نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان
الطاف حسین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
الطاف حسین لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ستمبر 23, 2014

لے کے رہیں گے، بٹ کے رہے گا

پیپلز پارٹی نے سابقہ دورِ حکومت میں اپنی روز افزوں کرپشن اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کاجوشوشہ چھوڑا تھا وہ اب بر گ و بار لاناشروع ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں لسانی تعصب کو ہوا دے کرپیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکارکھیلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلم لیگ نون کی سیاسی قوت توڑنے کے ساتھ ساتھ اس شوشے کا بڑا مقصد محرومی کے شکار عوام کے دکھوں کا استحصال کر کے اپنی شرمناک پرفارمنس سے ان کی توجہ ہٹانی تھی۔مئی  2013 کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کے عوام نے  پیپلز پارٹی کو یکسر مسترد کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ نئے صوبے کے سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بنانے کا زمانہ اب گزر چکا ہے ۔ سرائیکی صوبے کے نعرے پر خود جنوبی پنجاب والوں سے زیادہ ایم کیو ایم کو جو خوشی ہوئی وہ دیدنی
تھی۔ ایم کیو ایم نے نہ صرف اس مطالبے کی دل و جان سے حمایت کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر صوبہ ہزارہ کی پھلجڑی بھی چھوڑ دی۔ اہلِ نظر کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے خیال پر یوں ریجھ ریجھ نہ جاتی۔

اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائےجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔حیرت ہے کہ جب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔

ستمبر 05, 2014

کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا۔اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک میں مل رہا ہے ۔

جولائی 10, 2014

جمہوریت کی کھیر

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔

جولائی 21, 2013

تماشا آن ہے

ایم کیو ایم کے منفرد طرزِ سیاست سے نفرت کرنے والوں کے کانوں میں برطانیہ میں ہونے والی عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش رس گھول رہی ہے۔سکاٹ لینڈ یارڈ کا ہر نیا اقدام ان کے لیے ایک جانفزا مثردہ ہے اور وہ اس ساعتِ سعید کا انتظار کر رہے ہیں جب برطانوی پولیس قائدِ تحریک کو سرکاری مہمان خانے کی زینت بنائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جلترنگ بجنے کا یہ سلسلہ کب ختم ہوتا ہے

ایم کیو ایم کے مخالفین کے نزدیک کہانی نہایت سادہ ہے۔ الطاف حسین جو ہمیشہ سے سیاست میں تشدد کو عبادت کا درجہ دیتے رہے ہیں برطانیہ میں وہ غلطی کر بیٹھے جو پاکستان میں بڑے تواتر سے ان کی جماعت پچھلی تین دہائیوں سے کرتی آئی ہے ۔ عمران فاروق جو اپنی نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنے چلے تھے اپنے سابقہ قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کا شکار ہوئے اور انہیں اسی انداز میں راستے سے ہٹنا پڑا جس طرح وہ مخالفوں کو ہٹاتے آئے تھے۔ الطاف حسین جب رو دھو کر اس’’ انہونی‘‘ کے ہونے کا ماتم کر چکے تو اچانک تین سال بعد اب بر طانیہ میں تفتیش کاروں کو عمران فاروق کے اندھے قتل کے سرے الطاف حسین سے جڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔بڑے بڑے جاگیرداروں کو للکارنے والابے چارہ الطاف حسین سکاٹ لینڈ یارڈ کے معمولی سپاہیوں کے نرغے میں ہے

مئی 01, 2010

قاید تحریک کی للکار

ایم کیو ایم کے تا ریخی پنجاب کنونشن نے بدامنی اور مہنگائی کے ستائے ہوئے پنجاب کے مظلوم عوام کو جہاں ایک طرف سستی تفریح فراہم کی ہے وہیں اس اجتماع نے ستم رسیدہ پنجابیوں کو الطاف حسین جیسے عظیم راہنما کی صورت میں وہ نجات دہندہ بھی فراہم کیا ہے جو ان کے تمام مسائل و مصائب کو بوریوں میں بند کر کے انہیں ان سے دائمی نجات دلانے کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔اس کنونشن میں ظالم جاگیرداروں کے خلاف الطاف حسین کے نعرہِ مستانہ نے جو اہلِ پنجاب کی اصطلاح میں بڑھک کہلاتاہے بے چارے چو دھریوں اور سرداروں پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور انہیں اپنی چودھراہٹیں اور سرداریاں شدید خطرے میں نظر آنے لگی ہیں۔