نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نومبر 26, 2014

کچھ پیغمبری پیشے کے بارے میں

میں ایک استاد ہوں! ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نوکری حاصل کرنا اور تعلیم دینے کا واحد مقصدروزی کماناہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں قوم کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے والے استاد کی بجائے زمینوں کی الٹ پھیر کرنے والا پٹواری زیادہ مہان سمجھا جاتا ہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کانظام لاگو ہو اور لاٹھی والوں کے سامنے قلم و کتاب والوں کی اوقات کمی کمین سی ہوایسے معاشرے میں استاد ہونے کا رسک لینا نہایت ہی دل گردے کا کام ہے ! لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اور مجھ سے ہزاروں دیوانوں نے نہ صرف ہنسی خوشی یہ رسک لیا ہے بلکہ ہمیں اپنے فیصلے پر ناز بھی ہے ۔ استاد کے بارے میں معاشرتی رویوں میں نازیبا حد تک زوال کے باوجود ہم لوگ دھڑا دھڑ
اس پیشے کو اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں ۔تسلیم کہ ہم میں سے بہت سے مجبوری کی بیساکھیاں گھسٹتے اس قریے میں داخل ہوئے ہیں لیکن ان کی بھی کمی نہیں جوشوق کی رتھ پر سوار ہو کراس کوچے میں دوڑے چلے آئے ہیں۔بحر حال وجہ جو بھی رہی ہو علم کے پیشے سے منسلک ہونے والوں کی بہتات بتاتی ہے کہ قلم ، کتاب اور استاد سے اس معاشرے کا رشتہ ابھی پوری طرح نہیں ٹوٹا۔علم کے کاروبار اور استادوں کے سوداگر بن جانے کے باوجود ہماری روایات نے ہمیں مکمل شکست و ریخت سے اب تک بچائے رکھا ہے۔

اچھے وقتوں میں استاد کو قوم کو محسن کہا جاتا تھا لیکن اب نہ معاشرہ اس احسان کو ماننے کے لیے تیار ہے نہ ہی استاد معاشرے پر کسی قسم کا کوئی احسان کرنے کے موڈ میں ہیں ۔یہ نوبت کیوں آئی کہ معاشرے نے استاد پر تکیہ کرنا چھوڑ دیا اور استاد نے معاشرے کو سنوارنے کے آسمانی مشن سے مونہہ موڑ لیا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے زوال کی دردناک کہانی کا ایک نہایت ہی شرمناک باب ہے۔ لیکن میرا مقصد تعلیم اور استاد کے زوال پر نوحہ پڑھنا نہیں ۔ میری تسلی کے لیے یہی کافی ہے کہ استاد اور تعلیم کا زوال آمادہ ہونا کوئی انوکھا یا حیران کن عمل نہیں بلکہ یہ ہماری معاشرتی قدروں کے اجتماعی زوال کا ہی ایک ناقابلِ فخر حصہ ہے ۔ جب معاشرے کا ہر شعبہ زوال کی سیڑھی پر لڑھک رہا ہو تو استاد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر بغیر کوئی خم کھائے ایستادہ رہے ایک آئیڈیلسٹ کے نزدیک تونہ صرف عین ممکن بلکہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ استاد بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے اس لیے معاشرہ کے سردو گرم اس پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح باقی افرادِ معاشرہ پر ! لیکن کیا استاد کا معاشرے کے ساتھ زوال کی گھاٹیوں میں بہک جانا جائز ہے ؟ کیا استاد کا کام یہ نہیں کہ وہ بھٹکوں ہوؤں کی راہبری کرئے اور بکھرے ہوؤں کو علم کے سر تال سے یک سو کر دے؟ کیا استاد کا بھٹکے ہوئے کارواں کے ساتھ خود بھی بھٹک جانا علم کی شریعت میں جائز ہے؟

نومبر 11, 2014

احساس کی چڑیا اور میڈیا کی غلط فہمی

گذشتہ کچھ دنوں سے یہود و ہنود کے اشاروں پر چلنے والا ہمارا میڈیا تھر کی بھوک اور پیاس کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ میڈیا نے اس سازش کے ذریعے سندھ میں بہنے والی دودھ اور شہد کی نہروں میں پتھر پھینکنے کی کوشش کی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ میڈیا نے جمہوریت کی برکات سمیٹتے تھر کے باسیوں کے انجوائے منٹ میں پہلی دفعہ خلل ڈالا ہو۔ صرف ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو قائم علی شاہ کے مثالی طرزِ حکومت سے پہلے ارباب غلام رحیم کے مشرف بہ پرویز دور میں بھی میڈیا ایسی گھناؤنی سازشیں کرتا نظر آتا ہے ۔میڈیا نہ آمریت کے جھولے میں چپکا بیٹھ سکا اور نہ ہی آج اسے جمہوری پینگ کے ہلکورے خاموش کر سکے ہیں ۔ تھر میں اگتی بھوک
کی فصلیں اور پیاس کے دریا اس کی سنسنی پھیلانے والی حس کی تسکین کے لیے وافر سامان مہیا کر ہے ہیں۔اس لیے اور کوئی بولے نہ بولے میڈیا تو بول رہا ہے ۔ 
لیکن اگر ہمارا میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ سیاست کے نقار خانے میں اس کے تھر کے لیے کئے گئے واویلوں پر کوئی کان دھرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے ۔موجودہ قحط کی صورتِ حال سالِ گذشتہ سے جاری خشک سالی کا نتیجہ ہے ۔ پچھلے سال بھی میڈیا نے بہتیرا شور مچایا تھا کہ تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور امداد کے لیے بھجوائی گئی گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی پڑی سڑ رہی ہیں ۔ گزشتہ سال بھی میڈیا ہڈیوں کے ڈھانچوں کی صورت بنتے بچوں کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کے ضمیروں کو خواب خرگوش سے جگانے کی بھرپور کوشش کرتا رہا تھا لیکن سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی جمہوریت کے لیے دی گئی اپنی قربانیوں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ اس تک تھر کی بھوکی آواز نہ پہنچ سکی۔بدقسمتی سے آج بھی صورتِ حال جوں کی توں ہے اورہمارے حکمرانوں کے کانوں پر کسی جوں کے رینگنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔۔ آج بھی تھر کے متاثرین کے لیے بھجوائی جانے والی گندم کی بوریوں سے مٹی نکل رہی ہے ۔آج بھی متاثرین کے لیے بھجوایا جانے والا پانی ان تک پہنچنے کی بجائے گوداموں میں ہچکولے کھا رہا ہے ۔ تھر کے صحرا میں بھوک اور پیاس سے بلکتے غریبوں کے لیے حکمراں جماعت کے دفتر میں جھوٹی تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میڈیا لاکھ چیخے چلائے لیکن پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی اور اسکے بقا کے لیے جو لازوال قربانیاں دی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکاننظر نہیں آتاکہ اتنی بڑی جماعت چند سو لوگوں کے بھوک پیاس سے مرنے کے چھوٹے سے مسئلے پر ہڑبڑا اٹھے گی۔فی الحال پیپلز پارٹی کے روزنامچے میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