ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں یا انتشار کی دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دھرنے کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے بتوں کو سامنے رکھ
کراپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے پاکستان کو جنت بنانے
والے انقلابی گانوں کی دھن میں خود کو انقلاب کے دھانے پر بیٹھے ہوئے محسوس
کررہے ہیں جبکہ دھرنے کے مخالفین کواس میں شر اور شرارت کے علاوہ اور کچھ
نظر نہیں آرہا۔ گرم توے پر بیٹھی حکومت کے مونہہ سے انتشار کے خدشات ایک
معمول کی بات بن چکی ہے کہ وہ اپنا تخت بچانے کے لیے کسی بھی جھوٹی سچی
منطق کا سہارا لے سکتی ہے لیکن اب عمران خان نے بھی خانہ جنگی کی بات کر
کے سب کو چونکا دیاہے۔ یہ واضح نہیں کہ عمران اس ہولناک خدشے کا اظہار کر
کے حکومت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں یا ملک کے اصلی حکمرانوں کو ان کے غیر
جانبدار رہنے کے اعلان پر کوئی پیغام دینا
چاہتے ہیں۔ خانہ جنگی کی دھمکی
کو عمران اگر ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو
وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی حماقت کرنے جا رہے ہیں ۔ اپنی خفت کو
سمیٹ کر کچھ دن کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے
سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے ۔
عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا ہے ۔ لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔

عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا ہے ۔ لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