نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان
سیاست دان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
سیاست دان لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

فروری 28, 2015

حقیقی جمہوریت کا آخری وارث

پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی بہادری، دانشمندی اور فہم و فراست کے قصے صدیوں یاد رکھے جائیں گے۔ آنے والی نسلیں جب ملک و قوم کے لیے ان کی قربانیوں اور خدمات کو یاد کریں گی تو فرطِ جذبات سے ان کی گھگی بندھ جائے گی اور وہ حیرت کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے سوچیں گی کہ کبھی پاکستان کی دھرتی بھی ایسے سپوت جنم دیا کرتی تھی! ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا کسی بشر کے لیے ممکن نہیں لیکن ذیل میں ہم ان کے سب سے بڑے کارنامے یعنی پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے فروغ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ ان کے اس کارنامے کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اگلے روز ایک
بیان میں ایک مرتبہ پھر ہماری کم فہم قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا پودا انہوں نے ہی لگایا تھا ۔ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ان کے اس بیان کوزیادہ سنجیدگی سے نہیں لے گی ۔ اس لیے سطورِ ذیل میں ہم ان کے اس ارشاد کی ذرا کھل کر وضاحت کریں گے ۔

لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں حقیقی جمہوریت کی تعریف کو سمجھ لیا جانا ضروری ہے۔ حقیقی جمہوریت ایک نہایت ہی پیچیدہ فلسفہ ہے جس کا ادراک ابھی تک پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ہو سکا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجودابھی تک اس فلسفے کی سمجھ نہیں آئی ۔ جمہوریت کا وہ سچا علم جو زمباوے کے موغابے، روانڈا کے کاگامے ، یوگنڈا کے موسوینی ، ایتھوپیا کے جیارجس اور پاکستان کے مشرف کو حاصل ہے یورپ اور امریکا کے فوجی بھائی اور سیاست دان اس سے یکسر نابلد ہیں۔ ہمارے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو متعارف کروانے کا سہراایوب خان کے سر ہے جنہوں نےقومی سلامتی کے تقاضوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور جب تک لوگوں سے کتا کتا کے نعرے نہیں سن لیے اس فریضے سے سبکدوش نہ ہوئے۔ یحییٰ خان کا حقیقی جمہوریت کا سفر نسبتاً مختصر رہا کیونکہ مشرقی بنگال کے لوگوں نے ان کی حقیقی جمہوریت کی بجائے مجیب الرحمن کی غیر حقیقی جموریت کو ترجیح دی۔ ضیا الحق گیارہ سال تک اسی جمہوریت کے پودے کی آبیاری کرتے رہے اور اسی پودے کو سینچتے سینچتے ایک دن فضا میں آموں کی کمپنی میں پھٹ گئے ۔

