کے ساتھ ساتھ اپنے
مخالفوں کی شیطانیت پر ایمان بھی اپنے ورکروں کے عقیدے میں شامل کر دیا ہے
چناچہ اب عمران کے پیروکار صدقِ دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر سچا اور
باقی ساری دنیا جھوٹی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ان کا لیڈر پاکستان سے
مخلص اور باقی ساری دنیا منافق ہے۔ اپنی سب سے بڑی حریف جماعت مسلم لیگ
نون کو سراپا برائی بنا کر پیش کرنے کے بعد عمران خان اب اس طاغوت سے آزادی
دلانے کے لیے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں بیٹھے ہیں اور
کسی معجزے کے منتظر ہیں ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
عمران خان کی فہم و فراست کو سامنے رکھتے ہوئے یہ ماننا مشکل ہے کہ عمران نے
ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والی نواز حکومت کے مستعفی ہونے کا
مطالبہ جذبات کی رو میں بہہ کر کر دیا ہے۔ یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ
عمران خان سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ دس بیس ہزار لوگ اکٹھے کرکے وہ دو
تہائی اکثریت سے اقتدار میں آنے والی پارٹی کی حکومت کو گرا سکتے ہیں ۔ اس
امر کا فیصلہ آنیولے دنوں اور ہفتوں میں ہو جائے گا کہ وہ کون سی سیاسی یا
غیر سیاسی مجبوریاں یا مصلحتیں تھیں جنہوں نے عمران کو اس انتہا کی طرف
دھکیلالیکن اتنا واضح ہے کہ عمران کے آزادی مارچر جمہوریت کی کوئی خدمت بجا
نہیں لارہے۔ اگر منتخب حکومتوں پر جھوٹے سچے الزامات لگا کر گرانے کی
روایت پھر شروع ہو جاتی ہے تو مستقبل میں اس کا شکار خود عمران خان بھی ہوں
گے ۔ عمران کے پڑوس میں انقلاب کی شمعیں جلانے کی ناکام کوششیں کرنے والے
قادری صاحب سے اس لیے گلہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ ایک نیم سیاسی اورنیم
مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں جس کا سیاست سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں۔
قادری صاحب کا مارچ پچھلے سال کے انقلاب کی یاد میں منائے جانے والے عرس سے
زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتا اس لیے ان کی دھمکیوں پر کوئی کان نہیں دھر
رہااور سب کی توجہ کا مرکز ابھی تک عمران خان ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ عمران خان اور قادری صاحب کے درمیان انقلابی
اور سیاسی اشتراکِ خیال ہو نہ ہو ایک جذباتی وابستگی ضرور موجود ہے ۔دونوں
کے مطالبات میں بے سرو پائی کے باوجود دونوں کے کارکن نہایت اخلاص سے ان
کے پورا ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ عمران خان اور قادری
صاحب کسی ایسی انہونی کے منتظر ہیں جس میں ان کو کچھ ملے نہ ملے نواز شریف
سے سب کچھ چھن جائے ۔سیاسی ڈیڈ لاک کے منڈلاتے بادلوں ، انقلابیوں اور نئے
پاکستان والوں کی موٹی موٹی اناؤں اور حکومت کی بے تدبیریوں کو دیکھا جائے
تو یوں لگتا ہے کہ موجودہ بحران کا حل غیر سیاسی قوتوں کو ہی کرنا پڑے گا
اور مارچرغالبا اسی ’’خو ش خبری ‘‘کے منتظر ہیں ۔ فوجی بوٹوں کی دھول میں
شاید مارچ کرنے والوں کی خفت اور شرمندگی وقتی طور پر چھپ جائے لیکن
پاکستانی سیاست کے مونہہ پر لگنے والے کالک کئی دہائیوں تک نہ مٹ سکے گی۔
ایک لولی لنگڑی جمہویت بہت طاقتور آمریت سے ہزار درجے بہتر ہے عمران اور ان
کے جنونی جتنی جلدی یہ سمجھ سکیں ان کے سیاسی مستقبل کے لیے یہ بہتر ہے ۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-72673399461813801562014-08-13T16:56:00.001+05:002014-08-24T20:55:07.190+05:00مارچوں کا موسم اور مشرف کا بھوت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<a href="http://3.bp.blogspot.com/-FGmfaCZ5zA0/U_SEzij-w8I/AAAAAAAABdY/VqhM2Q7Xo4w/s1600/musharaf.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"></a><a href="http://3.bp.blogspot.com/-FGmfaCZ5zA0/U_SEzij-w8I/AAAAAAAABdY/VqhM2Q7Xo4w/s1600/musharaf.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">تیسری دنیا میں بسنے والی انسان نما مخلوق کے بہت سے مشترکہ دکھوں میں سے
ایک دکھ یہ بھی ہے کہ یہاں آمر اقتدار سے دھتکارے جانے کے باوجود طاقت ور
رہتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے
کے باوجودسوکھے پتوں کی طرح لرزتے رہتے ہیں۔ مشرف کو اقتدار کے کوچے سے بے
آبرو ہو کر نکلے چھ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی ساری
کوششوں کا محور آج بھی مشرف کو بچانا یا اسے لٹکانا ہے۔ نواز شریف بھاری
</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">اکثریت لے کر حکومت میں آئے لیکن صرف ایک سال بعد ہی ان کی حکومت پر کپکپی
طاری ہے ۔ انقلابوں اور آزادی </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://3.bp.blogspot.com/-FGmfaCZ5zA0/U_SEzij-w8I/AAAAAAAABdY/VqhM2Q7Xo4w/s1600/musharaf.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://3.bp.blogspot.com/-FGmfaCZ5zA0/U_SEzij-w8I/AAAAAAAABdY/VqhM2Q7Xo4w/s1600/musharaf.jpg" height="378" width="640" /></a>مارچوں میں گھری ہوئی پاکستان کی ناتواں
جمہوریت ایک دفعہ پھر کسی متوقع گینگ ریپ کا شکار ہونے کے خیال سے لرزہ بر
اندام ہے اور تیسری دنیا کی انسان نما مخلوق زندہ باد ،مردہ باد ،آوے ہی آوے
اور جاوے ہی جاوے کے نعرے لگانے میں حسب معمول مست ہے۔</span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
اس امر کو سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاہر القادری
صاحب کے انقلابی اور عمران خان کے آزادی مارچ نے پاکستان میں جس سیاسی عدم
استحکام کو جنم دیا ہے اس کا فائدہ ان انقلابیوں کو ہو نہ ہو سابقہ آمر
پرویز مشرف کوضرور ہوگا۔ بہت سے ذہنوں میں اس سوال نے جنم لینا شروع کر دیا
ہے کہ کہیں آزادی مارچ مشرف کو آزادی کا پروانہ تھموانے کے لیے تو نہیں
رچایا جا رہا؟ کہیں انقلاب کی ساری تان اس انتشار پر تو نہیں ٹوٹے گی جس کا
فائدہ اٹھا کر مشرف سارے گناہوں سے دھل دھلا کر پردیس سدھار جائے گا؟ کہیں
وہ جن کے ہاتھ میں اصل اقتدار کی لاٹھی ہے اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے
لیے انقلابیوں اور نئے پاکستان والوں کو اپنی کئی دہائیوں سے آزمودہ ٹکٹکی
پر تو نہیں نچا رہے ؟ سوالوں کا اژدحام ہے اور عام پاکستانی حیران ہیں کہ
کس پر ایمان لائے اور کس سے برا ء ت کا اظہار کرے ؟</span><br />
<a name='more'></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
دلچسپ بات یہ ہے کہ 14 اگست کو مارچوں کی یلغار کرنے والے انصافیوں اور
انقلابیوں کے بیان کیے گئے مقاصد میں بعدِ مشرقین ہے۔ ایک طرف قادری سارے
نظام کو تلپٹ کر کے ایک خیالی انقلابی کونسل کے ذریعے ملک پر راج کرنے کے
سپنے خود بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنے پیرو کاروں کو بھی دن رات یہ بے سرو
پا خواب دکھا رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان انقلابی اصلاحات اور مڈ ٹرم
انتخابات کا نعرہ لگا کر اپنے جنونی پیروکاروں کے پہلے سے ابنارمل جنون
کومزید بڑھکا رہے ہیں۔ سیاست کاایک عامی طالبِ علم بھی آسانی سے سمجھ سکتا
ہے کہ دونوں کے مطالبات نہایت غیر سنجیدہ ہیں اور ان کا پورا ہونا
ناممکنات میں سے ہے۔ اگریہ دونوں اپنے ا ن مطالبات پر ڈٹ جاتے ہیں اور ڈیڈ
لاک کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو پھرفرشتے کون سا انقلاب لے کر آسمانوں سے
اتریں گے یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ قادری صاحب کے بارے میں اگرچہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی لیکن عمران کے متعلق یہ ماننا ممکن نہیں کہ
وہ محض اپنے نام کے نعرے لگوانے کے لیے لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد میں
اکٹھا کر رہے ہیں۔جاہ پسندی اور خود نمائی کا شک قادری صاحب پر کسی حد تک
کیا جا سکتا ہے عمران یقیناًاس سے مبرا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر
خود نمائی کا شوق بھی نہیں اور مطالبات بھی وہ ہیں کہ جن کو پورا کرنا کسی
حکومت کے لیے جیتے جی ممکن نہیں تو پھر مارچوں کاآخری مقصد کیا ہے؟
مارچوں کو مشرف کی رہائی والی تھیوری سے منسلک کرنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ
ان مارچوں کا مقصد اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہ حکومت کو اتنا کمزور اور بے
حال کر دیا جائے کہ یہ مشرف کے معاملے پر گھٹنے ٹیک دے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />طاہر القادری کے ارد گرد کھڑے چہروں پر نظر ڈالی جائی تو مشرف کے لیے ان کے
دل میں اٹھنے والی ہوک کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ مشرف کی سرکار سے فیض اٹھانے
والوں میں چوہدری برادران اورشیخ رشید سب سے نمایاں تھے اور اب ستم ظریفی
