نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان
طاہر القادری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
طاہر القادری لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ستمبر 18, 2014

کیا ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں؟

ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں یا انتشار کی دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دھرنے کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے بتوں کو سامنے رکھ کراپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے پاکستان کو جنت بنانے والے انقلابی گانوں کی دھن میں خود کو انقلاب کے دھانے پر بیٹھے ہوئے محسوس کررہے ہیں جبکہ دھرنے کے مخالفین کواس میں شر اور شرارت کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا۔ گرم توے پر بیٹھی حکومت کے مونہہ سے انتشار کے خدشات ایک معمول کی بات بن چکی ہے کہ وہ اپنا تخت بچانے کے لیے کسی بھی جھوٹی سچی منطق کا سہارا لے سکتی ہے لیکن اب عمران خان نے بھی خانہ جنگی کی بات کر کے سب کو چونکا دیاہے۔ یہ واضح نہیں کہ عمران اس ہولناک خدشے کا اظہار کر کے حکومت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں یا ملک کے اصلی حکمرانوں کو ان کے غیر جانبدار رہنے کے اعلان پر کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ خانہ جنگی کی دھمکی کو عمران اگر ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی حماقت کرنے جا رہے ہیں ۔ اپنی خفت کو سمیٹ کر کچھ دن کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے ۔ 
عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا ہے ۔ لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔

ستمبر 15, 2014

رینٹ اے انقلابی

حق کے خلاف باطل کی سازشی فیکٹری ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک چلتی رہے گی ۔ یہ فیکٹری چوبیس گھنٹے اہلِ حق کو نیچا دکھانے کے لیے نت نئی سازشیں بُنتی رہتی ہے ۔اس سے برآمد ہونے والی پراڈکٹس میں نئے نئے فلیور کے جھوٹ ، نئی نئی طرز کی تہمتیں اور نت  نئے فیشن کے الزامات بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔یہ طاغوتی فیکٹری پچھلے کچھ دنوں سے اسلام آباد میں دھرنے دینے والوں کے خلاف جھوٹ کات رہی ہے اور طاہر القادری جیسی بزرگ ہستی کے خلاف ایسے الزامات لگا رہی ہے جن پر ایمان لانا تو دور کی بات صرف ان کو سوچنے سے بھی ایمان کھونے کا دھڑکا لگارہتا ہے ۔ طاغوت کے دو برطانوی ہر کاروں بی بی سی اور رائٹرز نے اپنی دو مختلف رپورٹس میں شیخ الاسلام کے انقلابیوں پر کرائے کے انقلابی ہونے
کے ایک ہی جیسے الزامات لگا کر ہمارے اس شک کومزید تقویت دی ہے کہ یہود و نصاریٰ پورے زور و شور سے انقلابی پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔ جیسے جیسے دھرنا طوالت پکڑ رہا ہے نئے پاکستان کے امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جارہے ہیں اور اس روشنی سے چونکہ یہودو نصاریٰ کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں اس لیے وہ اس طرح کی من گھڑت خبروں سے نئے پاکستان کے سورج کو طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب کردیناچاہتے ہیں۔
قادری صاحب کے سالِ گذشتہ کے تاریخی دھرنے کے موقع پر بھی غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں پر انحصار کرنے والےبعض کج بیں حضرات کی طرف سے کچھ اسی طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا کہ قادری صاحب کے غیر معمولی ڈسپلنڈ مریدین یا تو ان کے منہاج سکول نیٹ ورک کے ملازم ہیں یا پھر کرائے پر لائے گئے بے روزگار ! لیکن اُس وقت بھی ایسی افواہوں کی قادری صاحب نے سختی سے تردید کر کے ان کے سر کچل دیے تھے اور اِس سال بھی قادری صاحب بی بی سی اور رائٹرز کی پھیلائی گئی افواہ نما خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں ۔ ہم نے سازش کا سرا تو ڈھونڈ لیا ہے لیکن اس سازش کے پس پردہ محرکات تک پہنچنا نہ صرف نئے اور انقلابی پاکستان بلکہ پرانی امتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اشد ضروری ہے ۔ اس بات کا کھوج لگانا کہ بی بی سی اور رائٹرز انقلاب سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں نہایت ہی اہم ہے۔

