نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نومبر 26, 2014

کچھ پیغمبری پیشے کے بارے میں

میں ایک استاد ہوں! ایک ایسے معاشرے میں جہاں تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نوکری حاصل کرنا اور تعلیم دینے کا واحد مقصدروزی کماناہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں قوم کی تقدیر بنانے اور بگاڑنے والے استاد کی بجائے زمینوں کی الٹ پھیر کرنے والا پٹواری زیادہ مہان سمجھا جاتا ہو، ایک ایسا معاشرہ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کانظام لاگو ہو اور لاٹھی والوں کے سامنے قلم و کتاب والوں کی اوقات کمی کمین سی ہوایسے معاشرے میں استاد ہونے کا رسک لینا نہایت ہی دل گردے کا کام ہے ! لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے اور مجھ سے ہزاروں دیوانوں نے نہ صرف ہنسی خوشی یہ رسک لیا ہے بلکہ ہمیں اپنے فیصلے پر ناز بھی ہے ۔ استاد کے بارے میں معاشرتی رویوں میں نازیبا حد تک زوال کے باوجود ہم لوگ دھڑا دھڑ
اس پیشے کو اختیار کر تے چلے جا رہے ہیں ۔تسلیم کہ ہم میں سے بہت سے مجبوری کی بیساکھیاں گھسٹتے اس قریے میں داخل ہوئے ہیں لیکن ان کی بھی کمی نہیں جوشوق کی رتھ پر سوار ہو کراس کوچے میں دوڑے چلے آئے ہیں۔بحر حال وجہ جو بھی رہی ہو علم کے پیشے سے منسلک ہونے والوں کی بہتات بتاتی ہے کہ قلم ، کتاب اور استاد سے اس معاشرے کا رشتہ ابھی پوری طرح نہیں ٹوٹا۔علم کے کاروبار اور استادوں کے سوداگر بن جانے کے باوجود ہماری روایات نے ہمیں مکمل شکست و ریخت سے اب تک بچائے رکھا ہے۔

اچھے وقتوں میں استاد کو قوم کو محسن کہا جاتا تھا لیکن اب نہ معاشرہ اس احسان کو ماننے کے لیے تیار ہے نہ ہی استاد معاشرے پر کسی قسم کا کوئی احسان کرنے کے موڈ میں ہیں ۔یہ نوبت کیوں آئی کہ معاشرے نے استاد پر تکیہ کرنا چھوڑ دیا اور استاد نے معاشرے کو سنوارنے کے آسمانی مشن سے مونہہ موڑ لیا ؟ اس سوال کا جواب ہمارے زوال کی دردناک کہانی کا ایک نہایت ہی شرمناک باب ہے۔ لیکن میرا مقصد تعلیم اور استاد کے زوال پر نوحہ پڑھنا نہیں ۔ میری تسلی کے لیے یہی کافی ہے کہ استاد اور تعلیم کا زوال آمادہ ہونا کوئی انوکھا یا حیران کن عمل نہیں بلکہ یہ ہماری معاشرتی قدروں کے اجتماعی زوال کا ہی ایک ناقابلِ فخر حصہ ہے ۔ جب معاشرے کا ہر شعبہ زوال کی سیڑھی پر لڑھک رہا ہو تو استاد سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنے مقام و مرتبے پر بغیر کوئی خم کھائے ایستادہ رہے ایک آئیڈیلسٹ کے نزدیک تونہ صرف عین ممکن بلکہ ضروری ہے لیکن حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ استاد بھی اسی معاشرے کا ایک فرد ہے اس لیے معاشرہ کے سردو گرم اس پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں جس طرح باقی افرادِ معاشرہ پر ! لیکن کیا استاد کا معاشرے کے ساتھ زوال کی گھاٹیوں میں بہک جانا جائز ہے ؟ کیا استاد کا کام یہ نہیں کہ وہ بھٹکوں ہوؤں کی راہبری کرئے اور بکھرے ہوؤں کو علم کے سر تال سے یک سو کر دے؟ کیا استاد کا بھٹکے ہوئے کارواں کے ساتھ خود بھی بھٹک جانا علم کی شریعت میں جائز ہے؟

نومبر 11, 2014

احساس کی چڑیا اور میڈیا کی غلط فہمی

گذشتہ کچھ دنوں سے یہود و ہنود کے اشاروں پر چلنے والا ہمارا میڈیا تھر کی بھوک اور پیاس کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کو شرمندہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہے کہ میڈیا نے اس سازش کے ذریعے سندھ میں بہنے والی دودھ اور شہد کی نہروں میں پتھر پھینکنے کی کوشش کی ہو۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ میڈیا نے جمہوریت کی برکات سمیٹتے تھر کے باسیوں کے انجوائے منٹ میں پہلی دفعہ خلل ڈالا ہو۔ صرف ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو قائم علی شاہ کے مثالی طرزِ حکومت سے پہلے ارباب غلام رحیم کے مشرف بہ پرویز دور میں بھی میڈیا ایسی گھناؤنی سازشیں کرتا نظر آتا ہے ۔میڈیا نہ آمریت کے جھولے میں چپکا بیٹھ سکا اور نہ ہی آج اسے جمہوری پینگ کے ہلکورے خاموش کر سکے ہیں ۔ تھر میں اگتی بھوک
کی فصلیں اور پیاس کے دریا اس کی سنسنی پھیلانے والی حس کی تسکین کے لیے وافر سامان مہیا کر ہے ہیں۔اس لیے اور کوئی بولے نہ بولے میڈیا تو بول رہا ہے ۔ 
لیکن اگر ہمارا میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ سیاست کے نقار خانے میں اس کے تھر کے لیے کئے گئے واویلوں پر کوئی کان دھرے گا تو یہ اس کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے ۔موجودہ قحط کی صورتِ حال سالِ گذشتہ سے جاری خشک سالی کا نتیجہ ہے ۔ پچھلے سال بھی میڈیا نے بہتیرا شور مچایا تھا کہ تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں اور امداد کے لیے بھجوائی گئی گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی پڑی سڑ رہی ہیں ۔ گزشتہ سال بھی میڈیا ہڈیوں کے ڈھانچوں کی صورت بنتے بچوں کی کہانیاں سنا سنا کر ہمارے حکمرانوں کے ضمیروں کو خواب خرگوش سے جگانے کی بھرپور کوشش کرتا رہا تھا لیکن سندھ کی حکمراں جماعت پیپلز پارٹی جمہوریت کے لیے دی گئی اپنی قربانیوں کے بوجھ تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ اس تک تھر کی بھوکی آواز نہ پہنچ سکی۔بدقسمتی سے آج بھی صورتِ حال جوں کی توں ہے اورہمارے حکمرانوں کے کانوں پر کسی جوں کے رینگنے کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ۔۔ آج بھی تھر کے متاثرین کے لیے بھجوائی جانے والی گندم کی بوریوں سے مٹی نکل رہی ہے ۔آج بھی متاثرین کے لیے بھجوایا جانے والا پانی ان تک پہنچنے کی بجائے گوداموں میں ہچکولے کھا رہا ہے ۔ تھر کے صحرا میں بھوک اور پیاس سے بلکتے غریبوں کے لیے حکمراں جماعت کے دفتر میں جھوٹی تسلیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میڈیا لاکھ چیخے چلائے لیکن پیپلز پارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی اور اسکے بقا کے لیے جو لازوال قربانیاں دی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکاننظر نہیں آتاکہ اتنی بڑی جماعت چند سو لوگوں کے بھوک پیاس سے مرنے کے چھوٹے سے مسئلے پر ہڑبڑا اٹھے گی۔فی الحال پیپلز پارٹی کے روزنامچے میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے ۔