یہ ہے کہ قادری صاحب کے انقلاب کی مشاورتی باگ بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔
مشرف کے کھائے گئے نمک کو حلال کرنے والے صرف قادری صاحب کے انقلاب کی رتھ
پر ہی سوار نہیں عمران خان کے نئے پاکستان کی ویگن بھی مشرف سے محبت کرنے
والوں سے بھری ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین مشرف کے
محبوب ترین وزر ا میں سے ایک تھے۔ وہ اور ان جیسے موقع پرستوں کا ایک جتھا
اس وقت عمران کواسی طرح گھیرے ہوئے ہے جیسے کبھی یہ مشرف کے گرد قوالی کیا
کرتا تھا۔ عمران کو ایک اندھے مارچ کی طرف دھکیلنے میں یقیناًاس جتھے نے
بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ جذباتی کپتان کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا
لیکن ان کے مشیروں کی نیتوں پر بڑے بڑے سوالیہ نشان مشرف والی تھیو ری کو
تقویت پہنچا رہے ہیں۔ مشرف کا گذشتہ روز آل پاکستان مسلم لیگ سے ٹیلیفونک
خطاب بھی کچھ نئی کہانیاں سنا رہا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ مشرف کے خلاف بنائے گئے
غداری کے مقدمات پر آمریت کے لیے مستقبل کے دروازے کھلے رکھنے کی خواہش
پالنے والے کچھ حلقوں کو سخت تکلیف تھی۔ چونکہ میڈیا اور عدلیہ اس خواہش کی
راہ میں رکاوٹ تھے اس لیے پہلے میڈیا کے ایک بڑے حصے کومختلف بھونڈے
الزامات کے ذریعے بے توقیر کیا گیا پھر عدلیہ پر الزامات کا کیچڑ اچھال کر
اسے بے وقعت کرنے کی کوشش کی گئی۔میڈیا اور عدلیہ کے بعد اب آخری وار
حکومت پر کیا جا رہا ہے ۔ دکھ یہ ہے کہ حق گوئی اور بے باکی کا پرچارک
عمران خان جو سیاست کی غلاظتوں میں گھرنے سے پہلے ایک سیدھا ، سچا اور کھرا
انسان تھا اس ساری کمپین میں سب سے آگے ہے ۔ لیڈری کے نشے میں شاید عمران
خان یہ بھول گئے ہیں کہ جب میڈیا بے توقیر ہو جائے، عدلیہ سے اعتماد اٹھ
جائے اور حکومت گالی بن جائے تو پھر انقلاب کے پھریرے اڑاتی سیاسی جماعتیں
بھی بے معنی ہو جاتی ہیں اور اعتماد کے قابل صرف فرشتے ہی رہ جاتے ہیں۔
عمران پچھلے کئی سالوں سے نون لیگ کے خلاف نفرت کے جو بیج اپنے ماننے والوں
کے دلوں میں بوتے رہے ہیں اب حکومت گرا کر اس کا پھل کاٹنا چاہتے ہیں لیکن
نفرت کی یہ فصل کون کاٹے گا اور اس کا پھل کون کھائے گا اس کا فیصلہ شاید
عمران کے ہاتھ میں نہ رہے۔کون جانے مشرف کا بھوت کب تک پاکستانیوں سے
ناکردہ گناہوں کا خراج وصول کرتا رہے لیکن کم از کم عمران کو اس سیاہی سے
اپنی سیاست داغدار نہیں کرنی چاہیے۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-14244159247679441482014-08-09T21:34:00.000+05:002014-08-20T16:38:39.432+05:00ایک ناقابلِ فخر ورثہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ترقی کے آسمان پر ہلکورے لیتا مغرب ہو یا پسماندگی کے گٹر میں کسمساتا مشرق
توہم پرستی نوعِ انسانی کا وہ مشترکہ دائمی مرض ہے جسے علم و آگہی کی
صدیوں پر پھیلی جدوجہد بھی کمزور نہ کر سکی۔ وہم کی فیکڑیوں اور کارخانوں
سے نکلنے والے وائرس کے سامنے دانش وروں کی دانش، سائنس دانوں کی سائنس،
فلسفیوں کا فلسفہ اور عالموں کا علم سب ہیچ ہیں۔صدیوں </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://4.bp.blogspot.com/-1L3oy6CyUc0/U_SGhVqIcvI/AAAAAAAABdk/3m9TmVmyHMU/s1600/mysterious%2Bwoman.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"></a></span></span>سے وہم کی آندھیاں
یقین کی کھیتیوں کو اجاڑتی ، دلیل کی فصیلوں کو مسمار کرتی اور منطق کے
قلعوں کوڈھاتی رہی ہیں ۔نسلِ </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">انسانی کے غاروں سے لے کر خلا تک کے سفر میں
وہم نے اسے اپنا اسیر کیے رکھا ہے۔ مذاہب آسمانی جو انسانوں کو وہم کی وادیوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑے کرنے کے لیے وجود میں آئے تھے
وقت کی گرد نے ان کو ایسا مسخ کیا کہ یہ خود توہم پھیلانے کا سب سے بڑا
ذریعہ بن گئے ۔ اب چار سو وہم کی حکمرانی ہے اور پاکستان کا نورا مصلی ہو
یا امریکا کا </span><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://4.bp.blogspot.com/-1L3oy6CyUc0/U_SGhVqIcvI/AAAAAAAABdk/3m9TmVmyHMU/s1600/mysterious%2Bwoman.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://4.bp.blogspot.com/-1L3oy6CyUc0/U_SGhVqIcvI/AAAAAAAABdk/3m9TmVmyHMU/s1600/mysterious%2Bwoman.jpg" height="378" width="640" /></a></span></span></span>نارمن ایڈورڈ ، ہندوستان کی جیراں مائی ہو یا برطانیہ کی جینا
ولسن سب وہم کے جال میں گرفتار ہیں۔</span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />توہم پرستی کاتازہ ترین مظاہرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکامیں پیش
آیا ۔امریکہ کے گلی کوچوں میں آج کل ایک ایسی سیاہ پوش عورت کی پر اسراریت
کے تذکرے ہیں جو پیادہ پا ایک ناتمام سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ اپنے خیالوں
میں گم دنیا و مافیہا سے بے پرواہ یہ عورت پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل عازمِ
سفر ہے۔ اس عورت کی اس انوکھی یاترا کی طرف توجہ مبذول کروانے کا سہرا فیس
بک پر بنائے گئے ایک پیج کو جاتا ہے جس نے امریکا کے توہم پرستوں کو ایک
نئے موضع پر مغز ماری کا موقع فراہم کیا ہے۔ ’’پراسرار عورت کہاں ہے ‘‘نامی
اس صفحے پر امریکی اس عورت کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج کرتے ہوئے
بڑے دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں ۔ کسی کے خیال میں یہ کوئی بھٹکی ہوئی روح ہے
جو بستی بستی پھر کر اپنے نامعلوم کرب کی تسکین کر رہی ہے، کوئی اس کو
فرشتہ سمجھ رہا ہے جو انسانوں کو بہ زبانِ خامشی کوئی پیغا م دینا چاہ رہا
ہے ، کسی کے نزدیک یہ کوئی بھوت ہے جو کسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا
ہے، کچھ سیانے اسے خلائی مخلوق کا زمینی ورژن سمجھ رہے ہیں۔ ذرا زیادہ دور
کی کوڑیا ں لانے والے اسے خدا کی ولی اور پیغمبر تک قرار دے رہے ہیں ۔ کچھ
کم تر درجے کے توہم پرستوں کے نزدیک یہ کوئی مسیحا ہے جو بھٹکی انسانیت کو
سیدھے راستے پر لانے کے لیے خود گاؤں گاؤں بھٹک رہا ہے۔ بہت سے جذباتی توہم
پرست تو ابھی سے اس کے مرید ہو کر نہایت شدو مد سے ’’ہمیں سیاہ پوش عورت
کے پیغام کو سمجھنا ہو گا‘‘کے نعرے لگا لگا کراس کے پیغام کو پھیلانے میں
جی جان سے جت گئے ہیں اگر چہ اتنا انہیں خود بھی نہیں پتا کہ پیغام ہے
کیا؟امریکی توہم پرستوں کی یہ معصومانہ ادا مجھے نہ جانے کیوں پاکستان کے
بہت سے انقلابیوں سے ملتی جلتی لگتی ہے ! ہمارے انقلابی بھی ایک ایسے ہی
مشکوک سفر پر گامزن مردِ پر اسرار کے پیغام کو پھیلانے میں مگن ہیں جس کے
انوکھے سفر کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔</span><br />
<a name='more'></a></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
جب معلومات تک رسائی کے ذرائع محدود تھے تو مشرق اور بالخصوص جنوبی ایشیا
کو توہم پرستیکا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ بھبھوت مَلے ، دھونی رمائے ، لٹیں
لٹکائے ، سرخ سرخ دیدے نکالے ہندو جوگی اور ان سے منسلک پراسراریت دنیا کو
متحیر رکھتی تھی اور ہندؤں کی ہاتھیوں ، بندروں اور سانپوں کو پوجنے کی
رسموں پر پوری دنیا بالخصوص مغرب سے جہالت اور توہم پرستی کے فتوے داغے
جاتے تھے۔ اسی خطے میں بسنے والے مسلمانوں کے تعویز گنڈے ، پیر پرستی اور
مزاروں پر سجنے والے میلوں ٹھیلوں پر بھی تنقید کے تیر برسائے جاتے تھے
لیکن دنیا کے گوبل ولیج بننے نے مغرب کے بہت سارے بھرم توڑ دیے ہیں ۔ اب ہم
جانتے ہیں کہ جہالت اور توہم پرستی صرف ہماری ہی میراث نہیں مغرب بھی اس
میں پورا پورا حصے دار ہے بلکہ مغرب کے توہم پرست ہمارے توہم پرستوں سے
زیادہ کٹر اور ’راسخ العقیدہ‘ ہیں کیوں کہ علمی اور سائنسی انقلاب بھی
توہم پرستی پر ان کے ایمان کو نہیں ڈگمگا سکے ۔ روشن خیال مغرب توہم پرستی
کی تاریکیوں میں ہمیشہ سے گھرا رہا ہے لیکن تنقید کی توپیں ہمیشہ مشرق پر
چلاتا رہا ۔ مشرق کی آنکھ کا تل بھی مغرب کے دل میں کھٹکتا رہا لیکن اپنی
آنکھکا شہتیر اسے کبھی نظر نہیں آیا۔</span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ توہم پرستی کم علمی اور غربت کی کوکھ سے جنم
لیتی ہے۔یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ انسان جب علم سے دوری کی وجہ سے بہت
سے ارضی اور سماوی مظاہر کو سمجھ نہیں پاتا تو وہ وہم کی گود میں پناہ لے
کر کوئی ایسی توجیہہ کر لیتا ہے جس سے اس کا دل و دماغ مطمئن ہو جائیں ۔
اسی طرح چونکہچونکہ غریبوں کو صدیوں تک علم کی عیاشی سے دور رکھا گیا اس
لیے ان کے اندرتوہم پرستی بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ لیکن انفارمیشن
ٹیکنالوجی کے برپا کئے گئے انقلاب کی برکت سے ہم یہ جان پائے ہیں کہ توہم
