نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان
ن لیگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
ن لیگ لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

ستمبر 23, 2014

لے کے رہیں گے، بٹ کے رہے گا

پیپلز پارٹی نے سابقہ دورِ حکومت میں اپنی روز افزوں کرپشن اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کاجوشوشہ چھوڑا تھا وہ اب بر گ و بار لاناشروع ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں لسانی تعصب کو ہوا دے کرپیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکارکھیلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلم لیگ نون کی سیاسی قوت توڑنے کے ساتھ ساتھ اس شوشے کا بڑا مقصد محرومی کے شکار عوام کے دکھوں کا استحصال کر کے اپنی شرمناک پرفارمنس سے ان کی توجہ ہٹانی تھی۔مئی  2013 کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کے عوام نے  پیپلز پارٹی کو یکسر مسترد کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ نئے صوبے کے سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بنانے کا زمانہ اب گزر چکا ہے ۔ سرائیکی صوبے کے نعرے پر خود جنوبی پنجاب والوں سے زیادہ ایم کیو ایم کو جو خوشی ہوئی وہ دیدنی
تھی۔ ایم کیو ایم نے نہ صرف اس مطالبے کی دل و جان سے حمایت کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر صوبہ ہزارہ کی پھلجڑی بھی چھوڑ دی۔ اہلِ نظر کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے خیال پر یوں ریجھ ریجھ نہ جاتی۔

اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائےجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔حیرت ہے کہ جب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔

ستمبر 18, 2014

کیا ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں؟

ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں یا انتشار کی دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دھرنے کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے بتوں کو سامنے رکھ کراپنے اپنے انداز سے دیتے ہیں۔ دھرنوں کے ذریعے پاکستان کو جنت بنانے والے انقلابی گانوں کی دھن میں خود کو انقلاب کے دھانے پر بیٹھے ہوئے محسوس کررہے ہیں جبکہ دھرنے کے مخالفین کواس میں شر اور شرارت کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا۔ گرم توے پر بیٹھی حکومت کے مونہہ سے انتشار کے خدشات ایک معمول کی بات بن چکی ہے کہ وہ اپنا تخت بچانے کے لیے کسی بھی جھوٹی سچی منطق کا سہارا لے سکتی ہے لیکن اب عمران خان نے بھی خانہ جنگی کی بات کر کے سب کو چونکا دیاہے۔ یہ واضح نہیں کہ عمران اس ہولناک خدشے کا اظہار کر کے حکومت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں یا ملک کے اصلی حکمرانوں کو ان کے غیر جانبدار رہنے کے اعلان پر کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ خانہ جنگی کی دھمکی کو عمران اگر ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا سوچ رہے ہیں تو وہ اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی حماقت کرنے جا رہے ہیں ۔ اپنی خفت کو سمیٹ کر کچھ دن کے لیے گوشہ نشین ہو جانا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے ۔ 
عمران اور قادری کا انقلاب سٹیٹس کو کومبینہ طور پر پار ہ پارہ کرنے جارہا ہے ۔ لیکن اس ظالم و جابر سٹیٹس کو پر دیوانہ وارحملے کرتے ہوئے بھی یہ دونوں انقلابی اپنی فرزانگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔پاکستان میں سٹیٹس کو کا محل تین ستونوں پر کھڑا ہے ۔ ہمارے انقلابی روایتی سیاسی جماعتوں اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں پر تو نہایت شدومد سے سنگ باری کر رہے ہیں لیکن تیسرے سب سے اہم اور سب سے طاقتور ستون ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتے ہوئے ان کی باچھیں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں ۔ پاکستان میں اگر غربت نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بیروزگاری اور بدامنی کے بھوت دندنا رہے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن زوروں پر ہے تو اس میں سیاسی جماعتیں اتنی ہی قصور وار ہیں جتنی ہماری مقدس فوج جس نے پاکستان کی ۶۸ سالہ تاریخ میں چالیس سال تک یہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومت کی ہے ۔ انقلابیوں کو جمہوری ادوار ہی انقلاب کے گل کھلانے کے لیے موزوں ترین کیوں لگتے ہیں اور آمرانہ ادوار میں یہ کون سی لسی پی کر سوئے رہتے ہیں یہ وہ معمے ہیں جنہیں حل کیا جا نا ضروری ہے۔

ستمبر 05, 2014

کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا۔اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک میں مل رہا ہے ۔

