نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان
امریکہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
امریکہ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اگست 31, 2014

جب غیرت پنکچر ہو جائے

ستم گر عالمی میڈیا گاہے گاہے پاکستان کے مجروح قومی وقار پر سنگ باری کرتا رہتا ہے ۔ ہم جس شدو مد سے زندہ قوم ہونے کے نعرے بجاتے اور گیت گاتے ہیں دنیا اسی شدو مد سے ہمیں ہماری اصل اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔ غیرت و حمیت کے ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو بے حمیتی کے طعنے دیتے ہیں لیکن حقیقت کی سنگلاخ زمین پر اترتے ہی اپنی پتلی حالت دیکھ کر ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے۔ عالمی میڈیا کو ہماری کمزوریوں کا پورا پورا ادراک ہے اس لیے یہ ہمیں زیادہ وقت ہوائی قلعوں میں نہیں گزارنے دیتا۔ ابھی ہم ایک زخم کی دوا کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک اور تیر ہماری غیرت کی قبا کو چھلنی کرتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہم پرانے زخم کو بھول کر نئے کی دوا دھونڈنے لگتے ہیں ۔ شاید عالمی میڈیا یہ جان چکا ہے کہ اس قوم
کی غیرت کو وقتاً فوقتاً پنکچر کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ شیخی بگھارنے لگتی ہے اور ساری دنیا کی غیرت پر سوال اٹھانے لگتی ہے۔ ہمارا پانی اتارنے کے لیے عالمی میڈیا کے پاس بہت سے ریڈی میڈ فارمولے موجود ہیں۔ان آزمودہ فارمولوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کا ذکر بھی ہے ۔ گلا پھاڑتی ، چھاتیاں پھلاتی، مسل دکھاتی پاکستانی قوم کو میوٹ کرنے کا اس سے بہتر شاید ہی کوئی نسخہ ہو ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کومقامی سوداگروں نے ۲۰۰۳  کے موسمِ بہار میں پاک سر زمیں سے اٹھایا اور چنگھاڑتے دہاڑتے امریکی استعمار کے حوالے کر دیا لیکن اس وقت پاکستانی قوم روشن خیالی کی گنگا میں اشنان کر رہی تھی اس لیے اس لین دین سے اس کی قومی غیرت کا کوئی بال بیکا نہ ہوا۔ پانچ سال تک عافیہ افغانستان کے زندانوں میں پرتشدد اسیری کے دن کاٹتی رہی اور پاکستانی حکومت بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے اس کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔جولائی ۲۰۰۸ ء کو جب ا یوان ریڈلی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی پریس کانفرنس میں قیدی نمبر ۶۵۰ کا قصہ بیان کیا تو پاکستانیوں کی قومی غیرت نے اپنی ایک بیٹی کی غیروں کے ہاتھوں اسیری کی آنچ محسوس کرنی شروع کی ۔ عافیہ پر ڈھائے جانے والے اندھے مظالم کی کہانیاں آہستہ آہستہ زنداں خانوں سے نکل کر پاکستانی قوم تک پہنچنا شروع ہوئیں تو قومی غیرت کو ابال آنے لگا ۔ وہ جنہوں نے عافیہ کو دام و درم کے عوض بیچ دیا تھا ان کے خلاف نفرت کے لاوے پکنے لگے۔ نعروں، اجتجاجوں ، قراردادوں ، ریلیوں اور مظاہروں کا دامن تھام کر پاکستانی قوم نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدو جہد شروع کر دی لیکن جب اہلِ حکم اپنے ضمیر گروی رکھ چکے ہوں تو قوم لاکھ سر پٹکے اپنی غیرت کا دفاع نہیں کر سکتی۔

اگست 23, 2014

امریکی صحافی کا قتل اور عافیہ صدیقی

مبینہ امریکی صحافی جمیز فولی کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت نے عالمی ضمیر کو ایک بار پھر ہڑ بڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ضمیر پچھلے کچھ ماہ سے افیون زدگی کی حالت میں اونگھ رہا تھااور غزہ میں کئی ہفتوں سے جاری قتل وغارت ،جنگی طیاروں اور میزائلوں کی چنگھاڑتی آوازوں اورفلسطینی بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار میں بھی مدہوش پڑا تھا لیکن شکرہے کہ جیمز فولی کے گلے پر چلنے والے خنجر کی آواز سے اس کی نیند ٹوٹ گئی ۔ اب امید کی جاسکتی ہے دنیا بھر کے دکھیاروں کے لیے آواز اٹھے گی اور جیمز فولی کی موت عالمی ضمیر کی حیات ثابت ہو گی۔
جیمزفولی صحافیوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو فاتح امریکی افواج کے پہلو بہ پہلو مفتوح علاقوں پر نازل ہوتے ہیں۔ یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، ہنستے بولتے اور گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی فتوحات کو فلم بند کرکے امریکی قوم کے ایڈونچرانہ جذبے کی تسکین کرتے ہیں۔ مفتوح قوموں کی جہالت ، کسمپرسی، اور بد تہذیبی کی عکس بندی کر کے امریکی حملوں کو تہذیبی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی ان کے جاب پروفائل کاحصہ ہوتا ہے۔چونکہ امریکی عوام کا باقی دنیاکے بارے میں جنرل نالج شرمناک حد تک کم ہے اس لییامریکی میڈیا میں موجود جیمز فولی جیسے صحافی ہی باقی دنیا کے لیے ان کی کھڑکی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صحافی امریکا کے کسی ملک پر حملے سے پہلے ایک ایسا ہیجان برپا کر دیتے ہیں کہ سارے امریکی ایک کورس میں جنگی ترانے گانے شروع کر دیتے ہیں اور حملے کے بعد یہ قبضے کی طوالت کو حلال ثابت کرنیکے لیے وقتا فوقتا کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکا بھیجتے رہتے ہیں ۔بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگی صحافیوں کی یہ کھیپ دراصل امریکا خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ہو تی ہے جنہیں صحافیوں کے روپ میں فوج کے ساتھ یا پیچھے پیچھے روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صحافتی آزادیوں کے سبب فوج کے لیے دشمن کی سر زمین میں جاسوسی کرنے کے فریضے سر انجام دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے فوجیوں سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں لیکن سخت جانی کے سبب پیچھے نہیں ہٹتے ۔

