نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

جولائی 13, 2013

نئی حکومت اور ایک دیرینہ خواب


امن اگر باتوں کے طوطے مینا اڑانے سے آتا تو پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت سے بہتر کوئی نہیں لا سکتا تھا۔دہشت گردی کے عفریت کا مکروہ سر اگر صرف بیانات سے کچلا جا سکتا توسابقہ وزیر داخلہ یہ کام کب کا بہ احسن و خوبی کر چکے ہوتے۔ پاکستان کو امریکی جنگ میں کودے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے ق لیگ کی مشرف زدہ حکومت سے لے کر جمہوریت کو بہترین انتقام بنانے والی پیپلز پارٹی کی بے سروپا حکومت تک دہشت گردی کے خلاف ہمارے سیاست دان نہایت مدبرانہ انداز میں پریس کانفرنسوں اور اخباری بیانات میں مسلسل اچھلتے کودتے رہے اور اس لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے کھوکھلے دعوؤں سے پاکستانی عوام کے فشارِخوں کومسلسل بڑھاتے رہے۔
نواز لیگ نے جب حکومت کی زمام کار سنبھالی تو اور بہت سی امیدوں کے ساتھ یہ حسرت بھی پاکستانی عوام کے کے دل و دماغ میں مچل رہی تھی کہ دہشت و بربریت کے اس ہولناک سلسلے کو روکنے کے لیے نئی حکومت فورا اقدامات اٹھائے گی اور سابقہ حکمرانوں کی سنگدلانہ بے حسی سے دور رہے گی۔ نواز لیگ سے توقعات اس لیے بھی بڑھی ہوئی ہیں کہ اس جماعت کے پاس مسخروں اور جوکروں کا وہ ٹولا نہیں جو ق لیگ اور پیپلز پارٹی کے ماتھے کا جھومر رہا اور جس نے ان دونوں جماعتوں کا بیڑہ غرق کرنے میں نمایاں کردارادا کیا لیکن بد قسمتی سے دو ماہ کا عرصہ بیتنے پر بھی دہشت گردی جیسے اہم مسئلے پر حکومتِ موجودہ بھی کوئی واضح سمت متعین کرنے میں ناکام رہی ہے اور سابقہ حکومتوں کی پامال روش پر چلتے ہوئے صرف گفتارہی کے گھوڑے دوڑا تی دکھائی دے رہی ہے ۔


کہیں ایسا تو نہیں کہ بلند بانگ دعوں کی رتھ پر سوار نواز لیگ کی حکومت کے پاس بھی دہشت گردی کے مسئلے کے حل کا کوئی واضح لائحہ عمل موجود ہی نہیں ۔ توانائی کے بحران کو حل کرنے کے انتخابی دعوؤں کی طرح کہیں دہشت گردی سے نجات کے وعدے بھی صرف جوش خطابت تو نہیں تھے!اگر ایسا ہے اور بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ ایسا ہی ہے تو پھر پاکستانی قوم کو ابتلا کے مزید پانچ سال مبارک ہوں۔ خیا ل یہ بھی ہے کہ خارجہ پالیسی اور دہشت گردی کی جنگ میں کردار کے تعین کا اختیار کبھی بھی ہمارے سیاست دانوں کے پاس نہیں رہا۔ دہشت کو روکنے یا اسے پھیلانے کاکلی اختیارفوجی بوٹوں کے پاس رہا ہے جنہوں نے ہمارے بے چارے سیاست دانوں کو کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ملکی بقا کے اس مسئلے پر ان کی رائے جان لی جائے۔ چناچہ سیاسی حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں لیکن دہشت گردی کے مسئلے پر پالیسی میں ذرا برابر بھی فرق نہیں آیا۔ چاہے سیکولر پیپلز پارٹی ہو یا دائیں بازو کی نواز لیگ سب کی پالیسی اس مسئلے کے حل کے لیے ایک ہی رہی ہے ! صرف زبانی جمع خرچ ! پاکستانی عوام نے ق لیگ کو اس لیے دھتکارا کہ وہ پاکستان کو آگ و خون کی اس جنگ میں دھکیلنے والے مشرف کی باقیات تھی ، پیپلز پارٹی کو اس لیے عبر ت ناک شکست سے دو چار کیا کہ پانچ سال تک وہ دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کا صرف ناٹک کرتی رہی اور نواز لیگ کو اس لیے بھاری مینڈیٹ سے نوازا کہ یہ جماعت شروع سے ہی مشرف کی احمقانہ پالیسیوں کی سخت ناقد رہی ہے۔ لیکن اگر نواز لیگ کی حکومت نے بھی اپنی حکمت عملی کو امریکی اشارہِ ابرو سے جوڑے رکھا اور خارجہ پالیسی کو بے مغز جرنیلوں کے ہتھے چڑھائے رکھا تو اس کا انجا م بھی اس کی پیشرو حکومتوں سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہو گا۔ 