اگست 31, 2014

جب غیرت پنکچر ہو جائے

ستم گر عالمی میڈیا گاہے گاہے پاکستان کے مجروح قومی وقار پر سنگ باری کرتا رہتا ہے ۔ ہم جس شدو مد سے زندہ قوم ہونے کے نعرے بجاتے اور گیت گاتے ہیں دنیا اسی شدو مد سے ہمیں ہماری اصل اوقات یاد دلاتی رہتی ہے۔ غیرت و حمیت کے ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو بے حمیتی کے طعنے دیتے ہیں لیکن حقیقت کی سنگلاخ زمین پر اترتے ہی اپنی پتلی حالت دیکھ کر ہماری حالت غیر ہو جاتی ہے۔ عالمی میڈیا کو ہماری کمزوریوں کا پورا پورا ادراک ہے اس لیے یہ ہمیں زیادہ وقت ہوائی قلعوں میں نہیں گزارنے دیتا۔ ابھی ہم ایک زخم کی دوا کر رہے ہوتے ہیں کہ ایک اور تیر ہماری غیرت کی قبا کو چھلنی کرتا ہوا گزر جاتا ہے اور ہم پرانے زخم کو بھول کر نئے کی دوا دھونڈنے لگتے ہیں ۔ شاید عالمی میڈیا یہ جان چکا ہے کہ اس قوم
کی غیرت کو وقتاً فوقتاً پنکچر کیا جانا ضروری ہے ورنہ یہ شیخی بگھارنے لگتی ہے اور ساری دنیا کی غیرت پر سوال اٹھانے لگتی ہے۔ ہمارا پانی اتارنے کے لیے عالمی میڈیا کے پاس بہت سے ریڈی میڈ فارمولے موجود ہیں۔ان آزمودہ فارمولوں میں سے ایک عافیہ صدیقی کا ذکر بھی ہے ۔ گلا پھاڑتی ، چھاتیاں پھلاتی، مسل دکھاتی پاکستانی قوم کو میوٹ کرنے کا اس سے بہتر شاید ہی کوئی نسخہ ہو ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کومقامی سوداگروں نے ۲۰۰۳  کے موسمِ بہار میں پاک سر زمیں سے اٹھایا اور چنگھاڑتے دہاڑتے امریکی استعمار کے حوالے کر دیا لیکن اس وقت پاکستانی قوم روشن خیالی کی گنگا میں اشنان کر رہی تھی اس لیے اس لین دین سے اس کی قومی غیرت کا کوئی بال بیکا نہ ہوا۔ پانچ سال تک عافیہ افغانستان کے زندانوں میں پرتشدد اسیری کے دن کاٹتی رہی اور پاکستانی حکومت بڑی صفائی اور ڈھٹائی سے اس کے وجود سے انکار کرتی رہی ۔جولائی ۲۰۰۸ ء کو جب ا یوان ریڈلی نے پاکستان تحریکِ انصاف کی پریس کانفرنس میں قیدی نمبر ۶۵۰ کا قصہ بیان کیا تو پاکستانیوں کی قومی غیرت نے اپنی ایک بیٹی کی غیروں کے ہاتھوں اسیری کی آنچ محسوس کرنی شروع کی ۔ عافیہ پر ڈھائے جانے والے اندھے مظالم کی کہانیاں آہستہ آہستہ زنداں خانوں سے نکل کر پاکستانی قوم تک پہنچنا شروع ہوئیں تو قومی غیرت کو ابال آنے لگا ۔ وہ جنہوں نے عافیہ کو دام و درم کے عوض بیچ دیا تھا ان کے خلاف نفرت کے لاوے پکنے لگے۔ نعروں، اجتجاجوں ، قراردادوں ، ریلیوں اور مظاہروں کا دامن تھام کر پاکستانی قوم نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے جدو جہد شروع کر دی لیکن جب اہلِ حکم اپنے ضمیر گروی رکھ چکے ہوں تو قوم لاکھ سر پٹکے اپنی غیرت کا دفاع نہیں کر سکتی۔