ستمبر 23, 2014

لے کے رہیں گے، بٹ کے رہے گا

پیپلز پارٹی نے سابقہ دورِ حکومت میں اپنی روز افزوں کرپشن اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کاجوشوشہ چھوڑا تھا وہ اب بر گ و بار لاناشروع ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں لسانی تعصب کو ہوا دے کرپیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکارکھیلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلم لیگ نون کی سیاسی قوت توڑنے کے ساتھ ساتھ اس شوشے کا بڑا مقصد محرومی کے شکار عوام کے دکھوں کا استحصال کر کے اپنی شرمناک پرفارمنس سے ان کی توجہ ہٹانی تھی۔مئی  2013 کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کے عوام نے  پیپلز پارٹی کو یکسر مسترد کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ نئے صوبے کے سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بنانے کا زمانہ اب گزر چکا ہے ۔ سرائیکی صوبے کے نعرے پر خود جنوبی پنجاب والوں سے زیادہ ایم کیو ایم کو جو خوشی ہوئی وہ دیدنی
تھی۔ ایم کیو ایم نے نہ صرف اس مطالبے کی دل و جان سے حمایت کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر صوبہ ہزارہ کی پھلجڑی بھی چھوڑ دی۔ اہلِ نظر کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے خیال پر یوں ریجھ ریجھ نہ جاتی۔

اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائےجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔حیرت ہے کہ جب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔

ستمبر 20, 2014

تبدیلی کیوں ناگزیر ہے؟

ابھی ہم پی آئی اے کے طیارے سے رحمان ملک اور رمیش کمار کے بے آبرو ہو کر نکلنے کی خوشی میں بغلیں بجا ہی رہے تھے اور ایک دوسرے کو تبدیلی کی نویدیں سنا سنا کرلوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ نئے پاکستان کے اس خوش کن منظر کو پرانے پاکستان کے ایک کریہہ نظارے نے دھندلا کر رکھ دیا۔ مظفر گڑھ کے ایک گاؤں مبارک آباد میں ایک پیر صابر علی نے اپنے مریدنیاز علی کو حیات بعد از مرگ کی کرامت دکھانے کے لیے اپنے آستانے پر بلا کر ذبح کر دیا اور یاعلی کے نعرے لگاتے ہوئے اس کی لاش پر دیوانہ وار بھنگڑے ڈال کر ایٹمی پاکستان کی تہذیب و ترقی کے راز طشت از بام کرتا رہا ۔ اس کی اس ’کرامت ‘ کو گاؤں والوں نے اردگر د کے مکانوں کی چھتوں اور دیواروں پر چڑھ کرلائیودیکھا اور منتظر رہے کہ کب مردے کو پیر صاحب زندہ کریں گے لیکن جب پیر صاحب اپنی کرامت مکمل کیے بغیر وہاں سے کھسکنے لگے تو کھلبلی مچی
۔پیرصاحب کی کرامت کے اس ناکام مظاہرے پر اگرچہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے کے مونہہ پر ،جسے اسلامی معاشرہ ہونے کا بھی دعویٰ ہے ، ایک نہایت ہی زوردار طمانچہ ہے۔ ہم چونکہ ازل سے طمانچے کھانے کے عادی ہیں اس لیے اس واقعے کا بھی ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ہم حسبِ معمول باقی دنیا کوجاہل ، جنگلی اور بد تہذیب جبکہ خود کو درخشاں اسلامی روایا ت کا واحد وارث، امین اور ٹھیکیدار سمجھتے رہیں گے۔
یہ اور اسی قبیل کے دوسرے واقعات آئے روز ہمارے دیس کی گلیوں گاؤں اور گوٹھوں میں اپنا بھیانک روپ دکھا کر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تبدیلی اس ملک کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے لیکن ہم بے عملی کی چادر اوڑھے کسی کرامت کے منتظر ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آسمان سے ہمارے لیے تبدیلی اترے گی اور ہم اسے گلے لگا کر جھومنے لگیں گے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے ہماری کایا پلٹ جائے گی اور ہم ککھ پتی سے لکھ پتی بن جائیں گے، ایک دن ہماری آنکھ کھلے گی تو دنیا بدل چکی ہو گی اور ہم ترقی کے جھولے جھول رہے ہوں گے۔ ہم انہونیوں پر اپنی ذات سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے گاؤں دیہات کے صابر علی جیسے پیروں سے لے کر قومی سطح کے سیاسی و مذہبی لیڈروں تک میں سے ہر ایک کے ہاتھوں الو بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ہم ہر موڑ پر بے وقوف بننے کے لیے دل و جان سے راضی ہوتے ہیں بس ہمیں کسی ایسے سیانے کی تلاش رہتی ہے جو کسی نئی تیکنیک سے کسی نئے ڈھنگ یا ڈھونگ سے ہمیں بے وقوف بنا سکے ۔

ستمبر 18, 2014

کیا ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں؟

ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں یا انتشار کی دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دھرنے کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے بتوں کو سامنے رکھ کراپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے پاکستان کو جنت بنانے والے انقلابی گانوں کی دھن میں خود کو انقلاب کے دھانے پر بیٹھے ہوئے محسوس کررہے ہیں جبکہ دھرنے کے مخالفین کواس میں شر اور شرارت کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا۔ گرم توے پر بیٹھی حکومت کے مونہہ سے انتشار کے خدشات ایک معمول کی بات بن چکی ہے کہ وہ اپنا تخت بچانے کے لیے کسی بھی جھوٹی سچی منطق کا سہارا لے سکتی ہے لیکن اب عمران خان نے بھی خانہ جنگی کی بات کر کے سب کو چونکا دیاہے۔ یہ واضح نہیں کہ عمران اس ہولناک خدشے کا اظہار کر کے حکومت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں یا ملک کے اصلی حکمرانوں کو ان کے غیر جانبدار رہنے کے اعلان پر کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ خانہ جنگی کی دھمکی کو عمران اگر ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی حماقت کرنے جا رہے ہیں ۔ اپنی خفت کو سمیٹ کر کچھ دن کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے ۔ 
عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا ہے ۔ لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔

ستمبر 15, 2014

رینٹ اے انقلابی

حق کے خلاف باطل کی سازشی فیکٹری ازل سے چل رہی ہے اور ابد تک چلتی رہے گی ۔ یہ فیکٹری چوبیس گھنٹے اہلِ حق کو نیچا دکھانے کے لیے نت نئی سازشیں بُنتی رہتی ہے ۔اس سے برآمد ہونے والی پراڈکٹس میں نئے نئے فلیور کے جھوٹ ، نئی نئی طرز کی تہمتیں اور نت  نئے فیشن کے الزامات بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔یہ طاغوتی فیکٹری پچھلے کچھ دنوں سے اسلام آباد میں دھرنے دینے والوں کے خلاف جھوٹ کات رہی ہے اور طاہر القادری جیسی بزرگ ہستی کے خلاف ایسے الزامات لگا رہی ہے جن پر ایمان لانا تو دور کی بات صرف ان کو سوچنے سے بھی ایمان کھونے کا دھڑکا لگارہتا ہے ۔ طاغوت کے دو برطانوی ہر کاروں بی بی سی اور رائٹرز نے اپنی دو مختلف رپورٹس میں شیخ الاسلام کے انقلابیوں پر کرائے کے انقلابی ہونے
کے ایک ہی جیسے الزامات لگا کر ہمارے اس شک کومزید تقویت دی ہے کہ یہود و نصاریٰ پورے زور و شور سے انقلابی پاکستان کے خلاف سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔ جیسے جیسے دھرنا طوالت پکڑ رہا ہے نئے پاکستان کے امکانات روشن سے روشن تر ہوتے جارہے ہیں اور اس روشنی سے چونکہ یہودو نصاریٰ کی آنکھیں چندھیا رہی ہیں اس لیے وہ اس طرح کی من گھڑت خبروں سے نئے پاکستان کے سورج کو طلوع ہونے سے پہلے ہی غروب کردیناچاہتے ہیں۔
قادری صاحب کے سالِ گذشتہ کے تاریخی دھرنے کے موقع پر بھی غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں پر انحصار کرنے والےبعض کج بیں حضرات کی طرف سے کچھ اسی طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا کہ قادری صاحب کے غیر معمولی ڈسپلنڈ مریدین یا تو ان کے منہاج سکول نیٹ ورک کے ملازم ہیں یا پھر کرائے پر لائے گئے بے روزگار ! لیکن اُس وقت بھی ایسی افواہوں کی قادری صاحب نے سختی سے تردید کر کے ان کے سر کچل دیے تھے اور اِس سال بھی قادری صاحب بی بی سی اور رائٹرز کی پھیلائی گئی افواہ نما خبروں کا قلع قمع کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں ۔ ہم نے سازش کا سرا تو ڈھونڈ لیا ہے لیکن اس سازش کے پس پردہ محرکات تک پہنچنا نہ صرف نئے اور انقلابی پاکستان بلکہ پرانی امتِ مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے بھی اشد ضروری ہے ۔ اس بات کا کھوج لگانا کہ بی بی سی اور رائٹرز انقلاب سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں نہایت ہی اہم ہے۔

ستمبر 12, 2014

انقلاب کی دلدل

دنیا بھر میں انقلاب کا لفظ تبدیلی کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ سماجی، سیاسی، معاشی ، یا مذہبی ڈھانچے میں یک لخت وقو ع پذیر ہونے والی تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔اس لحاظ سے انقلاب اور تبدیلی دونوں جڑواں بہن بھائی ہیں ،جہاں انقلاب آئے وہاں تبدیلی ناگزیر ہے اور جہاں تبدیلی آ جائے وہاں انقلاب کودر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دونوں کا جنم جنم کا ساتھ ہے ۔کسی بھی معاشرے میں یہ دونوں اکٹھے پیدا ہوتے اکٹھے پروان چڑھتے اور اکٹھے مرتے ہیں ۔ ان دونوں کے اہداف ، کارگزاریوں اور کارناموں پر پوری پاکستانی قوم پچھلے۲۶ روزہ کورس میں مکمل عبور حاصل کر چکی ہے۔ تبدیلی کے موضوع پر عمران خان کی جذباتی تقریروں اور انقلاب کے شانِ نزول پر طاہر القادری صاحب کے پر مغز خطبات نے ہم میں سے ہر ایک کو اس موضوع پر اچھا خاصا عالم بنا دیاہے ۔ چناچہ اب ہم دنیا کو صداقت ، عدالت اور شجاعت کے ساتھ ساتھ انقلاب کا
درس بھی با آسانی دے سکتے ہیں۔ انقلاب اور تبدیلی کے شعبہ جات میں ہماری یہ خود کفالت یقیناًحاسدوں کے حسد میں دن دگنی رات چگنی اضافہ کر رہی ہے۔
 
انقلاب اور تبدیلی کی بہت سی اقسام اور نسلیں ہیں اور ہر نسل کی اپنی اپنی خصوصیا ت ہیں لیکن ان تمام اقسام اور قبیلوں میں سنجیدگی کی قدر مشترک ہے ۔دنیا میں کہیں بھی انقلاب قوالیوں پر تالیاں پیٹتے ہوئے نہیں آیا نہ ہی گانوں پر جھومتے ہوئے کہیں تبدیلی کو آتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ لیکن دنیا نے جو کبھی نہیں دیکھا ہم وہی اس کو دکھانا چاہتے ہیں ۔ دنیا کے لیے انقلاب جینے مرنے کا معاملہ ہو گا ہمارے لیے یہ ٹھٹھے مخول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ دنیا تبدیلی کے لیے کڑھتی مرتی ہو گی ہم گانوں کی سر تال پر جھومتے جھامتے تبدیلی لا رہے ہیں۔ دنیا بھر کے انقلابی لیڈر کئی کئی سال تک قید و بند کی صعوبتیں جھیل کر اور خون کی ندیاں عبور کر کے انقلاب لاتے ہیں ہمارا انقلاب بلٹ پروف ہے اس لیے یہ ان مراحل سے گزرے بغیر لیلیِٰ اقتدار کی زلف تک رسائی چاہتا ہے۔ہمارا انقلاب عدل و انصاف اور مساوات پر مبنی ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جہاں کارکن سڑک پر اور انقلاب ائیر کنڈیشنڈ کنٹینر میں سوئے۔

ستمبر 06, 2014

سیاسی عطائی

پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں فنکاروں کی ایک خاص کلاس کو عطائی کہتے ہیں جو کسی ڈرامے یا فلم کی بجائے عملی زندگی میں اپنی اداکاری سے لوگوں کے دل موہتی اور جیبیں ہلکی کرتی ہے !کھمبیوں کی طرح یہ عطائی ہر شہر ہر قصبے ہر کوچے اور ہر گلی میں وقتاً فوقتاً اگتے ہیں ،کچھ عرصہ اپنی مہارت سے علاقے کے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں ۔ نبض دیکھ کر مرض جان لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور تبخیرِ معدہ سے لے کر کینسر تک جیسے امراض کے شافی علاج میں انہیں پیدائشی مہارت حاصل ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ دوا کی ایک ہی پڑیا سے سارے امراض کو بھگانے کا محیر العقول کارنامہ بھی سر انجام دیتے ہیں ۔ ہر طرف سے نا امید مریضوں کوونویدِ شفا دیتے ان کے اشتہار جا بجا دیواروں
پر نقش ہوتے ہیں ۔ عام طبیبوں کی نسبت یہ کم خرچ میں بڑے بڑے پیچیدہ امراض کے پیچ و خم کھولنے کا دعویٰ کرتے ہیں اس لیے ان کی دکان خوب چلتی ہے۔
عطائیوں کی یہ خصوصیات تیسری دنیا میں پھیلی ان کی ساری فنکار برادری کا مشرکہ ورثہ ہیں لیکن تیسری دنیا کیباقی ممالک کے برعکس پاکستانی عطائیے صرف لوگوں کی قبض رفع کرنے اور ان کی بواسیر بھگانے کے فن تک ہی محدود نہیں بلکہ انہوں نے کئی اور شعبوں میں بھی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ے ہیں۔میدانِ سیاست میں ان کی ترک تازیاں بالخصوص قابلِ ذکرہیں۔ اس میدان میں اب تو عطائیوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ اصلی اور نقلی میں تمیز کرنا بہت مشکل ہوگیاہے ۔ میڈیا کیمروں کی چکا چوند میں عطائی سیاست دانوں کی دکانیں زیادہ چمکتی ہیں کیوں کہ تماشا لگانا انہیں خوب آتا ہے۔ لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے فن میں انہیں مہارتِ تامہ حاصل ہوتی ہے چناچہ کبھی طنز و مزاح سے ، کبھی رو رلا کر ، کبھی چٹکلے سنا کر یہ حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔ان کی یہ مہارت میلوں ٹھیلوں اور لاری اڈوں پر دانت کے درد کی دوا اور سانڈے کا تیل بیچنے والے مداریوں سے بڑی حد تک ملتی جلتی ہے ۔یہ مداری بھی اپنی دوا بیچنے کے لیے سسپنس اور تھرل کے ہتھیاروں سے کام لیتے ہیں اور بھولے بھالے سامعین کو گھنٹوں اپنی چکنی چپڑی باتوں سے گھیرے رکھتے ہیں ۔