ستمبر 12, 2014

انقلاب کی دلدل

دنیا بھر میں انقلاب کا لفظ تبدیلی کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ سماجی، سیاسی، معاشی ، یا مذہبی ڈھانچے میں یک لخت وقو ع پذیر ہونے والی تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔اس لحاظ سے انقلاب اور تبدیلی دونوں جڑواں بہن بھائی ہیں ،جہاں انقلاب آئے وہاں تبدیلی ناگزیر ہے اور جہاں تبدیلی آ جائے وہاں انقلاب کودر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دونوں کا جنم جنم کا ساتھ ہے ۔کسی بھی معاشرے میں یہ دونوں اکٹھے پیدا ہوتے اکٹھے پروان چڑھتے اور اکٹھے مرتے ہیں ۔ ان دونوں کے اہداف ، کارگزاریوں اور کارناموں پر پوری پاکستانی قوم پچھلے۲۶ روزہ کورس میں مکمل عبور حاصل کر چکی ہے۔ تبدیلی کے موضوع پر عمران خان کی جذباتی تقریروں اور انقلاب کے شانِ نزول پر طاہر القادری صاحب کے پر مغز خطبات نے ہم میں سے ہر ایک کو اس موضوع پر اچھا خاصا عالم بنا دیاہے ۔ چناچہ اب ہم دنیا کو صداقت ، عدالت اور شجاعت کے ساتھ ساتھ انقلاب کا
درس بھی با آسانی دے سکتے ہیں۔ انقلاب اور تبدیلی کے شعبہ جات میں ہماری یہ خود کفالت یقیناًحاسدوں کے حسد میں دن دگنی رات چگنی اضافہ کر رہی ہے۔
 
انقلاب اور تبدیلی کی بہت سی اقسام اور نسلیں ہیں اور ہر نسل کی اپنی اپنی خصوصیا ت ہیں لیکن ان تمام اقسام اور قبیلوں میں سنجیدگی کی قدر مشترک ہے ۔دنیا میں کہیں بھی انقلاب قوالیوں پر تالیاں پیٹتے ہوئے نہیں آیا نہ ہی گانوں پر جھومتے ہوئے کہیں تبدیلی کو آتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ لیکن دنیا نے جو کبھی نہیں دیکھا ہم وہی اس کو دکھانا چاہتے ہیں ۔ دنیا کے لیے انقلاب جینے مرنے کا معاملہ ہو گا ہمارے لیے یہ ٹھٹھے مخول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ دنیا تبدیلی کے لیے کڑھتی مرتی ہو گی ہم گانوں کی سر تال پر جھومتے جھامتے تبدیلی لا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے انقلابی لیڈر کئی کئی سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر اور خون کی ندیاں عبور کر کے انقلاب لاتے ہیں ہمارا انقلاب بلٹ پروف ہے اس لیے یہ ان مراحل سے گزرے بغیر لیلیِٰ اقتدار کی زلف تک رسائی چاہتا ہے۔ہمارا انقلاب عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں کارکن سڑک پر اور انقلاب ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں سوئے۔

ستمبر 06, 2014

سیاسی عطائی

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں فنکاروں کی ایک خاص کلاس کو عطائی کہتے ہیں جو کسی ڈرامے یا فلم کی بجائے عملی زندگی میں اپنی اداکاری سے لوگوں کے دل موہتی اور جیبیں ہلکی کرتی ہے !کھمبیوں کی طرح یہ عطائی ہر شہر ہر قصبے ہر کوچے اور ہر گلی میں وقتاً فوقتاً اگتے ہیں ،کچھ عرصہ اپنی مہارت سے علاقے کے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔ نبض دیکھ کر مرض جان لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور تبخیرِ معدہ سے لے کر کینسر تک جیسے امراض کے شافی علاج میں انہیں پیدائشی مہارت حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ دوا کی ایک ہی پڑیا سے سارے امراض کو بھگانے کا محیر العقول کارنامہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ ہر طرف سے نا امید مریضوں کوونویدِ شفا دیتے ان کے اشتہار جا بجا دیواروں
پر نقش ہوتے ہیں ۔ عام طبیبوں کی نسبت یہ کم خرچ میں بڑے بڑے پیچیدہ امراض کے پیچ و خم کھولنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے ان کی دکان خوب چلتی ہے۔
عطائیوں کی یہ خصوصیات تیسری دنیا میں پھیلی ان کی ساری فنکار برادری کا مشرکہ ورثہ ہیں لیکن تیسری دنیا کیباقی ممالک کے برعکس پاکستانی عطائیے صرف لوگوں کی قبض رفع کرنے اور ان کی بواسیر بھگانے کے فن تک ہی محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی اور شعبوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ے ہیں۔میدانِ سیاست میں ان کی ترک تازیاں بالخصوص قابلِ ذکرہیں۔ اس میدان میں اب تو عطائیوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ اصلی اور نقلی میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوگیاہے ۔ میڈیا کیمروں کی چکا چوند میں عطائی سیاست دانوں کی دکانیں زیادہ چمکتی ہیں کیوں کہ تماشا لگانا انہیں خوب آتا ہے۔ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے فن میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل ہوتی ہے چناچہ کبھی طنز و مزاح سے ، کبھی رو رلا کر ، کبھی چٹکلے سنا کر یہ حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ان کی یہ مہارت میلوں ٹھیلوں اور لاری اڈوں پر دانت کے درد کی دوا اور سانڈے کا تیل بیچنے والے مداریوں سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہے ۔یہ مداری بھی اپنی دوا بیچنے کے لیے سسپنس اور تھرل کے ہتھیاروں سے کام لیتے ہیں اور بھولے بھالے سامعین کو گھنٹوں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیرے رکھتے ہیں ۔

