نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

جولائی 20, 2014

پاکستانی آئین کی ایک لاوارث شق

نیت صاف ہو تو منزل خود دوڑ کر راہواروں کے قدم چومتی ہے اگر کھوٹ ہو تو یہ دھندلکوں میں کھو جاتی ہے اور فرد ہو ، قافلے ہوں یا قومیں بے سمت ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بنانے والوں نے قومی اتفاق کی بیل منڈھے چڑھانے کے لیے کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے اکھٹے کیے اور چوں چوں کا وہ مربہ بنادیا جسے آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتے ہیں ۔ نیت میں ملاوٹ تھی یا آئین بنانے والے ان دیکھی مجبوریوں کے اسیر تھے کہ جو بنایااس پرتین دہائیاں بیت جانے پر بھی عمل نہ کروایا جا سکا۔ اس آئین میں چونکہ تمام طرز ہائے فکر کو حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت مناسب نمائندگی دی گئی ہے اس لیے اس میں کچھ ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ آئین کی اسلامی دفعات ہوں، طبقاتی فرق ختم کرنے کا وعدہ ہو، اقلیتوں کی آزادیوں کا ذکر ہو،سود کی لعنت سے چھٹکارے کا عزم ہو یا اردو کو پندرہ سالوں میں سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کا دعویٰ ۱۹۷۳ کا آئین کچھ ایسے دیو مالائی قصوں سے اٹا ہوا ہے جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی ناتانہیں ۔

جولائی 17, 2014

غزہ کی سلگتی بستیاں اور کھوکھلی امت


فلسطین کی سلگتی بستیاں دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل سلگ رہے ہیں،فلسطینی مظلوموں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ کر مسلمانوں کے کلیجے پھٹے جارہے ہیں، اسرائیل کی خون آشامی پر مسلمانوں کے خون کھول رہے ہیں لیکن بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سوائے مذمتی بیانات کے اور کچھ کرنے کی تاب و تواں نہیں۔قابض اسرائیل ہر تھوڑے عرصے بعد فلسطینیوں پر آگ و آہن کی بارش برساتا ہے اور کسی جنونی سیریل کلر کی طرح بے آسرا فلسطینیوں کی بے بسی کا لطف اٹھا تا ہے۔ مسلم امہ ہر نئی اسرائیلی جارحیت پر خون کے آنسو روتی ہے فلسطینی مظلوموں کی بے کسی پر نوحے پڑھتی ہے جوش آور تقریریں کر کے ناپاک اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کرتی ہے اور اسرائیل کے جنون کا ایک اور دور انہی جھوٹے واویلوں میں گزر جاتا ہے ۔ کئی دہائیوں کے تجربے نے اب اسرائیل کی دیدہ دلیری میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے وہ جانتا ہے کہ فلسطینیوں کے آنسو پونچھنے کوئی نہیں آئے گا اس لیے ہر ایک آدھ سال کے بعد یہ ان کے خون سے ہولی کھیل کر ساری دنیا کو اپنی طاقت اور مسلم امہ کو اس کی اوقات یاد دلاتا ہے۔

جولائی 10, 2014

جمہوریت کی کھیر

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔

جولائی 05, 2014

تحفظِ پاکستان بل

تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال ،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادہ کی چھڑیاں دے دی گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناًہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور اغوا کے اس طویل سلسے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔

جولائی 04, 2014

ارضِ مقدس کا بے انت مرثیہ

عالمی ضمیر تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت پر افسردہ ہے۔۱۲ جون کی ایک سہہ پہر کو اسرائیلی بستی سے غائب ہونے والے ان تین یہودی آباد کار نوجوانوں کی لاشیں اسرائیل ہی کے زیرِ انتظام مقبوضہ مغربی پٹی سے ملی ہیں۔ ان نوجوانوں کی اٹھارہ روزہ تلاش میں اسرائیلی فوج نے چار سو فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں سات سال کے بچے سے لے کر ستر سال کے بوڑھے شامل ہیں۔گرفتار ہونے والے ان فلسطینیوں کی بقیہ زندگی اب اسرائیلی کے ان اندھے قید خانوں میں گزرے گی جو عالمی ضمیر کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ تین نوجوانوں کے اغوا نے سارے اسرائیل پر افسردگی کی چادر تان دی تھی جسے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے پانچ فلیسطینیوں کا خون بھی نہ چھٹ سکا۔ اب ان نوجوانوں کی لاشیں ملنے پر سارا اسرائیل بدلے کی آگ میں دہک رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس پر الزام عا ئد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ حماس سے اس خون کا بدلہ لیا جائے گا۔

جولائی 02, 2014

اپنا اپنا چاند

رویت ہلال حسبِ روایت اس سال بھی اسلام کے قلعے میں متنازع رہا ۔ پشاور کی مسجد قاسم خان میں بیٹھے مفتی شہاب الدین پاپولزئی کو چاند نظر آ گیا کراچی میں بیٹھے مفتی منیب الر حمن اس سعادت سے محروم رہے ۔ فرقہ واریت ہمارے خون میں یوں رچ بس گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اس سے دامن نہیں بچا سکتے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین کو خیبر پختونخواہ سے ملنے والی شہادتیں قبول نہیں کہ ان شہادتوں کا فرقہ مختلف ہے ۔ مفتی پاپولزئی سرکاری کمیٹی کو اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کاتعلق ایک دوسرے فرقے سے ہے۔ ہر فرقے کو دوسرے فر قے کی شہادتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ ہٹ دھرمی کو اگر مجسم صورت میں دیکھنا مقصود ہو تو پاکستانی فرقہ پرستوں سے بہتر کوئی اور مثال نہیں۔