نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

فروری 04, 2013

روایتی جمہوریت کے کرتوت اور عمران خان

آج سےلگ بھگ پانچ سال قبل پرویزی آمریت کی بساط لپٹنے پر جن جمہوریت پسندوں کی باچھیں کھل کر کانوں کی لوؤں کو چھو رہی تھیں اوربغلیں بجاتے جن کے ہاتھ نہ تھکتے تھے اب جمہوریت کی برکات سے کامل پانچ سال تک لطف اندوز ہونے کے بعد ان کی باچھیں واپس اپنی جگہہ پر آچکی ہیں اور بغلیں بھی یکسر خاموش ہیں۔اب جبکہ پاکستانی جمہوریت کا ایک اور بیہودہ ناٹک تمام ہونے کو ہے اور انتخابات کا پردہ اٹھنے کے بعد نئے نوٹنکیوں، نوسر بازوں، بھانڈوں اور بے مغز کٹھ پتلوں کی ایک فوج ظفر موج سٹیج پر جمہوری اودھم مچانے کے لیے بے تاب بیٹھی ہے تو یہ جمہوریے انگشت بدنداں ہیں کہ کہاں جائیں! مشرف جو بے آبرو ہو کر اقتدار کے کوچے سے بھاگاتھا اس جمہوریت کی پانچ سالہ بے مثال کارکردگی نے اس کے مردہ دہن میں بھی جان ڈال دی ہے اوروہ پٹر پٹر اپنے دور کے کارناموں کا موجودہ دور کے ساتھ موازنہ کر کے یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کے دور میں دودھ کی نہریں بہتی تھیں جو موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے گندے نالوں میں تبدل ہو چکی ہیں! پاکستانی گینزبک میں سب سے زیادہ گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہونے کا ریکارڈ رکھنے والا مشرف اب اس لیے افسردہ ہے کہ اس کا یہ منفرد اعزاز موجودہ حکمرانوں نے اپنی شبانہ روز کوشش سے اس سے چھین لیا ہے۔

دنیا بھر میں جمہوریت اگر معاشرے کے بہترین افراد کے ذریعے نظامِ حکومت چلانے کا نام ہے تو ہمارے دیس کی الٹی گنگا میں یہ بدترین افراد کے ذریعے لوٹ مار کا ایک بھیانک نظام ہے جس میں لوٹنے والے کو معزز حکمران اور لٹنے والوں کو مظلوم عوام کہا جاتا ہے ۔ دنیا کی سو سے زائد جمہوریتوں پر نظر دوڑائیں آ پ کو کہیں زرداری ، راجہ پرویز، بلور، رحمن ملک، رئیسانی اور قائم علی شاہ دکھائی نہیں دیں گے۔ ایسے نادر نمونے صرف پاکستانی جمہوریت کی انوکھی کوکھ سے ہی نمودار ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی انتخابات کی چھانی میں نہ جانے کیا چھید ہیں کہ یہ کھرے اور کھوٹے کو الگ نہیں کر سکتی اس لیے ہر دفعہ ایسےشگوفے حکمرانی کے لیے طلوع ہوتے ہیں جومعاشرے کے سب سے مضحکہ خیز کردار سمجھے جاتے ہیں اورپاکستانی عوام کواپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر ان اودھ بلاؤں کے کرتب خندہ پیشانی سے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جب پاکستانی عوام ان جمہوری ناٹکوں کی یکسانیت سے بور ہونے لگتے ہیں تو جمہوریت کی بڑی بہن آمریت میدان میں اتر آتی ہے اور اپنے باوردی جوکروں کے ذریعے نئے نئے کرتب دکھا کر عوام کے ذوق کی تسکین کرتی ہے ۔ ادل بدل کا یہ سلسلہ پچھلے سڑ سٹھ سالوں سے جاری ہے اور کون جانے کب تک جاری رہے۔