اگست 22, 2014

دھاندلی کے بارے میں کچھ تہلکہ خیز انکشافات

پاکستان معجزات کی سر زمین ہے ۔یہاں انہونیاں کثرت سے وقو ع پذیر ہوتی ہیں، ناممکنات پل جھپکنے میں ممکن ہو جاتے ہیں اور محیر العقول عناصر پل پل تقدیریں بدلتے دکھائی دیتے ہیں ۔پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی جڑوں میں بھی کچھ ایسے پراسرار عناصر کا عمل دخل ہے جن سے پردہ اٹھا نا اب ناگزیر ہو گیا ہے ۔ ہوشربا انکشافات پر مشتمل یہ سطریں پڑھتے ہوئے یقیناًآپ کے رونگٹے کھڑے ہوں جائیں گے اور آپ بے یقینی کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے بار بار یہ سوال کریں گے کہ کیا اکیسویں صدی میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ، کیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ایسے ساحر موجود ہیں جو الٹے کو سیدھا اور سیدھے کو الٹا کر
دیں جو مجنوں کو لیلیٰ اور لیلیٰ کو مجنوں بنا دیں، کیا سائنسی ایجادات کی بھرمار کے باوجود انسان ابھی تک پراسرار طاقتوں کے ہاتھوں میں محض ایک کھلونا ہے ؟ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات بے یقینی کے ناگ بن کرآپ کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کریں گے اور آپ کو ان سطروں کو محض ٹھٹھہ یا مذاق سمجھ کر نظر انداز کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پورا مضمون پڑھنے کے بعد آپ بھی میری طرح نہ صرف پر اسرار طاقتوں کے قائل ہو جائیں گے بلکہ ہو سکتا ہے میری ہی طرح آپ بھی ان کے حصول کے لیے سر پٹ دوڑ لگا دیں۔
اس قصے کی ابتدا میری ایک زرد پوش بزرگ سے ملاقات سے ہوئی جن کے چہرے سے جلا ل ٹپک ٹپک ان کی ریش مبارک کو تر کر رہا تھا۔ ان کی سرخی مائل ہلالی آنکھوں میں ایسا رعب تھا کہ مارے ہیبت کے میری گھگی بندھ گئی ۔ میں نے گھگی پر بہ مشکل قابو پاکر ڈرتے ڈرتے سوال کیا : یا حضرت پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا حل کیا ہے ؟ حضرت نے اس کے جواب میں جو حل بتایا وہ عمران خان کے بیان کیے گئے حل سے ملتا جلتا تھا ۔ میں نیحیران ہو کر ان کی طرف دیکھا لیکن سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی ۔ مجھے سراپا حیرت پا کر وہ خندہ لب ہوئے اور فرمایا کہ ان کا پی ٹی آئی سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں کیوں کہ وہ مادی دنیا کے جھمیلوں میں نہیں پڑتے ہاں پی ٹی آئی کے بھنگڑے اور صوفیانہ رقص ان کے روحانی تاروں کو ضرور چھیڑتے ہیں۔ میں نے ہمت مجتمع کی اور پھر سوال کیا : یا شیخ دھاندلی کے الزامات میں کتنی صداقت ہے ؟ اس پر کچھ دیر وہ خلا میں نہایت معجوبانہ انداز سے گھورتے رہے پھر گویا ہوئے اور جلالی انداز میں محض اتنا کہا ’’دھاندلی ہوئی ہے ضرور ہوئی ہے ‘‘۔ میرے استفسار پر کہ دھاندلی کیسے ہوئی ان کے اور میرے درمیان سوال وجواب کا ایک مکالمہ شروع ہواجس کا خلاصہ میں یہاں من و عن درج کر رہا ہوں

اگست 20, 2014

جب دیوتا بونے بنتے ہیں


سیاسی بصیرت اور قائدانہ بالغ نظری اگر کسی چڑیا کا نام تھا تو وہ اب تک تحریکِ انصاف کے گھونسلے سے پرواز کر چکی ہے ۔ سول نافرمانی اوراسمبلیوں سے استعفے کے بعد ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے کا فیصلہ تحریکِ انصاف کی قیادت سے زیادہ اس مارچ میں آئے ہوئے لاہور کے ماجھے گامے اور پشاور کے گل خان کر رہے ہیں۔ جب قیادت اپنے کارکنوں کے ہاتھوں یرغما ل بن جائے اور سڑک چھاپ کارکن فیصلوں پر اثر انداز ہونے لگیں تو پھر سیاست پر فاتح پڑھ لینی چاہیے۔ عمران خان اپنی شعلہ بیانی کے زعم میں نواز شریف اور ان کی پارٹی کے خلاف جنوں بھوتوں کے جو قصے اپنے جنونیوں کو سناتے رہے ہیں اب انہوں نے ثمر دینا شروع کر دیے ہیں۔ اٹھارہ سال کی شبانہ روز تگ و دو سےعمران خان نے اپنا جو بت اپنے ماننے والوں کے ذہنوں میں تراشا تھااب اس کی پوجا شروع ہوگئی ہے اور پجاری ہر قربانی دینے کے لیے بظاہر تیار بیٹھے ہیں۔ آزادی مارچ میں بھڑکیلی تقریروں سے دیوتا عمران خان کا قد شاید کچھ اور بڑھ گیا ہو لیکن سیاست دان عمران خان بہت بونہ لگنے لگا ہے۔

