اگر دنیا کی صابر ترین اقوام کی فہرست مرتب کی جائے تو پاکستانی قوم کانام بلاشبہ سرِ فہرست ہوگا۔ مثل تھرمامیٹر کے صبر ماپنے کا اگر کوئی آلہ ہوتا اور اس سے پاکستانی قوم کی قوتِ برداشت کو جانچا جاتا تو نتائج حیران کن نکلتے۔ راہ گزر کے وہ پتھر جو ہمیشہ ٹھوکروں کی ضد میں رہتے ہیں اور اس دیس کے عوام جو ازل سے ظلم و ستم کی چکی میں پستے آئے ہیں ہر دو کا درجہِ برداشت ایک سا نکلتا۔ ہر طلوع ہونے والاسورج پاکستانی قوم کے صبر کا ایک نیا امتحان لیتا ہے اوراس منفرد قوم کو ہر ابتلا سے ٹھنڈے پیٹوں سرخرو ہوتا دیکھ کر انگلیاں دانتوں میں داب لیتا ہے۔ اس قوم کے چوسٹھ سالہ عرصہِ حیات میں کبھی یوں نہیں ہوا کہ ظلم و استبداد کی ہوائے سنگین سے گھبرا کر اس کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہو یا جبرو استحصال کے نیزوں کی ضرب سے اس کی برداشت کی حدیں ٹوٹ کر بکھر گئی ہوں ۔ بتِ بے خبر کی طرح ایستادہ اس قوم کو ظلم سہنے کی ان تھک عادت تو ہے پر بغاوت کرنے کا ذرہ بھر مادہ بھی شاید قدرت نے اس کے اندر نہیں رکھا۔
روسی استعمار کی غارت گرِ دین و ایماں اشتراکیت تلے چھ دہائیوں تک پسنے والے کر غزستان کے مسلمان اپنے مذہب ، ثقافت اور اقدار کے ساتھ ساتھ اگر اپنی طاقتِ گویائی بھی کھو دیتے ، سالہاسال تک اشتراکیت کے آہنی ہتھوڑے تلے سسکتے سسکتے اور اس کے مکروہ پراپیگنڈے کو سہتے سہتے اگر وہ ہر حال میں راضی بہ رضا رہنے کی صو فیانہ منش اپنا بھی لیتے تو کچھ باعثِ حیرت بات نہ تھی لیکن کرپشن اور اقربا پروری کے جوہڑ میں رقص کرتے اپنے کو ر نگاہ حکمرانوں کی خر مستیاں یہ قوم زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکی۔ سات اپریل کو کر غزستان کے وہ عوام جنہیں سوویت یونین کے اشتراکی فلسفے نے بھیڑ بکریوں کی طرح منہ پر قفل باندھ کر صرف چرنا سکھایا تھا دارالحکومت بشکیک کی گلیوں میں دھاڑتے ہوئے نکلے اور اپنے بدعنوان صدر قرمان بیک یووف کو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ہمارے دوسرے پڑوسی اہلِ ایران اگر مغربی ثقافت اور عریانگی کی افیون کھا کر اپنے حال و مستقبل سے بے نیاز حال مست ہو جاتے تو بھی کچھ عجیب بات نہ تھی لیکن 1979 کو رضا شاہ پہلوی کو ایرانی عوام نے امریکی سامراجیت کی چاکری کرنے کے جرم میں اس نفرت اور استہزا سے دھتکارا کہ اسے آنیوالی نسلوں کے لیے نمونہِ عبرت بنا دیا۔پاکستانی عوام کے نقطہِ نظر سے دیکھا جائے تو قرمان بیک یووف اور رضا شاہ پہلوی کے قصور اس درجیکے نہ تھیکہ ان کے ساتھ ایسا غیر شاہانہ سلوک روا رکھا جاتا۔قرمان بیک یووف نے اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اپنوں کو نوازنے ، بد عنوانی و رشوت ستانی کی سر پرستی کرنے اور مہنگائی و گراں فروشی کے ذریعے عوام کی زندگی اجیران کرنے جیسے معمولی اشغال ہی تو کیے تھے۔ رضا شاہ پہلوی نے اپنے استحصالی ہتھکنڈوں کے ذریعے ایرانی عوام کے خون سے امریکی یارانے کی شمع روشن کرنے کا عام سا فعل ہی تو کیا تھا۔ یہ دونوں مردانِ عبرت اگر پاکستان میں پیدا ہوتے تو سر آنکھوں پر بٹھا ئے جاتے ۔اقتدار کی کرسی تا حیات ان کی جاگیر رہتی اور کرپشن و بدعنوانی کا کوئی شغل ، امرکی چاکری کا کوئی الزام ان سے اقتدار نہ چھین سکتا۔یہ محض ہوائی دعوٰ ی نہیں ۔ آپ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جیے۔ پاکستانی رضا شاہوں اورقرمان بیک یووفوں کے سامنے یہ دونوں بے چارے تو نہایت منحنی سے بونے لگتے ہیں ۔سکندر مرزا سے لے کر آصف زرداری تک پاکستای رضاشاہوں اور قرمانوں کی تاریخ اتنی تابناک ہے کہ نگاہیں چند ھیا جاتی ہیں ۔ اس تاریخ کا ایک ایک ورق ایسے شاندار کارناموں سے رقم ہے کہ بے اختیار پاکستانی قوم کے جذبہ برداشت کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