ستمبر 06, 2014

سیاسی عطائی

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں فنکاروں کی ایک خاص کلاس کو عطائی کہتے ہیں جو کسی ڈرامے یا فلم کی بجائے عملی زندگی میں اپنی اداکاری سے لوگوں کے دل موہتی اور جیبیں ہلکی کرتی ہے !کھمبیوں کی طرح یہ عطائی ہر شہر ہر قصبے ہر کوچے اور ہر گلی میں وقتاً فوقتاً اگتے ہیں ،کچھ عرصہ اپنی مہارت سے علاقے کے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔ نبض دیکھ کر مرض جان لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور تبخیرِ معدہ سے لے کر کینسر تک جیسے امراض کے شافی علاج میں انہیں پیدائشی مہارت حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ دوا کی ایک ہی پڑیا سے سارے امراض کو بھگانے کا محیر العقول کارنامہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ ہر طرف سے نا امید مریضوں کوونویدِ شفا دیتے ان کے اشتہار جا بجا دیواروں
پر نقش ہوتے ہیں ۔ عام طبیبوں کی نسبت یہ کم خرچ میں بڑے بڑے پیچیدہ امراض کے پیچ و خم کھولنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے ان کی دکان خوب چلتی ہے۔
عطائیوں کی یہ خصوصیات تیسری دنیا میں پھیلی ان کی ساری فنکار برادری کا مشرکہ ورثہ ہیں لیکن تیسری دنیا کیباقی ممالک کے برعکس پاکستانی عطائیے صرف لوگوں کی قبض رفع کرنے اور ان کی بواسیر بھگانے کے فن تک ہی محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی اور شعبوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ے ہیں۔میدانِ سیاست میں ان کی ترک تازیاں بالخصوص قابلِ ذکرہیں۔ اس میدان میں اب تو عطائیوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ اصلی اور نقلی میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوگیاہے ۔ میڈیا کیمروں کی چکا چوند میں عطائی سیاست دانوں کی دکانیں زیادہ چمکتی ہیں کیوں کہ تماشا لگانا انہیں خوب آتا ہے۔ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے فن میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل ہوتی ہے چناچہ کبھی طنز و مزاح سے ، کبھی رو رلا کر ، کبھی چٹکلے سنا کر یہ حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ان کی یہ مہارت میلوں ٹھیلوں اور لاری اڈوں پر دانت کے درد کی دوا اور سانڈے کا تیل بیچنے والے مداریوں سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہے ۔یہ مداری بھی اپنی دوا بیچنے کے لیے سسپنس اور تھرل کے ہتھیاروں سے کام لیتے ہیں اور بھولے بھالے سامعین کو گھنٹوں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیرے رکھتے ہیں ۔

ستمبر 05, 2014

کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا۔اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک میں مل رہا ہے ۔

اگست 22, 2014

دھاندلی کے بارے میں کچھ تہلکہ خیز انکشافات

پاکستان معجزات کی سر زمین ہے ۔یہاں انہونیاں کثرت سے وقو ع پذیر ہوتی ہیں، ناممکنات پل جھپکنے میں ممکن ہو جاتے ہیں اور محیر العقول عناصر پل پل تقدیریں بدلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑوں میں بھی کچھ ایسے پراسرار عناصر کا عمل دخل ہے جن سے پردہ اٹھا نا اب ناگزیر ہو گیا ہے ۔ ہوشربا انکشافات پر مشتمل یہ سطریں پڑھتے ہوئے یقیناًآپ کے رونگٹے کھڑے ہوں جائیں گے اور آپ بے یقینی کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے بار بار یہ سوال کریں گے کہ کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ، کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ایسے ساحر موجود ہیں جو الٹے کو سیدھا اور سیدھے کو الٹا کر
دیں جو مجنوں کو لیلیٰ اور لیلیٰ کو مجنوں بنا دیں، کیا سائنسی ایجادات کی بھرمار کے باوجود انسان ابھی تک پراسرار طاقتوں کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا ہے ؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات بے یقینی کے ناگ بن کرآپ کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کریں گے اور آپ کو ان سطروں کو محض ٹھٹھہ یا مذاق سمجھ کر نظر انداز کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پورا مضمون پڑھنے کے بعد آپ بھی میری طرح نہ صرف پر اسرار طاقتوں کے قائل ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے میری ہی طرح آپ بھی ان کے حصول کے لیے سر پٹ دوڑ لگا دیں۔
اس قصے کی ابتدا میری ایک زرد پوش بزرگ سے ملاقات سے ہوئی جن کے چہرے سے جلا ل ٹپک ٹپک ان کی ریش مبارک کو تر کر رہا تھا۔ ان کی سرخی مائل ہلالی آنکھوں میں ایسا رعب تھا کہ مارے ہیبت کے میری گھگی بندھ گئی ۔ میں نے گھگی پر بہ مشکل قابو پاکر ڈرتے ڈرتے سوال کیا : یا حضرت پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا حل کیا ہے ؟ حضرت نے اس کے جواب میں جو حل بتایا وہ عمران خان کے بیان کیے گئے حل سے ملتا جلتا تھا ۔ میں نیحیران ہو کر ان کی طرف دیکھا لیکن سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ مجھے سراپا حیرت پا کر وہ خندہ لب ہوئے اور فرمایا کہ ان کا پی ٹی آئی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں کیوں کہ وہ مادی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہاں پی ٹی آئی کے بھنگڑے اور صوفیانہ رقص ان کے روحانی تاروں کو ضرور چھیڑتے ہیں۔ میں نے ہمت مجتمع کی اور پھر سوال کیا : یا شیخ دھاندلی کے الزامات میں کتنی صداقت ہے ؟ اس پر کچھ دیر وہ خلا میں نہایت معجوبانہ انداز سے گھورتے رہے پھر گویا ہوئے اور جلالی انداز میں محض اتنا کہا ’’دھاندلی ہوئی ہے ضرور ہوئی ہے ‘‘۔ میرے استفسار پر کہ دھاندلی کیسے ہوئی ان کے اور میرے درمیان سوال وجواب کا ایک مکالمہ شروع ہواجس کا خلاصہ میں یہاں من و عن درج کر رہا ہوں