کچھ لوگو ں کا یہ خیال کہ مارچ میں دس لاکھ لوگوں کو لانے میں ناکامی کی خفت کا بدلہ عمران خان پاکستان کی مظلوم و مقہور جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں اس وقت درست دکھائی دینے لگتا ہے جب عمران اور پی ٹی آئی کی قیادت واشگاف الفاظ میں مارشل لا لگنے کے خدشے کا اعتراف کر تی دکھائی دیتی ہے ۔ نواز شریف کی ہٹ دھرمی پر اسے کوسنے دیتے ہوئے تحریکِ انصاف اپنی انا پرستی سے صرف نذر کر جاتی ہے اور ممکنہ مارشل لا کا سارا ثواب نون لیگ کی جھولی میں ڈالتی دکھائی دے رہی ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ عمران مارچ کی بند گلی میں پھنسنے کے بعد اب بے نیل و مرام واپس جانے کی شرمندگی برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ نہ ڈرنے والا نہ جھکنے والا لیڈر بھلا اپنے مطالبے سے الٹے پیروں واپس آنے کی خفت کیسے ہضم کر سکتا ہے ۔ خود کو ہرکولیس اور سپر مین بنا کر پیش کرنے میں یہی مسئلہ ہے کہ پھر لیڈر عام انسان نہیں بن سکتا۔ وہ عام انسان جو خون خرابے سے بچنے کے لیے اپنی انا کی قربانی دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔عمران خان اپنے خیالی جنت کے حصول میں اس وقت ایک ایسے راستے کی طرف چل پڑا ہے جہاں وہ اپنے کارکنوں کے خون سے اقتدار کی سیڑھی کو سینچنا چاہتا ہے۔ خود عمران خان اور ان کی جماعت خیبر پختونخواہ کے تجربے سے یہ اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ پاکستان کے گنجلک مسائل ایک سال میں اللہ دین کا جن بھی حل نہیں کر سکتااس لیے نون لیگ کے خلاف صرف ایک سال بعد یورش کا تعلق انتخابی دھاندلی یاگڈ گورننس سے کسی طرح بھی نہیں ہے اس جہاد کے تانے بانے کہیں اور جا کے ملتے ہیں۔

اگست 19, 2014

کیا مارچر مارشل لا کے منتظر ہیں

اسلام آباد میں تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کی طرف سے سجائی گئی خوابوں کی جنت کو دو دن بیت چکے ہیں ۔جنتیوں کے جنون اور عقیدت کے پیمانے ابھی لبریز ہیں اورحکومت کو ابھی کچھ اور دن شاید انقلابی لیڈروں کی بے معنی للکاریں برداشت کرنی پڑیں۔ دنیا بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے پیروکاراپنے اپنے لیڈروں کو وہ مسیحا سمجھتے ہیں جو ان کے سارے دکھوں کا مداوا کر سکتا ہے ۔ دنیا بھر کی جماعتوں کے سیاسی ورکر اپنے لیڈر وں کے لیے جان نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ وہ ان کے اشاروں پر ریلیاں نکالتے، مارچ کرتے اور دھرنے دیتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کے لیے یہ ہر طوفان سے ٹکراتے ہیں، مصائب و مسائل کی آندھیوں کامقابلہ کرتے ہیں اورانہونی کو ہونی میں تبدیل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ سیاسی ورکروں کا جنون وہ ایندھن ہے جس سے سیاست کی گاڑی چلتی ہے ۔ جہاں یہ ایندھن ٹھنڈا پڑتا ہے سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر عرش سے فرش پر آ گرتے ہیں۔ فرش نشیں ہونا سیاسی لیڈروں کو چونکہ اتنا پسند نہیں ہوتا اس لیے یہ اپنے ورکروں کے جنون کو جھوٹے سچے نعروں سے ہوا دیتے رہتے ہیں ۔
پاکستان کے سیاسی ورکر دنیا بھر کے سیاسی ورکروں کی جملہ خصوصیات کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی منفرد خاصیتیں بھی رکھتے ہیں جو دنیا کے کسی اور گوشے میں نہیں پائی جاتیں ۔ہمارے سیاسی ورکر اپنے لیڈرو ں میں پیغمبرانہ خصوصیات پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا لیڈر ہر خطاؤں سے مبرا ہے ۔ جھوٹ ،منافقت ، موقع پرستی اور ابن الوقتی سے کوسوں دور اور ذاتی منفعتوں کی آلائشوں سے یکسر پاک ہے۔ یہ سمجھتے ہیں ان کا لیڈر عام انسانوں سے بلند اللہ کا وہ ولی ہے جس سے غلطی سر زد ہونے کا ایمان رکھنا سیاسی کفر ہے ۔ یہ اپنے لیڈر کے مونہہ سے نکلنے والے ہر لفظ کو وحی سمجھتے ہیں اور اس سے اختلاف رکھنے والے سے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ ایسے الوہی لیڈروں اور ان کے فدائی حشیشین سے بھری ہوئی ہے ا وراگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان کی ’’ ہوش ربا ترقی‘‘ کا راز بھی یہ لیڈر اور ان کے سیاسی ورکر ہی ہیں۔