ستمبر 05, 2014

کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا۔اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک میں مل رہا ہے ۔

اگست 31, 2014

جب غیرت پنکچر ہو جائے

ستم گر عالمی میڈیا گاہے گاہے پاکستان کے مجروح قومی وقار پر سنگ باری کرتا رہتا ہے ۔ ہم جس شدو مد سے زندہ قوم ہونے کے نعرے بجاتے اور گیت گاتے ہیں دنیا اسی شدو مد سے ہمیں ہماری اصل اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔ غیرت و حمیت کے ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو بے حمیتی کے طعنے دیتے ہیں لیکن حقیقت کی سنگلاخ زمین پر اترتے ہی اپنی پتلی حالت دیکھ کر ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے۔ عالمی میڈیا کو ہماری کمزوریوں کا پورا پورا ادراک ہے اس لیے یہ ہمیں زیادہ وقت ہوائی قلعوں میں نہیں گزارنے دیتا۔ ابھی ہم ایک زخم کی دوا کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک اور تیر ہماری غیرت کی قبا کو چھلنی کرتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہم پرانے زخم کو بھول کر نئے کی دوا دھونڈنے لگتے ہیں ۔ شاید عالمی میڈیا یہ جان چکا ہے کہ اس قوم
کی غیرت کو وقتاً فوقتاً پنکچر کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ شیخی بگھارنے لگتی ہے اور ساری دنیا کی غیرت پر سوال اٹھانے لگتی ہے۔ ہمارا پانی اتارنے کے لیے عالمی میڈیا کے پاس بہت سے ریڈی میڈ فارمولے موجود ہیں۔ان آزمودہ فارمولوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کا ذکر بھی ہے ۔ گلا پھاڑتی ، چھاتیاں پھلاتی، مسل دکھاتی پاکستانی قوم کو میوٹ کرنے کا اس سے بہتر شاید ہی کوئی نسخہ ہو ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کومقامی سوداگروں نے ۲۰۰۳  کے موسمِ بہار میں پاک سر زمیں سے اٹھایا اور چنگھاڑتے دہاڑتے امریکی استعمار کے حوالے کر دیا لیکن اس وقت پاکستانی قوم روشن خیالی کی گنگا میں اشنان کر رہی تھی اس لیے اس لین دین سے اس کی قومی غیرت کا کوئی بال بیکا نہ ہوا۔ پانچ سال تک عافیہ افغانستان کے زندانوں میں پرتشدد اسیری کے دن کاٹتی رہی اور پاکستانی حکومت بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے اس کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔جولائی ۲۰۰۸ ء کو جب ا یوان ریڈلی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی پریس کانفرنس میں قیدی نمبر ۶۵۰ کا قصہ بیان کیا تو پاکستانیوں کی قومی غیرت نے اپنی ایک بیٹی کی غیروں کے ہاتھوں اسیری کی آنچ محسوس کرنی شروع کی ۔ عافیہ پر ڈھائے جانے والے اندھے مظالم کی کہانیاں آہستہ آہستہ زنداں خانوں سے نکل کر پاکستانی قوم تک پہنچنا شروع ہوئیں تو قومی غیرت کو ابال آنے لگا ۔ وہ جنہوں نے عافیہ کو دام و درم کے عوض بیچ دیا تھا ان کے خلاف نفرت کے لاوے پکنے لگے۔ نعروں، اجتجاجوں ، قراردادوں ، ریلیوں اور مظاہروں کا دامن تھام کر پاکستانی قوم نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدو جہد شروع کر دی لیکن جب اہلِ حکم اپنے ضمیر گروی رکھ چکے ہوں تو قوم لاکھ سر پٹکے اپنی غیرت کا دفاع نہیں کر سکتی۔

اگست 23, 2014

امریکی صحافی کا قتل اور عافیہ صدیقی

مبینہ امریکی صحافی جمیز فولی کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت نے عالمی ضمیر کو ایک بار پھر ہڑ بڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ضمیر پچھلے کچھ ماہ سے افیون زدگی کی حالت میں اونگھ رہا تھااور غزہ میں کئی ہفتوں سے جاری قتل وغارت ،جنگی طیاروں اور میزائلوں کی چنگھاڑتی آوازوں اورفلسطینی بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار میں بھی مدہوش پڑا تھا لیکن شکرہے کہ جیمز فولی کے گلے پر چلنے والے خنجر کی آواز سے اس کی نیند ٹوٹ گئی ۔ اب امید کی جاسکتی ہے دنیا بھر کے دکھیاروں کے لیے آواز اٹھے گی اور جیمز فولی کی موت عالمی ضمیر کی حیات ثابت ہو گی۔
جیمزفولی صحافیوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو فاتح امریکی افواج کے پہلو بہ پہلو مفتوح علاقوں پر نازل ہوتے ہیں۔ یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، ہنستے بولتے اور گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی فتوحات کو فلم بند کرکے امریکی قوم کے ایڈونچرانہ جذبے کی تسکین کرتے ہیں۔ مفتوح قوموں کی جہالت ، کسمپرسی، اور بد تہذیبی کی عکس بندی کر کے امریکی حملوں کو تہذیبی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی ان کے جاب پروفائل کاحصہ ہوتا ہے۔چونکہ امریکی عوام کا باقی دنیاکے بارے میں جنرل نالج شرمناک حد تک کم ہے اس لییامریکی میڈیا میں موجود جیمز فولی جیسے صحافی ہی باقی دنیا کے لیے ان کی کھڑکی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صحافی امریکا کے کسی ملک پر حملے سے پہلے ایک ایسا ہیجان برپا کر دیتے ہیں کہ سارے امریکی ایک کورس میں جنگی ترانے گانے شروع کر دیتے ہیں اور حملے کے بعد یہ قبضے کی طوالت کو حلال ثابت کرنیکے لیے وقتا فوقتا کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکا بھیجتے رہتے ہیں ۔بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگی صحافیوں کی یہ کھیپ دراصل امریکا خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ہو تی ہے جنہیں صحافیوں کے روپ میں فوج کے ساتھ یا پیچھے پیچھے روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صحافتی آزادیوں کے سبب فوج کے لیے دشمن کی سر زمین میں جاسوسی کرنے کے فریضے سر انجام دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے فوجیوں سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں لیکن سخت جانی کے سبب پیچھے نہیں ہٹتے ۔