پرستی کا کم علمی یا غربت سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جس کا پروپیگنڈا آج تک
یورپ کرتا رہا ہے۔ مغرب کا ترقی یافتہ فرد علم اور دولت کی چکا چوند میں
بھی آج اگر کسی سیاہ پوش عورت کیجہاں گردی میں اپنے دکھوں کا مداواتلاش کر
رہا ہے تو پھر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ توہم پرستی کسی ایک قوم ، علاقے
یا مذہب تک محدود نہیں یہ ساری انسانیت کا ناقابلِ فخر ورثہ ہے ۔ یہ وہ
مرض ہے جس میں مشرق و مغرب کی تخصیص نہیں ۔ </span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-55463310699691406322014-08-02T22:39:00.000+05:002014-08-20T20:20:55.972+05:00دو لیڈر ایک کہانی<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">کارزارِ سیاست ہو یا کارِ عشق ہردو میدانوں کے جگر آزماؤں کو ملامتوں اور
تہمتوں کے تیر کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے اس لیے گالیاں کھا
کے بھی بے مزہ نہ ہونے کی صفت ان کے اند ر بدر جہ اتم پائی جاتی ہے ۔ ان
میدانوں کے شاہ سوار دشنام کو انعام سمجھ کر سینے سے لگاتے ہیں کیوں کہ
گالیاں ان کے لیے مفت کی ناموری کا سامان لے کر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہ کبھی تہمتوں کے
اس جوہڑ سے گزرنا پڑتا ہے ۔بہت کم سیاستدان تدبر کی کاریگری سے اپنا دامن
ان ملامتی آلائشوں سے بچا پاتے ہیں ۔ جدید مغربی سیاست مخالفین کو نیچا
دکھانے کے لیے ہر نیچ </span><br />
<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><a href="http://4.bp.blogspot.com/-J9fod_qGRKE/U_S8rbVC33I/AAAAAAAABd0/Q6OSrZRxkwk/s1600/Tayyab.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" src="http://4.bp.blogspot.com/-J9fod_qGRKE/U_S8rbVC33I/AAAAAAAABd0/Q6OSrZRxkwk/s1600/Tayyab.jpg" height="378" width="640" /></a></span></div>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">پن کو مباح سمجھتی ہے اس لیے سیاست دانوں کی ذاتی
زندگی سے لے کر ان کی مجلسی زندگی تک کو تنقید کی سولی پر چڑھا کر پرکھا
جاتا ہے ۔ سخت جان جانبر ہو جاتے ہیں جو ذرا کم ڈھیٹ ہوں رسوائیاں گلے میں
لٹکا کر اس کوچے سے کنارہ کر جاتے ہیں ۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا
روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات
کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر
گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی
خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصا تہمتوں کا بازار
خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے
خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے
بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ
امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی
بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر
اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔ سیاست کے اس حمام میں
چونکہ سارے ہی ننگے ہیں اس لیے کسی کو اپنا ننگا پن معیوب نہیں لگتا ۔ یہی
مغربی سیاست کا اصول ہے اسی پر مغرب و مشرق کے جملہ سیاست دان عمل پیرا
ہیں ۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
مغربی طرزِ سیاست کی اس ملامتی روایت کا تازہ ترین شکار ترکی کے طیب اردگان
ہوئے ہیں ۔ جرمنی میں قائم ایک ترک نائٹ کلب نے طیب اردگان کے حامیوں اور
مخالفوں کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اس نائٹ کلب نے اپنی ویب سائٹ
پر ’باذوق‘ لوگوں کو اگلے مہینے ہونے والے ترکی کے صدارتی انتخابات میں طیب
اردگان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایک سال کی مفت ممبر شپ کی پیش
کش کی ہے ۔ سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ شراب و کباب کی بیخ کنی کرنے والے
طیب اردگان کے صدر بننے میں مے خواروں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ۔ سیکولر
اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یر غمال ترکی کی گھٹن زدہ سیاست میں طیب اردگان اور
ان کی جسٹس پارٹی ۲۰۰۳ ء میں بہارِ نو کا وہ جھونکا بن کر آئی تھی جس نے نہ
صرف ترکی کی سسکتی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ بہت سرعت سے ترکی
کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے بھی کام کیا۔ مسلسل تین دفعہ وزیراعظم
منتخب کرنیکے بعد اس سال یکم جولائی کو جسٹس پارٹی نے طیب اردگا ن کو اپنا
صدارتی امیدوار منتخب کر کے سیاسی مخالفوں کو بھونچکا ہونے پر مجبور کر
دیاہے۔ جہاں عوام میں طیب اردگا ن کی مقبولیت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی
جا رہی ہے وہیں ان کے مخالفین کی فرسٹریشن بھی عروج پر ہے ۔ نائٹ کلب والا
قضیہ اسی فرسٹریشن کا ایک بیہودہ اظہار ہے۔ گذشتہ سال مصری ہنگاموں سے
متاثر ہو کر ترکی کے انتشار پسندوں نے بھی طیب اردگان کے خلاف طوفان برپا
کرنے کی کوشش کی تھیں ان پر کر پشن کے کن ٹٹے الزامات لگانے کی سازشیں بھی
کی گئیں لیکن اردگان کی سیاسی بصیرت نے مخالفین کی حسرتوں کو بن کھلے ہی
مرجھانے پر مجبور کر دیا۔ نائٹ کلب والی شرارت طیب اردگان کے روایتی ووٹروں
کوبد ظن کرنے کی ایک ایسی ہی مضحکہ خیز کوشش ہے جس سے اردگان کی صحت پر
یقیناًکوئی اثر نہیں پڑے گا۔ <br /><br />
اردگان ہی کی طرح ہمارے انقلابی عمران خان بھی کچھ تہمتوں کی زد میں ہیں ۔
تہمتوں کا یہ بھوت پچھلے کئی سالوں سے عمران کا پیچھا کر رہا ہے لیکن عمران
ہیں کہ گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ٹیرین جیڈ
خان کی ولدیت کے الزام پر عمران خان نہ صاف چھپتے ہیں اور نہ کھل کر سامنے
آتے ہیں اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی کونے سے ان کا کوئی مخالف
دیارِ مغرب میں ان کی ترک تازیوں کی اس یاد گار کو سامنے رکھ کر ان پر طعن
و تشنیع کے تیر برسانا شروع کردیتا ہے ۔ عمران خان ایک ایسے روایتی معاشرے
میں سیاست کر رہے ہیں جہاں اس الزام کو تسلیم کرنا اپنی سیات کا جنازہ
نکالنے کے مترادف ہے لیکن دوسری طرف عمران کے اندر کا شریف آدمی اس سے کھل
کر انکار کرنے پر بھی راضی نہیں اس لیے عمران کی مشکل سمجھ میں آتی ہے ۔
اپنی جوانی کے غیر انقلابی دور میں عمران سے جو لغزشیں ہوئیں کیا وہ نئے
پاکستان کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ ڈال پائیں گی یا نہیں یہ آنے والا وقت
بتائے گا لیکن اتنا تو بحر حال عمران کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاستدان وہ
پبلک پراپرٹی ہے جس کی ذاتی زندگی بھی ذاتی نہیں ہوتی اس لیے جن کو دین و
دل عزیز ہوتا ہے وہ سیاست کی گلی میں قدم نہیں رکھتے۔ مخالفین کے اوچھے
واروں سے بچ نکلنا نہ صرف اردگان اور عمران دونوں کی بقا کے لیے ضروری ہے
بلکہ ان کے ملکوں کا مستقبل بھی اسی سے جڑا ہے۔ یقیناًترکی اور پاکستان،
عمران اور اردگان شکستہ حال مسلم امہ کا مستقبل ہیں ۔ </span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-469752036359390862014-07-20T20:30:00.005+05:002014-07-23T17:53:22.117+05:00پاکستانی آئین کی ایک لاوارث شق<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div dir="ltr" style="text-align: right;" trbidi="on">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">نیت صاف ہو تو منزل خود دوڑ کر راہواروں کے قدم چومتی ہے اگر کھوٹ ہو تو یہ
دھندلکوں میں کھو جاتی ہے اور فرد ہو ، قافلے ہوں یا قومیں بے سمت ٹامک
ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بنانے والوں نے قومی اتفاق کی
بیل منڈھے چڑھانے کے لیے کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے اکھٹے کیے اور چوں چوں
کا وہ مربہ بنادیا جسے آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتے ہیں ۔
نیت میں ملاوٹ تھی یا آئین بنانے والے ان دیکھی مجبوریوں کے اسیر تھے کہ جو
بنایااس پرتین دہائیاں بیت جانے پر بھی عمل نہ کروایا جا سکا۔ اس آئین میں
چونکہ تمام طرز ہائے فکر کو حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت مناسب نمائندگی
دی گئی ہے اس لیے اس میں کچھ ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جن کا حقیقت کی
دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ آئین کی اسلامی دفعات ہوں، طبقاتی فرق ختم کرنے
کا وعدہ ہو، اقلیتوں کی آزادیوں کا ذکر ہو،سود کی لعنت سے چھٹکارے کا عزم
ہو یا اردو کو پندرہ سالوں میں سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کا دعویٰ
۱۹۷۳ کا آئین کچھ ایسے دیو مالائی قصوں سے اٹا ہوا ہے جن کا حقیقت کی دنیا
سے کوئی ناتانہیں ۔</span><br />
<a name='more'></a><span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یوں تو پاکستان کا آئین دنیا بھر کے آئینوں کی برادری میں سب سے مقہور و