اگست 19, 2014

کیا مارچر مارشل لا کے منتظر ہیں

اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے سجائی گئی خوابوں کی جنت کو دو دن بیت چکے ہیں ۔جنتیوں کے جنون اور عقیدت کے پیمانے ابھی لبریز ہیں اورحکومت کو ابھی کچھ اور دن شاید انقلابی لیڈروں کی بے معنی للکاریں برداشت کرنی پڑیں۔ دنیا بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیروکاراپنے اپنے لیڈروں کو وہ مسیحا سمجھتے ہیں جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے ۔ دنیا بھر کی جماعتوں کے سیاسی ورکر اپنے لیڈر وں کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ وہ ان کے اشاروں پر ریلیاں نکالتے، مارچ کرتے اور دھرنے دیتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لیے یہ ہر طوفان سے ٹکراتے ہیں، مصائب و مسائل کی آندھیوں کامقابلہ کرتے ہیں اورانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے ۔ جہاں یہ ایندھن ٹھنڈا پڑتا ہے سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عرش سے فرش پر آ گرتے ہیں۔ فرش نشیں ہونا سیاسی لیڈروں کو چونکہ اتنا پسند نہیں ہوتا اس لیے یہ اپنے ورکروں کے جنون کو جھوٹے سچے نعروں سے ہوا دیتے رہتے ہیں ۔
پاکستان کے سیاسی ورکر دنیا بھر کے سیاسی ورکروں کی جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی منفرد خاصیتیں بھی رکھتے ہیں جو دنیا کے کسی اور گوشے میں نہیں پائی جاتیں ۔ہمارے سیاسی ورکر اپنے لیڈرو ں میں پیغمبرانہ خصوصیات پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر ہر خطاؤں سے مبرا ہے ۔ جھوٹ ،منافقت ، موقع پرستی اور ابن الوقتی سے کوسوں دور اور ذاتی منفعتوں کی آلائشوں سے یکسر پاک ہے۔ یہ سمجھتے ہیں ان کا لیڈر عام انسانوں سے بلند اللہ کا وہ ولی ہے جس سے غلطی سر زد ہونے کا ایمان رکھنا سیاسی کفر ہے ۔ یہ اپنے لیڈر کے مونہہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو وحی سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے سے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ ایسے الوہی لیڈروں اور ان کے فدائی حشیشین سے بھری ہوئی ہے ا وراگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی ’’ ہوش ربا ترقی‘‘ کا راز بھی یہ لیڈر اور ان کے سیاسی ورکر ہی ہیں۔