اگست 09, 2014

ایک ناقابلِ فخر ورثہ

ترقی کے آسمان پر ہلکورے لیتا مغرب ہو یا پسماندگی کے گٹر میں کسمساتا مشرق توہم پرستی نوعِ انسانی کا وہ مشترکہ دائمی مرض ہے جسے علم و آگہی کی صدیوں پر پھیلی جدوجہد بھی کمزور نہ کر سکی۔ وہم کی فیکڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والے وائرس کے سامنے دانش وروں کی دانش، سائنس دانوں کی سائنس، فلسفیوں کا فلسفہ اور عالموں کا علم سب ہیچ ہیں۔صدیوں سے وہم کی آندھیاں یقین کی کھیتیوں کو اجاڑتی ، دلیل کی فصیلوں کو مسمار کرتی اور منطق کے قلعوں کوڈھاتی رہی ہیں ۔نسلِ انسانی کے غاروں سے لے کر خلا تک کے سفر میں وہم نے اسے اپنا اسیر کیے رکھا ہے۔ مذاہب آسمانی جو انسانوں کو وہم کی وادیوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑے کرنے کے لیے وجود میں آئے تھے وقت کی گرد نے ان کو ایسا مسخ کیا کہ یہ خود توہم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے ۔ اب چار سو وہم کی حکمرانی ہے اور پاکستان کا نورا مصلی ہو یا امریکا کا نارمن ایڈورڈ ، ہندوستان کی جیراں مائی ہو یا برطانیہ کی جینا ولسن سب وہم کے جال میں گرفتار ہیں۔
توہم پرستی کاتازہ ترین مظاہرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکامیں پیش آیا ۔امریکہ کے گلی کوچوں  میں آج کل ایک ایسی سیاہ پوش عورت کی پر اسراریت کے تذکرے ہیں جو پیادہ پا ایک ناتمام سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ اپنے خیالوں میں گم دنیا و مافیہا سے بے پرواہ یہ عورت پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل عازمِ سفر ہے۔ اس عورت کی اس انوکھی یاترا کی طرف توجہ مبذول کروانے کا سہرا فیس بک پر بنائے گئے ایک پیج کو جاتا ہے جس نے امریکا کے توہم پرستوں کو ایک نئے موضع پر مغز ماری کا موقع فراہم کیا ہے۔ ’’پراسرار عورت کہاں ہے ‘‘نامی اس صفحے پر امریکی اس عورت کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج کرتے ہوئے بڑے دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں ۔ کسی کے خیال میں یہ کوئی بھٹکی ہوئی روح ہے جو بستی بستی پھر کر اپنے نامعلوم کرب کی تسکین کر رہی ہے، کوئی اس کو فرشتہ سمجھ رہا ہے جو انسانوں کو بہ زبانِ خامشی کوئی پیغا م دینا چاہ رہا ہے ، کسی کے نزدیک یہ کوئی بھوت ہے جو کسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، کچھ سیانے اسے خلائی مخلوق کا زمینی ورژن سمجھ رہے ہیں۔ ذرا زیادہ دور کی کوڑیا ں لانے والے اسے خدا کی ولی اور پیغمبر تک قرار دے رہے ہیں ۔ کچھ کم تر درجے کے توہم پرستوں کے نزدیک یہ کوئی مسیحا ہے جو بھٹکی انسانیت کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے خود گاؤں گاؤں بھٹک رہا ہے۔ بہت سے جذباتی توہم پرست تو ابھی سے اس کے مرید ہو کر نہایت شدو مد سے ’’ہمیں سیاہ پوش عورت کے پیغام کو سمجھنا ہو گا‘‘کے نعرے لگا لگا کراس کے پیغام کو پھیلانے میں جی جان سے جت گئے ہیں اگر چہ اتنا انہیں خود بھی نہیں پتا کہ پیغام ہے کیا؟امریکی توہم پرستوں کی یہ معصومانہ ادا مجھے نہ جانے کیوں پاکستان کے بہت سے انقلابیوں سے ملتی جلتی لگتی ہے ! ہمارے انقلابی بھی ایک ایسے ہی مشکوک سفر پر گامزن مردِ پر اسرار کے پیغام کو پھیلانے میں مگن ہیں جس کے انوکھے سفر کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔

جولائی 05, 2014

تحفظِ پاکستان بل

تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال ،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادہ کی چھڑیاں دے دی گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناًہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور اغوا کے اس طویل سلسے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