طاہر القادری کے بے سرو پا لانگ مارچ کے موقع پر سب سیاسی گماشتوں کا لاہور میں اکٹھ پاکستانی عوام کو یہ سمجھانے کے لیے کافی تھا کہ لوٹ کھسوٹ ، قتل و غارت ، بدامنی و مہنگائی ہمارے ان سیاست دانوں کے لیے کبھی بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں رہے کہ یہ ان کے تدارک کے لیے اکٹھے ہوتے ہاں جب ممکنہ اقتدار میں نقب لگنے کا ڈر ہو تو یہ ہر اختلاف بھلا کر ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے بن جاتے ہیں اور جمہوریت کی مقدس گائے کی رکھشا کا عزم کرتے نہیں تھکتے۔ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان کے عوام جس سکھا شاہی نظام کے عذاب تلے سسکتے رہے ان کی آواز حزب اختلاف کو بننا تھا لیکن رائے ونڈ کے محلات میں سرور کے نغمے بجتے رہے اور ن لیگ آنے والے پنج سالہ اقتدار کے خوابوں میں یوں ہلکورے لیتی رہی کہ بھوک ا ور افلاس کے ہاتھوں خودکشیاں کرتے بے کسوں کی چیخیں بھی اس کے سکون میں خلل نہ ڈال سکیں۔ پاکستانی جمہوریت اقتدار حاصل کرنے سے شروع ہوتی ہے اور پانچ سال پورے کرنے پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اس سے آگے پیچھے سوچنے کی شاید اس میں صلاحیت ہی نہیں! اب جب کہ دونوں بڑی پارٹیوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ایک دوسرے کو پانچ سال لوٹ کھسوٹ کا پورا پورا موقع فراہم کرنا ہے اور درمیان میں کہیں رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی تو لگتا یہ ہے کہ پاکستانی جمہوریت کے کرتوت زیادہ کھل کر عوام کے سامنے آئیں گے۔

جو لوگ آنے والے انتخابات کے ذریعے نظام تبدیل کرنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں ان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو کالجوں اور یونیوسٹیوں سے تازہ تازہ وارد ہوئے ہیں اور جنہیں پاکستانی جمہوریت کے اصل چہرے سے ابھی پوری طرح شناسائی نہیں۔ یہ نوجوان جن کے جذبوں کی آنچ ابھی زمانے کی سرد ہواؤں کے ہاتھوں ماند نہیں پڑی عمران خان پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں ۔ اس عمران خان پہ جس کو روایتی سیاست دانوں کے غولِ بیابانی نے گھیر لیا ہے اور جس کے سونامی کی دھاڑ اب معمولی ممناہٹ سے زیادہ کچھ نہیں۔ یو ں لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ ہاتھوں نے عمران کی ٹیم میں اپنے آزمودہ کارگرگے ڈال کر ٹیم سپرٹ کا ستیاناس کر دیا ہے اور جذباتی کپتان کو سمجھ نہیں آرہی کہ اب ان کے نرغے سے کیسے نکلے ۔عمران کے نوجوان تقدیر بدل سکتے ہیں لیکن پاکستانی قوم کی قسمت کی باگ ڈور سنبھالنے سے پہلے انہیں بھیڑیوں کے اس بے رحم غول کا سامنا ہے جو ہوس اقتدار میں باؤلے ہو چکے ہیں اس لیے ہر حد سے گزرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔اگر پاکستانی عوام کو روایتی جمہوریت کے جال سے نکل کر اصلی جمہوریت کی طرف بڑھنا ہے تو پی پی اور ن لیگی سیاست کدو ں کے سحر سے نکلنا ہو گا۔ عمران میں لاکھ برائیاں سہی لیکن وہ نواز شریفوں اور زرداریوں سے بہت بہتر انتخاب ہے ۔آزمائے ہووں کو آزمانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ کسی نئے جذبے سے آس لگا لی جائے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.