نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

جولائی 21, 2013

تماشا آن ہے

ایم کیو ایم کے منفرد طرزِ سیاست سے نفرت کرنے والوں کے کانوں میں برطانیہ میں ہونے والی عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش رس گھول رہی ہے۔سکاٹ لینڈ یارڈ کا ہر نیا اقدام ان کے لیے ایک جانفزا مثردہ ہے اور وہ اس ساعتِ سعید کا انتظار کر رہے ہیں جب برطانوی پولیس قائدِ تحریک کو سرکاری مہمان خانے کی زینت بنائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جلترنگ بجنے کا یہ سلسلہ کب ختم ہوتا ہے

ایم کیو ایم کے مخالفین کے نزدیک کہانی نہایت سادہ ہے۔ الطاف حسین جو ہمیشہ سے سیاست میں تشدد کو عبادت کا درجہ دیتے رہے ہیں برطانیہ میں وہ غلطی کر بیٹھے جو پاکستان میں بڑے تواتر سے ان کی جماعت پچھلی تین دہائیوں سے کرتی آئی ہے ۔ عمران فاروق جو اپنی نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنے چلے تھے اپنے سابقہ قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کا شکار ہوئے اور انہیں اسی انداز میں راستے سے ہٹنا پڑا جس طرح وہ مخالفوں کو ہٹاتے آئے تھے۔ الطاف حسین جب رو دھو کر اس’’ انہونی‘‘ کے ہونے کا ماتم کر چکے تو اچانک تین سال بعد اب بر طانیہ میں تفتیش کاروں کو عمران فاروق کے اندھے قتل کے سرے الطاف حسین سے جڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔بڑے بڑے جاگیرداروں کو للکارنے والابے چارہ الطاف حسین سکاٹ لینڈ یارڈ کے معمولی سپاہیوں کے نرغے میں ہے


کیا کہانی واقع اتنی سادہ ہے ؟ کیا آزاد اور غلام قوموں کے نظاموں میں اتنی ہی وسیع خلیج ہے کہ غلام ملک میں کئی دہائیوں تک بلاناغہ درجنوں قتل کوئی معنی نہیں رکھتے اور آزاد ملک میں بہنے والا ایک خون کسی قومی تحریک کے بانی کا ِ پتہ پانی کر سکتا ہے؟ کیا برطانیہ کی سکاٹ لینڈ یارڈ اور ایم ۔آئی ۔سکس ہماری خفیہ ایجنسیوں کی طرح دو دہائیوں تک لسی پی کے سوتی رہیں اور اپنی گودمیں موجود الطاف حسین کی عجیب و غریب سیاسی اچھل کود سے بے خبر رہیں اور اب اتنی مدت بعد ہڑ بڑا کر اٹھی ہیں تو ان پر انکشافات کی بارش برس پڑی ہے ؟ کیا الطاف حسین کے برطانیہ کے خلاف 
واویلے حقیقی ہیں یا یہ بھی ان کی ماضی کی درخشاں فنکارانہ روایات کا تسلسل ہے؟ ا ن سوالات کا جواب ایم کیو ایم کی تاریخ سے جڑا ہوا ہے۔ 