اگست 22, 2014

دھاندلی کے بارے میں کچھ تہلکہ خیز انکشافات

پاکستان معجزات کی سر زمین ہے ۔یہاں انہونیاں کثرت سے وقو ع پذیر ہوتی ہیں، ناممکنات پل جھپکنے میں ممکن ہو جاتے ہیں اور محیر العقول عناصر پل پل تقدیریں بدلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑوں میں بھی کچھ ایسے پراسرار عناصر کا عمل دخل ہے جن سے پردہ اٹھا نا اب ناگزیر ہو گیا ہے ۔ ہوشربا انکشافات پر مشتمل یہ سطریں پڑھتے ہوئے یقیناًآپ کے رونگٹے کھڑے ہوں جائیں گے اور آپ بے یقینی کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے بار بار یہ سوال کریں گے کہ کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ، کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ایسے ساحر موجود ہیں جو الٹے کو سیدھا اور سیدھے کو الٹا کر
دیں جو مجنوں کو لیلیٰ اور لیلیٰ کو مجنوں بنا دیں، کیا سائنسی ایجادات کی بھرمار کے باوجود انسان ابھی تک پراسرار طاقتوں کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا ہے ؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات بے یقینی کے ناگ بن کرآپ کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کریں گے اور آپ کو ان سطروں کو محض ٹھٹھہ یا مذاق سمجھ کر نظر انداز کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پورا مضمون پڑھنے کے بعد آپ بھی میری طرح نہ صرف پر اسرار طاقتوں کے قائل ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے میری ہی طرح آپ بھی ان کے حصول کے لیے سر پٹ دوڑ لگا دیں۔
اس قصے کی ابتدا میری ایک زرد پوش بزرگ سے ملاقات سے ہوئی جن کے چہرے سے جلا ل ٹپک ٹپک ان کی ریش مبارک کو تر کر رہا تھا۔ ان کی سرخی مائل ہلالی آنکھوں میں ایسا رعب تھا کہ مارے ہیبت کے میری گھگی بندھ گئی ۔ میں نے گھگی پر بہ مشکل قابو پاکر ڈرتے ڈرتے سوال کیا : یا حضرت پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا حل کیا ہے ؟ حضرت نے اس کے جواب میں جو حل بتایا وہ عمران خان کے بیان کیے گئے حل سے ملتا جلتا تھا ۔ میں نیحیران ہو کر ان کی طرف دیکھا لیکن سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ مجھے سراپا حیرت پا کر وہ خندہ لب ہوئے اور فرمایا کہ ان کا پی ٹی آئی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں کیوں کہ وہ مادی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہاں پی ٹی آئی کے بھنگڑے اور صوفیانہ رقص ان کے روحانی تاروں کو ضرور چھیڑتے ہیں۔ میں نے ہمت مجتمع کی اور پھر سوال کیا : یا شیخ دھاندلی کے الزامات میں کتنی صداقت ہے ؟ اس پر کچھ دیر وہ خلا میں نہایت معجوبانہ انداز سے گھورتے رہے پھر گویا ہوئے اور جلالی انداز میں محض اتنا کہا ’’دھاندلی ہوئی ہے ضرور ہوئی ہے ‘‘۔ میرے استفسار پر کہ دھاندلی کیسے ہوئی ان کے اور میرے درمیان سوال وجواب کا ایک مکالمہ شروع ہواجس کا خلاصہ میں یہاں من و عن درج کر رہا ہوں

اگست 20, 2014

جب دیوتا بونے بنتے ہیں


سیاسی بصیرت اور قائدانہ بالغ نظری اگر کسی چڑیا کا نام تھا تو وہ اب تک تحریکِ انصاف کے گھونسلے سے پرواز کر چکی ہے ۔ سول نافرمانی اوراسمبلیوں سے استعفے کے بعد ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ تحریکِ انصاف کی قیادت سے زیادہ اس مارچ میں آئے ہوئے لاہور کے ماجھے گامے اور پشاور کے گل خان کر رہے ہیں۔ جب قیادت اپنے کارکنوں کے ہاتھوں یرغما ل بن جائے اور سڑک چھاپ کارکن فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگیں تو پھر سیاست پر فاتح پڑھ لینی چاہیے۔ عمران خان اپنی شعلہ بیانی کے زعم میں نواز شریف اور ان کی پارٹی کے خلاف جنوں بھوتوں کے جو قصے اپنے جنونیوں کو سناتے رہے ہیں اب انہوں نے ثمر دینا شروع کر دیے ہیں۔ اٹھارہ سال کی شبانہ روز تگ و دو سےعمران خان نے اپنا جو بت اپنے ماننے والوں کے ذہنوں میں تراشا تھااب اس کی پوجا شروع ہوگئی ہے اور پجاری ہر قربانی دینے کے لیے بظاہر تیار بیٹھے ہیں۔ آزادی مارچ میں بھڑکیلی تقریروں سے دیوتا عمران خان کا قد شاید کچھ اور بڑھ گیا ہو لیکن سیاست دان عمران خان بہت بونہ لگنے لگا ہے۔

کچھ لوگو ں کا یہ خیال کہ مارچ میں دس لاکھ لوگوں کو لانے میں ناکامی کی خفت کا بدلہ عمران خان پاکستان کی مظلوم و مقہور جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں اس وقت درست دکھائی دینے لگتا ہے جب عمران اور پی ٹی آئی کی قیادت واشگاف الفاظ میں مارشل لا لگنے کے خدشے کا اعتراف کر تی دکھائی دیتی ہے ۔ نواز شریف کی ہٹ دھرمی پر اسے کوسنے دیتے ہوئے تحریکِ انصاف اپنی انا پرستی سے صرف نذر کر جاتی ہے اور ممکنہ مارشل لا کا سارا ثواب نون لیگ کی جھولی میں ڈالتی دکھائی دے رہی ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ عمران مارچ کی بند گلی میں پھنسنے کے بعد اب بے نیل و مرام واپس جانے کی شرمندگی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ نہ ڈرنے والا نہ جھکنے والا لیڈر بھلا اپنے مطالبے سے الٹے پیروں واپس آنے کی خفت کیسے ہضم کر سکتا ہے ۔ خود کو ہرکولیس اور سپر مین بنا کر پیش کرنے میں یہی مسئلہ ہے کہ پھر لیڈر عام انسان نہیں بن سکتا۔ وہ عام انسان جو خون خرابے سے بچنے کے لیے اپنی انا کی قربانی دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔عمران خان اپنے خیالی جنت کے حصول میں اس وقت ایک ایسے راستے کی طرف چل پڑا ہے جہاں وہ اپنے کارکنوں کے خون سے اقتدار کی سیڑھی کو سینچنا چاہتا ہے۔ خود عمران خان اور ان کی جماعت خیبر پختونخواہ کے تجربے سے یہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ پاکستان کے گنجلک مسائل ایک سال میں اللہ دین کا جن بھی حل نہیں کر سکتااس لیے نون لیگ کے خلاف صرف ایک سال بعد یورش کا تعلق انتخابی دھاندلی یاگڈ گورننس سے کسی طرح بھی نہیں ہے اس جہاد کے تانے بانے کہیں اور جا کے ملتے ہیں۔

