نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

جون 19, 2014

نون لیگ کا نامعلوم فرد

لاہور میں عوامی تحریک کے سادہ لوح کارکنوں پر ٹوٹنی والی قیامت جہاں ایک طرف پنجاب حکومت کے مثالی نظامِ حکومت کا پول کھول گئی وہیں پنجاب پولیس کے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار ہونے کا پردہ بھی فاش کر گئی۔ پچھلے کئی سالوں سے شہباز شریف گڈ گورننس کے نام پر سرکاری افسروں کی سر عام تذلیل کے جس راستے پر چل رہے تھے اس کا لا محالہ انجام یہی ہو نا تھا کہ افسر اپنی دھوتی بچانے کے لیے آئین و قانون سے ماورا ہر وہ کام کریں جس سے تختِ لاہور خوش ہو۔ اگرچہ ابھی اس امر کا تعین ہونا باقی ہے کہ عوامی تحریک کے نہتے کارکنوں پر پولیس افسروں نے گولی چلانے کا حکم محکمانہ ترقی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خود کیا یا اس بھیانک سانحے کا منصوبہ کہیں اور تیار کیاگیا تھا تاہم گلو بٹ جیسے کرداروں کی موجودگی ان شکوک و شبہات کو تقویت دیتی ہے کہ اب تک اہنسا کے اصولوں پر بظاہر کاربند ن لیگ کی حکومت ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھی ہے اورطا قت کے اس بے ڈھنگے مظاہرے سے اس نے کینیڈا میں بیٹھے امامِ انقلاب کو کوئی پیغام دینا چاہا ہے۔


بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے اچکوں، اٹھائی گیروں اور بدمعاشوں کے سہارے چلتی رہی ہیں ۔ وجوہات جو بھی ہوں اتنا واضح ہے کہ ہمارے لیڈروں اور ان دادہ گیروں کے درمیان کچھ ایسی صفات مشترک ہیں جو ان دونوں کو اٹوٹ رشتوں میں باندھے رکھتی ہیں۔ یہ لوگ جلسے جلوسوں میں زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں ، ہڑتالوں میں نامعلوم افراد بن کر توڑ پھوڑ کرتے اور املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ، گلی محلوں میں دھونس دھاندلی اور دنگا فساد کے ذریعے اپنے لیڈر کا رعب داب قائم رکھتے ہیں اور جب ضرورت پڑے مخالفین کا پتہ صاف کر کے اپنے لیڈر کی نظروں میں سر خرو ہوتے ہیں۔ ن لیگ کا نامعلوم فرد گلو بٹ اگرچہ الیکٹرانک میڈیا کے کیمروں کی برکت سے معلوم بن چکا ہے اور اس کو ’ گرفتار ‘ کر کے پولیس نے اس کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کر لی ہے لیکن لگتا یوں ہی ہے کہ حسبِ روایت باقی جماعتوں کے نامعلوم افراد کی طرح یہ بھی ناکافی ثبوتوں اور گواہوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے باعزت بری ہو کر دوبارہ اپنی ڈیوٹی سنبھال لے گا۔ن لیگ جو ہمیشہ سے گولی اور گالی کی سیاست سے پاک ہونے کا دعویٰ کرتی تھی آج عین چوراہے میں اپنی پاکدامنی نیلام کر بیٹھی۔

بحر حال جو بھی ہو ن لیگ کا یہ نامعلوم فرد پولیس کی سر پرستی میں جس ’احساس ذمہ داری‘ سے اپنا فرض پورا کر رہا تھا اس سے صاف لگتا ہے کہ ن لیگ والے قادری کے انقلاب سے بظاہر جتنی بے اعتنائی برتیں ، خواجہ سعد رفیق قادری صاحب کو بہروپیا ، فراڈیااور منافق قرار دے کر ان کی اہمیت کو کم کرنے کی جتنی کوشش بھی کریں کہیں اندر ہی اندر یہ خوف ضرور موجود ہے کہ قادری انقلاب لائے نہ لائے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر سکتا ہے ۔قادری صاحب اور ان کی بھولی بھالی جماعت کا قد کاٹھ یقیناًاتنا نہیں کہ ان سے حکومت کو اس طرح کا کوئی خوف ہو۔ اصل خوف ان خفیہ ہاتھوں سے ہے جو قادری صاحب کو کینیڈا کے ٹھنڈے ٹھارنخلستان سے اٹھا کر پاکستان کے تپتے ہو ئے ریگزار میں لا کھڑا کر رہے ہیں۔ ن لیگ کی حکومت تحریک انصافوں ، عوامی لیگوں اور عوامی تحریکوں کو خاطر میں لانے والی نہیں تھی لیکن برا ہو خفیہ ہاتھ کا جس نے ان انقلاب آوروں کے سر پردستِ شفقت رکھ کر ن لیگ کے بگ مینڈیٹ کا سار اکانفیڈنس خاک میں ملا دیا ہے۔

طاہر القادری کی سالانہ انقلاب یاترا ان کے دیرینہ خواب کے عین مطابق اس دفعہ خون سے رنگین ہے۔ یہ ان مظلوموں کے خون سے لت پت ہے جو اپنی آنکھوں پر بندھی انقلاب کی پٹی سے تلخ حقیقتوں کا ادراک نہ کر سکے۔ پچھلے سال بھی پیپلز پارٹی کے دور میں قادری صاحب اسلام آباد کے ڈی چوک کو کربلا بنانے کی آرزو رکھتے تھے اور کینٹینر میں کھڑے ہو کر اپنے خطبات میں انہوں نے کربلا کے واقعات کو نہایت گلو گیر انداز میں بیان کرنا بھی شروع کر دیا تھا لیکن وہ تو بھلا ہو حکومت کی بے عملی کا کہ قادری صاحب کو انقلاب کی خواہش سینے میں دبا کر واپس کینیڈا جانا پڑا۔ لیکن اس دفعہ حالات بدل چکے ہیں ۔ ن لیگ کی حکومت خفیہ ہاتھ کی چالوں سے پریشان ہو کر بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ۲۳ جون کو جب انقلاب اسلام آباد میں لینڈ کرے گا تو حکومت کو ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر اور ہر قدم پھو نک پھونک کر رکھنا ہو گا ۔ بوکھلاہٹ میں کیے گئے فیصلے اور نادان مشیروں و نامعلوم افراد پر انحصار خودکشی کے برابر ہو گا۔ ن لیگ کو چو مکھی جنگ لڑنی ہے اور گلو بٹ بھی گرفتار ہو چکا ہے۔ اللہ خیر کرے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.