لسانی بنیادوں پر بننے والی ایم کیو ایم کا دامن اپنے وجود کے روزِ اول سے ہی مخالفین پر تشدد اور انہیں قتل کرنے، بھتہ خوری اور بلیک میلنگ کے
 الزامات سے داغدار ہے ۔ طلبا تنظیم سے مہاجر قومی مومنٹ اور مہاجر سے متحدہ تک کا سفر ایم کیو ایم والوں کے لیے کامیابی اور ترقی کی داستان ہو سکتا ہے لیکن کراچی کی سر زمین کے لیے یہ ایک ایسا بھیانک خواب ہے جو ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ پاکستان کے معاشی مرکز کو یرغمال بنا کر ایم کیو ایم نے ہر حکومت کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے بلیک میل کیا۔ پرویز مشرف کے اقتدا ر پر قبضے کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کو کھل کھیلنے کا خوب موقع ملا ۔ مشرف اپنے ناجائز اقتدار کے لیے ایسے سیاسی بھانڈوں کا محتاج تھا جو اس کے ہر اقدام کی تائید کر سکیں چناچہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کی صورت میں اسے ایسے اتحادی مل گئے جو ہر طرح کے اصولوں سے پاک اور مفاداتی سیاست پر اس حد تک یقین رکھتے تھے کہ اگر اٹل بہاری باجپائی بھی پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کر لیتا تو اس کے آگے بھی رام رام کرنے میں ذرا تامل نہ کرتے۔ ایم کیو ایم نے بالخصوص مفاد پرستی اور بلیک میلنگ کے فن میں باقی تما م سیاسی جماعتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔۲۰۰۸ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی لولی لنگڑی حکومت وجود میں آئی اور خدا خدا کر کے مشرف سے پاکستانی قوم کو نجات ملی لیکن بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم اور اے ۔این ۔پی کی صورت میں ایسے اتحادیوں کا سہارا لینا پڑے جن کے ہوتے ہوئے کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ پیپلز پارٹی کا پانچ سال دورِ اقتدار جہاں بے عملی ، بد عنوانی اور نااہلیت کا ایک نمونہ تھا وہیں زرداری کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش نے پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم کے ہا تھوں بد ترین بلیک میلنگ کا شکار کیے رکھا۔ اتحاد سے علیحدہ ہو جانے کی دھمکی وہ کارگر ہتھیار تھا جس کے ذریعے ایم کیو ایم نے حکومت سے اپنے تمامطالبات منوائے اور کراچی پر بلا شرکتِ غیرے راج کیا۔ 
حالیہ انتخابات کے بعد اب صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے ۔ نواز لیگ کی واضح اکثریت کے سب اب ایم کیو ایم کے پاس بلیک میلنگ کا ایک بڑا اہم ہتھیار فی الوقت ناکارہ ہو چکا ہے ۔ایم کیو ایم اس صورتِ حال سے اگر پریشان نہیں تو افسردہ ضرور ہے ۔ ایم کیو ایم کا اصل مسئلہ یہ نہیں کہ الطاف حسین عمران فاروق کے قتل کی تفتیش میں پھنسگئے ہیں یا ان پر منی لانڈرنگ کا کیس بننے جا رہاہے بلکہ ایم کیو ایم کی اصل پریشانی اقتدار سے پانچ سال کی دوری ہے ۔ اس پر افتاد یہ کہ کراچی میں تحریک انصاف کی روز افزوں مقبولیت بھی ایم کیو ایم کے پایسی سازوں کی نیندیں حرام کر رہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے پاس ایک ہی شہر ہے اگر یہ بھی چھن گیا تو کا لیا کیا کرے گا ؟ یہ وہ سوال ہے جو ایم کیو ایم کے اعصاب کو بری طرح شکستہ کر رہاہے۔ 

جو لوگ سکاٹ لینڈ یارڈ کی الطاف حسین سے قتل اور منی لانڈرنگ کی تفتیش کو ایم کیو ایم کے لیے سب سے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں۔ یہ تسلیم کرنا آسان نہیں کہ برطانیہ کے چاک و چوبند ادارے تین دہائیوں تک الطاف حسین کے کارناموں سے نا واقف رہے ۔ ہاں یہ بات قرین قیاس ہے کہ برطانیہ نے اپنے مقاصد کے لیے قائدِ تحریک کی صلاحیتوں سے جس حد تک فائدہ اٹھا نا تھا اٹھا چکا اب چونکہ اسے کسی نئے گھوڑے کی تلاش ہے اس لیے وہ پرانے ٹشو پیپر کو تلف کرنے جا رہاہے یا پھر یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس سارے ڈرامے کا مقصد الطاف حسین کو تمام الزامات سے پوتر کر کے پاکستانی حکومت سے اس کے خلاف بنے ہوئے تما م کیسز پر خطِ تنسیخ پھیروانا ہو۔ وجہ جو بھی رہی ہو حالیہ ہلچل کا تعلق ایم کیو ایم کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ اس سارے تماشے کے پسِ پردہ کون ہے یہ وقت بتائے گا لیکن اتنا بحر حال واضح ہے کہ ایم کیو ایم ایسے تمام کھیلوں کا ہنسی خوشی حصہ بنتی ہے اور الطاف حسین ناٹک بازی کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی سیاست سمجھنے کے لیے دھونس اور دھوکے بازی کی ابجد سے شناسائی ضروری ہے چونکہ ہم سب اس کوچے سے نابلد ہیں اس لیے اس اونٹ کے کسی کروٹ بیٹھنے کا انتظار کرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ سو دیکھتے ہیں جب تک تماشا آن ہے!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.