مظلوم ہے کہ اس کے ساتھ ہر دور میں کھلواڑ ہوتا رہا ہے ۔ اس آئین کے تحت
حلف لینے والی کالی شیروانیاں ہوں یا اسے پاؤں تلے روند کر اقتدار تک
پہنچنے والی خاکی وردیاں سب نے اسے کاغذ کے ایک بے قیمت ٹکڑے سے زیادہ
اہمیت نہیں دی لیکن اس آئین کی سب سے راندۂ درگاہ شِق ۲۵۱ ہے ۔ یہ شق
آئینِ پاکستان میں قومی و سرکاری زبان کا تعین کرتے ہوئے خواب آور انداز
میں کہتی ہے : ’’ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور (اس آئین کے ) یومِ
آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے
استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے اور انگریزی زبان صرف اس وقت تک
سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کی جا سکے گی جب تک اس کے اردو سے تبدیل کیے
جانے کے انتظامات نہ ہو جائیں‘‘۔ انگریزی جو اس آئین کی رو سے محض وقتی
ضرورت پوری کرنے کے لیے تھی ہماری جڑوں میں ایسی بیٹھی کہ اردو کو دیس
نکالا دے دیا۔ بدیسی ہمارے اعصاب پر یوں سوار ہوئی کہدیسی زبان کی اہمیت
اور قدرو قیمت جاتی رہی اور پندرہ سال کا عرصہ پھیلتے پھیلتے لامحدود ہو
گیا۔ اب نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ اردو کے نفاذ کا ذکربہت نامانوس سا لگتا ہے
اور ہمارے نئی نسلوں کے گٹ پٹ کرتے ہونٹ اردو کی حلاوت سے یکسر محروم ہیں۔</span><br />
<br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ کی بے توقیری کا قصہ اب پرانا ہو چکا ہے اس لیے ہماری
قوم کے پاس اس کا ماتم کرنے کا وقت نہیں۔ یہ دلیلیں بھی اب اپنی وقعت کھو
بیٹھی ہیں کہ ہر قوم اپنی قومی زبان اپنا کر ہی ترقی کر سکتی ہے غیر زبانوں
کی غلامی سے مرعوبیت کی دلدل میں تو اترا جا سکتا ہے ترقی کے زینے طے
نہیں کیے جا سکتے۔ اقوام عالم کی یہ مثالیں سن سن کر بھی ہماری زود رنج قوم
اکتا چکی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں گزری جس نے
کسی اور قو م کی زبان اپنا کر کامیابیوں کے باب رقم کیے ہوں۔ ہماری بے نوا
قوم مصیبتوں کے تازیانے کھاکھا کر اب بے حسی کے اس درجے پر پہنچا دی گئی ہے
جہاں اسے نہ کامیابیوں کے قصے جوش دلاتے ہیں نہ ہی ناکامیوں کاخوف افسردہ
کرتا ہے اس لیے سرکاری زبان انگریزی رہے یا فارسی بن جائے اس کی بلا سے۔
ہمارے دانش مند حکمران قوم کی اس کیفیت سے پوری طرح آشنا ہیں اس لیے انہوں
نے بھی اردو کے نفاذ کے ذکر کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے۔ انگریزی سوٹ
پہن کر رٹی رٹائی انگریزی کا شغل جس فرنگی فخر سے دوچار کرتا ہے وہ بے چاری
اردو کے پاس کہاں اس لیے اب اردو کا سرکاری سطح پر نفاذ قصہ پارینہ بن چکا
ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
قومی زبان کی اجتماعی بے قدری کے اس عالم میں ماروی میمن کا قومی اسمبلی
میں اگلے روز علاقائی زبانوں کو قومی زبانیں قرار دلوانے کے لیے پیش کیے
جانے والا بل بڑھتے ہوئیلسانی تعصبات کا ایک واشگاف اظہار ہے ۔ اردو کی
انگریزی کے خلاف لڑائی میں علاقائی زبانوں کو اردو کے مد مقابل لاکھڑا کرنے
کا مقصد انگریزی کو مزید تقویت دینے اور اردو کی رہی سہی آبرو کو بھی
نیلام کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ بھلا ہو اسمبلی کی قائمہ کمیٹی
برائے قانون و انصاف کا جس نے اس بل کو رد کر کے آئین کے آرٹیکل ۲۵۱کو آبرو
ریزی سے بچا لیا۔ علاقائی زبانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،
ان کی چاشنی اور حلاوت کے بارے میں بھی کوئی دو رائے نہیں ، ان کے تہذیبی
ورثے کے امین ہونے پر بھی سب متفق ہیں اور اس امر میں بھی کسی کو اختلاف
نہیں کہ یہ علاقائی سطح پر را بطے کا سب سے موثر ذریعہ ہیں لیکن یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ علاقائی زبانوں کی اہمیت اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہے اپنی
سرحد عبور کرتے ہی یہ گونگی ہو جاتی ہیں ۔ اس لیے ان کو قومی زبانیں بنانے
کی ماروی میمن کی خواہش سیاسی میدان میں ایک اچھی قلابازی تو ہو سکتی ہے جس
سے علاقائیت کے آسیب میں گرفتار چند ووٹر وں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکے
لیکن پاکستان کی پہلے سے دیمک زدہ اجتماعیت کے لیے یہ کسی زہرِ قاتل سے کم
نہیں ۔ ماروی میمن اور اس قبیل کی دوسری سوچیں جس دن اپنے اس خواب کو حقیقت
میں بدلنے میں کامیاب ہو گئیں وہ دن آئین کی شق ۲۵۱ اور پاکستانی فیڈریشن
ہر دو کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ پاکستانی آئین کے لاوارث
آرٹیکل ۲۵۱ کو ماروی میمن کے بل نے مزید سراسیماں کر دیا ہے اور وہ حیران
ہے کہ دل کو رروئے یا جگر کو پیٹے۔
</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-41523386375551827722014-07-17T11:36:00.000+05:002014-07-23T17:56:32.505+05:00غزہ کی سلگتی بستیاں اور کھوکھلی امت<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<br /></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'">فلسطین کی سلگتی بستیاں دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل سلگ رہے
ہیں،فلسطینی مظلوموں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ کر مسلمانوں کے کلیجے پھٹے جارہے
ہیں، اسرائیل کی خون آشامی پر مسلمانوں کے خون کھول رہے ہیں لیکن بے بسی
کا یہ عالم ہے کہ سوائے مذمتی بیانات کے اور کچھ کرنے کی تاب و تواں
نہیں۔قابض اسرائیل ہر تھوڑے عرصے بعد فلسطینیوں پر آگ و آہن کی بارش برساتا
ہے اور کسی جنونی سیریل کلر کی طرح بے آسرا فلسطینیوں کی بے بسی کا لطف
اٹھا تا ہے۔ مسلم امہ ہر نئی اسرائیلی جارحیت پر خون کے آنسو روتی ہے
فلسطینی مظلوموں کی بے کسی پر نوحے پڑھتی ہے جوش آور تقریریں کر کے ناپاک
اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کرتی ہے اور اسرائیل کے جنون کا ایک
اور دور انہی جھوٹے واویلوں میں گزر جاتا ہے ۔ کئی دہائیوں کے تجربے نے اب
اسرائیل کی دیدہ دلیری میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے وہ جانتا ہے کہ
فلسطینیوں کے آنسو پونچھنے کوئی نہیں آئے گا اس لیے ہر ایک آدھ سال کے بعد
یہ ان کے خون سے ہولی کھیل کر ساری دنیا کو اپنی طاقت اور مسلم امہ کو اس
کی اوقات یاد دلاتا ہے۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
مسئلہ فلسطین جنگِ عظیم اول میں ترکی کی شکست کا ثمرہ ہے ۔ مسلم امہ کے
اتحاد کا مرکز خلافتِ عثمانیہ کا پارہ پارہ اور مسلمانوں کا رنگ و نسل اور
زبان کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جانا مسئلہ فلسطین کی بنیاد ہے ۔
جنگِ عظیم اول میں برطانیہ و فرانس جیسی فاتح قوتوں نے ترکوں اور عربوں
کو آپس میں لڑا کر مسلم امہ کے اتحاد پر کاری ضرب لگائی اور ترکی خلافت کے
حصے بخرے کر کے مسلمان دنیا کو اپنی باجگزار کالونیاں بنا لیا۔ کئی دہائیوں
تک ان کالو نیوں میں سامراج مسلمانوں کو رنگ و نسل اور زبان کے بتوں کی
پوجا کرنے کا درس دیتا رہا ۔ دوسری جنگِ عظیم تک مسلمان ان بتوں کی پرستش
کرتے کرتے اتنے راسخ ہو چکے تھے کہ جنگ کے اختتام پر سامراجی طاقتوں نے جب
کالونیوں کو آزاد کرنا شروع کیا تو مسلمان زبان اور رنگ و نسل کی بنیاد پر
چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بٹ گئے۔ ملتِ واحد کانعرہ لگانے والے مسلمانوں کو
نظریہ قومیت کی حشیش پلا کر چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں بند کر نے کے بعد اب
مغرب نے ساری دنیا سے یہودیوں کو اکھٹا کیا اور فلسطین کی سر زمیں پر ۱۹۴۸
کواپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو جنم دیا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
اپنے وجود کے روز اول سے کر اب تک اسرائیل نے قتل و غارت گری کی ہر نئی
قسط کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کیا ہے۔ فلسطین کے
ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اب اسرائیل بچے کچھے فلسطین پر نظریں گاڑے
بیٹھا ہے ۔ غزہ کی پٹی اس کی جارحیتوں کا خاص مرکز اس لیے ہے کہ یہ باقی
فلسطین سے کٹی ہوئی ہے ۔ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع یہ ۴۱ کلومیٹر
لمبی پٹی اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کا گھر ہے ۔اس کے جنوب مغربی سرحد کا مختصر
سا ۱۱ کلومیڑ کا علاقہ مصر کے جزیرہ نما سینا سے ملتا ہے جبکہ باقی اطراف
سے اسے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے۔ ۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں
اسرائیل نے غزہ اور جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا تھا ۔ مصر نے تو۱۹۷۹ میں
اسرائیل سے فلسطینیوں کی مدد نہ کرنے کا امن معائدہ کر کے اپنے علاقوں کو
واپس حاصل کرلیا جبکہ غزہ ۲۷ سال تک اسرائیلی جبر تلے سسکتا رہا۔ ۱۹۹۴ کے
