نیت صاف ہو تو منزل خود دوڑ کر راہواروں کے قدم چومتی ہے اگر کھوٹ ہو تو یہ
دھندلکوں میں کھو جاتی ہے اور فرد ہو ، قافلے ہوں یا قومیں بے سمت ٹامک
ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بنانے والوں نے قومی اتفاق کی
بیل منڈھے چڑھانے کے لیے کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے اکھٹے کیے اور چوں چوں
کا وہ مربہ بنادیا جسے آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتے ہیں ۔
نیت میں ملاوٹ تھی یا آئین بنانے والے ان دیکھی مجبوریوں کے اسیر تھے کہ جو
بنایااس پرتین دہائیاں بیت جانے پر بھی عمل نہ کروایا جا سکا۔ اس آئین میں
چونکہ تمام طرز ہائے فکر کو حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت مناسب نمائندگی
دی گئی ہے اس لیے اس میں کچھ ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جن کا حقیقت کی
دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ آئین کی اسلامی دفعات ہوں، طبقاتی فرق ختم کرنے
کا وعدہ ہو، اقلیتوں کی آزادیوں کا ذکر ہو،سود کی لعنت سے چھٹکارے کا عزم
ہو یا اردو کو پندرہ سالوں میں سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کا دعویٰ
۱۹۷۳ کا آئین کچھ ایسے دیو مالائی قصوں سے اٹا ہوا ہے جن کا حقیقت کی دنیا
سے کوئی ناتانہیں ۔
نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
اردو لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
جولائی 20, 2014
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)