اگست 13, 2014

مارچوں کا موسم اور مشرف کا بھوت

تیسری دنیا میں بسنے والی انسان نما مخلوق کے بہت سے مشترکہ دکھوں میں سے ایک دکھ یہ بھی ہے کہ یہاں آمر اقتدار سے دھتکارے جانے کے باوجود طاقت ور رہتے ہیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کے باوجودسوکھے پتوں کی طرح لرزتے رہتے ہیں۔ مشرف کو اقتدار کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلے چھ سال ہونے کو آئے ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی ساری کوششوں کا محور آج بھی مشرف کو بچانا یا اسے لٹکانا ہے۔ نواز شریف بھاری اکثریت لے کر حکومت میں آئے لیکن صرف ایک سال بعد ہی ان کی حکومت پر کپکپی طاری ہے ۔ انقلابوں اور آزادی مارچوں میں گھری ہوئی پاکستان کی ناتواں جمہوریت ایک دفعہ پھر کسی متوقع گینگ ریپ کا شکار ہونے کے خیال سے لرزہ بر اندام ہے اور تیسری دنیا کی انسان نما مخلوق زندہ باد ،مردہ باد ،آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاوے کے نعرے لگانے میں حسب معمول مست ہے۔
اس امر کو سمجھنے کے لیے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ طاہر القادری صاحب کے انقلابی اور عمران خان کے آزادی مارچ نے پاکستان میں جس سیاسی عدم استحکام کو جنم دیا ہے اس کا فائدہ ان انقلابیوں کو ہو نہ ہو سابقہ آمر پرویز مشرف کوضرور ہوگا۔ بہت سے ذہنوں میں اس سوال نے جنم لینا شروع کر دیا ہے کہ کہیں آزادی مارچ مشرف کو آزادی کا پروانہ تھموانے کے لیے تو نہیں رچایا جا رہا؟ کہیں انقلاب کی ساری تان اس انتشار پر تو نہیں ٹوٹے گی جس کا فائدہ اٹھا کر مشرف سارے گناہوں سے دھل دھلا کر پردیس سدھار جائے گا؟ کہیں وہ جن کے ہاتھ میں اصل اقتدار کی لاٹھی ہے اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے انقلابیوں اور نئے پاکستان والوں کو اپنی کئی دہائیوں سے آزمودہ ٹکٹکی پر تو نہیں نچا رہے ؟ سوالوں کا اژدحام ہے اور عام پاکستانی حیران ہیں کہ کس پر ایمان لائے اور کس سے برا ء ت کا اظہار کرے ؟

جولائی 10, 2014

جمہوریت کی کھیر

ایوبی آمریت کی کوکھ میں آنکھ کھولنے والی پیپلز پارٹی نے ۵ جولائی کو ضیائی آمریت کے خلاف یومِ سیاہ منایا ۔ ضیائی آمریت کی گود میں پلنے والی مسلم لیگ نون ۱۲ اکتوبر کو پرویزی آمریت کے خلاف یوم اجتجاج منائے گی ۔ دونوں جماعتیں جمہوریت پر کامل ایمان رکھتی ہیں، دونوں آمریت سے کامل نفرت کرتی ہیں لیکن دونوں کی نفرتوں کے محور مختلف ہیں ۔ دونوں کے اپنے اپنے بھگوان ہیں جن کی یہ اعلانیہ یا خفیہ پوجا کرتی ہیں اور دونوں کے اپنے اپنے شیطان ہیں جنہیں یہ اپنے اپنے دنوں میں پتھر مارتی ہیں ۔پیپلز پارٹی کو ضیا الحق کی آمریت سے اس لیے نفرت ہے کہ اس نے اس سے اقتدار چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا۔پرویز مشرف کی آمریت سے پیپلز پارٹی کو کچھ خاص گلہ نہیں اس لیے ۱۲ اکتوبر کو یہ یومِ سیاہ نہیں منائے گی ۔ نون لیگ کو پرویز مشرف کی آمریت سے نفرت اس لییہے کہ اس نے نون لیگ کے بھاری مینڈیٹ کو اپنے بوٹوں تلے روند ا اور اس جماعت کے لیڈروں کو نو سال تک رگید تا رہا۔ ضیا الحق کی آمریت سے نون لیگ کو کوئی شکوہ نہیں اس لیے یہ ۵ جولائی کو یومِ سیاہ نہیں مناتی۔پیپلز پارٹی کا یومِ سیاہ نون لیگ کے لیے بالکل بھی سیاہ نہیں جبکہ نون لیگ کا یومِ سیاہ ایم کیو ایم اور ق لیگ کے لیے سنہرا دن ہے۔

