بدامنی، لاقانونیت اور مہنگائی کی مسموم گھٹاؤں میں گھرے ہوئے مظلوم پاکستانیوں کے لیے یقیناًیہ خبر بادِ صبا کے کسی روح پرور جھونکے سے کم نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کی بھٹکتی ہوئی ناؤ کو پار لگانے کے لیے پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی جماعت کے قیام کی داغ بیل ڈال دی ہے۔ پاکستانی عوام اگر سیاسی شعور کی دولت سے بہرہ ور ہوتے تو وہ اِس نویدِ مسرت پر خوشی کے شادیانے بجاتے ، اپنے گھروں پے گھی کے چراغ جلاتے اور اس مسیحا سے جو بعض بیہودہ وجوہات کی بنا پر مجبوراََ دیس سے بھاگ کر پر دیس جاچھپا ہے واپس لوٹ آنے کی التجا کرتے۔
عاقبت نااندیشی اوراحساسِ سودوزیاں سے بے نیازی کی بھلااور کیا انتہا ہو گی کہ مشرف کے اس تاریخ ساز فیصلے کو اکثر پاکستانیوں نے نہایت غیر سنجیدہ انداز میں لیا۔ ملک و قوم کی تقدیر بدل دینے والی ایک انقلابی جماعت کے قیام پر پاکستان کے نا سمجھ عوام کا یہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہماری سمجھ سے باہر ہے اور ہمیں حیرت ہے کہ پاکستانی عوام مشرف جیسے عظیم لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں کو ٹھکراکر اس کا مضحکہ اڑانے کا قابلِ مذمت وطیرہ کب تک اختیار کیے رکھیں گے۔
دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام نے جس طرح انگریز سامراج کی مکروہ چکی میں پستے ہوئے بر صغیر کے بے زبان مسلمانوں کی کایا پلٹ ڈالی ہمیں یقین ہے کہ اب مشرف کی بے مثل قیادت میں آل پاکستان مسلم لیگ بھی با لکل اسی طرح پاکستانی مسلمانوں کی کایا کو الٹ پلٹ کر رکھ دے گی۔ ان دونوں لیگوں میں اس لحاظ سے کس قدر مماثلت بھی ہے کہ جہاں قائد والی لیگ کی بنیاد وقار الملک اور محسن الملک جیسے جید سیاست دانوں کے ہاتھوں اٹھائی گئی وہیں آل پاکستان لیگ کی بنیاد وں میں بھی مشرف جیسے منجھے ہوئے لیڈر کی سیاست کاری ، شیر افگن جیسے بے باک راہنما کا متنوع تجربہ اور ارباب غلام رحیم جیسے زیرک سیاستدان کی مشاورت شامل ہے۔ بلکہ اگر ان دونوں جماعتوں کے راہنماؤں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو کئی لحاظ سے مشرف والی لیگ کو توفق حا صل ہے مثلاََ پاکستان کے قیام کی کئی سالوں پر محیط جدوجہد میں کبھی ایک دفعہ بھی کسی لیگی راہنما نے جوتیاں کھانے کا اعزاز حاصل نہیں کیا جبکہ مشرف لیگ کا کردار اس میدان میں نہایت درخشاں ہے ۔ اسی طرح ہندؤں کی تمام تر مخالفتوں اور مخاصمتوں کے باوجود اس تعداد میں اور اس معیار اور جسامت کی گالیاں آل انڈیا مسلم لیگ کے کل راہنماؤں کو بھی نہیں پڑیں جتنی گالیاں کھانے کا اعزاز تنہا مشرف صاحب کو حا صل ہوا ۔
آئینِ نو سے ڈرنے اور طر زِ کہن پر اَڑنے والی پاکستانی قوم بھلا ایک انقلابی جماعت کے قیام کو کیسے ٹھنڈے پیٹوں بر داشت کر سکتی ہے چناچہ اس اعلان کے ساتھ ہی اس نئی پارٹی کے متعلق نہایت مضحکہ انگیز لطائف کا اک سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور بد گمانی کی انتہا تو یہ ہے کہ اگر شیر افگن نیازی نئی جماعت کے وجود میں آنے کی تاریخی خوش خبری سناتے ہوئے فراست سے کام نہ لیتے اور پارٹی کے ساتھ لفظ سیاسی پر زور نہ دیتے تو پاکستانی عوام کی اکثریت مشرف کی اس نو زائیدہ پارٹی کو ان کی طبلے اور سارنگی سے جذباتی تعلق کے سبب بینڈ پارٹی سمجھ لیتی۔ ہم اکثر کم فہم پاکستانیوں کے اس خیال سے تو اتفاق نہیں کرتے کہ مشرف اپنے اور اپنی ٹیم کی ہفت رنگ فنکارانہ صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر سیاسی پارٹی کی بجائے کوئی تھیٹریکل کمپنی ، کوئی میوزیکل گروپ یا پھر لکی ایرانی طرز کی کوئی سرکس بنا لیتے تو زیادہ کامیاب ہوتے لیکن اتنا بحرحال ہم تسلیم کرتے ہیں کہ مشرف اور ان کے حاشیہ نشین ایسے صاحبِ طرز اور ہر فن مولا ہیں کہ رزم ہو یا بزم جس میدان میں جائیں گے فتوحات کے جھنڈے گاڑیں گے اور مخالفین کو خاک چٹوائیں گے ۔