ستمبر 05, 2014

کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا۔اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک میں مل رہا ہے ۔

اگست 19, 2014

کیا مارچر مارشل لا کے منتظر ہیں

اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے سجائی گئی خوابوں کی جنت کو دو دن بیت چکے ہیں ۔جنتیوں کے جنون اور عقیدت کے پیمانے ابھی لبریز ہیں اورحکومت کو ابھی کچھ اور دن شاید انقلابی لیڈروں کی بے معنی للکاریں برداشت کرنی پڑیں۔ دنیا بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیروکاراپنے اپنے لیڈروں کو وہ مسیحا سمجھتے ہیں جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے ۔ دنیا بھر کی جماعتوں کے سیاسی ورکر اپنے لیڈر وں کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ وہ ان کے اشاروں پر ریلیاں نکالتے، مارچ کرتے اور دھرنے دیتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لیے یہ ہر طوفان سے ٹکراتے ہیں، مصائب و مسائل کی آندھیوں کامقابلہ کرتے ہیں اورانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے ۔ جہاں یہ ایندھن ٹھنڈا پڑتا ہے سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عرش سے فرش پر آ گرتے ہیں۔ فرش نشیں ہونا سیاسی لیڈروں کو چونکہ اتنا پسند نہیں ہوتا اس لیے یہ اپنے ورکروں کے جنون کو جھوٹے سچے نعروں سے ہوا دیتے رہتے ہیں ۔
پاکستان کے سیاسی ورکر دنیا بھر کے سیاسی ورکروں کی جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی منفرد خاصیتیں بھی رکھتے ہیں جو دنیا کے کسی اور گوشے میں نہیں پائی جاتیں ۔ہمارے سیاسی ورکر اپنے لیڈرو ں میں پیغمبرانہ خصوصیات پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر ہر خطاؤں سے مبرا ہے ۔ جھوٹ ،منافقت ، موقع پرستی اور ابن الوقتی سے کوسوں دور اور ذاتی منفعتوں کی آلائشوں سے یکسر پاک ہے۔ یہ سمجھتے ہیں ان کا لیڈر عام انسانوں سے بلند اللہ کا وہ ولی ہے جس سے غلطی سر زد ہونے کا ایمان رکھنا سیاسی کفر ہے ۔ یہ اپنے لیڈر کے مونہہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو وحی سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے سے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ ایسے الوہی لیڈروں اور ان کے فدائی حشیشین سے بھری ہوئی ہے ا وراگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی ’’ ہوش ربا ترقی‘‘ کا راز بھی یہ لیڈر اور ان کے سیاسی ورکر ہی ہیں۔