اگست 02, 2014

دو لیڈر ایک کہانی

کارزارِ سیاست ہو یا کارِ عشق ہردو میدانوں کے جگر آزماؤں کو ملامتوں اور تہمتوں کے تیر کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے اس لیے گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہونے کی صفت ان کے اند ر بدر جہ اتم پائی جاتی  ہے ۔ ان میدانوں کے شاہ سوار دشنام کو انعام سمجھ کر سینے سے لگاتے ہیں کیوں کہ گالیاں ان کے لیے مفت کی ناموری کا سامان لے کر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہ کبھی تہمتوں کے اس جوہڑ سے گزرنا پڑتا ہے ۔بہت کم سیاستدان تدبر کی کاریگری سے اپنا دامن ان ملامتی آلائشوں سے بچا پاتے ہیں ۔ جدید مغربی سیاست مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر نیچ
پن کو مباح سمجھتی ہے اس لیے سیاست دانوں کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کی مجلسی زندگی تک کو تنقید کی سولی پر چڑھا کر پرکھا جاتا ہے ۔ سخت جان جانبر ہو جاتے ہیں جو ذرا کم ڈھیٹ ہوں رسوائیاں گلے میں لٹکا کر اس کوچے سے کنارہ کر جاتے ہیں ۔
مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصا تہمتوں کا بازار خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔ سیاست کے اس حمام میں چونکہ سارے ہی ننگے ہیں اس لیے کسی کو اپنا ننگا پن معیوب نہیں لگتا ۔ یہی مغربی سیاست کا اصول ہے اسی پر مغرب و مشرق کے جملہ سیاست دان عمل پیرا ہیں ۔

جولائی 10, 2014

جمہوریت کی کھیر

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔

جولائی 05, 2014

تحفظِ پاکستان بل

تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال ،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادہ کی چھڑیاں دے دی گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناًہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور اغوا کے اس طویل سلسے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔

جون 29, 2014

انقلابی سیاست اور ہمارے گلو بٹ

روایت پرست پاکستانی عوام نے طاہر القادری کے نعرہِ انقلاب کو جس سنجیدگی سے لیا اس کا اندازہ گلو بٹ کی روز افزوں مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر گلو کے جارحانہ انداز پر بنائے گئے سینکڑوں لطائف اگرچہ صرف طفننِ طبع کے لیے شئیر کیے جارہے ہیں لیکن ان سے قادری صاحب کے انقلاب کی شان میں جو پے در پے گستاخیاں سرزد ہو رہی ہیں وہ قابلِ افسوس ہیں۔ انقلاب چاہے کینیڈا سے بزنس کلاس میں ہی سفر کر کے کیوں نہ آئے اس کی تضحیک انقلاب پسند قوم کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ گلو بٹ جس نے گلی محلوں کے بے قابو لفنگوں اور پنجابی فلموں کے بے مغز ہیرو کی طرح ادارہ منہاج القران کے سامنے کھڑی گاڑیوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایاکیوں کر عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ لوگ ماڈل ٹاؤن سانحے میں مرنے والے مظلوموں کو بھول کر اس مضحکہ خیز کردار کے مناقب گننے میں مگن ہیں۔

جون 25, 2014

پاکستانی سیاست کے ’’ڈئیر ڈیولز‘‘ اور حواس باختہ حکومت

جہالت، پسماندگی اور افلاس کے جان لیوا شکنجوں میں جکڑے ہوئے پاکستانی اگر طاہر القادری جیسے کرداروں کو مسیحا سمجھ لیں تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔طاہر القادری کی لیڈر شپ کے ڈرامائی انداز پر انگلیاں اٹھانے والے کیا ہماری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر دکھا سکتے ہیں جس نے ناٹک بازی ، مکرو فریب اور ڈھونگ رچا کر اقتدار کی کرسی نہ حاصل کی ہو۔ جمہوری لیڈر وں کی نوسر بازیاں تو رہیں ایک طرف مقدس وردی پہنے ہمارے مسیحاؤ ں کیقلابازیوں کا مقابلہ کیا دنیا کا بڑے سے بڑا کوئی شعبدہ باز کر سکتا ہے ؟ ضیا الحق گیارہ سال تک اسلامی نظام کے نام پر قوم سے جو بھونڈا مذ اق کرتا رہا اور اس کا پیش رو مشرف نو سال تک رشن خیالی کے جس جھولے پر قوم کو جھلا کر الو بناتا رہا کیا اس کی نظیر دنیا کے کسی مہذب ملک کی تاریخ میں ڈھونڈی جا سکتی ہے؟