جون 29, 2014

انقلابی سیاست اور ہمارے گلو بٹ

روایت پرست پاکستانی عوام نے طاہر القادری کے نعرہِ انقلاب کو جس سنجیدگی سے لیا اس کا اندازہ گلو بٹ کی روز افزوں مقبولیت سے کیا جا سکتا ہے ۔ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر گلو کے جارحانہ انداز پر بنائے گئے سینکڑوں لطائف اگرچہ صرف طفننِ طبع کے لیے شئیر کیے جارہے ہیں لیکن ان سے قادری صاحب کے انقلاب کی شان میں جو پے در پے گستاخیاں سرزد ہو رہی ہیں وہ قابلِ افسوس ہیں۔ انقلاب چاہے کینیڈا سے بزنس کلاس میں ہی سفر کر کے کیوں نہ آئے اس کی تضحیک انقلاب پسند قوم کا شیوہ نہیں ہو نا چاہیے۔ یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں کہ گلو بٹ جس نے گلی محلوں کے بے قابو لفنگوں اور پنجابی فلموں کے بے مغز ہیرو کی طرح ادارہ منہاج القران کے سامنے کھڑی گاڑیوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایاکیوں کر عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ لوگ ماڈل ٹاؤن سانحے میں مرنے والے مظلوموں کو بھول کر اس مضحکہ خیز کردار کے مناقب گننے میں مگن ہیں۔

جون 25, 2014

پاکستانی سیاست کے ’’ڈئیر ڈیولز‘‘ اور حواس باختہ حکومت

جہالت، پسماندگی اور افلاس کے جان لیوا شکنجوں میں جکڑے ہوئے پاکستانی اگر طاہر القادری جیسے کرداروں کو مسیحا سمجھ لیں تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔طاہر القادری کی لیڈر شپ کے ڈرامائی انداز پر انگلیاں اٹھانے والے کیا ہماری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر دکھا سکتے ہیں جس نے ناٹک بازی ، مکرو فریب اور ڈھونگ رچا کر اقتدار کی کرسی نہ حاصل کی ہو۔ جمہوری لیڈر وں کی نوسر بازیاں تو رہیں ایک طرف مقدس وردی پہنے ہمارے مسیحاؤ ں کیقلابازیوں کا مقابلہ کیا دنیا کا بڑے سے بڑا کوئی شعبدہ باز کر سکتا ہے ؟ ضیا الحق گیارہ سال تک اسلامی نظام کے نام پر قوم سے جو بھونڈا مذ اق کرتا رہا اور اس کا پیش رو مشرف نو سال تک رشن خیالی کے جس جھولے پر قوم کو جھلا کر الو بناتا رہا کیا اس کی نظیر دنیا کے کسی مہذب ملک کی تاریخ میں ڈھونڈی جا سکتی ہے؟

جون 21, 2014

شمالی وزیرستان کے حرماں نصیب

شمالی وزیرستان سے بنوں جانے والا راستہ آج کل ان خانما ں بربادوں کی شکستہ دھول سے اٹا ہوا ہے جو ’’ ضربِ عضب ‘‘کی ضرب کا پہلا شکار ہوئے ہیں۔ناکردہ گناہوں کی سزا کا ٹنے والے ان بدنصیبوں کو حکومت نے اپنے گھر بار چھوڑ کر ان جانی منزلوں کی طرف جانے کے لیے صرف پانچ دن دیے۔ شمالی وزیرستان کے سات لاکھ مکینوں میں سے کچھ سر پھرے قبائل نے تو اپنی دھرتی کو چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا ہے کہ شاید در بدری کاٹنے کی ان میں سکت نہیں،باقی مانندہ اب شب و روز محفوظ علاقوں کی طرف رواں دواں ہیں ۔جون کی چلچلاتی دھوپ میں کچھایسے بھی ہیں جو پیادہ پا ہی ان راستوں کی خاک چھان رہے ہیں کیونکہ ان کی عسرت گاڑیوں پر ہجرت کرنے کی عیاشی افورڈ نہیں کر سکتی ۔ کاش پاکستان سڑ سٹھ سالوں میں ان کو اتنا تو عطا کر دیتا کہ جب ان کی بستیوں کو بموں سے جلایا جانے لگے تو ان کی جیبوں میں اتنے پیسے تو ہوں کہ گاڑیوں پر ہجرت کر سکیں ۔ بے گھری کے کرب سے گزرتے ایک قبائلی نے درست کہا کہ حکومت اگر سنبھال نہیں سکتی تو ہم پر ایک ایٹم بم مار کر سارا قصہ ہی ختم کر دے۔

