نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

اگست 03, 2010

آخری معرکہ

اگر کامیاب دفاعی حکمت کاری استعماری احکامات وخواہشات کی دست بستہ بجا آوری کا نام ہے تو پاکستان کا دفاع واقع رشک کی ا علی ترین بلندیوں پر فائز ہے۔ نائن الیون سے لے کرروزِموجودہ تک اگر اسلام کے اس انوکھے قلعے کی امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریزیوں کو مجتمع کیا جائے تو جنوں خیز بندگی کی ایک نئی داستان وجود میں آسکتی ہے۔پاکستان کے وہ مایہ ناز عسکری ماہرین جن کی مہارت امریکی احکامات کو پاکستان کی ضرورت بنا کر پیش کرنے کا نام ہے اور وہ نامور عسکری راہنما جن کی سپہ گری کی پرواز امریکی آگ سے اپنا وجود جلا کر نگاہِ فرنگ میں درجہ محبو بیت پر فائز ہو جانے تک محدود ہے پچھلے نو سالوں سے اہلِ پاکستان کو اس مضحکہ انگیز جھوٹ پر ایمان لانے کا درس دیتے آرہے ہیں جس پر اگر خوف ان کے اعصاب پر اور عاقبت نا اندیشی ان کی عقلوں پر سوار نہ ہوگئی ہوتی تو وہ خود بھی یقین نہ کرتے۔ بزدلی و کم ہمتی کے جوہڑ میں رینگتے ہمارے یہ بد راہ ا ہلِ حکم بتِ استعمارکے سامنے تابعداریوں کی وہ تاریخ رقم کر رہے ہیں جس کا ڈیڑھ دو صدی قبل کے برکاتِ سرکارِ انگلشیہ کا راگ الاپتے ہمارے قدیمی محسن تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔

کسی رزمیے کے طے شدہ پلاٹ کی طرح وا قعات در واقعات کی ایک دوسرے سے جڑی کڑیاں حوادثِ روز و شب کا تعین کر رہی ہیں۔ہوتا یوں ہے کہ پہلے ہمارا اتحادی دوست امریکا افغان طالبان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھاتا ہے تواس کے نازک اندام فوجیوں کے واویلوں سے امریکی عوام کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔دنیا کو آگ و خون کے تحفے دے کر خود پھولوں کی توقع رکھنے والے امریکی عوام کی چیخ و پکار سے وائٹ ہاؤس کی سیاسی ساکھ پر ضرب پڑتی ہے ۔ چناچہ قربانی کے بکرا اس آڑے وقت میں امریکی انتظام کاروں کو امید کی آخری کرن نظر آتا ہے اور وہ اپنی ساری ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر بزدلی و بے انتظامی کے تمام الزامات سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ امریکی حکومت اپنے عوام کویہ کڑواسچ بتانے سے بوجوہ قاصرہے کہ اس کے جدید ترین اسلحے سے لیس ایک لاکھ سورما چند ہزار طالبان کی فرسودہ بندوقوں کا مقابلہ نہیں کر پارہے۔ پس وہ منطق یہ پیش کرتے ہیں کہ پاکستانی طالبان ہی سر زمینِ افغانستان میں امریکہ کے قائم کردہ امن کے خوبصورتچہرے کو بگاڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ چناچہ حکم یہ صادر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنے فلاں علاقے میں آپریشن کرے اور اپنے لوگوں کے خون کی بلی چڑھا کر امریکی امن کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دے۔ ہمارے نہایت ہی قابل حکمرانوں کے لیے امریکی لبوں سے نکلنے والے یہ حکم نما مشورے ہی وہ میگنا کارٹا ہیں جن سے آگے دیکھنے کی نہ ان میں جرات ہے اور نہ ہی صلاحیت۔ حالیہ دنوں میں امریکا کا پاکستانی کٹھ پتلوں کو شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے کے لیییہ ہدایت نامہ کہ پاکستان اب اس علاقے کی سرزمینپر بھی آگ و آہن کی بارش کر کے اس میں امریکی آنکھ میں چبھنے والے تمام کانٹوں کو ختم کرے اسی سلسلہ سابقہ کی کڑی ہے جو پچھلے کئی سالوں سے جوں کے توں دہرایاجا رہا ہے اور جس کی ٹھیک ٹھیک پیشین گوئی اب ایک عامی بھی نہایت آسانی سے کر سکتا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح اب ہو گا یوں کہ چند معمولی ممنا ہٹوں کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں کو بھی اس آپریشن میں فلاحِ دارین نظر آنے لگے گی۔جوں جوں ڈالروں کی مہک بڑھتی جائے گی اس آپریشن کے خلاف پاکستان کے تحفظات اسی سرعت سے دور ہوتے جائیں گے بقائے ملکی پر ہوسِ دام و درہم غالب آ جائے گی اور یوں شمالی وزیرستان میں بھی خون کی وہ ہولی کھیلی جائے گی جس کی منصوبہ بندی کب کی پینٹاگون کے شیطانی دروازوں کے پیچھے ہو چکی ہے لیکن جس کے لیے مہروں کو تیار کرنے کا عمل انہی دنوں جاری ہے۔