اوسلو معائدے کے تحت غزہ واپس فلسطینیوں کو ملا لیکن اسوقت تک اسرائیل
یہاں درجنوں یہودی بستیاں بسا چکا تھا۔ ۲۰۰۶ میں حماس کی فتح نے اسرائیل
کے ہاتھوں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی اور غزہ میں یہودی بستیوں کے قیام میں
جو رکاوٹ ڈالی اس پر اسرائیل سیخ پا ہے ۔ منگل سے شروع ہونے والی غزہ پر
اسرائیلی درندگی بھی اسی سلسلے کا ایک تسلسل ہے ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
فلسطینیوں کا بہتا ہوا خون عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی آنکھوں پربندھی پٹی
کو سرکانے میں اس لیے ناکام ہے کہ فلسطینی کمزور اور لاچار قوم ہیں جبکہ
اسرائیل کی پشت پر امریکا و برطانیہ جیسی جارح طاقتیں کھڑی ہیں ۔ بدقسمتی
سے مسلم امہ جسے ابتلا کی اس گھڑی میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو نا چاہیے
تھااسرائیل کی سر پرستی کرنے والے امریکا کی اتحادی ہونے کے ناطے گم سم
کھڑی ہے۔ مصر سے لے کر شام تک تمام مسلمان ممالک کی افواج یا تو اپنی ہی
ملک میں کشت و غارت گری میں مصروف ہیں یا امریکہ کی بچھائی گئی دہشت گردی
کی جنگ میں دادِ شجاعت دے رہی ہیں اس لیے فلسطینیوں کے لیے ان کے پاس
جھوٹی تسلیاں بھی نہیں۔ یورپ کے دیے گئے نظریہ قومیت نے مسلمان ملکوں کو
ایسی نفسا نفسی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ سب وقتی طور پر اپنی جان بچنے پر
خوش ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ امریکی تابع داریاں انہیں پڑوس میں لگی
آگ سے بچا لیں گی۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے اصول پر عمل کرنے والے مسلمان
ممالک یہ نہیں جانتے کہ وہ اپنی کھال میں چھپنے کی جتنی بھی کوشش کریں
عالمی استعمار وقت آنے پر ان کی تکہ بوٹی کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />فلسطینی مظلوموں کواس مسلم امہ کا حصہ ہونے کی سزا دی جارہی ہے جو فرقوں،
زبانوں ، اور نسلوں میں بٹ کر قوتِ عمل سے محروم ہوچکی ہے۔ آپس میں دست و
گریباں یہ کھوکھلی امت اپنے ہی خون کی پیاسی ہے اس لیے اسرائیل کی آنکھوں
میں آنکھیں ڈالنے کی جرات سے عاری ہے ۔ غزہ کی بستیوں میں جانیں لٹانے والے
فلسطینی مظلوموں کو چھ دہائیوں تک اسرائیلی استبداد اور مسلمان ممالک کی بے
حسی دیکھ کر اب سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں یہ جنگ تن تنہا لڑنی ہے ۔
اسرائیلی کی اندھی طاقت تلے پستے بے کس فلسطینیوں کو اب یہ جان لینا چاہیے
کہ مسلم دنیا سے ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا کیوں کہ سب کو ا اپنے
اپنے ملک ، اپنی اپنی حکومتیں ، اپنے اپنے فرقے اور اپنی اپنی جانیں عزیز
ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمران امریکی کاسہ لیسی میں ، مسلمان ممالک کی افواج
اپنے اپنے ملک فتح کرنے میں اور مسلمان ممالک کے عوام فروعی اختلافات پر
ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اتنے مصروف ہیں کہ غزہ سے اٹھتی آہ و بکا
ان کے کانوں تک نہیں پہنچ پا رہی۔ غزہ کے باسیوں کو امہ سے کوئی جھوٹی امید
باندھنے کی بجائے اب اسرائیلی ظلم و جبر کوقسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر
لینا چاہیے شاید اس سے ان کے دکھوں کی شدت کچھ کم ہو جائے۔ </span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-61329317149496281202014-07-10T13:58:00.000+05:002014-07-23T17:58:32.370+05:00جمہوریت کی کھیر<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو
ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی
مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔
دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت
کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے
بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے
شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو
ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت
سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں
منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون
لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو
نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس
لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ
کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق
لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔</span></div>
<a name='more'></a><br />
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یہ ایک کھلا سچ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے مختلف آمروں سے
مختلف ادوار میں ناجائز تعلقات رہے ہیں اس لیے ہر ایک کی عشق و محبت یا
رقابت و نفرت کی اپنی اپنی داستانیں ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا داتا اور ان
داتا ہے۔ اگر جمہوریت کی نام لیوا موجودہ جماعتوں پر نظر ڈالی جائے تو سب
کے ماتھے کسی نہ کسی آمر کی چوکھٹ پر کیے جانے والے سجدوں سے داغدار نظر
آتے ہیں ۔ہر ایک جماعت کے گندے چیتھڑے کسی نہ کسی آمر کی وارڈ روب میں لٹکے
دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے کوئی جماعت اپنے داغدار ماضی پر تائب
ہونے کے لیے تیار نہیں سب کے پاس اپنی اپنی تاویلات کے دفتر ہیں جن پر ان
کے ماننے والے صدقِ دل سے ایمان رکھتے ہیں ۔ ضیا الحق کے دور میں بائیں
بازو کی جماعتیں زیرِ عتاب رہیں جبکہ دائیں بازو کی مسلم لیگیں اور مذہبی
جماعتیں اس کے اسلامی نظام کی گھنی چھاؤں میں اٹھکیلیاں کرتی رہیں ۔ پرویز
مشرف کا دور بائیں بازو کی ایم کیو ایموں ا ور ق لیگوں کے لیے بہار کا
پیغام لے کر آ یا جبکہ دائیں بازو کی جماعتیں مشرف کی روشن خیالی کے بوجھ
تلے پستی رہیں۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
پاکستان کی سیاسی تاریخ آمرانہ ادوارکے تسلسل کا نام ہے جس میں
وقتافوقتا جمہوریت کے مختصر ٹانکے رونق بڑھانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔
جمہوریت کی یہ ہلکی پھلکی جھلک عوام کے مو نہہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے
لییدکھائی جاتی ہے تاکہ بوٹوں کی مسلسل دھمک سے پیدا ہونی والی یکسانیت
عوام کو مقدس گائے سے بیزار نہ کر دے۔ طویل آمریت کے بعد جب ڈری سہمی
جمہوریت کو اقتدار میں آنے کا مو قع دیا جاتا ہے تو اس بے چاری کو ہر لمحے
تخت سے تختے پر جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے اس لیے احساس عدم تحفظ اس کے
ہواس مختل کیے رکھتا ہے۔ بدحواس جمہوریت کی چھوٹی چھوٹی کمزوریوں کو نادیدہ
قوتیں پہاڑ بنا کر دکھاتی ہیں۔ جمہوری حکمرانوں کے محدود اختیارات اور
عوام کی لامحدود توقعات کے درمیان تصادم نادیدہ قوتوں کے لیے کام آسان کر
دیتے ہیں چناچہ جلد ہی عوام کے اندر مایوسی پیدا ہونے لگتی ہے ۔ ہر آمر
اپنے پیچھے مسائل کا ایک ایساجنگل اگا جاتا ہے جس کو بند ھے ہاتھوں سے
کاٹنا جمہوری حکمرانوں کے بس میں نہیں ہوتا۔ آمرانہ دور کا سار اغصہ اور
ساری گالیاں بھی عوامی حکومتوں کا مقدر بنتی ہیں کیوں کہ مقدس گائے کے
برعکس سیاستدانوں کو گالیاں دینے سے قومی وقار پر کوئی حرف آنے کا خدشہ
نہیں ہوتا۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں دو مختلف آمروں سے ڈسنے کے بعد اب اس
منطقی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ ان کے آپس کے اختلافات سے فائد ہ اٹھا کر
بلا ہمیشہ دودھ پی جایا کرتا ہے اس لیے حالات کیسے بھی کیوں نہ ہوں اب
انہیں نادیدہ ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر نہیں ناچنا ۔ وقت نے انہیں یہ سکھا
یا ہے کہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ کر انہوں نے اپنے ہی پاؤں پر ہمیشہ
کلہاڑیاں چلائی ہیں اس لیے اب کسی گھس بیٹھیے کو کوئی موقع فراہمکرنے کی
غلطی نہیں دہرانی ۔ دونوں جماعتوں کے اس عزم ، متحرک عدلیہ اور آزاد میڈیا
کی موجودگی نے اب یقیناًطالع آزماؤں کے لیے کوئی ایڈوینچر کرنا مشکل بنا
دیا ہے لیکن جب تک نادیدہ ہاتھوں کے پاس طاہر القادری،شیخ رشید ، چوہدری
شجاعت اور الطاف حسین جیسے مہرے موجود ہیں وہ کسی بھی وقت کوئی بھی چال چل
کر بازی پلٹ سکتے ہیں اور بے چاری جمہوریت کو ایک بار پھر خاک چٹوا سکتے
ہیں۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں جمہور یت سے زیادہ اقتدار پر ایمان رکھتی
ہیں اور ان کے لیے سیاست عبادت نہیں بلکہ اقتدار تک پہنچنے کا ایک ذریعہ
رہیہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت پر ایمان کی
تجدید کریں اور اپنی تجوریوں کے پیٹ بھرنے کی بجائے بھوک اور افلاس سے
بلکتے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا سوچیں۔ ہماری نئی و پرانی سیاسی
جماعتوں نے اگر اب بھیہوش کے ناخن نہ لیے اور اجتماعی طور پر آمریت سے نفرت
