نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان
شام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
شام لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

اگست 23, 2014

امریکی صحافی کا قتل اور عافیہ صدیقی

مبینہ امریکی صحافی جمیز فولی کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت نے عالمی ضمیر کو ایک بار پھر ہڑ بڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ضمیر پچھلے کچھ ماہ سے افیون زدگی کی حالت میں اونگھ رہا تھااور غزہ میں کئی ہفتوں سے جاری قتل وغارت ،جنگی طیاروں اور میزائلوں کی چنگھاڑتی آوازوں اورفلسطینی بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار میں بھی مدہوش پڑا تھا لیکن شکرہے کہ جیمز فولی کے گلے پر چلنے والے خنجر کی آواز سے اس کی نیند ٹوٹ گئی ۔ اب امید کی جاسکتی ہے دنیا بھر کے دکھیاروں کے لیے آواز اٹھے گی اور جیمز فولی کی موت عالمی ضمیر کی حیات ثابت ہو گی۔
جیمزفولی صحافیوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو فاتح امریکی افواج کے پہلو بہ پہلو مفتوح علاقوں پر نازل ہوتے ہیں۔ یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، ہنستے بولتے اور گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی فتوحات کو فلم بند کرکے امریکی قوم کے ایڈونچرانہ جذبے کی تسکین کرتے ہیں۔ مفتوح قوموں کی جہالت ، کسمپرسی، اور بد تہذیبی کی عکس بندی کر کے امریکی حملوں کو تہذیبی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی ان کے جاب پروفائل کاحصہ ہوتا ہے۔چونکہ امریکی عوام کا باقی دنیاکے بارے میں جنرل نالج شرمناک حد تک کم ہے اس لییامریکی میڈیا میں موجود جیمز فولی جیسے صحافی ہی باقی دنیا کے لیے ان کی کھڑکی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صحافی امریکا کے کسی ملک پر حملے سے پہلے ایک ایسا ہیجان برپا کر دیتے ہیں کہ سارے امریکی ایک کورس میں جنگی ترانے گانے شروع کر دیتے ہیں اور حملے کے بعد یہ قبضے کی طوالت کو حلال ثابت کرنیکے لیے وقتا فوقتا کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکا بھیجتے رہتے ہیں ۔بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگی صحافیوں کی یہ کھیپ دراصل امریکا خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ہو تی ہے جنہیں صحافیوں کے روپ میں فوج کے ساتھ یا پیچھے پیچھے روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صحافتی آزادیوں کے سبب فوج کے لیے دشمن کی سر زمین میں جاسوسی کرنے کے فریضے سر انجام دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے فوجیوں سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں لیکن سخت جانی کے سبب پیچھے نہیں ہٹتے ۔

اگست 11, 2013

بے انت مرثیہ


اقبال کے خیال میں دین سیاست سے جدا ہوتوصرف چنگیزیت رہ جاتی ہے لیکن ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا سیاست میں استعمال جس بھیانک چنگیزیت کو جنم دے سکتا ہے اس کا تصور شاید اقبال نہ کر سکے۔ شام کی سر زمین سیاست میں مذہبی جنون کے استعمال کی نہایت ہی ہولناک مثال بن کر ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ بشار الاسد کی آمریت کے خلاف جب جنوری 2011 میں اجتجاج شروع ہو ا تو یہ عرب دنیا میں اٹھنے والی اپنے حکمرانوں سے نفرت اور بیزاری کی اسی لہر کا تسلسل تھا جو اس سے پہلے تیونس ، یمن، الجیریا اور مراکش کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور آہستہ آہستہ مصر اور لیبیا کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ لیکن دوسرے ممالک کے برعکس بشار الاسد نے اس اجتجاج سے نپٹنے اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے جو طریقہ اختیارکیا اس نے شام کو ایک خون ریز خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔دنیا بھر کے آمروں کو ملک کی سلامتی ،قانون کی سر بلندی اور لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے بڑھ کر اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے یہ جب ڈوبنے لگتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنے ملک کے امن اور سلامتی کو بھی ڈبونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آنے والوں کے لیے حکومت کرنا ناممکن ہو جائے ۔بشارالاسد نے بھی اسی راستے کا انتخاب کیا۔