میں ایک استاد ہوں! ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کا واحد
مقصد نوکری حاصل کرنا اور تعلیم دینے کا واحد مقصدروزی کماناہو، ایک ایسا
معاشرہ جہاں قوم کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے والے استاد کی بجائے زمینوں کی
الٹ پھیر کرنے والا پٹواری زیادہ مہان سمجھا جاتا ہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں
جس کی لاٹھی اس کی بھینس کانظام لاگو ہو اور لاٹھی والوں کے سامنے قلم و
کتاب والوں کی اوقات کمی کمین سی ہوایسے معاشرے میں استاد ہونے کا رسک لینا
نہایت ہی دل گردے کا کام ہے ! لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اور مجھ
سے ہزاروں دیوانوں نے نہ صرف ہنسی خوشی یہ رسک لیا ہے بلکہ ہمیں اپنے فیصلے
پر ناز بھی ہے ۔ استاد کے بارے میں معاشرتی رویوں میں نازیبا حد تک زوال
کے باوجود ہم لوگ دھڑا دھڑ
اس پیشے کو اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں ۔تسلیم
کہ ہم میں سے بہت سے مجبوری کی بیساکھیاں گھسٹتے اس قریے میں داخل ہوئے
ہیں لیکن ان کی بھی کمی نہیں جوشوق کی رتھ پر سوار ہو کراس کوچے میں دوڑے
چلے آئے ہیں۔بحر حال وجہ جو بھی رہی ہو علم کے پیشے سے منسلک ہونے والوں کی
بہتات بتاتی ہے کہ قلم ، کتاب اور استاد سے اس معاشرے کا رشتہ ابھی پوری
طرح نہیں ٹوٹا۔علم کے کاروبار اور استادوں کے سوداگر بن جانے کے باوجود
ہماری روایات نے ہمیں مکمل شکست و ریخت سے اب تک بچائے رکھا ہے۔
اچھے وقتوں میں استاد کو قوم کو محسن کہا جاتا تھا لیکن اب نہ معاشرہ اس احسان کو ماننے کے لیے تیار ہے نہ ہی استاد معاشرے پر کسی قسم کا کوئی احسان کرنے کے موڈ میں ہیں ۔یہ نوبت کیوں آئی کہ معاشرے نے استاد پر تکیہ کرنا چھوڑ دیا اور استاد نے معاشرے کو سنوارنے کے آسمانی مشن سے مونہہ موڑ لیا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے زوال کی دردناک کہانی کا ایک نہایت ہی شرمناک باب ہے۔ لیکن میرا مقصد تعلیم اور استاد کے زوال پر نوحہ پڑھنا نہیں ۔ میری تسلی کے لیے یہی کافی ہے کہ استاد اور تعلیم کا زوال آمادہ ہونا کوئی انوکھا یا حیران کن عمل نہیں بلکہ یہ ہماری معاشرتی قدروں کے اجتماعی زوال کا ہی ایک ناقابلِ فخر حصہ ہے ۔ جب معاشرے کا ہر شعبہ زوال کی سیڑھی پر لڑھک رہا ہو تو استاد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر بغیر کوئی خم کھائے ایستادہ رہے ایک آئیڈیلسٹ کے نزدیک تونہ صرف عین ممکن بلکہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ استاد بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے اس لیے معاشرہ کے سردو گرم اس پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح باقی افرادِ معاشرہ پر ! لیکن کیا استاد کا معاشرے کے ساتھ زوال کی گھاٹیوں میں بہک جانا جائز ہے ؟ کیا استاد کا کام یہ نہیں کہ وہ بھٹکوں ہوؤں کی راہبری کرئے اور بکھرے ہوؤں کو علم کے سر تال سے یک سو کر دے؟ کیا استاد کا بھٹکے ہوئے کارواں کے ساتھ خود بھی بھٹک جانا علم کی شریعت میں جائز ہے؟
اچھے وقتوں میں استاد کو قوم کو محسن کہا جاتا تھا لیکن اب نہ معاشرہ اس احسان کو ماننے کے لیے تیار ہے نہ ہی استاد معاشرے پر کسی قسم کا کوئی احسان کرنے کے موڈ میں ہیں ۔یہ نوبت کیوں آئی کہ معاشرے نے استاد پر تکیہ کرنا چھوڑ دیا اور استاد نے معاشرے کو سنوارنے کے آسمانی مشن سے مونہہ موڑ لیا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے زوال کی دردناک کہانی کا ایک نہایت ہی شرمناک باب ہے۔ لیکن میرا مقصد تعلیم اور استاد کے زوال پر نوحہ پڑھنا نہیں ۔ میری تسلی کے لیے یہی کافی ہے کہ استاد اور تعلیم کا زوال آمادہ ہونا کوئی انوکھا یا حیران کن عمل نہیں بلکہ یہ ہماری معاشرتی قدروں کے اجتماعی زوال کا ہی ایک ناقابلِ فخر حصہ ہے ۔ جب معاشرے کا ہر شعبہ زوال کی سیڑھی پر لڑھک رہا ہو تو استاد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر بغیر کوئی خم کھائے ایستادہ رہے ایک آئیڈیلسٹ کے نزدیک تونہ صرف عین ممکن بلکہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ استاد بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے اس لیے معاشرہ کے سردو گرم اس پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح باقی افرادِ معاشرہ پر ! لیکن کیا استاد کا معاشرے کے ساتھ زوال کی گھاٹیوں میں بہک جانا جائز ہے ؟ کیا استاد کا کام یہ نہیں کہ وہ بھٹکوں ہوؤں کی راہبری کرئے اور بکھرے ہوؤں کو علم کے سر تال سے یک سو کر دے؟ کیا استاد کا بھٹکے ہوئے کارواں کے ساتھ خود بھی بھٹک جانا علم کی شریعت میں جائز ہے؟