اور جمہوریت سے قلبی محبت کا اظہار نہ کیا تووہ دن دور نہیں جب جمہوریت کی
جتنوں سے بنائی گئی کھیر کو آمریت کا کتا کھا جائے گا اور ہماری سیاسی
جماعتیں بیٹھیڈھول بجاتی رہ جائیں گی۔ کفِ افسوس ملنے سے عقل کو ہاتھ مار
لینا یقیناًزیادہ سہل ہے اسی میں جمہوریت کا بھلا اور جمہور کی بھلائی ہے۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-55278917545009230422014-07-05T21:35:00.000+05:002014-07-23T18:00:14.423+05:00تحفظِ پاکستان بل <div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال
،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادہ کی چھڑیاں دے دی
گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور
پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق
سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور
اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے
رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناًہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان
قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ
موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی
اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل
کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے
اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور
اغوا کے اس طویل سلسے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے
سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">نائین الیون کے بعد جب دہشت زدہ پاکستان نے امریکہ کی سجائی گئی جنگِ دہشت
گردی کی بساط پر ایک بے وقعت مہرے کی طرح سر پٹ دوڑنا شروع کیا تو پاکستان
کو اپنے ہی تخلیق کردہ ان انتہا پسندوں کی مخالفت کاسامنا کرنا پڑا جنہیں
پاکستان ایک طویل مدت سے بھارت اور افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے
استعمال کر رہا تھا۔ اسلامی نشاطِ ثانیہ کے خوابوں پر پلنے والی یہ نسل جسے
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جہاد کے انجکشن لگا لگا کر پروان چڑھایا تھا پرویز
مشرف کے یوٹرن پر بوجوہ کوئی ٹرن لینے سے قاصر تھی چناچہ پاکستان کے مسلح
اداروں اور ان جنگجوؤں کے درمیان ایک خون ریز جنگ کا آغاز ہوا جو آج تک
جاری ہے اورنہ جانے اندھی جنگ کی یہ بھٹی کب تک دہکتی رہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
اس بے سروپا جنگ کے ساتھ ہی پاکستانیوں کی جبری گمشدگیوں کے ایک پر اسرار
سلسلے کا آغاز ہوا ۔کچھ مخصوص مذہبی یا قوم پرستانہ سوچ کے حامل افراد کو
دن دیہاڑے اٹھا لیا جاتا اور کچھ دنوں بعد ان میں سے اکثر کی مسخ شدہ لاشیں
کسی کھیت کھلیان سے ملتیں ۔ غائب ہو جانے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی
سلامتی کے ڈر سے آواز اٹھانے سے ڈرتے تھے چناچہ اس سلسلے میں شدت آتی گئی ۔
عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد ریاست کی اندھی طاقت کے ڈسے ہوئے
لوگوں کے اند ر انصاف کی آس پیدا ہوئی ۔ چناچہ سپریم کورٹ کے دروازے پر
کھوئے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ کچھ دنوں تک عدالت
کا خوب ڈنکا بجا ، اخبارات میں شہہ سرخیاں جمائی گئیں مگر وہ جو اندھیرے
عقوبت خانوں میں کئی سالوں سے ناکردہ گناہوں کی سولی پر سسک رہے تھے بازیاب
نہ کروائے جا سکے۔ سینکڑوں سماعتیں ہو ئیں جج گرجتے برستے رہے قانون کی بے
بسی پر نوحے پڑھتے رہے لیکن نتیجہ صفر! حکومت نے تنگ آ کر کمیشن قائم
کیا لیکن یہ بھی وقت گزاری کا ایک بے کار تماشا ثابت ہوا۔ تجربے نے
پاکستانی عوام کے حقوق کی سب سے بڑی محافظ سپریم کورٹ کو یہ سکھا یا کہ
منتخب وزیرا عظم کو گھر بھجوانا آسان ہے لیکن ماورائے عدالت قتل کی منڈیاں
سجانے والوں کا احتساب ناممکن! کون کس کا گریبان پکڑتا سارے جمہوریے ریت
میں مونہہ چھپا کے اس مسئلے سے بری الذمہ ہو گئے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
موجودہ حکومت جس کے وزیر اعظم زمام کار سنبھالنے سے پہلے بذات خود اجتجاجی
لواحقین کو سیاسی تسلیاں دینے جا یا کرتے تھے اقتدار میں آتے ہی اس مسئلے
کے ’باعزت ‘ حل کے لیے تگ ودو میں مصروف ہو گئی۔ جب نیت صاف ہو تو آسمانوں
سے مدد اترتی ہے چناچہ موجودہ حکومت کیلئے بھی آسمانوں سے تحفظِ پاکستان
آرڈیننس اتا را گیا جسے اس نے سینے سے لگا کر فرشتوں کا شکریہ ادا کیا۔ یہ
بل یقیناًحکومت اور مسلح اداروں کو سپریم کورٹ کی راہداریوں میں خوار
ہونے سے بچائے گا ۔ اب عدالت میں کسی اندھے قتل یا اغوا کی صفائی پیش کرنے
کی بجائے اس قانون کی شق کا حوالہ دینا ہی کافی ہو گا۔ پاکستانی قوم کو
فرشتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے اس بر وقت صحیفے کے ذریعے ہماری
حکومت اور ہمارے مسلح اداروں کوخواہ مخواہ کی شرمندگی سے ہمیشہ کے لیے بچا
لیا ہے ۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بل کے بعد اب غیر معمولی صلاحیتوں
اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کسی بھی مشکوک شخص کودیکھتے ہی ہمارے
انسپکٹر یا صوبیدار صاحب کو پلک جھپکنے میں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ مجرم
ہے یا نہیں ۔ اگر ان کی رائے میں مشکوک شخص کی شکل پر کسی دفعہ کے آثار
نظر آئیں تو اسے بلا توقف گولی ماری جاسکے گی ۔ اس بل کی رو سے اب ہمارے
مسلح اداروں کے جوان اپنی ذات میں ایک انجمن ہوں گے جو بہ یک وقت مدعی ،
گواہ، منصف اور جلاد کی صلاحیتوں کے حامل ہو ں گے۔ پلک جھپکتے میں یہ شکلیں
پڑھ کر لوگوں کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کریں گے اور انکی فیصلے
کو دنیا کی کسی عداالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی طرح ہمارے مسلح
اداروں کے وہ خفیہ عقوبت خانے جو انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظروں میں مدت
سے کھٹک رہے تھے اب نہ صرف جائز قرار پائیں گے بلکہ ان میں بغیر وجہ بتائے
کسی بھی بشر کو قید رکھا جا سکے گا۔ انصاف اتنا سستا اور اتنا برق رو دنیا
کے کسی ملک نے یقیناًنہ دیکھا نہ سنا ہو گا۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بہت سا قیمتی
وقت ملزموں کو مجرم ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے لیکن اس نئے بل کی صورت میں
ان کی یہ مشکل حل کر دی گئی ہے اب ان اداروں کا کام صرف گرفتار کرنا ہو گا
انہیں ان جھمیلوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ جسے پکڑا گیا اس کے خلاف
گواہ اور ثبوت موجود ہیں یا نہیں۔ اپنی بے گناہی ثابت کرنا پکڑے جانے والے
کا کام ہوگا۔ اگرچہ یہ شق دنیا بھر میں مروج قوانین کی بنیادی روح سے
متصادم ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری دیکھا دیکھی یہ باقی دنیا میں بھی رواج
پا جائے ۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد اب خروٹ آباد یا کراچی کے سرفراز شاہ
جیسے کیس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکیں گے۔
ماڈل ٹاؤن سانحہ کے چند روز کے اندر اندر ہی اس قانون کا پاس ہو جانا ہماری
حکومت کی نیک نیتی اور بالغ نظری کا کھلا ثبوت ہے ۔ ماڈل ٹاؤن میں عوامی
تحریک کے اگر وادیوں کے خلاف لڑنے والے اپنے مظلوم پولیس والوں کو بھلا ہم
اکیلا کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ </span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-32755766924499367542014-07-04T11:14:00.000+05:002014-07-23T18:01:58.566+05:00ارضِ مقدس کا بے انت مرثیہ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">عالمی ضمیر تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت پر افسردہ ہے۔۱۲ جون کی ایک سہہ
پہر کو اسرائیلی بستی سے غائب ہونے والے ان تین یہودی آباد کار نوجوانوں
کی لاشیں اسرائیل ہی کے زیرِ انتظام مقبوضہ مغربی پٹی سے ملی ہیں۔ ان
نوجوانوں کی اٹھارہ روزہ تلاش میں اسرائیلی فوج نے چار سو فلسطینیوں کو
گرفتار کیا جن میں سات سال کے بچے سے لے کر ستر سال کے بوڑھے شامل
ہیں۔گرفتار ہونے والے ان فلسطینیوں کی بقیہ زندگی اب اسرائیلی کے ان اندھے
قید خانوں میں گزرے گی جو عالمی ضمیر کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ تین نوجوانوں
کے اغوا نے سارے اسرائیل پر افسردگی کی چادر تان دی تھی جسے اسرائیلی فوج
کے ہاتھوں مارے جانے والے پانچ فلیسطینیوں کا خون بھی نہ چھٹ سکا۔ اب ان
نوجوانوں کی لاشیں ملنے پر سارا اسرائیل بدلے کی آگ میں دہک رہا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس پر الزام عا ئد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ حماس
سے اس خون کا بدلہ لیا جائے گا۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
1967کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں فتح کے بعد اسرائیل نے اردن ،شام اور
