نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

مئی 08, 2010

سابق صدر سے بیہمانہ سلوک اور ہماری ذمہ داریاں

پاکستانی قوم ابھی اپنے عظیم قائد پرویز مشرف کے سکیورٹی سکواڈ کے ویزوں میں توسیع نہ دینے کے غیر منصفانہ بر طانوی فیصلے پرچیں بہ جبیں ہونے کی تیاری کر ہی رہی تھی کہ امریکی ائیر پورٹ پر روشن خیالی کے امام عالی مقام ہمارے کمانڈو قائد کو بیلٹ اور جوتے اتروائی کی مضحکہ خیز رسم سے گزار کر امریکا نے ہمیں بھو نچکا ہونے پر مجبور کر دیا ۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ہمارے قائد نے امریکی دوستوں سے وفاداری کی وہ درخشاں تاریخ رقم کی ہے کہ اب احسان مند امریکی تا حیات ان کے گن گائیں گے اور ان کی خاکِ پا کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنائیں گے لیکن بد ترین طوطا چشمی کے اتنے شرمناک مظاہرے کا تو ہم تصور بھی نہ کر سکتے تھے کہ جنگِ دہشت گردی کے اس جری سپہ سالارکی یوںمعمولی ائیر پورٹ اہلکاروں سے دن دیہاڑے توہین کر وائی جائے گی۔
 اگربرطانیہ ہمارے اس عظیم مصلح کی عافیت کو اب اتنا اہم نہیں سمجھتا اور ہمارے ایس ایس جی کے جانباز کمانڈوز کو مشرف کی رکھوالی کیلئے وہ مزید اپنے ملک میں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تو بات سمجھ بھی آتی ہے کہ ہم نے بر طانوی تاج کا سابقہ غلام ہونے کے باوجود اس کی وفاداری کا اس قدر دم کبھی نہیں بھرا کہ اس کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کر یا ہو لیکن ہمیں حیرت ہے تو اپنے امریکی دوستوں پر جو وفا شناسی کے مروجہ تمام اصولوں کو فراموش کر کے جانے کیوں ہمارے عظیم قائد کے ساتھ اس قدر ہتک آمیز سلوک روا رکھنے کاقبیح وطیرہ اختیار کر بیٹھے ہیں۔


کینیڈی ائیر پورٹ پر جب سکیورٹی اہلکار نے ہمارے سابق صدر سےجوتےاتارنے کی فرمائش کی ہوگی تو یہ سوچتے ہوئے کہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے لیے ان کی خدمات سے واقف یہ احسان شناس شاید ان کی قدم بوسی کرنا چاہتا ہے مشرف صاحب نے فوراََ اپنے قدموں کو جوتوں کی قید سے آزاد کر دیا ہو گا لیکن بیلٹ اتارنے کا دوسرا نادر شاہی حکم ہمارے ا س عظیم قائد کی سماعتوں پر یقیناًبم بن کر گرا ہو گا۔ عالمِ مد ہوشی میں چارو نا چار اپنی بیلٹ کے بکل کھولتے ہوئے ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں ہمارے اس فاتح کارگل و لال مسجد کے دماغِ فلک تاز میں امریکہ سے اپنی وفاداری کے جملہ منظر ایک ایک کر کے گھوم گئے ہوں گے۔ آزردہ دل سے اس نے ان ساعتوں کو آواز دی ہو گی جب رچرڈ آرمیٹیج کی ایک فون کال نے اس کے کمانڈو پن میں سے ہوا نکال کر اسے امریکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس نے ان لمحوں کو یاد کیا ہو گا جب اپنے ملک کو امریکہ کی جنگِ دہشت گردی کا ایندھن بنانے کے لیے اس نے فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا میڈل حاصل کیا تھا اور وفادارانِ بش کی فہرست میں اس کا نام سب سے اوپر لکھا گیا تھا۔ ان مبارک ساعتوں کو اس نے نمناک آنکھوں سے یا د کیا ہوگا جب اپنے وطن کے سینکڑوں مظلوموں کو امریکا حوالگی کے صلے میں دنیا کی تقدیروں سے کھیلنے والے جادوگر امریکیوں کے نازک لب صبح شام اس کے نام کی مالا جپتے تھے۔ امریکہ پرستی کے آئینِ نو سے نابلد قبائلی علاقوں پر آگ و آہن کی بارش سے لے کر محصورینِ لال مسجد پر فاسفورس بموں سے حملوں تک امریکا کے اشارہِ ابرو پر کیے جانے والے اپنے ایک ایک کارنامے کو اس نے پردہِ دماغ پر تازہ کیا ہو گا۔ اپنے امریکی آشناؤں کواپنے وطن کی سر زمین ڈرون حملوں سے پامال کرنے کی بخوشی اجازت دینے سے لے کر ان کی ایک ایک ادا پر اپنے ملک کی خود مختاری و سالمیت داؤ پر لگانے تک کی جملہ وفاداریاں اسے یاد آئی ہوں گی اور ڈبڈباتی آنکھوں سے اس نے یارانِ بے پرواہ کی ناقدری کا ماتم کیا ہو گا۔ زمانے کی یہ الٹی چال دیکھ کر اس کا دل کس قدر کٹ کٹ گیا ہو گا اور اسے وہ مکا بہت یاد آیا ہو گا جو دورانِ صدارت وہ اپنے ملک کے عوام کو موقع بے موقع دکھایا کرتا تھا۔