اگست 13, 2014

مارچوں کا موسم اور مشرف کا بھوت

تیسری دنیا میں بسنے والی انسان نما مخلوق کے بہت سے مشترکہ دکھوں میں سے ایک دکھ یہ بھی ہے کہ یہاں آمر اقتدار سے دھتکارے جانے کے باوجود طاقت ور رہتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے باوجودسوکھے پتوں کی طرح لرزتے رہتے ہیں۔ مشرف کو اقتدار کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلے چھ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی ساری کوششوں کا محور آج بھی مشرف کو بچانا یا اسے لٹکانا ہے۔ نواز شریف بھاری اکثریت لے کر حکومت میں آئے لیکن صرف ایک سال بعد ہی ان کی حکومت پر کپکپی طاری ہے ۔ انقلابوں اور آزادی مارچوں میں گھری ہوئی پاکستان کی ناتواں جمہوریت ایک دفعہ پھر کسی متوقع گینگ ریپ کا شکار ہونے کے خیال سے لرزہ بر اندام ہے اور تیسری دنیا کی انسان نما مخلوق زندہ باد ،مردہ باد ،آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے لگانے میں حسب معمول مست ہے۔
اس امر کو سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاہر القادری صاحب کے انقلابی اور عمران خان کے آزادی مارچ نے پاکستان میں جس سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اس کا فائدہ ان انقلابیوں کو ہو نہ ہو سابقہ آمر پرویز مشرف کوضرور ہوگا۔ بہت سے ذہنوں میں اس سوال نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کہیں آزادی مارچ مشرف کو آزادی کا پروانہ تھموانے کے لیے تو نہیں رچایا جا رہا؟ کہیں انقلاب کی ساری تان اس انتشار پر تو نہیں ٹوٹے گی جس کا فائدہ اٹھا کر مشرف سارے گناہوں سے دھل دھلا کر پردیس سدھار جائے گا؟ کہیں وہ جن کے ہاتھ میں اصل اقتدار کی لاٹھی ہے اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے انقلابیوں اور نئے پاکستان والوں کو اپنی کئی دہائیوں سے آزمودہ ٹکٹکی پر تو نہیں نچا رہے ؟ سوالوں کا اژدحام ہے اور عام پاکستانی حیران ہیں کہ کس پر ایمان لائے اور کس سے برا ء ت کا اظہار کرے ؟

جولائی 10, 2014

جمہوریت کی کھیر

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔

جون 29, 2014

انقلابی سیاست اور ہمارے گلو بٹ

روایت پرست پاکستانی عوام نے طاہر القادری کے نعرہِ انقلاب کو جس سنجیدگی سے لیا اس کا اندازہ گلو بٹ کی روز افزوں مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر گلو کے جارحانہ انداز پر بنائے گئے سینکڑوں لطائف اگرچہ صرف طفننِ طبع کے لیے شئیر کیے جارہے ہیں لیکن ان سے قادری صاحب کے انقلاب کی شان میں جو پے در پے گستاخیاں سرزد ہو رہی ہیں وہ قابلِ افسوس ہیں۔ انقلاب چاہے کینیڈا سے بزنس کلاس میں ہی سفر کر کے کیوں نہ آئے اس کی تضحیک انقلاب پسند قوم کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ گلو بٹ جس نے گلی محلوں کے بے قابو لفنگوں اور پنجابی فلموں کے بے مغز ہیرو کی طرح ادارہ منہاج القران کے سامنے کھڑی گاڑیوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایاکیوں کر عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ لوگ ماڈل ٹاؤن سانحے میں مرنے والے مظلوموں کو بھول کر اس مضحکہ خیز کردار کے مناقب گننے میں مگن ہیں۔

جون 25, 2014

پاکستانی سیاست کے ’’ڈئیر ڈیولز‘‘ اور حواس باختہ حکومت

جہالت، پسماندگی اور افلاس کے جان لیوا شکنجوں میں جکڑے ہوئے پاکستانی اگر طاہر القادری جیسے کرداروں کو مسیحا سمجھ لیں تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔طاہر القادری کی لیڈر شپ کے ڈرامائی انداز پر انگلیاں اٹھانے والے کیا ہماری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر دکھا سکتے ہیں جس نے ناٹک بازی ، مکرو فریب اور ڈھونگ رچا کر اقتدار کی کرسی نہ حاصل کی ہو۔ جمہوری لیڈر وں کی نوسر بازیاں تو رہیں ایک طرف مقدس وردی پہنے ہمارے مسیحاؤ ں کیقلابازیوں کا مقابلہ کیا دنیا کا بڑے سے بڑا کوئی شعبدہ باز کر سکتا ہے ؟ ضیا الحق گیارہ سال تک اسلامی نظام کے نام پر قوم سے جو بھونڈا مذ اق کرتا رہا اور اس کا پیش رو مشرف نو سال تک رشن خیالی کے جس جھولے پر قوم کو جھلا کر الو بناتا رہا کیا اس کی نظیر دنیا کے کسی مہذب ملک کی تاریخ میں ڈھونڈی جا سکتی ہے؟