مصر سے چھینے گئے فلسطینی علاقوں پر انتہا پسند یہودیوں کی آبادکاری کا ایک
مربوط پروگرام شروع کیا۔1967 سے اب تک اسرائیل مشرقی یروشلم اور مغربی
کنارے میں اڑھائی سو سے زائد یہودی بستیاں قائم کر چکا ہے ۔ان بستیوں میں
سات لاکھ سے زائد وہ یہودی آباد ہیں جنہیں مشن اسرائیل کی تکمیل کے لیے
دنیا بھر سے درآمد کیا گیا ہے۔ یہ یہودی بستیاں ارضِ مقدس میں خون خرابے کی
بنیاد ی وجہ ہیں ۔ تین نوجوانوں کے قتل پر یہودی آباد کاروں نے ان کی یاد
میں ایک نئی بستی بسانے کا اعلان کر کے سہمے ہوئے فلسطینیوں کو یہ کھلا
پیغام دیا ہے کہ ان کے قبضے کے خلاف اٹھنے والا کوئی بے ڈھنگا ردِ عمل بھی
ان کی توسیع پسندی کے آگے بندھ نہیں باندھ سکتا۔با وجود اس کے کہ عالمی
برادری ان اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی اور غاصبانہ قرار دیتیہے ،اقوامِ
متحدہ ان بستیوں کو چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہو ئے غیر
قانونی سمجھتی ہے اور ان بستیوں کے قیا م کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار
دادیں موجود ہیں لیکن ان کی دھڑا دھڑ تعمیر اسرائیلی دیدہ دلیر ی اور
امریکی آشیر باد کا ایک شرمناک مظاہر ہ ہے۔عرب دنیا بالخصوص اور مسلم دنیا
بالعموم اسرائیلی قبضے کے خلاف مذمتی قراردادوں اور دھواں دھار تقریروں کی
حد تک بڑے سر گرمِ عمل رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس قلمی اور زبانی جہاد سے
اب تک اسرائیل کی صحت پر پرکاہ برابر بھی فرق نہیں پڑا ۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
جنوری 2006 کے انتخابات میں حماس کی فتح نے اسرائیل کے ساتھ ساتھ اس کے
ناجائز سر پرستوں کی نیندیں بھی حرام کر دی تھیں ۔ جہاد کا نعرہ لگانی
والی حماس کی فلسطین میں حکومت اسرائیل کو کسی صورت قبول نہیں تھی چناچہ
اسرائیل نے فلسطین کی سیکولر جماعت الفتح کے ذریعے حماس اور الفتح کے
درمیان لڑائی کروا کر خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی۔ فلسطینیوں کا اتحاد
اسرائیل کو اپنی موت نظر آتا ہے چناچہ یہ فلسطینیوں کو آپس میں دست و
گریباں رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتاہے۔ کئی سالوں کی چقپلش کے بعد اس
سال اپریل میں حماس اور الفتح کے درمیان ایک معائدہ طے پایا جس کے مطابق
دونوں شراکتِ اقتدار پر باہم رضامند ہوئے۔ اسرائیل سمیت پورے دنیا میں امن
کے ٹھیکہ داروں نے فلسطینی اتحاد کے اس معائدے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا سے صرف دس روز قبل اسرائیلی وزیراعظم نے
الفتح اور حماس کے درمیان معائدے کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے دنیا سے
اپیل کی تھی کہ وہ اسے مسترد کر دیں۔ اسرائیلی نوجوانوں کے قتل اور اس پر
اٹھنے والے طوفان کو بہت سے فلسطینی اسرائیل کی ایک چال قرار دے رہے ہیں جس
کا مقصد فلسطینی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا ہے ۔ حماس پر عالمی دباؤ بڑھا کر
اسرائیل دراصل الفتح کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر انہیں حکومت کرنی
ہے تو حماس سے دور رہنا ہو گا۔ اسرائیل کی مکرو فریب بھری تاریخ کو دیکھتے
ہوئے یہ خیال کچھ ایسا بعید از قیاس بھی نہیں کہ اسرائیل خود ہی اپنے
نوجوانوں کا قاتل ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یہودی آباد کاروں یا گھس بیٹھیوں اور فلسطینیوں کے درمیان کشمش پچھلی چار
دہائیوں سے جاری ہے ۔ فلسطینیوں سے ان بستیوں میں شودروں سے بد تر سلوک کیا
جاتا ہے لیکن انہیں اس غلامانہ برتاؤ پرصدائے اجتجاج بلند کرنے کی اجازت
نہیں۔ اپنے تین نوجوانوں کی ہلاکت پر خون کے آنسو رونے والا بے چارہ
اسرائیل صرف پچھلی ایک دہائی میں ڈیڑھ ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کو اپنی
توسیع پسندی کی بھینٹ چڑھا چکا ہے۔ ایک کمزو ر اور بے نوا قوم سے تعلق
رکھنے والے ان معصوموں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اسرائیلی ٹینکوں کے
سامنے کھڑے ہو کر پتھر مارنے کی جرات کی تھی۔ اسرائیلی معصوموں کی ہلاکت پر
ساری دنیا کی ماؤں کے کلیجے پھٹے جا رہے ہیں لیکن فلسطینی بچوں کا بہتا
ہوا خون کسی آنکھ کو نم نہیں کرتا۔ خونِ مسلم کی یہ ارزانی دیکھ کر اب تو
خود مسلمانوں کی آنکھوں سے بھی آنسو نہیں پھوٹتے کیونکہ ایک دوسرے کی
گردنیں مارتے مارتے ان کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
اسرائیلی فوج نے اپنے نوجوانوں کی لاشیں ملنے پر فلسطینی علاقوں پر آگ و
آہن کی بارش برسانی شروع کر دی ہیجبکہ یہودی آباد کاروں نے اپنے ہم مذہبوں
کے قتل کا بدلہ ایک سات سالہ فلسطینی بچی سے لیا ہے ۔ یورپی یونین سے لے
کر امریکا تک سب یہودی نوجوانوں کے قتل پر سوگ میں ہیں لیکنفلسطینی بچی کی
لاش پر نوحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ۔ یہودی نوجوانوں کے قاتل ابھی پردے
میں ہیں لیکن ان کے خلاف ساری دنیا غصے میں پھنک رہی ہے فلسطینی بچوں کے
قاتل سرِ عام دندناتے پھر رہے ہیں لیکن ان کے خلاف آواز اٹھانے کی دنیا کو
نہ خواہش ہے اور نہ ہی جرات! دنیا میں طاقت کے عدم توازن نے ظلم و جبر کی
جو اندوناک داستانیں رقم کیں ان میں فلسطینی مظلوموں کا بے انت مرثیہ دل
دہلا دینے والا ہے لیکن افسوس کہ ان کی آہوں اور سسکیوں پر کان دھرنے کے
لیے دنیا کے پاس وقت نہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
آمرانہ نظاموں کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے مسلمان ممالک کے کٹھ پتلی حکمران
اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف چوں چراں کرنے کی جرات سے اس لیے عاری ہیں
کہ انہیں اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکی آشیر باد کی ضرورت
ہے۔اسرائیل کے خلاف لب کشائی کر کے وہ امریکی ناراضی مول لینے کا رسک نہیں
لے سکتے کیوں کہ اپنا اقتدار انہیں دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز ہے۔ مصر
میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے
والا سیسی ہو یا عراق میں امریکی بیساکھیوں پر چلنے والا مالکی سب اپنے
اپنے مفادات کے اسیر ہیں اس لیے فلسطینیوں کے حق میں زباں کھولتے ہوئے ڈرتے
ہیں۔ کہنے کو فلسطینی اس مسلم امہ کا حصہ ہیں جو ڈیڑھ ارب سے زائد کی
تعداد میں دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے لیکن صیہونیت کے جبر انہیں تن تنہا
ہی برداشت کرنے ہیں کیونکہ امہ امریکی امداد کی لسی پئے بے غیرتی کی چادر
تانے گہری نیند سو رہی ہے۔ فلسطینیوں کو خود ہی زخم کھانے ہیں خود ہی ان کی
دوا کرنی ہے کیونکہ امہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو
چکی ہے ! </span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-25645737024183855502014-07-02T15:31:00.002+05:002014-07-23T18:03:55.947+05:00اپنا اپنا چاند<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">رویت ہلال حسبِ روایت اس سال بھی اسلام کے قلعے میں متنازع رہا ۔ پشاور کی
مسجد قاسم خان میں بیٹھے مفتی شہاب الدین پاپولزئی کو چاند نظر آ گیا
کراچی میں بیٹھے مفتی منیب الر حمن اس سعادت سے محروم رہے ۔ فرقہ واریت
ہمارے خون میں یوں رچ بس گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اس سے دامن نہیں بچا
سکتے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین کو خیبر پختونخواہ سے ملنے والی
شہادتیں قبول نہیں کہ ان شہادتوں کا فرقہ مختلف ہے ۔ مفتی پاپولزئی سرکاری
کمیٹی کو اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کاتعلق ایک دوسرے فرقے سے
ہے۔ ہر فرقے کو دوسرے فر قے کی شہادتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ ہٹ دھرمی کو اگر
مجسم صورت میں دیکھنا مقصود ہو تو پاکستانی فرقہ پرستوں سے بہتر کوئی اور
مثال نہیں۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">
ہر سال رویتِ ہلال ہمارے لیے جگ ہنسائی کا سامان لے کر آتا ہے۔ دنیا ہنستی
ہے کہ مسلم امہ کے عالمی اتحاد کی ان تھک راگنی گانے والا ملک اپنے رمضان
اور اپنی عیدیں بھی ایک ساتھ نہیں کر سکتا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کو حرم
کی پاسبانی کے لیے ایک کرنے کا خواب دیکھنے والے پاکستانی مسلمان خود ایک
ہونے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں مذہبی تہوار اور رسومات مختلف مذاہب
کے پیرو کاروں کو اکٹھا کرتے ہیں ہمارے تہوار نفاق کی خلیج کو کچھ اور گہرا
کر کے ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتے ہیں ۔ دنیا اپنے تہواروں سے محبت اور
یکجہتی کے پھول سمیٹتی ہے ہم نفرتوں کے کانٹوں سے اپنے دریدہ دامن کولیر
لیر کر لیتے ہیں۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یہ بحث علمی اور سائنسی نوعیت کی ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں اور ان سے
منسلکہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں چاند کو جلدی نظر آنے کی کیا پڑی ہوتی
ہے اور کراچی میںیہ بے چارہ نکلتے ہوئے کیوں ہچکچاتا ہے لیکن اتنا واضح ہے
کہ ہمارا کوئی بھی فرقہ چاند میں ساجھے داری برداشت کرنے کے لیے تیار
نہیں۔ ہر فرقہ اپنا اپنا چاند اپنی اپنی مرضی سے چڑھاتا ہے اور پھر دوسروں
سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے چاند کے پیچھے پیچھے چلیں۔ خیبر پختونخواہ
والے جغرافیائی لحاظ سے کراچی سے زیادہ افغانستان کے قریب ہیں اس لیے انہیں
اگر چاند جلدی نظر آ جائے تو یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں کیونکہ
چاندڈیورنڈ لائین کیتفریق سمجھنے سے قاصرہے لیکن باقی مانندہ پاکستان نا
خواندہ قبائلیوں کی شہادتوں پر اپنے روزے اور عیدیں کیوں برباد کرے جبکہ ان
کا فرقہ بھی مختلف ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
جب اسلام کے اس انوکھے قلعے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو مخالفوں نے لاکھ
سمجھایا تھا کہ ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں بنا کرتے لیکن ہمارے اکابرین
دنیا کو کچھ نیا کر کے دکھانے پر بضد تھے ۔ وہ صدیوں سے قائم وطنی نظریہ
قومیت کے مقابلے میں مذہبی نظریہ قومیت پیش کر کے دنیا کو یہ دکھانا چاہتے
تھے کہ مذہب کی طاقت سے بھی قوم وجود میں آ سکتی ہے۔ آج وہ بھاگوان اگر
واپس پلٹ کر اپنے اس تجربے پر ایک نظر ڈال سکتے تو یقیناًاپنے نظریات سے
رجوع کر کے تائب ہو جاتے۔ کیا ہمارے اکابرین کانظریہ قومیت اتنا ہی پھسپھسا
تھا کہ وہ اس نام نہاد قوم کو اکھٹے عیدیں منانے اور ایک ساتھ روزے رکھنے
پہ بھی قائل نہ کر سکا ؟ یا پھر ان کے بعد آنے والوں نے اپنے اپنے ذاتی
اور فروعی مفادات کی چھریوں سے اس کے تانے بانے یوں ادھیڑ کر رکھ دیے کہ اب
قوم کے نام پر افراد کا ایک بے سمت ہجوم ہے جسے آئینِ پاکستان ایک قوم
بنانے پر بضد ہے۔</span><br />
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
مذہب کا وہ مجہول تصور جس نے ہماری قوم کو ان گنت خانوں میں بانٹ کراس کے
اتحاد کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ اس سے جان چھڑائی
جائے۔ مذہب کے فرقہ وارانہ تصور کو دیس نکالا دیے بغیر پاکستانی ہجوم خود
کو قو م کہلوانے کا کسی طرح مستحق نہیں۔فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والوں کو
اتحاد کی لاٹھی سے کچلے بغیر پاکستانی قوم اجتماعیت سے ہمیشہ محروم رہے گی
اور ہر فرقہ اپنی اپنی بغل میں اپنا اپنا چاند لیے اپنا اپنا راگ گاتا رہے
گا۔ نغموں کی حد تک ہم جھوم جھوم کر سو سال بھی اس پرچم کے سائے تلے ایک
ہیں کے نعرے لگاتے رہیں لیکن جب تک ہماری خوشیاں اور غم مشترک نہیں ہوتے ہم
ایک نہیں ہو سکتے۔</span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
</div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-1216589083820220312.post-47152684467304842152014-06-29T11:35:00.000+05:002014-07-23T18:05:34.637+05:00انقلابی سیاست اور ہمارے گلو بٹ<div dir="ltr" style="text-align: left;" trbidi="on">
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;">روایت پرست پاکستانی عوام نے طاہر القادری کے نعرہِ انقلاب کو جس سنجیدگی
سے لیا اس کا اندازہ گلو بٹ کی روز افزوں مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے ۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر گلو کے جارحانہ انداز پر بنائے گئے سینکڑوں
لطائف اگرچہ صرف طفننِ طبع کے لیے شئیر کیے جارہے ہیں لیکن ان سے قادری
صاحب کے انقلاب کی شان میں جو پے در پے گستاخیاں سرزد ہو رہی ہیں وہ قابلِ
افسوس ہیں۔ انقلاب چاہے کینیڈا سے بزنس کلاس میں ہی سفر کر کے کیوں نہ آئے
اس کی تضحیک انقلاب پسند قوم کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بات سمجھ میں
آنے والی نہیں کہ گلو بٹ جس نے گلی محلوں کے بے قابو لفنگوں اور پنجابی
فلموں کے بے مغز ہیرو کی طرح ادارہ منہاج القران کے سامنے کھڑی گاڑیوں کو
اپنی وحشت کا نشانہ بنایاکیوں کر عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ لوگ ماڈل ٹاؤن
سانحے میں مرنے والے مظلوموں کو بھول کر اس مضحکہ خیز کردار کے مناقب
گننے میں مگن ہیں۔</span></div>
<a name='more'></a><div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br /></span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
حال ہی میں گلو بٹ کے’ مثالی‘ کردار کو سامنے رکھ کر ایک مو بائل گیم
’’گلو‘‘ بنائی گئی ہے جس میں کھیلنے والوں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ
گاڑیوں کے شیشے توڑ کر اپنے اندر چھپے ’گلو‘ کے تخریبانہ جذبات کی تسکین
کر سکیں ۔ دو چار دنوں میں ہی اس گیم کی حیران کن مقبولیت نے ہمارے
انقلاب پسندوں کی نیندیں بڑی حد تک اڑادی ہیں ۔ گلو بٹ جیسے معاشرے کے منفی
کردار کی مقبولیت کی دو ہی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اول یہ کہ ہمارا
تناؤ زدہ معاشرہ روزمرہ کی ان گنت فرسٹریشنزسے بچنے کے لیے اپنے اوپر غیر
سنجیدگی کا ایک ایسا خول چڑھا چکا ہے جہاں سے یہ خود پرہنس کر اپنے غم غلط
کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لامتناہی مسائل کے گرداب میں پھنسے معاشرے کے
افراد کو جب ان مسائل سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو وہ خود
مدافعاتی نظام کے تحت ان سے آنکھیں چرانا شروع کر دیتے ہیں اور ایک ایسے
مصنوعی ماحول میں جینے لگتے ہیں جہاں وہ غیر اہم مسائل کو سنجیدگی سے اور
اہم مسائل کو غیر سنجیدگی سے برتنا شروع کر دیتے ہیں ۔ گلو بٹ کی تخریب
کارانہ مہارت جس سانحے کے نتیجے میں طشت از بام ہوئی وہ نو افراد کے خون
سے رنگین ہے لیکن بدقسمتی سے گلو بٹ کے لیے لگائے گئے قہقہے ان آنسوؤں سے
کہیں زیادہ ہیں جو اس سانحے کے مظلومین کے لیے بہائے گئے ہیں۔یوں لگتا ہے
کہ ہمارا معاشرہ جذباتی عدم توازن کا شکار ہو کر آنسوؤں اور قہقوؤں کے
درمیان امتیاز بھول چکا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
گلو بٹ کی پذیرائی کی دوسری ممکنہ وجہ جعلی انقلابیوں سے پاکستانی قوم کی
نفرت ہے ۔جہاں قادری صاحب کے چاہنے والوں کے نزدیک قادری صاحب کی انقلابی
نیت پہ شک کرنا کفر ہے وہیں پاکستانی عوام کا ایک بہت بڑا حصہ ان کے نعرہ
انقلاب کو ایک پرفریب ڈھونگ سمجھتا ہے جو قادری صاحب کے خوابوں ہی کی طرح
نقلی ہے۔پاکستان میں لفظ انقلاب کو بائیں بازو کے سرخوں سے لے کر دائیں
بازو کے اسلام پسندوں تک نے جس طرح اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال
بلکہ پامال کیا اس سے اس کی حرمت جاتی رہی ہے۔ اب انقلاب ہوسِ اقتدار کے
مہذبانہ اظہار کا ایک ذریعہ بن چکا ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ نظامِ
انتخاب سے قادری صاحب کبھی بھی اقتدار کی لیلیٰ تک نہیں پہنچ سکتے اس لیے
انقلاب ہی ان کا متبادل چانس ہے جسے وہ عوام کے کندھوں پر چڑھ کر استعمال
کرنا چاہتے ہیں۔ بے روزگاری، بدامنی ، بھوک اور افلاس کے عذاب سہنا تو
پاکستانی عوام اپنا ازلی مقدر سمجھ کر برداشت کر چکے ہیں لیکن انہیں یہ
قبول نہیں کہ کوئی اُن کی اِن دکھتی رگوں کو پکڑ کر انقلاب کے نام پر ان کا
استحصال کرے۔ قادری صاحب کے ماضی و حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے انقلاب کو جھانسا
سمجھنے والوں کو گلو بٹ کی صورت میں ایک ایسا کردار ہاتھ آیا ہے جو قادری
صاحب کے نام نہاد انقلاب کا تیاپانچہ کر سکتا ہے۔</span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"> </span>
<span style="font-family: 'Jameel Noori Nastaleeq'; font-size: large;"><br />
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ ہمارا معاشرہ دین ودنیا ہر دو کے معاملات میں افراط و
تفریط کا شکا ر ہے ۔ ہم وہ قوم ہیں ٹریجٖیڈیاں جن کو ہنساتی اور کامیڈی جن
کو رنجیدہ کر دیتی ہے۔ ہم وہ مسافر جن کی منزل غیر متعین ہے اس لیے راہ
میں کھڑا ہر مداری ہماری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ قادری صاحب اور ان
کا انقلاب ہماری معاشرتی بے چینی اور خلفشار کا جیتا جاگتا اظہار ہیں ۔
شیکسپئیر کے مشہور زمانہ مقولے کو اگر موجدہ حالات پر منطبق کیا جائے تو ہم
کہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک ماڈل ٹاؤن ہے اور ہم سب گلوبٹ ہیں۔ ہر
شخص اپنے اپنے حصے کے شیشے توڑتاہے،اپنے اپنے حصے کی مار کھاتا ہے اور چلا
جاتا ہے۔ جب تک نون لیگوں اور پیپلز پارٹیوں کی سیاست زندہ ہے اور جب تک
قادری صاحب جیسے انقلابی موجود ہیں گلو بٹ آتے رہیں گے اور ہمارے معاشرے کا
تمسخر اڑواتے رہیں گے۔</span></div>
</div>
شاہد اقبالhttp://www.blogger.com/profile/05997352150149262473noreply@blogger.com0