نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

مارچ 06, 2010

بسنتی بہار

باتوں سے پھول جھڑنے کا ذکر ہم نے فرازصاحب مرحوم کی شاعری میں تو سنا تھا لیکن آپ اسے ہماری کور نگاہی کہئے یا بدنصیبی کہ ہمیں آج سے چند روز قبل تک کسی غنچہ دہن کے لبِ لعلیں سے لفظوں کے جھڑتے پھول دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ ہماری اس حسرتِ دیرینہ کو اگلے روز ہمارے نہایت ہر دل عزیز گورنر صاحب نے اپنے بسنتی اعلان سے پورا کرکے ہمیں باغ باغ کر دیا۔
 جب گورنر صاحب اپنے اس عظمِ صمیم کا برملا اظہار فرما رہے تھے کہ وہ عدالت کے بسنت کش فیصلوں اور شہباز حکومت کی معصوم پتنگ بازوں کے خلاف جاری لٹھ برداری کے باوجود نہ صرف اس سال بسنت منائیں گے بلکہ اس کارِخیر کو تاحیات جاری رکھیں گے تو ہمیں واقعتا یوں لگ رہا تھا جیسے گورنر صاحب کا دہن مبارک کوئی موتیے کا لدا پھندا بوٹا ہو جس سے دھڑا دھڑ پھول کلیاں جھڑ رہی ہوں۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیشہ کی طرح گورنر صاحب کے اس اظہارِ شوق کو بھی مخالفین توڑ موڑ کر عوام کے سامنے پیش کریں گے ۔ بسنت کے خلاف عدالتی فیصلوں کے حوالوں سے لے کر ہر سال اس کھیل کے ہاتھوں درجنوں لوگوں کی ہلاکتوں کو ذکر ہو گا ۔ ملک میں بد امنی، بدحالی اور فاقہ کشیوں کا رونا رویا جائے گا ۔ن لیگ کے شعلہ بیان مقرر جو ہمارے گورنر صاحب کی قابلِ ستائش صلاحیتوں سے جانے کیوں ہمہ وقت خائف رہتے ہیں اپنی تقریروں اور بیانوں میں دگرگوں ملکی حالات کو گورنر صاحب کی پتنگ بازی کی معصوم خواہش سے غلط ملط کر کے ان کی بے حسی کا ماتم کریں گے اور انہیں اس نیرو سے تشبیہ دی جائے گی جو روم کے جلنے پر بھی ہر شے سے بے نیاز بانسری بجا رہا تھا۔لیکن ہمیں لاکھ غور کرنے پر بھی یہ منطق سمجھ نہیں آتی کہ بھلا لوگوں کے افلاس کا یا ان کے بھوک کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے کا پتنگ بازی سے کیا تعلق؟ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے گورنر صاحب جیسے اہلِ ذوق لوگوں کے شوقِ بسنت نے پچھلے پانچ سالوں میں صرف لاہورشہر میں 61 بچوں سمیت 171 افراد کوموت کی نیند سلا یالیکن اس سے بحر حال، ہمارے خیال میں،کسی بھی طرح بسنت بازی کا برا کھیل ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ہماری ناقص رائے میں اس قسم کے حادثات کو چند حفاطتی اقدامات سے بہ آسانی روکا جاسکتا ہے ۔ مثلابسنت کے دنوں میں غیر بسنتی آبادی پر کرفیو نافذ کر کے یا پھر انہیں شہر بدرکر کے بسنت بازی کے سبب ہونے والی غیر ضروری اموات سے بچا جا سکتا ہے ۔ ہمارے گورنر صاحب کے پاس اگر مکمل اختیارات کی ڈور ہوتی اور ن لیگ والے ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکاتے تو وہ یقیناًایسے ہی انقلابی اقدامات سے بسنت پر اٹھنے والے تمام اعتراضات رفع کروا دیتے ۔
گورنر صاحب نے اپنے اسی بسنتی بیان میں لاہور میں ہونے والے حالیہ فیشن شو کی بھی مدح فرمائی ا ور اسے ثقافتی ہم آہنگی کے فروغ کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا ۔ ہم اپنے باذوق گورنر صاحب کی اس بات سے غیر مشروط اتفاق کرتے ہوئے صرف اتنا اضافہ کریں گے کہ پاکستان کے رجعت پسند اور تنگ ذہن معاشرے میں فیشن شو کا انعقاد بادِ صبا کے اس جھونکے کی طرح ہے جو اپنے ساتھ روایت پرستی اور قدامت پسندی کی ساری کلفتوں کو بہا لے جائے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یورپ اور امریکا کی ہوشربا ترقی کا راز بھی در اصل ان کے فیشن شو زہی میں مضمر ہے ۔ جب تک ہم اپنی بہو بیٹیوں کو اتنا روشن خیال نہ کریں گے کہ وہ بھی کسی کیٹ واک پر بغیر لجائے بلی کی چال چل سکیں ہماری ترقی کرنے کے تشنہ خواب کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکتے۔ ا پنے لیڈرانِ کرام کی طرح روشن خیالی کو سینے سے لگا کر او ر غیرت جیسی فرسودہ روایات کوقصہِ پارینہ بنا کر ہی ہم ترقی کی عالمی میراتھن میں شریک ہوسکتے ہیں۔ گورنر صاحب کی باذوق شخصیت کو دیکھتے ہوئے ہمیں کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ ان جیسا صاحبِ شوق اور خوش رو کیسے گورنری جیسے کرخت عہدے پر براجمان ہے انہیں تو کسی کو ٹھے پرپتنگ باز سجنا ں بن کر بو کاٹا کے نعرے لگاتے ہوئے یا کسی کیٹ واک میں دلفریبیِ اندازِ نقشِ پا کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آنا چاہیے تھا۔ بحرحال یہ قدرت کے فیصلے ہیں کہ وہ کبھی گدھے کو گھوڑے کی تھا ن پر اور کبھی گھوڑے کو گھدے کی تھان پر باندھ دیتی ہے ۔ ہم اس پر اعتراض نہیں کر سکتے ۔ قدرت کی ستم ظریفیوں کے سامنے ہمیں سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.