پچھلے دس بارہ سال کے تلخ تجربات نے پاکستانی عوام پر یہ حقیقت اچھی طرح عیاں کر دی ہے اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کے صدقے ان سے چھن گیا ہے چناچہ اب پاکستان کے کاغذی حکمرانوں کو ملکی پالیسیا ں مرتب کرنے کے لیے اپنے خالی دماغوں پر زور دینے کی ضرورت نہیں پڑتی دیارِ امریکا سے بنی بنائی پالیسیاں ان پر نازل ہوتی ہیں اور ان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان پر عمل در آمد کے لیے ملکی رائے عامہ ہموار کریں۔رٹے رٹائے بیانات ‘ گھڑی گھڑائی منطقوں اور گھسے پٹے دلائل سے یہ اپنے آقاؤں کی منشا کو پورا کرنے کے لیے ہر اس حد تک جا تے ہیں جس تک دورِ غلامی میں ان کے آباؤ اجدادتاجِ بر طانیہ کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے جایا کرتے تھے۔کامل دہائی ہونے کو آئی ہے کہ ہم ان مکروہ کٹھ پتلوں کی بدولت کرایے کی قوم بنے اغیار کی جنگ میں اپنے وطن کی عافیت اورسلامتی کونہایت بے دردی سے قربان کیے جارہے ہیں۔ امریکی عوام کے تحفظ کی خاطر ہم اپنے وطن کی گلیوں کو خاک و خون میں نہلا کر جانے دنیا کے سامنے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔یہ کہ ہم امریکی و یورپی اقوام کے نظامِ استحصال کے محافظ عالمی امن کی خاطر ہر قربانی دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں یا یہ کہ ہم اتنے خرد مند ہیں کہ دوسروں کے گھر میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے اپنا گھر جلا دینا با عثِ فخر جانتے ہیں!!



شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی جوہر آرائی سے امریکہ کو توجو حاصل ہو سو ہو پاکستان کو سوائے نفرتوں کی ایک نئی فصل کاشت کرنے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔حقانی نیٹ ورک جس کی بیخ کنی اس آپریشن کا بنیادی مقصد ہو گاطالبان کا وہ آخری گروپ ہے جو پاکستان کیلئے کسی حد تک ہمدر دانہ نظریات رکھتا ہے یا جسے پرو پاکستان کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے تمام طالبان گروہوں کو انتہائی حد تک پاکستان مخالف کرنے کے بعداب اس آخری گروہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش مستقبل قریب میں پاکستان کے لیے کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس کا ادراک کرنے کی صلاحیت ہمارے کور نگاہ پالیسی سازوں میں نہیں کہ امریکی آشیر بادکے خمار نے ان کی عقل اور نگاہ ہر دہ کو اندھا کر دیا ہے۔امریکی بھیڑئیے کے بدن پر طالبان حملوں سے لگنے والے پے در پے زخموں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ صاف عیاں ہے کہ امریکا حریت پسندوں کی اس کچھار سے جلد از جلد بھاگنے کے منصوبے بنا رہا ہے اور اس کے بے آبرو ہو کر افغانستان کے کوچے سے نکلنے کا عمل اب چند سالوں کی نہیں بلکہ چند مہینوں کی بات ہے۔ امریکی پسپائی کے بعد افغانستان کے نقشے میں کرزئی اور اس جیسے دوسرے جوکروں کے لیے یقیناًکوئی جگہ نہیں ہو گی اور وہی طالبان جن کے خلاف ہم پچھلے نو سالوں سے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اپنے امریکی و نیٹو آقاؤں کی مدد کرتے رہے ہیں جب دوبارہ افغانستان کی زمام کار سنبھالیں گے تو پاکستان کس مقام پر کھڑا ہو گا یہ سمجھنے کے لیے زیادہ غورو فکر کی ضرورت نہیں۔امریکی ڈالروں اور ہلہ شیریوں کا وہ کھونٹاجس کے بل بوتے پر ہم پیچھلے کئی سالوں سے طالبان کے خلاف اچھل رہے ہیں اب اس کے اکھڑنے پرہم جس بے آب و گیاہ صحرا میں آکھڑے ہوں گے اس کا ادراک کرنا بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں۔



جب سابقہ آمرِ رو سیاہ نے لرزتی ٹانگوں اور سراسیماں دل کے ساتھ امریکی گود میں بیٹھ کراپنوں کے گلے کاٹنے کا فیصلہ کیا تو وہ پنی کور چشمی کے سبب مستقبل کے آئینے میں بننے والی یہ واضح تصویر نہیں دیکھ سکتا تھا کہ سمندر پار سے آنے والے امریکی صدا یہاں نہیں ٹھہر سکتے کہ افغانوں کا جذبہ حریت انہیں جلد یا بدیر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے پر مجبور کر دے گا۔ہوسِ جاہ میں اندھا ہو کر وہ یہ سامنے کی بات بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ دہ استعماری طاقتوں کو شکست دینے کا اعزاز رکھنے والے افغانوں کے لیے امریکا اتنا بڑا ہوانہیں کہ وہ اس کے سامنے اپنے صدیوں کے جذبہ سرفروشی کو قربان کر دیں۔مشرف اگراپنے ناجائز اقتدار کی سند لینے کے لیے امریکیوں کی چاکری کرنے پر مجبور تھا تو موجودہ جمہوریت یافتہ حکومت اپنے کرپشن زدہ ماضی کے آسیب سے بچنے کے لیے امریکا کے سایہ عاطفت تلے پناہ لینے کے سوا اور کوئی راہ اپنی بقا کا نہیں پاتی۔دونوں کی مجبوریاں اور حکمت عملی ایک جیسی ہے اور دونوں اپنوں پر غرانے اور غیروں کے سامنے دم ہلانے کو ملک گیری کی معراج سمجھتے ہیں۔ حالات کی نہج بتاتی ہے کہ موجودہ حکومت کے چیلے چانٹے اپنے امریکی آقاؤں کی اقتدا میں جلد ہی شمالی وزیرستان آپریشن کی افادیت پر اپنے ارشادات کا سلسہ شروع کریں گے اور اس سر زمین پراُس آخری معرکے کی ابتدا ہو گی جس کے اثرات مثل ڈھاکہ آپریشن کے ہماری آنیوالی نسلوں تک جائیں گے۔



 لال مسجد خونریزی کے اثرات سمیٹتے اس ملک کے تنِ سوختہ جاں کے لیے شمالی وزیرستان کا معرکہِ کشت وخوں کس قدر ہولناک ثابت ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگا نا کچھ زیادہ مشکل نہیں ۔پاکستانی دل سے فقظ یہ دعا نکلتی ہے کہ ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور امریکی حکم پر کی جانے والی اس خودکشی سے باز رہیں لیکن ہوش کے ناخن لینے کے لیے جس کم از کم عقل کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ اس غولِ بیابانی میں ناپید ہے چناچہ اب اس آخری معرکے کے ثمرات سمیٹنے کے لیے پاکستانی قوم کو تیار ہو جانا چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.