نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

مارچ 28, 2010

قومی یک جہتی

بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ہندو بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے اسکی شاطر نظریں وہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں جس کا ہم عموماََ ادراک نہیں کر پاتے ۔تشکیلِ پاکستان کے وقت نہرو ریڈکلف گٹھ جوڑ اسی ذہنیت کو آشکار کرتا ہے ۔ ایک سازش کے تحت جونا گڑھ کا مسلم اکثریتی علاقہ بھارت کو دے دیا گیاتا کہ وہ اس کے رستے کشمیر جنت نظیر میں اپنی ناپاک فوجیں داخل کر سکے۔وہ جانتا تھا کہ کشمیر نہ صرف سیاحت کے اعتبار سے سونے کی چڑیا ثابت ہوگابلکہ یہ پاکستان میں بہنے والے تمام بڑے دریاوں کا منبع بھی ہے اور اس پر قابض ہو کروہ کسی بھی وقت پاکستان کو بنجر و بیابان کرسکتا ہے۔

مارچ 23, 2010

ہاے لوڈ شیڈنگ

ہمار ے پانی و بجلی کے وفاقی وزیر صاحب جو پچھلے ڈیڑھ سال تک دسمبر 2009 میں قوم کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلانے کا مژدہ سنا کر اس کے مردہ دہانوں میں جان ڈالا کرتے تھے آج کل امتدادِ زمانہ کے سبب کچھ حقیقت پسند ہو گئے ہیں۔ چناچہ اب وہ کوئی متعین تاریخ دینے سے گریز کرتے ہیں اور قوم کو مزید دو تین سال تک صبرِ ایوبی کا درس دے کر اپنے فرضِ منصبی سے عہدہ بر آہونے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

مارچ 13, 2010

ذ کر چالیس چوروں کا

رائے ونڈ والے میاں صاحب نے اگلے روز ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے تئیں بڑی جگت ماری کہ مشرف کو علی بابا اور ان کے جملہ حواریوں کو چالیس چور قراردیا۔ ہمارے خیال میں مشرف اور اس کے قبیلے کی سات آٹھ سالہ کار کردگی اور ملک و قوم کے لیے وسیع تر خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا کہنا صریح زیادتی ہے۔ مخالفین مشرف اور اس کے ساتھیوں کو بھانڈ کہہ سکتے ہیں مسخرے کا لقب دے سکتے ہیں دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ڈاکو اور لٹیرے بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن ان جیسی نادر روزگار ہستیوں کو چورٹھہرانا حد درجے کی بد ذوقی ہے۔
 چوری ایک نہایت بزدلانہ اور غیر معقول فعل ہے جس کا پرویزی کابینہ پر الزام دراصل ان کے کارناموں کوگٹھاکر پیش کرنے کی ایک سازش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

مارچ 06, 2010

بسنتی بہار

باتوں سے پھول جھڑنے کا ذکر ہم نے فرازصاحب مرحوم کی شاعری میں تو سنا تھا لیکن آپ اسے ہماری کور نگاہی کہئے یا بدنصیبی کہ ہمیں آج سے چند روز قبل تک کسی غنچہ دہن کے لبِ لعلیں سے لفظوں کے جھڑتے پھول دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ ہماری اس حسرتِ دیرینہ کو اگلے روز ہمارے نہایت ہر دل عزیز گورنر صاحب نے اپنے بسنتی اعلان سے پورا کرکے ہمیں باغ باغ کر دیا۔
 جب گورنر صاحب اپنے اس عظمِ صمیم کا برملا اظہار فرما رہے تھے کہ وہ عدالت کے بسنت کش فیصلوں اور شہباز حکومت کی معصوم پتنگ بازوں کے خلاف جاری لٹھ برداری کے باوجود نہ صرف اس سال بسنت منائیں گے بلکہ اس کارِخیر کو تاحیات جاری رکھیں گے تو ہمیں واقعتا یوں لگ رہا تھا جیسے گورنر صاحب کا دہن مبارک کوئی موتیے کا لدا پھندا بوٹا ہو جس سے دھڑا دھڑ پھول کلیاں جھڑ رہی ہوں۔