جون 19, 2014

نون لیگ کا نامعلوم فرد

لاہور میں عوامی تحریک کے سادہ لوح کارکنوں پر ٹوٹنی والی قیامت جہاں ایک طرف پنجاب حکومت کے مثالی نظامِ حکومت کا پول کھول گئی وہیں پنجاب پولیس کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا پردہ بھی فاش کر گئی۔ پچھلے کئی سالوں سے شہباز شریف گڈ گورننس کے نام پر سرکاری افسروں کی سر عام تذلیل کے جس راستے پر چل رہے تھے اس کا لا محالہ انجام یہی ہو نا تھا کہ افسر اپنی دھوتی بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا ہر وہ کام کریں جس سے تختِ لاہور خوش ہو۔ اگرچہ ابھی اس امر کا تعین ہونا باقی ہے کہ عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر پولیس افسروں نے گولی چلانے کا حکم محکمانہ ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود کیا یا اس بھیانک سانحے کا منصوبہ کہیں اور تیار کیاگیا تھا تاہم گلو بٹ جیسے کرداروں کی موجودگی ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ اب تک اہنسا کے اصولوں پر بظاہر کاربند ن لیگ کی حکومت ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی ہے اورطا قت کے اس بے ڈھنگے مظاہرے سے اس نے کینیڈا میں بیٹھے امامِ انقلاب کو کوئی پیغام دینا چاہا ہے۔

جولائی 21, 2013

تماشا آن ہے

ایم کیو ایم کے منفرد طرزِ سیاست سے نفرت کرنے والوں کے کانوں میں برطانیہ میں ہونے والی عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش رس گھول رہی ہے۔سکاٹ لینڈ یارڈ کا ہر نیا اقدام ان کے لیے ایک جانفزا مثردہ ہے اور وہ اس ساعتِ سعید کا انتظار کر رہے ہیں جب برطانوی پولیس قائدِ تحریک کو سرکاری مہمان خانے کی زینت بنائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جلترنگ بجنے کا یہ سلسلہ کب ختم ہوتا ہے

ایم کیو ایم کے مخالفین کے نزدیک کہانی نہایت سادہ ہے۔ الطاف حسین جو ہمیشہ سے سیاست میں تشدد کو عبادت کا درجہ دیتے رہے ہیں برطانیہ میں وہ غلطی کر بیٹھے جو پاکستان میں بڑے تواتر سے ان کی جماعت پچھلی تین دہائیوں سے کرتی آئی ہے ۔ عمران فاروق جو اپنی نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنے چلے تھے اپنے سابقہ قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کا شکار ہوئے اور انہیں اسی انداز میں راستے سے ہٹنا پڑا جس طرح وہ مخالفوں کو ہٹاتے آئے تھے۔ الطاف حسین جب رو دھو کر اس’’ انہونی‘‘ کے ہونے کا ماتم کر چکے تو اچانک تین سال بعد اب بر طانیہ میں تفتیش کاروں کو عمران فاروق کے اندھے قتل کے سرے الطاف حسین سے جڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔بڑے بڑے جاگیرداروں کو للکارنے والابے چارہ الطاف حسین سکاٹ لینڈ یارڈ کے معمولی سپاہیوں کے نرغے میں ہے