اگست 19, 2014

کیا مارچر مارشل لا کے منتظر ہیں

اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے سجائی گئی خوابوں کی جنت کو دو دن بیت چکے ہیں ۔جنتیوں کے جنون اور عقیدت کے پیمانے ابھی لبریز ہیں اورحکومت کو ابھی کچھ اور دن شاید انقلابی لیڈروں کی بے معنی للکاریں برداشت کرنی پڑیں۔ دنیا بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیروکاراپنے اپنے لیڈروں کو وہ مسیحا سمجھتے ہیں جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے ۔ دنیا بھر کی جماعتوں کے سیاسی ورکر اپنے لیڈر وں کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ وہ ان کے اشاروں پر ریلیاں نکالتے، مارچ کرتے اور دھرنے دیتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لیے یہ ہر طوفان سے ٹکراتے ہیں، مصائب و مسائل کی آندھیوں کامقابلہ کرتے ہیں اورانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے ۔ جہاں یہ ایندھن ٹھنڈا پڑتا ہے سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عرش سے فرش پر آ گرتے ہیں۔ فرش نشیں ہونا سیاسی لیڈروں کو چونکہ اتنا پسند نہیں ہوتا اس لیے یہ اپنے ورکروں کے جنون کو جھوٹے سچے نعروں سے ہوا دیتے رہتے ہیں ۔
پاکستان کے سیاسی ورکر دنیا بھر کے سیاسی ورکروں کی جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی منفرد خاصیتیں بھی رکھتے ہیں جو دنیا کے کسی اور گوشے میں نہیں پائی جاتیں ۔ہمارے سیاسی ورکر اپنے لیڈرو ں میں پیغمبرانہ خصوصیات پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر ہر خطاؤں سے مبرا ہے ۔ جھوٹ ،منافقت ، موقع پرستی اور ابن الوقتی سے کوسوں دور اور ذاتی منفعتوں کی آلائشوں سے یکسر پاک ہے۔ یہ سمجھتے ہیں ان کا لیڈر عام انسانوں سے بلند اللہ کا وہ ولی ہے جس سے غلطی سر زد ہونے کا ایمان رکھنا سیاسی کفر ہے ۔ یہ اپنے لیڈر کے مونہہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو وحی سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے سے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ ایسے الوہی لیڈروں اور ان کے فدائی حشیشین سے بھری ہوئی ہے ا وراگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی ’’ ہوش ربا ترقی‘‘ کا راز بھی یہ لیڈر اور ان کے سیاسی ورکر ہی ہیں۔

اگست 13, 2014

مارچوں کا موسم اور مشرف کا بھوت

تیسری دنیا میں بسنے والی انسان نما مخلوق کے بہت سے مشترکہ دکھوں میں سے ایک دکھ یہ بھی ہے کہ یہاں آمر اقتدار سے دھتکارے جانے کے باوجود طاقت ور رہتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے باوجودسوکھے پتوں کی طرح لرزتے رہتے ہیں۔ مشرف کو اقتدار کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلے چھ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی ساری کوششوں کا محور آج بھی مشرف کو بچانا یا اسے لٹکانا ہے۔ نواز شریف بھاری اکثریت لے کر حکومت میں آئے لیکن صرف ایک سال بعد ہی ان کی حکومت پر کپکپی طاری ہے ۔ انقلابوں اور آزادی مارچوں میں گھری ہوئی پاکستان کی ناتواں جمہوریت ایک دفعہ پھر کسی متوقع گینگ ریپ کا شکار ہونے کے خیال سے لرزہ بر اندام ہے اور تیسری دنیا کی انسان نما مخلوق زندہ باد ،مردہ باد ،آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے لگانے میں حسب معمول مست ہے۔
اس امر کو سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاہر القادری صاحب کے انقلابی اور عمران خان کے آزادی مارچ نے پاکستان میں جس سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اس کا فائدہ ان انقلابیوں کو ہو نہ ہو سابقہ آمر پرویز مشرف کوضرور ہوگا۔ بہت سے ذہنوں میں اس سوال نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کہیں آزادی مارچ مشرف کو آزادی کا پروانہ تھموانے کے لیے تو نہیں رچایا جا رہا؟ کہیں انقلاب کی ساری تان اس انتشار پر تو نہیں ٹوٹے گی جس کا فائدہ اٹھا کر مشرف سارے گناہوں سے دھل دھلا کر پردیس سدھار جائے گا؟ کہیں وہ جن کے ہاتھ میں اصل اقتدار کی لاٹھی ہے اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے انقلابیوں اور نئے پاکستان والوں کو اپنی کئی دہائیوں سے آزمودہ ٹکٹکی پر تو نہیں نچا رہے ؟ سوالوں کا اژدحام ہے اور عام پاکستانی حیران ہیں کہ کس پر ایمان لائے اور کس سے برا ء ت کا اظہار کرے ؟

اگست 09, 2014

ایک ناقابلِ فخر ورثہ

ترقی کے آسمان پر ہلکورے لیتا مغرب ہو یا پسماندگی کے گٹر میں کسمساتا مشرق توہم پرستی نوعِ انسانی کا وہ مشترکہ دائمی مرض ہے جسے علم و آگہی کی صدیوں پر پھیلی جدوجہد بھی کمزور نہ کر سکی۔ وہم کی فیکڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والے وائرس کے سامنے دانش وروں کی دانش، سائنس دانوں کی سائنس، فلسفیوں کا فلسفہ اور عالموں کا علم سب ہیچ ہیں۔صدیوں سے وہم کی آندھیاں یقین کی کھیتیوں کو اجاڑتی ، دلیل کی فصیلوں کو مسمار کرتی اور منطق کے قلعوں کوڈھاتی رہی ہیں ۔نسلِ انسانی کے غاروں سے لے کر خلا تک کے سفر میں وہم نے اسے اپنا اسیر کیے رکھا ہے۔ مذاہب آسمانی جو انسانوں کو وہم کی وادیوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑے کرنے کے لیے وجود میں آئے تھے وقت کی گرد نے ان کو ایسا مسخ کیا کہ یہ خود توہم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے ۔ اب چار سو وہم کی حکمرانی ہے اور پاکستان کا نورا مصلی ہو یا امریکا کا نارمن ایڈورڈ ، ہندوستان کی جیراں مائی ہو یا برطانیہ کی جینا ولسن سب وہم کے جال میں گرفتار ہیں۔
توہم پرستی کاتازہ ترین مظاہرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکامیں پیش آیا ۔امریکہ کے گلی کوچوں  میں آج کل ایک ایسی سیاہ پوش عورت کی پر اسراریت کے تذکرے ہیں جو پیادہ پا ایک ناتمام سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ اپنے خیالوں میں گم دنیا و مافیہا سے بے پرواہ یہ عورت پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل عازمِ سفر ہے۔ اس عورت کی اس انوکھی یاترا کی طرف توجہ مبذول کروانے کا سہرا فیس بک پر بنائے گئے ایک پیج کو جاتا ہے جس نے امریکا کے توہم پرستوں کو ایک نئے موضع پر مغز ماری کا موقع فراہم کیا ہے۔ ’’پراسرار عورت کہاں ہے ‘‘نامی اس صفحے پر امریکی اس عورت کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج کرتے ہوئے بڑے دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں ۔ کسی کے خیال میں یہ کوئی بھٹکی ہوئی روح ہے جو بستی بستی پھر کر اپنے نامعلوم کرب کی تسکین کر رہی ہے، کوئی اس کو فرشتہ سمجھ رہا ہے جو انسانوں کو بہ زبانِ خامشی کوئی پیغا م دینا چاہ رہا ہے ، کسی کے نزدیک یہ کوئی بھوت ہے جو کسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، کچھ سیانے اسے خلائی مخلوق کا زمینی ورژن سمجھ رہے ہیں۔ ذرا زیادہ دور کی کوڑیا ں لانے والے اسے خدا کی ولی اور پیغمبر تک قرار دے رہے ہیں ۔ کچھ کم تر درجے کے توہم پرستوں کے نزدیک یہ کوئی مسیحا ہے جو بھٹکی انسانیت کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے خود گاؤں گاؤں بھٹک رہا ہے۔ بہت سے جذباتی توہم پرست تو ابھی سے اس کے مرید ہو کر نہایت شدو مد سے ’’ہمیں سیاہ پوش عورت کے پیغام کو سمجھنا ہو گا‘‘کے نعرے لگا لگا کراس کے پیغام کو پھیلانے میں جی جان سے جت گئے ہیں اگر چہ اتنا انہیں خود بھی نہیں پتا کہ پیغام ہے کیا؟امریکی توہم پرستوں کی یہ معصومانہ ادا مجھے نہ جانے کیوں پاکستان کے بہت سے انقلابیوں سے ملتی جلتی لگتی ہے ! ہمارے انقلابی بھی ایک ایسے ہی مشکوک سفر پر گامزن مردِ پر اسرار کے پیغام کو پھیلانے میں مگن ہیں جس کے انوکھے سفر کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔

اگست 02, 2014

دو لیڈر ایک کہانی

کارزارِ سیاست ہو یا کارِ عشق ہردو میدانوں کے جگر آزماؤں کو ملامتوں اور تہمتوں کے تیر کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے اس لیے گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہونے کی صفت ان کے اند ر بدر جہ اتم پائی جاتی  ہے ۔ ان میدانوں کے شاہ سوار دشنام کو انعام سمجھ کر سینے سے لگاتے ہیں کیوں کہ گالیاں ان کے لیے مفت کی ناموری کا سامان لے کر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہ کبھی تہمتوں کے اس جوہڑ سے گزرنا پڑتا ہے ۔بہت کم سیاستدان تدبر کی کاریگری سے اپنا دامن ان ملامتی آلائشوں سے بچا پاتے ہیں ۔ جدید مغربی سیاست مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے ہر نیچ
پن کو مباح سمجھتی ہے اس لیے سیاست دانوں کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کی مجلسی زندگی تک کو تنقید کی سولی پر چڑھا کر پرکھا جاتا ہے ۔ سخت جان جانبر ہو جاتے ہیں جو ذرا کم ڈھیٹ ہوں رسوائیاں گلے میں لٹکا کر اس کوچے سے کنارہ کر جاتے ہیں ۔
مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصا تہمتوں کا بازار خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔ سیاست کے اس حمام میں چونکہ سارے ہی ننگے ہیں اس لیے کسی کو اپنا ننگا پن معیوب نہیں لگتا ۔ یہی مغربی سیاست کا اصول ہے اسی پر مغرب و مشرق کے جملہ سیاست دان عمل پیرا ہیں ۔

جولائی 20, 2014

پاکستانی آئین کی ایک لاوارث شق

نیت صاف ہو تو منزل خود دوڑ کر راہواروں کے قدم چومتی ہے اگر کھوٹ ہو تو یہ دھندلکوں میں کھو جاتی ہے اور فرد ہو ، قافلے ہوں یا قومیں بے سمت ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان کا آئین بنانے والوں نے قومی اتفاق کی بیل منڈھے چڑھانے کے لیے کہیں کی اینٹ کہیں کے روڑے اکھٹے کیے اور چوں چوں کا وہ مربہ بنادیا جسے آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین کہتے ہیں ۔ نیت میں ملاوٹ تھی یا آئین بنانے والے ان دیکھی مجبوریوں کے اسیر تھے کہ جو بنایااس پرتین دہائیاں بیت جانے پر بھی عمل نہ کروایا جا سکا۔ اس آئین میں چونکہ تمام طرز ہائے فکر کو حصہ بقدر جثہ کے اصول کے تحت مناسب نمائندگی دی گئی ہے اس لیے اس میں کچھ ایسی باتیں بھی در آئی ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ۔ آئین کی اسلامی دفعات ہوں، طبقاتی فرق ختم کرنے کا وعدہ ہو، اقلیتوں کی آزادیوں کا ذکر ہو،سود کی لعنت سے چھٹکارے کا عزم ہو یا اردو کو پندرہ سالوں میں سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کا دعویٰ ۱۹۷۳ کا آئین کچھ ایسے دیو مالائی قصوں سے اٹا ہوا ہے جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی ناتانہیں ۔

جولائی 17, 2014

غزہ کی سلگتی بستیاں اور کھوکھلی امت


فلسطین کی سلگتی بستیاں دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل سلگ رہے ہیں،فلسطینی مظلوموں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ کر مسلمانوں کے کلیجے پھٹے جارہے ہیں، اسرائیل کی خون آشامی پر مسلمانوں کے خون کھول رہے ہیں لیکن بے بسی کا یہ عالم ہے کہ سوائے مذمتی بیانات کے اور کچھ کرنے کی تاب و تواں نہیں۔قابض اسرائیل ہر تھوڑے عرصے بعد فلسطینیوں پر آگ و آہن کی بارش برساتا ہے اور کسی جنونی سیریل کلر کی طرح بے آسرا فلسطینیوں کی بے بسی کا لطف اٹھا تا ہے۔ مسلم امہ ہر نئی اسرائیلی جارحیت پر خون کے آنسو روتی ہے فلسطینی مظلوموں کی بے کسی پر نوحے پڑھتی ہے جوش آور تقریریں کر کے ناپاک اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کرتی ہے اور اسرائیل کے جنون کا ایک اور دور انہی جھوٹے واویلوں میں گزر جاتا ہے ۔ کئی دہائیوں کے تجربے نے اب اسرائیل کی دیدہ دلیری میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے وہ جانتا ہے کہ فلسطینیوں کے آنسو پونچھنے کوئی نہیں آئے گا اس لیے ہر ایک آدھ سال کے بعد یہ ان کے خون سے ہولی کھیل کر ساری دنیا کو اپنی طاقت اور مسلم امہ کو اس کی اوقات یاد دلاتا ہے۔

جولائی 10, 2014

جمہوریت کی کھیر

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔

جولائی 05, 2014

تحفظِ پاکستان بل

تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال ،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادہ کی چھڑیاں دے دی گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناًہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور اغوا کے اس طویل سلسے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔

جولائی 04, 2014

ارضِ مقدس کا بے انت مرثیہ

عالمی ضمیر تین اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت پر افسردہ ہے۔۱۲ جون کی ایک سہہ پہر کو اسرائیلی بستی سے غائب ہونے والے ان تین یہودی آباد کار نوجوانوں کی لاشیں اسرائیل ہی کے زیرِ انتظام مقبوضہ مغربی پٹی سے ملی ہیں۔ ان نوجوانوں کی اٹھارہ روزہ تلاش میں اسرائیلی فوج نے چار سو فلسطینیوں کو گرفتار کیا جن میں سات سال کے بچے سے لے کر ستر سال کے بوڑھے شامل ہیں۔گرفتار ہونے والے ان فلسطینیوں کی بقیہ زندگی اب اسرائیلی کے ان اندھے قید خانوں میں گزرے گی جو عالمی ضمیر کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ تین نوجوانوں کے اغوا نے سارے اسرائیل پر افسردگی کی چادر تان دی تھی جسے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جانے والے پانچ فلیسطینیوں کا خون بھی نہ چھٹ سکا۔ اب ان نوجوانوں کی لاشیں ملنے پر سارا اسرائیل بدلے کی آگ میں دہک رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس پر الزام عا ئد کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ حماس سے اس خون کا بدلہ لیا جائے گا۔

جولائی 02, 2014

اپنا اپنا چاند

رویت ہلال حسبِ روایت اس سال بھی اسلام کے قلعے میں متنازع رہا ۔ پشاور کی مسجد قاسم خان میں بیٹھے مفتی شہاب الدین پاپولزئی کو چاند نظر آ گیا کراچی میں بیٹھے مفتی منیب الر حمن اس سعادت سے محروم رہے ۔ فرقہ واریت ہمارے خون میں یوں رچ بس گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اس سے دامن نہیں بچا سکتے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین کو خیبر پختونخواہ سے ملنے والی شہادتیں قبول نہیں کہ ان شہادتوں کا فرقہ مختلف ہے ۔ مفتی پاپولزئی سرکاری کمیٹی کو اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کاتعلق ایک دوسرے فرقے سے ہے۔ ہر فرقے کو دوسرے فر قے کی شہادتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ ہٹ دھرمی کو اگر مجسم صورت میں دیکھنا مقصود ہو تو پاکستانی فرقہ پرستوں سے بہتر کوئی اور مثال نہیں۔

