نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

جون 25, 2014

پاکستانی سیاست کے ’’ڈئیر ڈیولز‘‘ اور حواس باختہ حکومت

جہالت، پسماندگی اور افلاس کے جان لیوا شکنجوں میں جکڑے ہوئے پاکستانی اگر طاہر القادری جیسے کرداروں کو مسیحا سمجھ لیں تو کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔طاہر القادری کی لیڈر شپ کے ڈرامائی انداز پر انگلیاں اٹھانے والے کیا ہماری تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر دکھا سکتے ہیں جس نے ناٹک بازی ، مکرو فریب اور ڈھونگ رچا کر اقتدار کی کرسی نہ حاصل کی ہو۔ جمہوری لیڈر وں کی نوسر بازیاں تو رہیں ایک طرف مقدس وردی پہنے ہمارے مسیحاؤ ں کیقلابازیوں کا مقابلہ کیا دنیا کا بڑے سے بڑا کوئی شعبدہ باز کر سکتا ہے ؟ ضیا الحق گیارہ سال تک اسلامی نظام کے نام پر قوم سے جو بھونڈا مذ اق کرتا رہا اور اس کا پیش رو مشرف نو سال تک رشن خیالی کے جس جھولے پر قوم کو جھلا کر الو بناتا رہا کیا اس کی نظیر دنیا کے کسی مہذب ملک کی تاریخ میں ڈھونڈی جا سکتی ہے؟

 
قادری صاحب پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے لاہور ائیر پورٹ پر جو ڈرامہ کیا اس سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ۔ لیکن نکتہ چیں پچھلی پوری دہائی میں کوئی ایک ایسا واقعہ نکال کر دکھا سکتے ہیں جس سے پاکستان کا نام ساری دنیا میں بلند ہوا ہو؟آمریت، دہشت گردی ، بھوک ، بد عنوانی ، جبر، لا قانونیت اور قتل و غارت پوری دنیا میں لفظ پاکستان کے مترادفات بن چکے ہیں۔چند روز قبل کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والا حملہ عالمی برادری میں پاکستان کی ناک کٹوانے میں جو کسر چھوڑ گیا تھاقادری صاحب نے اماراتی ائیر لائن کے جہاز کو پانچ گھنٹے یرغمال بنا کر وہ کسر پوری کر دی۔ پاکستانی قوم کا مجروح وقار ایسے پے در پے چرکوں سے اب نڈھا ل ہو کر جاں کنی کے عالم میں ہے اور کسی اصلی مسیحا کی تلاش میں بے چارہ جعلی مسیحاؤں کی چاند ماری کامسلسل شکا ر ہو رہا ہے ۔ ایسے واقعات سے ملنے والے پیغام سے ہم کبوتر کی طرح آنکھیں پھیر لیں تو یہ اور بات ہے ورنہ دنیا نے اس سے واضح طور پریہ سمجھ لیا ہے کہ ایٹمی پاکستان کی اوقاتبس یہی ہے کہ کوئی جنونی بھی اٹھ کر کسی لمحے اسے یر غمال بنا سکتا ہے ۔

اگر دنیا بھر میں اقتدار کی ہوس میں کچھ بھی کر گزرنے والے ’’ڈئیر ڈیولز‘‘ کی فہرست بنائی جائے تو پاکستانی جاہ پرست یقیناًسب سے نمایاں ہوں گے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے برعکس جہاں اقتدار ذمہ داریوں سے بھرا کانٹوں کا وہ راستہ ہے جس سے سب کتراتے ہیں پاکستان میں اقتدار کرپشن کرنے کا وہ جادوئی سرٹیفیکیٹ ہے جس کے حصول کے لیے اپنی جان اور ایمان تک فدا کر دینے والے سرِ راہ دکانیں سجائے بیٹھے ہیں ۔ ایسے آلودہ ماحول میں اگر قادری صاحب قسمت آزمانے نکلے ہیں اور اپنے سبز انقلاب کی رتھ پر سوار ہو کر اقتدار کی سنہری کرسی تک پہنچنے کے سفر میں کچھ ہواس باختتگیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں تو یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں۔ ان کے پیش رو ڈئیر ڈیولز اس سے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے چکے ہیں۔

قادری صاحب کے غیر مرئی انقلاب کو زندگی بخشنے میں پنجاب حکومت کا پورا پورا ہاتھ ہے ۔ ماڈل ٹاؤن میں گولیاں چلوا کر حکومت نے قادری صاحب کی جماعت کو وہ لاشیں فراہم کر دی ہیں جن کے سر پر انقلاب کے باقی سفر کو طے کیا جائے گا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن سے شروع ہونے والا حکومت کی بوکھلاہٹوں کا سفر ہر روز نت نئے گل کھلا کر انقلاب کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال رہا ہے ۔
قادری صاحب کو اسلام آباد نہ اترنے دینے کا فیصلہ بدحواسیوں کے اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اگر قادری صاحب اسلام آباد ائیر پورٹ سے اپنے فدائین کے جلو میں پاری تام جھام کے ساتھ لاہور چلے جاتے تو اس سے حکومت کی صحت پر یقیناًکوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔ آخر پچھلے سال جنوری میں قادری صاحب نے چار دن ہزاروں مریدین کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا دے کر پیپلز پارٹی کی حکومت کا کیا بگاڑ لیا تھا جو اب ان کے انقلابی مارچ سے کسی کو خطرہ ہوتا۔ لیکن نون لیگ کی حکومت اپنے احساسِ عدم تحفظ کے ہاتھوں خود ہی وہ گڑھے کھود رہی ہے جن سے بچ نکلنااس کے لیے مشکل ہوتا جائے گا۔ 
مانا کہ دودھ کے جلے ہوئے کو چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینی چاہیے لیکن نون لیگ کی حکومت کو نادیدہ ہاتھوں کی سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھنا ہو گا۔ رسی کو سانپ سمجھ کر پیٹنے سے سوائے جگ ہنسائی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ پچھلی تین دہائیوں سے اقتدار کے ایوانوں میں رہنے کے باوجود اگر نون لیگ مچھر کو توپ سے مارنے کو ہی سیاست سمجھتی ہے توپھر اس جماعت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ کچھ حقیقی اور بہت سے غیر حقیقی خوفوں کا شکار نون لیگ کے اعصاب بہت تیزی سے شکستہ ہو رہے ہیں ۔نادیدہ ہاتھوں کی بچھائی گئی شطرنج کے پہلے مہرے کی چال پر ہی اگر نون لیگ کا پتہ پانی ہورہا ہے تو اس کے بعد آنے والے ڈئیر ڈیولز کا مقابلہ کون کرے گا؟ قادری صاحب کی انٹری تو صرف ٹریلر تھا اصل کہانی تو ابھی پردوں میں ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.