جولائی 13, 2013

نئی حکومت اور ایک دیرینہ خواب


امن اگر باتوں کے طوطے مینا اڑانے سے آتا تو پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت سے بہتر کوئی نہیں لا سکتا تھا۔دہشت گردی کے عفریت کا مکروہ سر اگر صرف بیانات سے کچلا جا سکتا توسابقہ وزیر داخلہ یہ کام کب کا بہ احسن و خوبی کر چکے ہوتے۔ پاکستان کو امریکی جنگ میں کودے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے ق لیگ کی مشرف زدہ حکومت سے لے کر جمہوریت کو بہترین انتقام بنانے والی پیپلز پارٹی کی بے سروپا حکومت تک دہشت گردی کے خلاف ہمارے سیاست دان نہایت مدبرانہ انداز میں پریس کانفرنسوں اور اخباری بیانات میں مسلسل اچھلتے کودتے رہے اور اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے کھوکھلے دعوؤں سے پاکستانی عوام کے فشارِخوں کومسلسل بڑھاتے رہے۔
نواز لیگ نے جب حکومت کی زمام کار سنبھالی تو اور بہت سی امیدوں کے ساتھ یہ حسرت بھی پاکستانی عوام کے کے دل و دماغ میں مچل رہی تھی کہ دہشت و بربریت کے اس ہولناک سلسلے کو روکنے کے لیے نئی حکومت فورا اقدامات اٹھائے گی اور سابقہ حکمرانوں کی سنگدلانہ بے حسی سے دور رہے گی۔ نواز لیگ سے توقعات اس لیے بھی بڑھی ہوئی ہیں کہ اس جماعت کے پاس مسخروں اور جوکروں کا وہ ٹولا نہیں جو ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے ماتھے کا جھومر رہا اور جس نے ان دونوں جماعتوں کا بیڑہ غرق کرنے میں نمایاں کردارادا کیا لیکن بد قسمتی سے دو ماہ کا عرصہ بیتنے پر بھی دہشت گردی جیسے اہم مسئلے پر حکومتِ موجودہ بھی کوئی واضح سمت متعین کرنے میں ناکام رہی ہے اور سابقہ حکومتوں کی پامال روش پر چلتے ہوئے صرف گفتارہی کے گھوڑے دوڑا تی دکھائی دے رہی ہے ۔

فروری 17, 2013

پاکستانی سیاست کے وینا ملک

عنوان سے کہیں یہ نہ سمجھیے کہ ہم ملک برادری کے نام اور مقام کو بلند کرنے والی کسی فاحشہ کی آبرو باختگی کا مرثیہ کہنے لگے ہیں۔ نہ ہی ہمارا مقصد پاکستان کے سافٹ امیج کی بیرونِ ملک زورو شور سے تشہیر کرنے والی کسی باکمال فنکارہ کی تضحیک ہے۔  ہم دراصل اس حیرت انگیز مماثلت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جو وینا ملک اور ہمارے بہت سے سیاست دانوں کے درمیان پائی جاتی ہے اور جس کا سب سے واشگاف اظہار تازہ تازہ درآمد ہونے والے ہمارےایک انقلابی لیڈر کے ہاں ہوا۔ فن اور سیاست جو دو متضاد دنیائیں ہیں ان کے دو کھلاڑیوں کے درمیان اس حد تک اشتراکِ خیال نے ہمیں بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیا ہے اور ہم حیران ہیں کہ دل کو روئیں یا جگر کو پیٹیں۔ یہ مماثلت کیا ہے اس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے پہلے سفرِ انقلاب کی بات ہو جائے۔

