نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

ستمبر 05, 2014

کیا حکومت موجودہ بحران سے سبق سیکھے گی؟

گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھاتے ہیں تو سارے منصوبے چوپٹ ہو جاتے ہیں، سہانے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کوے کتنے ہی سیانے کیوں نہ ہوں دونوں ٹانگوں سے پھنستے ہیں۔ اسلام آباد میں رچایا گیا تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کا کھیل ختم ہونے میں چند گھنٹے رہ گئے ہیں ۔ شہسوار مضمحل، پیادے شکست خوردہ ہیں۔ وہ جنہوں نے عین وقت پر آسمانوں سےمن و سلویٰ لے کر اترنا تھا اپنے وعدے سے مکر گئے اور ہمارے کپتان کو تلخ حقیقت کے بیا باں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اب قادری کا انقلابی کندھا ہے اور عمران کا نئے پاکستان کے شکستہ خوابوں سے بھرا ہو سر! بالاآخر خاک و ہیں پرپہنچی ہے جہاں کا خمیر تھا۔اس دھرنے نے ہماری بہت سی خوش فہمیوں کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت نے پانچ سال مکمل کیے تو ہماری جمہوریت کے بنجر بوٹے پر خوش فہمیوں کی یہ کونپلیں کھلنے لگی تھیں کہ اب ہم آمریتوں کی آکاس بیل سے ہمیشہ کے لیے بچ نکلے ہیں، اس خیال نے ہمارے نظامِ سیاست کو توانائی بخشنی شروع کر دی تھی کہ اب عوام کے فیصلے عوام کے نمائندے آسیبی اثر سے آزاد ہو کر کریں گے اور فرشتوں کو ان ذمہ داریوں سے ہمیشہ کے لیے سبک دوش کر دیا جائے گا، اس سوچ نے ہمارے دل و دماغ کو شاد کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری بے حال جمہوریت کے گلے پرجمے آہنی شکنجے اب ہمیشہ کے لیے ہٹ گئے ہیں اور یہ مظلومہ اب آزادانہ سانس لے سکتی ہے۔ لیکن قادری و عمران نے ایک ہی ہلے میں ان ساری خوش فہمیوں کے محل زمیں بوس کر دیے۔اب ہم اس شرمناک حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے پانی پانی ہو رہے ہیں کہ ہماری جمہوریت زندہ رہنے کے لیے ابھی تک غیر جمہوری طاقتوں کی محتاج ہے ، ابھی تک دو تہائی اکثریت لے کر حکومت بنانے والے نواز شریف کو چاپلوسی کے ہتھیاروں سے ہتھیار والوں کو رام کرنا پڑتا ہے ، ابھی تک ہماری ساری سیاسی جماعتیں مل کر بھی عمران و قادری کو کسی نکتے پر قائلنہیں کر سکتیں لیکن ’ان ‘ کے ایک پیغام پر دونوں انقلابیوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔حقائق کی تیز دھوپ میں ہم برہنہ سر کھڑے ہیں اورکئی سالوں سے اکٹھا ہونے والا ہمارا جمہوری غرو ر پسینہ بن کر خاک میں مل رہا ہے ۔

ہماری حکومت کی انتظامی صلاحیتوں کے ڈھول کا پول بھی ان دھرنوں نے کھول کر رکھ دیا ہے ۔ سارے پنجاب کو کنٹینروں سے بند کرنے سے لے کر جا بجا خندقیں کھودنے تک حکومت نے اپنی حواس باختگی کے نہایت مضحکہ خیز نمونے جگہ جگہ بکھیر دیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کو ناتجربہ کاراور سیاسی نالغ ہونے کا طعنہ دینے والی مسلم لیگ نو ن کی حکومت کے تین دہائیوں پر پھیلے تجربے کا نچوڑ دیکھ کر قوم دنگ ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ نون لیگ کے اعصاب پر ابھی تک ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کا آسیب سوار ہے اور اس کے تمام فیصلے اسی کے زیرِ اثر کیے گئے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس کے افسروں اور جوانوں کو قربانی کا بکرا بنا کر حکومت نے خود اس سے جس طرح بری الذمہ ہونے کی کوشش کی اس کا لامحالہ نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مورال اس حد تک گر جائے کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہوکر حکومت کی احکامات سے روگردانی کرنے لگیں۔ دھرنے کے دوران پولیس افسران کی بار بار تبدیلی نے اس تاثر کو تقویت دی کہ حکومت کا کنٹرول قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کمزور پڑ چکا ہے۔ فیصلہ سازی کے فقدان نے حکومت کی رٹ کو متاثر کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ حکومت نے فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی بجائے کبھی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور کبھی راحیل شریف کے پیچھے چھپنے کی جو حکمتِ عملی اپنائی اس نے اس حکومت کے کھوکھلے پن کوبری طرح عیاں کر دیا ہے۔