جون 29, 2014

انقلابی سیاست اور ہمارے گلو بٹ

روایت پرست پاکستانی عوام نے طاہر القادری کے نعرہِ انقلاب کو جس سنجیدگی سے لیا اس کا اندازہ گلو بٹ کی روز افزوں مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر گلو کے جارحانہ انداز پر بنائے گئے سینکڑوں لطائف اگرچہ صرف طفننِ طبع کے لیے شئیر کیے جارہے ہیں لیکن ان سے قادری صاحب کے انقلاب کی شان میں جو پے در پے گستاخیاں سرزد ہو رہی ہیں وہ قابلِ افسوس ہیں۔ انقلاب چاہے کینیڈا سے بزنس کلاس میں ہی سفر کر کے کیوں نہ آئے اس کی تضحیک انقلاب پسند قوم کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ گلو بٹ جس نے گلی محلوں کے بے قابو لفنگوں اور پنجابی فلموں کے بے مغز ہیرو کی طرح ادارہ منہاج القران کے سامنے کھڑی گاڑیوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایاکیوں کر عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ لوگ ماڈل ٹاؤن سانحے میں مرنے والے مظلوموں کو بھول کر اس مضحکہ خیز کردار کے مناقب گننے میں مگن ہیں۔

جون 25, 2014

پاکستانی سیاست کے ’’ڈئیر ڈیولز‘‘ اور حواس باختہ حکومت

جہالت، پسماندگی اور افلاس کے جان لیوا شکنجوں میں جکڑے ہوئے پاکستانی اگر طاہر القادری جیسے کرداروں کو مسیحا سمجھ لیں تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔طاہر القادری کی لیڈر شپ کے ڈرامائی انداز پر انگلیاں اٹھانے والے کیا ہماری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر دکھا سکتے ہیں جس نے ناٹک بازی ، مکرو فریب اور ڈھونگ رچا کر اقتدار کی کرسی نہ حاصل کی ہو۔ جمہوری لیڈر وں کی نوسر بازیاں تو رہیں ایک طرف مقدس وردی پہنے ہمارے مسیحاؤ ں کیقلابازیوں کا مقابلہ کیا دنیا کا بڑے سے بڑا کوئی شعبدہ باز کر سکتا ہے ؟ ضیا الحق گیارہ سال تک اسلامی نظام کے نام پر قوم سے جو بھونڈا مذ اق کرتا رہا اور اس کا پیش رو مشرف نو سال تک رشن خیالی کے جس جھولے پر قوم کو جھلا کر الو بناتا رہا کیا اس کی نظیر دنیا کے کسی مہذب ملک کی تاریخ میں ڈھونڈی جا سکتی ہے؟

جون 21, 2014

شمالی وزیرستان کے حرماں نصیب

شمالی وزیرستان سے بنوں جانے والا راستہ آج کل ان خانما ں بربادوں کی شکستہ دھول سے اٹا ہوا ہے جو ’’ ضربِ عضب ‘‘کی ضرب کا پہلا شکار ہوئے ہیں۔ناکردہ گناہوں کی سزا کا ٹنے والے ان بدنصیبوں کو حکومت نے اپنے گھر بار چھوڑ کر ان جانی منزلوں کی طرف جانے کے لیے صرف پانچ دن دیے۔ شمالی وزیرستان کے سات لاکھ مکینوں میں سے کچھ سر پھرے قبائل نے تو اپنی دھرتی کو چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا ہے کہ شاید در بدری کاٹنے کی ان میں سکت نہیں،باقی مانندہ اب شب و روز محفوظ علاقوں کی طرف رواں دواں ہیں ۔جون کی چلچلاتی دھوپ میں کچھایسے بھی ہیں جو پیادہ پا ہی ان راستوں کی خاک چھان رہے ہیں کیونکہ ان کی عسرت گاڑیوں پر ہجرت کرنے کی عیاشی افورڈ نہیں کر سکتی ۔ کاش پاکستان سڑ سٹھ سالوں میں ان کو اتنا تو عطا کر دیتا کہ جب ان کی بستیوں کو بموں سے جلایا جانے لگے تو ان کی جیبوں میں اتنے پیسے تو ہوں کہ گاڑیوں پر ہجرت کر سکیں ۔ بے گھری کے کرب سے گزرتے ایک قبائلی نے درست کہا کہ حکومت اگر سنبھال نہیں سکتی تو ہم پر ایک ایٹم بم مار کر سارا قصہ ہی ختم کر دے۔

جون 19, 2014

نون لیگ کا نامعلوم فرد

لاہور میں عوامی تحریک کے سادہ لوح کارکنوں پر ٹوٹنی والی قیامت جہاں ایک طرف پنجاب حکومت کے مثالی نظامِ حکومت کا پول کھول گئی وہیں پنجاب پولیس کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا پردہ بھی فاش کر گئی۔ پچھلے کئی سالوں سے شہباز شریف گڈ گورننس کے نام پر سرکاری افسروں کی سر عام تذلیل کے جس راستے پر چل رہے تھے اس کا لا محالہ انجام یہی ہو نا تھا کہ افسر اپنی دھوتی بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا ہر وہ کام کریں جس سے تختِ لاہور خوش ہو۔ اگرچہ ابھی اس امر کا تعین ہونا باقی ہے کہ عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر پولیس افسروں نے گولی چلانے کا حکم محکمانہ ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود کیا یا اس بھیانک سانحے کا منصوبہ کہیں اور تیار کیاگیا تھا تاہم گلو بٹ جیسے کرداروں کی موجودگی ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ اب تک اہنسا کے اصولوں پر بظاہر کاربند ن لیگ کی حکومت ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی ہے اورطا قت کے اس بے ڈھنگے مظاہرے سے اس نے کینیڈا میں بیٹھے امامِ انقلاب کو کوئی پیغام دینا چاہا ہے۔

جون 17, 2014

آپریشن فیور

پاکستانی قوم دنیا کی سب سے محبِ وطن قوم ہے ۔ یہ انکشاف ایک ایسے تازہ ترین سروے میں کیا گیا ہے جس میں لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ان کے ملک پہ مشکل وقت پڑا تو وہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے یا نہیں۔ اپنے وطن کے لیے جان ہتھیلی اور ہتھیار کندھے پر رکھ کر لڑنے کا عزم کرنے والوں میں پاکستانی سر فہرست رہے جن میں سے ۸۸ فیصد نے ہاں میں جواب دیا ۔ باقی مانندہ بارہ فیصد نے اس اہم ملکی و ملی فریضے سے کیوں مونہہ موڑایہ ایک پریشان کن سوا ل ہے جس کی جزئیات میں نہ جانا ہی مناسب ہے ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ان کا تعلق غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں یا طالبان سے ہو گا۔ سروے کے نتائج نہایت چشم کشا ہیں اور ان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔ اس اہم مرحلے پر سروے کے یہ نتائیج یقیناًایک ’غیبی امداد‘ ہیں اور ان سے معرکہ حق و باطل میں ڈوبے ہمارے فوجی جوانوں کو بھی یہ حوصلہ ملے گا کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو پوری قوم یا قوم کا ایک بڑا حصہ ہتھیار اٹھائے ان کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ مشرقی پاکستان آپریشن سے پہلے بھی اگر ایسا ہی ایک سروے کر لیا جاتا تو ہمارے فوجی جوانوں کو حوصلہ ہوتا اور وہ ہتھیار نہ ڈالتے۔ بحرحال دیر آید درست آید۔