فروری 04, 2013

روایتی جمہوریت کے کرتوت اور عمران خان

آج سےلگ بھگ پانچ سال قبل پرویزی آمریت کی بساط لپٹنے پر جن جمہوریت پسندوں کی باچھیں کھل کر کانوں کی لوؤں کو چھو رہی تھیں اوربغلیں بجاتے جن کے ہاتھ نہ تھکتے تھے اب جمہوریت کی برکات سے کامل پانچ سال تک لطف اندوز ہونے کے بعد ان کی باچھیں واپس اپنی جگہہ پر آچکی ہیں اور بغلیں بھی یکسر خاموش ہیں۔اب جبکہ پاکستانی جمہوریت کا ایک اور بیہودہ ناٹک تمام ہونے کو ہے اور انتخابات کا پردہ اٹھنے کے بعد نئے نوٹنکیوں، نوسر بازوں، بھانڈوں اور بے مغز کٹھ پتلوں کی ایک فوج ظفر موج سٹیج پر جمہوری اودھم مچانے کے لیے بے تاب بیٹھی ہے تو یہ جمہوریے انگشت بدنداں ہیں کہ کہاں جائیں! مشرف جو بے آبرو ہو کر اقتدار کے کوچے سے بھاگاتھا اس جمہوریت کی پانچ سالہ بے مثال کارکردگی نے اس کے مردہ دہن میں بھی جان ڈال دی ہے اوروہ پٹر پٹر اپنے دور کے کارناموں کا موجودہ دور کے ساتھ موازنہ کر کے یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کے دور میں دودھ کی نہریں بہتی تھیں جو موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے گندے نالوں میں تبدل ہو چکی ہیں! پاکستانی گینزبک میں سب سے زیادہ گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہونے کا ریکارڈ رکھنے والا مشرف اب اس لیے افسردہ ہے کہ اس کا یہ منفرد اعزاز موجودہ حکمرانوں نے اپنی شبانہ روز کوشش سے اس سے چھین لیا ہے۔

اگست 01, 2012

چار شیطان


یہ بات ہضم کرنا کچھ لوگوں کے لیے شاید آسان نہ ہو کہ پاکستان کے شرمناک زوال کابنیادی سبب چار شیطان ہیں! روزِ اول سے پاکستان کے درودیوار پران   چا رمکروہ شیطانوں کا سایہ ہے ۔ان کا بھیانک آسیبی اثر اس مظلوم دیس کی رگوں سے زندگی کے رس کو قطرہ قطرہ چوس رہا ہے اور ہم بے حسی و بے بسی کی تصویر بنے اس شیطانی کھیل کو گھناؤنا تر ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔بظاہر اب یہ حسرتِ نا آسودہ ہی لگتی ہے کہ اس دیس کی پاک فضائیں ان چار شیطانوں کی نجاست سے کبھی پاک ہو پائیں ! مستقبل قریب میں ایسا ہونااس لیے ممکن نظر نہیں آتا کہ یہ شیطان مکرو فریب کے وہ جال پھیلائے بیٹھے ہیں جن سے بچ کر نکلنا اس سادہ لوح مٹی کے باسیوں کے لیے شاید ممکن نہ ہو۔بحرحال ان شیطانوں کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ شاید کبھی ہمیں کوئی ایسا ’کامل عامل‘ مل جائے جو ان کے پرفریب جال چاک کر کے اس سرزمین کو اصلی آزادی کی لذت سے روشناس کر سکے۔

مئی 01, 2010

قاید تحریک کی للکار

ایم کیو ایم کے تا ریخی پنجاب کنونشن نے بدامنی اور مہنگائی کے ستائے ہوئے پنجاب کے مظلوم عوام کو جہاں ایک طرف سستی تفریح فراہم کی ہے وہیں اس اجتماع نے ستم رسیدہ پنجابیوں کو الطاف حسین جیسے عظیم راہنما کی صورت میں وہ نجات دہندہ بھی فراہم کیا ہے جو ان کے تمام مسائل و مصائب کو بوریوں میں بند کر کے انہیں ان سے دائمی نجات دلانے کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔اس کنونشن میں ظالم جاگیرداروں کے خلاف الطاف حسین کے نعرہِ مستانہ نے جو اہلِ پنجاب کی اصطلاح میں بڑھک کہلاتاہے بے چارے چو دھریوں اور سرداروں پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور انہیں اپنی چودھراہٹیں اور سرداریاں شدید خطرے میں نظر آنے لگی ہیں۔