عام انتخابات میں ووٹروں کے رجحان نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستانی عوام کرائے کی اس جنگ سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس جنگ کی طنابیں کھینچنے کا اختیا ر جن قوتوں کے پاس ہے انہیں عوامی رائے سے کچھ سروکار نہیں۔ عوام کو انہوں نے پہلے کبھی درخورِ اعتنا سمجھا نہ آئندہ سمجھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ قومی سلامتی کی ایک احمقانہ تعبیر کے زیرِ اثر ان قوتوں نے ہمیشہ سے پاکستان کو پرائی جنگوں کا ایندھن بنائے رکھا اور ہمارے سیاسی نظام کو اسی خوف سے پنپنے نہ دیا کہ کہیں سیاست دان عوامی رائے کے زیرِ اثر ملکی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لینے کا نہ سوچ بیٹھیں۔



بظاہر ایک آزاد میڈیا اورطاقتور عدلیہ کی موجودگی میںیہ بات بڑی حیران کن ہے کہ اہم قومی امور پر فیصلے کرنے کا اختیا ر ہماری سیاسی حکومتوں کے پاس نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہمارے سیات دان صرف کرپشن کرنے میں آزاد ہیں باقی معاملات میں وہ بے جان کٹھ پتلوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھاری مینڈیٹ والی نواز حکومت بھی کٹھ پتلی بن کر غیر سیاسی قوتوں کے اشاروں پر ناچنے پر اکتفا کرے گی یا پھر جنگِ دہشت گردی کے وبال سے پاکستانی قوم کو نجات دلانے کے لیے اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی جدو جہد کرے گی۔ اگر نواز حکومت کے پالیسی ساز افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں ممکنہ امن پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے ۔جب تک پاکستان کی سیاسی قوتیں داخلی و خارجی امور پر فیصلے کرنے کا اختیار غیر سیاسی قوتوں سے چھین کر اسے عوامی امنگوں کے مطابق نہیں بناتیں ہماری سرزمین پر امن ایک خواب ہی رہے گا۔ 

دہشت گردی کے مسئلے اور توانائی کے بحران نے ہمارے کاغذی سیاست دانوں کو ننگا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ہماری کسی سیاسی جماعت کے پاس کسی مسئلے کا کوئی حل موجود نہیں ۔ یہ انتخابات میں بڑھکیں مارتے حکومت کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کے اپنے ازلی مشن پر جت جاتے ہیں اوراپنی مدت ختم ہونے پر یہ افسانوی اعدا د و شمار سے عوام کو احمق بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دہشت گردی کے عفریت کے سر اٹھانے اور توانائی کے بحران کاطوفان اٹھنے سے پہلے جھوٹ موٹ کے خیالی اعداد و شمار سے کام چل جا یا کرتا تھا اور پاکستان کے سادہ لوح عوام سیاست دانوں کے دکھائے گئے سبز باغوں کر برداشت کر لیا کرتے تھے لیکن اب جب تپتے موسم میں گھروں میں پنکھے نہ چلیں اور بازاربم دھماکوں سے گونجتے رہیں تو عوام بے عمل اور کوڑھ مغز سیاست دانوں کو کیسے برداشت کریں! پہلے ق لیگ عوامی نفرت کا نشانہ بنی پھر پیپلز پارٹی پر قہر ٹوٹا اور اب نواز لیگ نشانے پر ہے ۔ جھوٹے اعدادو شمار اور حیلے بہانوں سے نہ گھروں میں پھنکے چل سکتے ہیں نہ بازاروں میں امن آ سکتا ہے ۔ موجودہ حکومت اگر اپنے پیشرؤں کے انجام سے بچنا چاہتی ہے تو اسے چند جرائت مندانہ اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔ پاکستان کو آگ و خون کے کھیل سے نکالنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ امن بے سمت ملٹری آپریشنز کے ذریعے لایا جا سکتا تو پاکستان کب کا امن و آشتی کے جھولے جھول رہا ہوتا۔ نواز لیگ کی حکومت کو پاکستان کے بیرونی اور اندرونی آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اصل اقتدار حاصل کرنا ہو گا اور پاکستان کے داخلی و خارجی معاملات کو عوامی امنگوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ کیا آمریتوں کی گود میں پلی نواز لیگ اتنی جرائت کر ۔پائے گی یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آنے والے چندماہ و سال دیں گے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.