جون 19, 2014

نون لیگ کا نامعلوم فرد

لاہور میں عوامی تحریک کے سادہ لوح کارکنوں پر ٹوٹنی والی قیامت جہاں ایک طرف پنجاب حکومت کے مثالی نظامِ حکومت کا پول کھول گئی وہیں پنجاب پولیس کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا پردہ بھی فاش کر گئی۔ پچھلے کئی سالوں سے شہباز شریف گڈ گورننس کے نام پر سرکاری افسروں کی سر عام تذلیل کے جس راستے پر چل رہے تھے اس کا لا محالہ انجام یہی ہو نا تھا کہ افسر اپنی دھوتی بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا ہر وہ کام کریں جس سے تختِ لاہور خوش ہو۔ اگرچہ ابھی اس امر کا تعین ہونا باقی ہے کہ عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر پولیس افسروں نے گولی چلانے کا حکم محکمانہ ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود کیا یا اس بھیانک سانحے کا منصوبہ کہیں اور تیار کیاگیا تھا تاہم گلو بٹ جیسے کرداروں کی موجودگی ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ اب تک اہنسا کے اصولوں پر بظاہر کاربند ن لیگ کی حکومت ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی ہے اورطا قت کے اس بے ڈھنگے مظاہرے سے اس نے کینیڈا میں بیٹھے امامِ انقلاب کو کوئی پیغام دینا چاہا ہے۔

جون 17, 2014

آپریشن فیور

پاکستانی قوم دنیا کی سب سے محبِ وطن قوم ہے ۔ یہ انکشاف ایک ایسے تازہ ترین سروے میں کیا گیا ہے جس میں لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ان کے ملک پہ مشکل وقت پڑا تو وہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے یا نہیں۔ اپنے وطن کے لیے جان ہتھیلی اور ہتھیار کندھے پر رکھ کر لڑنے کا عزم کرنے والوں میں پاکستانی سر فہرست رہے جن میں سے ۸۸ فیصد نے ہاں میں جواب دیا ۔ باقی مانندہ بارہ فیصد نے اس اہم ملکی و ملی فریضے سے کیوں مونہہ موڑایہ ایک پریشان کن سوا ل ہے جس کی جزئیات میں نہ جانا ہی مناسب ہے ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ان کا تعلق غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں یا طالبان سے ہو گا۔ سروے کے نتائج نہایت چشم کشا ہیں اور ان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔ اس اہم مرحلے پر سروے کے یہ نتائیج یقیناًایک ’غیبی امداد‘ ہیں اور ان سے معرکہ حق و باطل میں ڈوبے ہمارے فوجی جوانوں کو بھی یہ حوصلہ ملے گا کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو پوری قوم یا قوم کا ایک بڑا حصہ ہتھیار اٹھائے ان کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ مشرقی پاکستان آپریشن سے پہلے بھی اگر ایسا ہی ایک سروے کر لیا جاتا تو ہمارے فوجی جوانوں کو حوصلہ ہوتا اور وہ ہتھیار نہ ڈالتے۔ بحرحال دیر آید درست آید۔

فروری 17, 2013

پاکستانی سیاست کے وینا ملک

عنوان سے کہیں یہ نہ سمجھیے کہ ہم ملک برادری کے نام اور مقام کو بلند کرنے والی کسی فاحشہ کی آبرو باختگی کا مرثیہ کہنے لگے ہیں۔ نہ ہی ہمارا مقصد پاکستان کے سافٹ امیج کی بیرونِ ملک زورو شور سے تشہیر کرنے والی کسی باکمال فنکارہ کی تضحیک ہے۔  ہم دراصل اس حیرت انگیز مماثلت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو وینا ملک اور ہمارے بہت سے سیاست دانوں کے درمیان پائی جاتی ہے اور جس کا سب سے واشگاف اظہار تازہ تازہ درآمد ہونے والے ہمارےایک انقلابی لیڈر کے ہاں ہوا۔ فن اور سیاست جو دو متضاد دنیائیں ہیں ان کے دو کھلاڑیوں کے درمیان اس حد تک اشتراکِ خیال نے ہمیں بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور ہم حیران ہیں کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔ یہ مماثلت کیا ہے اس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے پہلے سفرِ انقلاب کی بات ہو جائے۔