 
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ساری سیاسی جماعتوں نے حکومت اور جمہوریت کے ساتھ جس یکجہتی کا اظہار کیا ہے یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں غیر جمہوری قوتوں کی بار بار مداخلت سے تنگ آ کر اس نکتے پر متحد ہو چکی ہیں کہ انہیں ہر حال میں جمہوریت کا تحفظ کرنا ہے۔ آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے شاہ محمود قریشی کا خطاب بھی یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ تحریکِ انصاف پارلیمنٹ پر یلغار کرنے کے اپنے فیصلے پر پشیمان ہے ۔حکومت کو اس موقع پر بڑنے پن کا ثبوت دیتے ہوئے تحریکِ انصاف کو فیس سیونگ دینی ہو گی ورنہ حالات کو بگاڑنے والے ابھی بھی اس تاک میں بیٹھے ہیں ۔ایم کیو ایم کے قائد کا اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان بے وقت کی راگنی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی چال ہے۔اس امر کا تعین چند روز میں ہو جائے گا کہ الطاف حسین کا یہ فیصلہ تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنے کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے ہے یا اس کے تانے بانے لندن میں عمران فاروق قتل کیس کے سلسلے میں پچھلے دنوں ہونے گرفتاری سے ہیں۔

 
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس اعصاب شکن بحران سے نکلنے کے بعد کچھ سبق سیکھتی ہے یا اپنی پرانی روش برقرار رکھتی ہے۔ ماضی کو مدنظر رکھیں تو اس کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں کہ نواز شریف اس بحران سے بخیر و عافیت نکلنے کے بعد بھی اپنے شاہانہ رویوں میں کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔ عمران خان اور طاہر القادری کا سب سے بڑا اور موثر الزام یہ تھا کہ نون لیگ کی حکومت ایک خاندانی بادشاہت ہے جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ اس جماعت میں نواز شریف کا رشتہ دار ہونا وہ سب سے بڑی کوالیفیکیشن ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے وزارتوں کی بندر بانٹ کی جاتی ہے۔ نواز شریف ا ور ان کی جماعت پر یہ الزام نیا نہیں ان کے سابقہ دورِ حکومت میں بھی اس کی صدائیں سنائی دیتی رہی ہیں لیکن عمران خان اور طاہر القادری نے اس پرانے الزام میں جان ڈال دی ہے اور اب ہر شخص خواہ اس کی ہمدردیاں تحریکِ انصاف سے ہیں یا نہیں اس الزام کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ نواز شریف اوران کی حکومت کے لیے ۱۲ اکتوبر کا بحران موجودہ دھرنوں سے کہیں زیادہ شدید تھا جب انہیں حکومت سے ہاتھ دھو کر ملک بدر ہونا پڑا تھا اگر اس جماعت اور اس کی شاہی قیادت نے اُس مارشل لا سے کچھ نہیں سیکھا تو اب بھی یہ کچھ نہیں سیکھیں گے اور کسی نئے بحران کے انتظار میں خوش فعلیاں کرتے ہوئے وقت گزارتے رہیں گے۔ جاوید ہاشمی کے انکشافات کے بعد عمران خان کے جمہوری رویوں کابھی پردہ چاک ہو گیا ہے اور یہ تلخ حقیقت مزید عیاں ہوگئی ہے کہ ہماری پرانی و نئی تمام سیاسی جماعتیں بنیادی جمہوری قدروں سے عاری ہیں ۔ جمہوریت کا تحفظ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت ہو ۔ جو اپنی جماعت میں برابری نہیں لا سکتے وہ جمہور کو کیا انصاف دیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.