جون 19, 2014

نون لیگ کا نامعلوم فرد

لاہور میں عوامی تحریک کے سادہ لوح کارکنوں پر ٹوٹنی والی قیامت جہاں ایک طرف پنجاب حکومت کے مثالی نظامِ حکومت کا پول کھول گئی وہیں پنجاب پولیس کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا پردہ بھی فاش کر گئی۔ پچھلے کئی سالوں سے شہباز شریف گڈ گورننس کے نام پر سرکاری افسروں کی سر عام تذلیل کے جس راستے پر چل رہے تھے اس کا لا محالہ انجام یہی ہو نا تھا کہ افسر اپنی دھوتی بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا ہر وہ کام کریں جس سے تختِ لاہور خوش ہو۔ اگرچہ ابھی اس امر کا تعین ہونا باقی ہے کہ عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر پولیس افسروں نے گولی چلانے کا حکم محکمانہ ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود کیا یا اس بھیانک سانحے کا منصوبہ کہیں اور تیار کیاگیا تھا تاہم گلو بٹ جیسے کرداروں کی موجودگی ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ اب تک اہنسا کے اصولوں پر بظاہر کاربند ن لیگ کی حکومت ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی ہے اورطا قت کے اس بے ڈھنگے مظاہرے سے اس نے کینیڈا میں بیٹھے امامِ انقلاب کو کوئی پیغام دینا چاہا ہے۔

جون 17, 2014

آپریشن فیور

پاکستانی قوم دنیا کی سب سے محبِ وطن قوم ہے ۔ یہ انکشاف ایک ایسے تازہ ترین سروے میں کیا گیا ہے جس میں لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ان کے ملک پہ مشکل وقت پڑا تو وہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے یا نہیں۔ اپنے وطن کے لیے جان ہتھیلی اور ہتھیار کندھے پر رکھ کر لڑنے کا عزم کرنے والوں میں پاکستانی سر فہرست رہے جن میں سے ۸۸ فیصد نے ہاں میں جواب دیا ۔ باقی مانندہ بارہ فیصد نے اس اہم ملکی و ملی فریضے سے کیوں مونہہ موڑایہ ایک پریشان کن سوا ل ہے جس کی جزئیات میں نہ جانا ہی مناسب ہے ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ ان کا تعلق غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں یا طالبان سے ہو گا۔ سروے کے نتائج نہایت چشم کشا ہیں اور ان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔ اس اہم مرحلے پر سروے کے یہ نتائیج یقیناًایک ’غیبی امداد‘ ہیں اور ان سے معرکہ حق و باطل میں ڈوبے ہمارے فوجی جوانوں کو بھی یہ حوصلہ ملے گا کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو پوری قوم یا قوم کا ایک بڑا حصہ ہتھیار اٹھائے ان کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ مشرقی پاکستان آپریشن سے پہلے بھی اگر ایسا ہی ایک سروے کر لیا جاتا تو ہمارے فوجی جوانوں کو حوصلہ ہوتا اور وہ ہتھیار نہ ڈالتے۔ بحرحال دیر آید درست آید۔

جولائی 21, 2013

تماشا آن ہے

ایم کیو ایم کے منفرد طرزِ سیاست سے نفرت کرنے والوں کے کانوں میں برطانیہ میں ہونے والی عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش رس گھول رہی ہے۔سکاٹ لینڈ یارڈ کا ہر نیا اقدام ان کے لیے ایک جانفزا مثردہ ہے اور وہ اس ساعتِ سعید کا انتظار کر رہے ہیں جب برطانوی پولیس قائدِ تحریک کو سرکاری مہمان خانے کی زینت بنائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جلترنگ بجنے کا یہ سلسلہ کب ختم ہوتا ہے

ایم کیو ایم کے مخالفین کے نزدیک کہانی نہایت سادہ ہے۔ الطاف حسین جو ہمیشہ سے سیاست میں تشدد کو عبادت کا درجہ دیتے رہے ہیں برطانیہ میں وہ غلطی کر بیٹھے جو پاکستان میں بڑے تواتر سے ان کی جماعت پچھلی تین دہائیوں سے کرتی آئی ہے ۔ عمران فاروق جو اپنی نئی سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنے چلے تھے اپنے سابقہ قائد کی قائدانہ صلاحیتوں کا شکار ہوئے اور انہیں اسی انداز میں راستے سے ہٹنا پڑا جس طرح وہ مخالفوں کو ہٹاتے آئے تھے۔ الطاف حسین جب رو دھو کر اس’’ انہونی‘‘ کے ہونے کا ماتم کر چکے تو اچانک تین سال بعد اب بر طانیہ میں تفتیش کاروں کو عمران فاروق کے اندھے قتل کے سرے الطاف حسین سے جڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔بڑے بڑے جاگیرداروں کو للکارنے والابے چارہ الطاف حسین سکاٹ لینڈ یارڈ کے معمولی سپاہیوں کے نرغے میں ہے