جو قوم ملک کو دو لخت کرنے والوں کے باجماعت ترانے گا سکتی ہے اور انہیں اقتدار کے سنگھاسن پر عزت و تکریم سے بٹھا سکتی ہے ، جس قوم کی مروت اس درجے تک بڑھی ہوئی ہو کہ اپنے ان سورما جرنیلوں کوجو پیشیہ وارانہ مہارت کی تاریخ رقم کرتے ہوئے نوے ہزار فوجیوں کو دشمن کے سامنے ہتھیار ڈلوا دیں مرنے پر نہایت عزت و احترام کے ساتھ توپوں کی سلامیاں دے دے کر رخصت کرسکتی ہو، جس قوم کو روئے ارضی کے بد عنوان ترین افراد حکومت کے لیے منتخب کرتے وقت رائی برابر احساسِ پشیمانی نہ ہو ، جس قوم کا ہر نام نہاد راہنما خوابوں اور سرابوں کی ایک حسین دنیا دکھا کر اقتدار کے تخت پرتشریف لائے اور بھوک و افلاس کے تحفے دے کر اس بد نصیب قوم کی رگوں سے زندگی کا آخری قطرہ تک چوس کر لے جائے ایسی سخت جان قوم کے درجہ برداشت کوداد نہ دینا اس کے ساتھ صریح زیادتی ہے۔
پاکستانی قوم کا یہی ایوبی صبر ہے جس کے صدقے یہ اس نہج پر پہنچ گئی ہے جہاں اس پر ایسی بلائیں حکمران بن بن کر نازل ہو رہی ہیں جن پر ایک اچھے حکمران تو کجا اچھے انسان ہونے کا بھی شک نہیں کیا جا سکتااور جو کسی ملک تو کجا اپنے گھر پر حکومت کرنے کے بھی لائق نہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی کی غلاظت میں لت پت یہ وہ مخلوق ہے جس کی کوتاہ بینی اسے اپنی دم کے گرد چکر کاٹنے اور اپنے مفادات کی پوجا پاٹ کرنے سے ہی فرست نہیں لینے دیتی۔ پاکستان کی حکومتی سیج پر کھلنے والا ہر نیا شگوفہ لوٹ گھسوٹ اور بدعنوانی کے نت نئے طریقے لے کر اس یقین سے آتا ہے کہ وہ ملک کی لٹیا ڈبو کر بھی کامیاب و کامران مسرت کے بین بجاتا جائے گا اور چند سال اپنے کسی بھائی بند کو اقتدار کے جام سے لذت کوشی کروانے کے بعد دوبارہ نیا روپ بھر کر عوام کو الو بنانے کے شغل میں لگ جائے گا۔
مشرف کے نو سالہ دورِ زیاع میںیوں لگ رہا تھا جیسے بدعنوانی ، نااہلیت اور مسخرہ پن اپنے انتہا کو پہنچ گئے ہیں اور پاکستانی قوم کو مشرف اور اس کے جوکروں سے بڑھ کر شاید کوئی عذاب اب مستقبل میں برداشت نہ کرنا پڑے ۔ پاکستان کے بے خبر عوام جب مشرف کے رخصت ہونے پر خوشیوں کے بین بجا رہے تھے تو کون اندازہ کر سکتا تھا کہ پرویزوں ، وصی ظفروں اور شیرافگنوں کی ایک نئی کھیپ نئے رنگ روپ میں ان کی آرزؤں اور تمناؤں کا تمسخر اڑانے کی تیاری کر رہی ہے۔ مشرف کے جانے کے بعد بہت جلدہی پاکستانی قوم پر یہ عقدہ وا ہو گیا تھا کہ سیاسی سرکس میں جوکروں نے صرف لباس بدلا ہے ا ور چہروں پر نئے غازے مل لیے ہیں ان کا اندروں مشرف کے جوکروں کی طرح تاریک تر ہے۔
پاکستان کے مجبور و مقہور عوام پی پی کی عوامی حکومت کو بھگتتے دو سال سے زائد کا عرصہ کاٹ چکے ہیں ۔ ظلم و استحصال کو پاکستانی عوام چھ دہائیوں سے سہتے آئے ہیں اس لیے یہ گھنگورتاریکی ان کے لیے نئی بات نہیں۔ان کے صبر کا پیمانہ نہ پہلے کبھی چھلکا نہ آئندہ چھلکنے کاڈر ہے، نہ پہلے انہوں نے کسی حکمران کو بدعنوانی و کرپشن کے جرم میں پھانسی پر چڑھایا نہ آئندہ چڑ ھائیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ پے در پے آفات نے انہیں آزرد کر دیا ہے ۔ ان کی آنکھیں جن میں کبھی ایک فلاحی مملکت کے خواب چراغاں کیے رکھتے تھے اب ہر دم چھلکنے کو بے تاب رہتی ہیں ۔ جن سینوں میں کبھی اپنے وطن سے عشق ٹھاٹھیں مارا کرتا تھا اب اس پہ غم و غصے کے سیاہ بادل سایہ فگن رہتے ہیں ۔ جو زبانیں صرف زندہ باد کے نعروں سے آشنا تھیں اب مردہ باد کا ورد بھی سیکھنے لگی ہیں۔ پاکستانی عوام کی تاریخِ صبر تو ایسا کچھ نہیں بتاتی لیکن جانے کب وہ ہاتھ جو تالیاں پیٹنے کے عادی ہیں بھنچ کر مکوں کی شکل اختیار کر جائیں اور پاکستانی دنیا کی صابر ترین قوم ہونے کا اعزاز گنوا بیٹھیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.