نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

فروری 28, 2015

حقیقی جمہوریت کا آخری وارث

پرویز مشرف پاکستانی تاریخ کی ان نابغہ روزگار شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی بہادری، دانشمندی اور فہم و فراست کے قصے صدیوں یاد رکھے جائیں گے۔ آنے والی نسلیں جب ملک و قوم کے لیے ان کی قربانیوں اور خدمات کو یاد کریں گی تو فرطِ جذبات سے ان کی گھگی بندھ جائے گی اور وہ حیرت کے تالاب میں غوطے کھاتے ہوئے سوچیں گی کہ کبھی پاکستان کی دھرتی بھی ایسے سپوت جنم دیا کرتی تھی! ملک و قوم کے لیے ان کی خدمات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کا احاطہ کرنا کسی بشر کے لیے ممکن نہیں لیکن ذیل میں ہم ان کے سب سے بڑے کارنامے یعنی پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے فروغ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ ان کے اس کارنامے کی وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اگلے روز ایک
بیان میں ایک مرتبہ پھر ہماری کم فہم قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا پودا انہوں نے ہی لگایا تھا ۔ہمیں ڈر ہے کہ پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد ان کے اس بیان کوزیادہ سنجیدگی سے نہیں لے گی ۔ اس لیے سطورِ ذیل میں ہم ان کے اس ارشاد کی ذرا کھل کر وضاحت کریں گے ۔

لیکن قبل اس کے کہ ہم اصل موضوع کی طرف آئیں حقیقی جمہوریت کی تعریف کو سمجھ لیا جانا ضروری ہے۔ حقیقی جمہوریت ایک نہایت ہی پیچیدہ فلسفہ ہے جس کا ادراک ابھی تک پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کچھ چیدہ چیدہ لوگوں کو ہی ہو سکا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ ممالک کو اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجودابھی تک اس فلسفے کی سمجھ نہیں آئی ۔ جمہوریت کا وہ سچا علم جو زمباوے کے موغابے، روانڈا کے کاگامے ، یوگنڈا کے موسوینی ، ایتھوپیا کے جیارجس اور پاکستان کے مشرف کو حاصل ہے یورپ اور امریکا کے فوجی بھائی اور سیاست دان اس سے یکسر نابلد ہیں۔ ہمارے ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو متعارف کروانے کا سہراایوب خان کے سر ہے جنہوں نےقومی سلامتی کے تقاضوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور جب تک لوگوں سے کتا کتا کے نعرے نہیں سن لیے اس فریضے سے سبکدوش نہ ہوئے۔ یحییٰ خان کا حقیقی جمہوریت کا سفر نسبتاً مختصر رہا کیونکہ مشرقی بنگال کے لوگوں نے ان کی حقیقی جمہوریت کی بجائے مجیب الرحمن کی غیر حقیقی جموریت کو ترجیح دی۔ ضیا الحق گیارہ سال تک اسی جمہوریت کے پودے کی آبیاری کرتے رہے اور اسی پودے کو سینچتے سینچتے ایک دن فضا میں آموں کی کمپنی میں پھٹ گئے ۔

مشرف صاحب کا کیس ان کے پیشرؤں سے ذرامختلف ہے۔ حقیقی جمہوریت کے سفر میں ایوب خان اور یحییٰ خان نے اقتدار چھوڑنے کے بعد کبھی دوبارہ پلٹ کر ان کوچوں سے گزرنے کا بھی نہ سوچا لیکن مشرف صاحب نہ صرف پلٹ کر میدانِ سیاست میں آئےبلکہ انہوں نے ایک نئی پارٹی کی بنیاد بھی رکھی جسے ان کے مخالفین حسد کے مارے تانگہ پارٹی بھی کہتے ہیں ۔اگر ایوب خان اور یحیٰ خان کے دور میں فیس بک کا وجود ہوتا اور ان کے پیچ پر لاکھوں فین ان کو دیوانہ وار بلاتے تو وہ بھی اقتدار سے علیحدگی کے بعد یوں گوشہ گمنامی میں نہ سڑتے ۔ مشرف صاحب جدید دور کے لیڈر ہیں جو ہار کر بھی نہیں ہارتے ۔ یہ اقتدار کے ایوانوں سے چلتے کر بھی دیے جائیں تو فیس بک کے ایوان ان کے انقلابی نعروں سے گونجتے رہتے ہیں ۔

