کی غیرت کو وقتاً فوقتاً پنکچر کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ شیخی بگھارنے لگتی ہے اور ساری دنیا کی غیرت پر سوال اٹھانے لگتی ہے۔ ہمارا پانی اتارنے کے لیے عالمی میڈیا کے پاس بہت سے ریڈی میڈ فارمولے موجود ہیں۔ان آزمودہ فارمولوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کا ذکر بھی ہے ۔ گلا پھاڑتی ، چھاتیاں پھلاتی، مسل دکھاتی پاکستانی قوم کو میوٹ کرنے کا اس سے بہتر شاید ہی کوئی نسخہ ہو ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کومقامی سوداگروں نے ۲۰۰۳ کے موسمِ بہار میں پاک سر
زمیں سے اٹھایا اور چنگھاڑتے دہاڑتے امریکی استعمار کے حوالے کر دیا لیکن
اس وقت پاکستانی قوم روشن خیالی کی گنگا میں اشنان کر رہی تھی اس لیے اس
لین دین سے اس کی قومی غیرت کا کوئی بال بیکا نہ ہوا۔ پانچ سال تک عافیہ
افغانستان کے زندانوں میں پرتشدد اسیری کے دن کاٹتی رہی اور پاکستانی حکومت
بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے اس کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔جولائی ۲۰۰۸ ء کو
جب ا یوان ریڈلی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی پریس کانفرنس میں قیدی نمبر
۶۵۰ کا قصہ بیان کیا تو پاکستانیوں کی قومی غیرت نے اپنی ایک بیٹی کی غیروں
کے ہاتھوں اسیری کی آنچ محسوس کرنی شروع کی ۔ عافیہ پر ڈھائے جانے والے
اندھے مظالم کی کہانیاں آہستہ آہستہ زنداں خانوں سے نکل کر پاکستانی قوم تک
پہنچنا شروع ہوئیں تو قومی غیرت کو ابال آنے لگا ۔ وہ جنہوں نے عافیہ کو
دام و درم کے عوض بیچ دیا تھا ان کے خلاف نفرت کے لاوے پکنے لگے۔ نعروں،
اجتجاجوں ، قراردادوں ، ریلیوں اور مظاہروں کا دامن تھام کر پاکستانی قوم
نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدو جہد شروع کر دی لیکن جب اہلِ حکم اپنے
ضمیر گروی رکھ چکے ہوں تو قوم لاکھ سر پٹکے اپنی غیرت کا دفاع نہیں کر
سکتی۔