جولائی 13, 2013

نئی حکومت اور ایک دیرینہ خواب


امن اگر باتوں کے طوطے مینا اڑانے سے آتا تو پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت سے بہتر کوئی نہیں لا سکتا تھا۔دہشت گردی کے عفریت کا مکروہ سر اگر صرف بیانات سے کچلا جا سکتا توسابقہ وزیر داخلہ یہ کام کب کا بہ احسن و خوبی کر چکے ہوتے۔ پاکستان کو امریکی جنگ میں کودے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے ق لیگ کی مشرف زدہ حکومت سے لے کر جمہوریت کو بہترین انتقام بنانے والی پیپلز پارٹی کی بے سروپا حکومت تک دہشت گردی کے خلاف ہمارے سیاست دان نہایت مدبرانہ انداز میں پریس کانفرنسوں اور اخباری بیانات میں مسلسل اچھلتے کودتے رہے اور اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے کھوکھلے دعوؤں سے پاکستانی عوام کے فشارِخوں کومسلسل بڑھاتے رہے۔
نواز لیگ نے جب حکومت کی زمام کار سنبھالی تو اور بہت سی امیدوں کے ساتھ یہ حسرت بھی پاکستانی عوام کے کے دل و دماغ میں مچل رہی تھی کہ دہشت و بربریت کے اس ہولناک سلسلے کو روکنے کے لیے نئی حکومت فورا اقدامات اٹھائے گی اور سابقہ حکمرانوں کی سنگدلانہ بے حسی سے دور رہے گی۔ نواز لیگ سے توقعات اس لیے بھی بڑھی ہوئی ہیں کہ اس جماعت کے پاس مسخروں اور جوکروں کا وہ ٹولا نہیں جو ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے ماتھے کا جھومر رہا اور جس نے ان دونوں جماعتوں کا بیڑہ غرق کرنے میں نمایاں کردارادا کیا لیکن بد قسمتی سے دو ماہ کا عرصہ بیتنے پر بھی دہشت گردی جیسے اہم مسئلے پر حکومتِ موجودہ بھی کوئی واضح سمت متعین کرنے میں ناکام رہی ہے اور سابقہ حکومتوں کی پامال روش پر چلتے ہوئے صرف گفتارہی کے گھوڑے دوڑا تی دکھائی دے رہی ہے ۔

فروری 04, 2013

روایتی جمہوریت کے کرتوت اور عمران خان

آج سےلگ بھگ پانچ سال قبل پرویزی آمریت کی بساط لپٹنے پر جن جمہوریت پسندوں کی باچھیں کھل کر کانوں کی لوؤں کو چھو رہی تھیں اوربغلیں بجاتے جن کے ہاتھ نہ تھکتے تھے اب جمہوریت کی برکات سے کامل پانچ سال تک لطف اندوز ہونے کے بعد ان کی باچھیں واپس اپنی جگہہ پر آچکی ہیں اور بغلیں بھی یکسر خاموش ہیں۔اب جبکہ پاکستانی جمہوریت کا ایک اور بیہودہ ناٹک تمام ہونے کو ہے اور انتخابات کا پردہ اٹھنے کے بعد نئے نوٹنکیوں، نوسر بازوں، بھانڈوں اور بے مغز کٹھ پتلوں کی ایک فوج ظفر موج سٹیج پر جمہوری اودھم مچانے کے لیے بے تاب بیٹھی ہے تو یہ جمہوریے انگشت بدنداں ہیں کہ کہاں جائیں! مشرف جو بے آبرو ہو کر اقتدار کے کوچے سے بھاگاتھا اس جمہوریت کی پانچ سالہ بے مثال کارکردگی نے اس کے مردہ دہن میں بھی جان ڈال دی ہے اوروہ پٹر پٹر اپنے دور کے کارناموں کا موجودہ دور کے ساتھ موازنہ کر کے یہ ثابت کر رہا ہے کہ اس کے دور میں دودھ کی نہریں بہتی تھیں جو موجودہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے گندے نالوں میں تبدل ہو چکی ہیں! پاکستانی گینزبک میں سب سے زیادہ گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہونے کا ریکارڈ رکھنے والا مشرف اب اس لیے افسردہ ہے کہ اس کا یہ منفرد اعزاز موجودہ حکمرانوں نے اپنی شبانہ روز کوشش سے اس سے چھین لیا ہے۔