  اکتوبر ۱۹۹۹ ء کو جب مشرف آسمان سے زمین پر اترے اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا ایک اور سورج طلوع ہوا تو نواز شریف کی حکومت پہلے ہی اپنے بھار ی مینڈیٹ کے بوجھ تلے دب کر اپنا ذہنی توازن بڑی حد تک کھو چکی تھی۔ کاغذ کا وہ پرزہ جسے آئین کہا جاتا ہے اور جو حقیقی جمہوریت کے راستے میں ہمیشہ روڑے اٹکاتا ہے مشرف صاحب نے اسے اس کی ذمہ داریوں سے عارضی طور پر سبکدوش کر کے ایل ۔ایف ۔او کو نیا پاکستان بنانے کی ذمہ داری سونپی۔ آئین ہمیشہ سے حقیقی جمہوریت کا دشمن رہا ہے اس لیے اس تاریخی موقع پر اس کا قلع قمع کیا جانا نہایت ضروری تھا۔ عدلیہ کے ججوں سے تین سال کے پرمٹ پر سائن بالجبر لینے کے بعدمشرف صاحب نے ایک ایسے جمہوری سفر کا آغاز کیا جس کی دھول ابھی تک اٹھ رہی ہے۔

یہ بات دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقی جمہوریت کے لگ بھگ نو سالہ سفر میں مشرف صاحب نے تمام مشکلات کا کمانڈو وار مقابلہ کیا۔ امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دہشت گردی کی جنگ میں اس کا حکم ماننے کا فیصلہ ہو یا سپریم کورٹ کے ججوں کو لائن حاضر کرنے کی کوشش مشرف صاحب نے جرات اور دانشمندی سے تمام معاملاتِ ملکی کو نبھایا۔ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے ذریعے جدید تہذیب سے دور پہاڑوں میں بسنے والے قبائلیوں کو بھی نئی ٹیکنالوجی کی لذتوں سے متعارف کروایا گیا۔ روایتی اسلحہ سازی میں پاکستان کی مہارت کے عملی نمونے دکھانے کے لیے بلوچستان میں نواب اکب بگٹی جیسے بزرگ راہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا تاکہ نہ صرف بلوچستان کے عوام حقیقی جمہوریت کی برکات سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکیں بلکہ دشمنوں پر بھی ہماری طاقت اور وحشت کی دھاک پوری طرح بیٹھ جائے۔

یہ امر قابلِ غور ہے کہ مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے لیے کیے جانے والے تمام اقدامات لالچ اور حرص کی تمام آلائشوں سے پاک تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کا نہ صرف نعرہ دیا بلکہ اس پر عمل بھی کر کے دکھایا۔ خود کو چیف ایگزیکٹو بنانا ہو یا پانچ سال کے لیے صدر کی کرسی پر بیٹھنے کا فیصلہ ، مونہہ زور ججوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کا اقدام ہو یا این آر او کے ذریعے تمام کرپٹ لوگوں کو کلین چٹ دینے کا فیصلہ مشرف صاحب کے تمام جمہوری اقدامات سے بے غرضی اور اخلاص ٹپکتا ہوا صاف نظر آتا ہے ۔

آج کل کے نام نہاد جمہوری حکمرانوں کو مشرف صاحب کے حقیقی جمہوریت کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی غیر حقیقی جمہوریت کو مستقبل کے کسی آنے والے مشرف سے محفوظ رکھ سکیں ۔ اگرچہ جمہوریت کی جو کھچڑی موجودہ دور میں پکائی جا رہی ہے اس کے اجزائے ترکیبی بھی کم و بیش وہی ہیں جو مشرف صاحب کی حقیقی جمہوریت کے تھے اورفرق صرف پیش کیے جانے کے انداز سے ہے لیکن میڈیا کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی ، ججوں کی دیدہ دلیریوں اور ملکی حالات کو مد نظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ مشرف ایو ب خان کے شروع کیے گئے حقیقی جمہوریت کے سلسلے کے آخری وارث ہیں! کیا مشرف واقعتا حقیقی جمہوریت کے آخری وارث ہیں؟ اس ملین ڈالرسوال کے جواب میں ہی پاکستان کی بقا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.