خود مختار پاکستان کے ایک سابق صدر اور ہماری بہادر افواج کے بہادر تر سپہ سالار کے ساتھ امریکا کے اس ناروا سلوک کی جس قدر مذمت کی جائے زیادہ ہے ۔ جس طرح آئینِ وفاداری نبھانے میں مشرف نے اس جانور کو بھی مات دے دی جو فنِ وفاداری میں بدنامی کی حد تک مشہور ہے اسی نسبت سے امریکا کو مشرف کی نمک حلالیوں کا صلہ دینا چاہیے تھا۔ لیکن بد قسمتی سے امریکا کا ماضی کا ریکارڈ بتا تا ہے کہ دوست داری کبھی بھی اس کا شیوہ نہیں رہا۔ ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا لینے کے سنہری اصول پر قائم امریکا صرف اس وقت تک اپنے پالتو وفاداروں کی ناز بر داریاں کرتا ہے جب تک وہ اس کی سامراجیت کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ چاہے وہ رضا شاہ پہلوی ہو یا پرویز مشرف صرف اس وقت تک امریکا کی آنکھ کا تارہ ہوتے ہیں جب تک وہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنے ملک کی جڑ یں کاٹنے کی استعداد رکھتے ہوں۔ اقتدار کی با گ چھنتے ہی اپنے تئیں آسمان کے ستون سمجھنے والے یہ بے چارے راہنماستم گر امریکیوں کی نظروں میں چلے ہوئے کارتوسوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے کہ مردہ گھو ڑوں پر شرطیں لگانا امریکی آئینِ سیاست کا حصہ نہیں۔ جب تک مشرف امریکا کے استعماری ایجنڈے کا پرزہ بن کر اپنے وطن کو خاک و خون میں نہلاتا رہا امریکا سے شاباشیاں لیتا رہا اب جب کہ اقتدار کی دیوی کا سایہ اس مظلوم سے چھن گیا ہے تو امریکی سکینگ مشینوں پر کھڑا کر کے جانے کیوں اسے نشانہ عبرت بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔


خواب غفلت میں اونگھتی ہوئی ہماری قوم کو اس نازک لمحے پر متحد ہو کر اپنے عزیز قائد کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنی تمام کھوئی ہوئی ہمتیں مجتمع کر کے امریکا سے کم از کم یہ سوال تو کرنا چاہیے کہ اس نے اپنے اس قدر وفاداردوست سے ایسا بیہمانہ سلوک کیوں کر برتا۔ یہ تو سوچابھی نہیں جا سکتا کہ مشرف کی تلاشی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اختیار کی گئی احتیاطی تدابیر کا حصہ تھی۔ امریکی دہشت گردی کے فروغ کے لیے مشرف کی خدمات سے امریکا کا بچہ بچہ واقف ہے اس لیے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کینڈی ائیر پورٹ کے سکیورٹی اہلکار مشرف کو جانتے نہ تھے یا انہیں اس پر دہشت گرد ہونے کا شبہ تھا۔اسی طرح مشرف کے خوب رو چہرے کو دیکھتے ہوئے اس پرہیر وئین یا چرس کا سمگلر ہونے کا بھی شک نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت چھن جانے پر دولت پیدا کرنے کے جملہ ذرائع بند ہو جانے کے باوجود مشرف مالی لحاظ سے اس حد تک خوشحال ہے کہ اس کو اس قسم کے گھٹیا کاموں کے ذریعے اپنی وہسکی کا خرچہ پورا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مشرف سے اس شرمناک امریکی رویے کی لے دے کر ایک ہی منطقی وجہ نظر آتی ہے کہ امریکا مشرف کواس کی وفاداریوں کا صلہ اپنے مخصوص ستم گرانہ انداز میں دینا چاہتا ہے۔ بحر حال جو بھی وجہ رہی ہو ہمارے قومی لیڈر کی یہ توہین ساری قوم کے لیے باعثِ شرم ہے اور قوم کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ جلسے جلوسوں کے ذریعے امریکا تک یہ پیغام پہنچنا چاہیے کہ ہم امریکا کواپنے قومی ہیر و کی بیلٹ اتارنے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس مسئلے پر تمام تعصبا ت کو بلائے طاق رکھ کر امریکا سے کھل کر بات کرنی چاہیے۔ اگرچہ امریکی چاکری میں انہوں مشرف کو واضح طور پر مات دے دی ہے لیکن اقتدارکی رخصتی پر کل کون جانے انہیں بھی مشرف کی طرح دیس بہ دیس پھر کر اپنی بیلٹیں اور جوتے اتروانے پڑیں۔ اگر آج ہماری قوم نے اس نازک مسئلے پر خود داری کا ثبوت نہ دیا اور ہمارے حکمران حقائق سے آنکھیں چرانے کا وطیرہ اختیار کیے رہے تو کل کو امریکا کی دیدہ دلیری کہیں اس قدر نہ بڑھ جائے کہ بیلٹوں اور جوتوں کے بعد پینٹیں اتارنے کی باری آجائے۔ مشرف کی ملک و قوم کے لیے وسیع تر خدمات ہم سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہم ایسی نا مسعود ساعتیں آنے سے پہلے پہلے امریکا کو یہ احساس دلا دیں کہ اس کی ایسی دراز دستیاں ہمیں سخت ناپسند ہیں۔


افسوس کہ اپنوں کی بے وفائی اور غیروں کی بے اعتنائی نے آج ہمارے عظیم لیڈر کی عظمت کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔ نشا نہِ تمسخر و استہزا بنا یہ مردِ روشن خیال شرابِ خانہ خراب میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔ سگاروں کے دھوئیں اور شراب کے خمار میں شب و روز اپنے غم بھلانے کی کوشش کرتا یہ عظیم لیڈر قوم کی اجتماعی بے حسی کا شکار ہے۔ اقتدار کی بہار تھی تو کیسے رنگ رنگ کے اور نسل نسل کے فصلی پکھیرو اس کے گرد آ اکھٹے ہوئے تھے اور دن رات اس کی تسبیح پڑھ پڑھ کر اس کا ڈھیروں خون بڑھایا کرتے تھے پر اب موسمِ خزاں کے سیاہ سایوں نے وہ ساری رنگینیاں چھین لی ہیں ۔ اب تو خوش کن یادوں اور صہبا کے سوا اس کے پاس پامال طوائفیں ہی بچی ہیں ۔ پس یہ بے چارہ انہیں پر پونڈ لٹاتا ہے اور اپنے امریکی یاروں کی طرف دزدیدہ نظروں سے دیکھتا ہے کہ کہیں سے اذنِ بار یابی مل جائے تو کھوئی ہوئی بہاریں لوٹ آئیں ۔ جب قوم اپنے لیڈروں کی قدر ترک کر دے اور بے حسی کی چادر تان لے تو لیڈر بے چارہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے۔

4 تبصرے:

  1. Musharaf was never treated as u mentioned in ur baseless article. It is ur wish Mr Preshan not reality. Do not try to be absurd when discussing
    a national leader like Musharaf.

    جواب دیںحذف کریں
  2. @Scorpion....I respect all national leaders like Musharaf from the core of my heart and salute them for their "valuable" contribution towards making Pakistan a better place to live. I only discussed Musharaf's humiliation that he had to face on Kennedy Airport and his drunkeness in a lighter tone. I never meant offnece to anyone including Musharaf. If you are one of those weird creatures who still like Musharaf I can say only LAGAY RAHO BHAI

    جواب دیںحذف کریں
  3. گمناممئی 14, 2010

    sub choor hain kisi koo kuch nahi keh sakty sub eik doosre ke kane hain koi leader acha nahi awam ke masayal ka koi nahi sochta sub apne account ka sochty hain choor hain sub choor uper se le kar nechay tuk sub choor hain

    جواب دیںحذف کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.