مبینہ امریکی صحافی جمیز فولی کی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہلاکت نے عالمی
ضمیر کو ایک بار پھر ہڑ بڑا کر اٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ضمیر پچھلے
کچھ ماہ سے افیون زدگی کی حالت میں اونگھ رہا تھااور غزہ میں کئی ہفتوں سے
جاری قتل وغارت ،جنگی طیاروں اور میزائلوں کی چنگھاڑتی آوازوں اورفلسطینی
بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار میں بھی مدہوش پڑا تھا لیکن شکرہے کہ جیمز
فولی کے گلے پر چلنے والے خنجر کی آواز سے اس کی نیند ٹوٹ گئی ۔ اب امید کی
جاسکتی ہے دنیا بھر کے دکھیاروں کے لیے آواز اٹھے گی اور جیمز فولی کی موت
عالمی ضمیر کی حیات ثابت ہو گی۔
جیمزفولی صحافیوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو فاتح امریکی افواج کے پہلو بہ پہلو مفتوح علاقوں پر نازل ہوتے ہیں۔ یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، ہنستے بولتے اور گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی فتوحات کو فلم بند کرکے امریکی قوم کے ایڈونچرانہ جذبے کی تسکین کرتے ہیں۔ مفتوح قوموں کی جہالت ، کسمپرسی، اور بد تہذیبی کی عکس بندی کر کے امریکی حملوں کو تہذیبی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی ان کے جاب پروفائل کاحصہ ہوتا ہے۔چونکہ امریکی عوام کا باقی دنیاکے بارے میں جنرل نالج شرمناک حد تک کم ہے اس لییامریکی میڈیا میں موجود جیمز فولی جیسے صحافی ہی باقی دنیا کے لیے ان کی کھڑکی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صحافی امریکا کے کسی ملک پر حملے سے پہلے ایک ایسا ہیجان برپا کر دیتے ہیں کہ سارے امریکی ایک کورس میں جنگی ترانے گانے شروع کر دیتے ہیں اور حملے کے بعد یہ قبضے کی طوالت کو حلال ثابت کرنیکے لیے وقتا فوقتا کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکا بھیجتے رہتے ہیں ۔بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگی صحافیوں کی یہ کھیپ دراصل امریکا خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ہو تی ہے جنہیں صحافیوں کے روپ میں فوج کے ساتھ یا پیچھے پیچھے روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صحافتی آزادیوں کے سبب فوج کے لیے دشمن کی سر زمین میں جاسوسی کرنے کے فریضے سر انجام دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے فوجیوں سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں لیکن سخت جانی کے سبب پیچھے نہیں ہٹتے ۔
جیمزفولی صحافیوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو فاتح امریکی افواج کے پہلو بہ پہلو مفتوح علاقوں پر نازل ہوتے ہیں۔ یہ امریکی فوجیوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے، ہنستے بولتے اور گھومتے پھرتے ہیں اور ان کی فتوحات کو فلم بند کرکے امریکی قوم کے ایڈونچرانہ جذبے کی تسکین کرتے ہیں۔ مفتوح قوموں کی جہالت ، کسمپرسی، اور بد تہذیبی کی عکس بندی کر کے امریکی حملوں کو تہذیبی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرنا بھی ان کے جاب پروفائل کاحصہ ہوتا ہے۔چونکہ امریکی عوام کا باقی دنیاکے بارے میں جنرل نالج شرمناک حد تک کم ہے اس لییامریکی میڈیا میں موجود جیمز فولی جیسے صحافی ہی باقی دنیا کے لیے ان کی کھڑکی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ صحافی امریکا کے کسی ملک پر حملے سے پہلے ایک ایسا ہیجان برپا کر دیتے ہیں کہ سارے امریکی ایک کورس میں جنگی ترانے گانے شروع کر دیتے ہیں اور حملے کے بعد یہ قبضے کی طوالت کو حلال ثابت کرنیکے لیے وقتا فوقتا کہانیاں گھڑ گھڑ کر امریکا بھیجتے رہتے ہیں ۔بہت سے دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک جنگی صحافیوں کی یہ کھیپ دراصل امریکا خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اہلکاروں پر مشتمل ہو تی ہے جنہیں صحافیوں کے روپ میں فوج کے ساتھ یا پیچھے پیچھے روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ صحافتی آزادیوں کے سبب فوج کے لیے دشمن کی سر زمین میں جاسوسی کرنے کے فریضے سر انجام دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے فوجیوں سے زیادہ خطرناک صورتِ حال کا سامنا کرتے ہیں لیکن سخت جانی کے سبب پیچھے نہیں ہٹتے ۔