بدقسمتی سے مشرف اور اس کی ٹیم کو پاکستانی قوم کے جس اجتماعی استہزا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی قوم کے غم میں سلگنے والے کسی مصلح نے اس کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھانا چاہا قوم نے طرح طرح سے اس کا مذاق اڑایا اور طنز کے تیروں سے اس کے عزمِ کو چھلنی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مشرف صاحب کا فنونِ لطیفہ و غیر لطیفہ سے شغف اپنی جگہہ لیکن یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ میڈیا پر کھلے عام اس جیسے منفرد لیڈر کے شوقِ طبلہ نوازی پر چوٹ کرتے ہوئے اسے اشاروں کنایوں میں بھانڈ اور میراثی تک قرار دے دیا جائے۔ گائیکی ایک فن ہے اور اگر یہ فن ہمارے کسی لیڈر میں موجیں مار رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے نہ یہ کہ اس کا نہایت بھونڈے انداز میں مذاق اڑایا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشرف صاحب کو مخالفین کے اس گھٹیا حملے کا اپنے مخصوص کمانڈو انداز میں ترکی بہ ترکی جواب دینا چاہیے اور اپنی نئی جماعت کے پہلے باقاعدہ اجلاس میں نہ صرف ڈھول کو اپنا انتخابی نشان قرار دینے کا اعلان کرنا چاہیے بلکہ اپنے منشور میں روٹی ، کپڑا اور مکان کی طرز پے کوئی بینڈ باجوں والا سلوگن بھی دینا چاہیے۔ دورِ حاضر میں کوئی پیشہ اور فن کسی خاص ذات یا قومیت کی جاگیر نہیں رہا۔ ہوائے نو نے اب ہر چیز کو نہایت خوش کن انداز میں آپس میں غلط ملط کر دیا ہے ۔ چناچہ اب میراثیوں کے سیاست کرنے اور سیاست دانوں کے میراثی پن کرنے پے معترض ہونا پرے درجے کی دقیانوسیت ہے۔ ڈوموں کو سیاستدان بننے اور سیاست دانو ں کو ڈوم بننے سے روکنا بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے جس کی ہمارے خیال میں ہر سٹیج پر مذمت ہونی چاہیے۔
کچھ ستم ظریف حضرات مشرف صاحب کے پاکستان قدم رنجہ فرمانے پر طرح طرح کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں جس میں جوتوں اور گندے انڈوں کا بار بار ذکر ہو رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مشرف صاحب بھی پاکستانی عوام کے کھلنڈرے پن کو مدنظر رکھتے ہوئے فوراََ پاکستان آنے کا فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ الطاف بھائی کی طرح لندن میں بیٹھ کر پہلے پاکستانی عوام کی تربیت کرنے کا فریضہ ٹیلیفونک خطابوں سے پورا کیا کریں گے۔ چناچہ جب پاکستانی عوام ذہنی بلوغت کی اس سطح پر پہنچ جائیں گے کہ وہ مشرف صاحب جیسے عظیم لیڈر کی عظمت کا بوجھ برداشت کر سکیں تب وہ پاکستان تشرف لانے کا اعلان فرمائیں گے۔ ویسے بھی الطاف بھائی اور مشرف میں بہت حد تک مماثلت ہے کہ دونوں روایتی سیاست دانوں سے بالکل مختلف ہیں اور بظاہر دیکھنے اور سننے سے کسی طرح سیاست دان نہیں لگتے۔ دونوں مسائل و مصائب کے طو فانوں میں گھرے منہ بسورتے پاکستانی عوام کو اپنے لطائف سے ہنسانے کے فن میں خاص ملکہ رکھتے ہیں اور دونوں ہی ظالم جاگیر دار اور روایتی سیاست دان کو سلطان راہیانہ انداز میں للکارنے پر یقین رکھتے ہیں۔
مشرف صاحب کی نئی جماعت جسکی ترجمانی کا فریضہ فی الوقت تنہا شیر افگن نیازی نہایت فصاحت و بلاغت سے بہ احسن و خوبی فرما رہے ہیں پاکستان کی روایتی سیاست میں ایک دھماکے سے کم نہیں ۔ وہ جاگیر دار نما سیاست دان جو پچھلے چوسٹھ سالوں سے پاکستانی عوام کو رنگ برنگے خواب دکھاکر بیوقوف بناتے آئے ہیں اس انقلابی جماعت کا قیام ان کے لیے یہ للکارہے کہ اب ان کا وقت ختم ہو چکا ہے، اب مظلوم پاکستانی عوام سے طرح طرح کے ڈرامے رچا کر ان کی قسمت سے کھیلنا ان کا تنہا استحقاق نہیں رہا۔ مشرف صاحب کی جماعت کے وجود میں آتے ہی یوں لگ رہا ہے جیسے پاکستان کی سیاسی کتاب کا ورق پلٹنے کو ہے، صدیوں پرانے بر ج الٹنے کا وقت آن پہنچاہے اور تخت گرانے اور تاج اچھالنے کی پاکستانی عوام کی دیرینہ خواہش بھی جلد ہی حقیقت کا روپ دھارنے والی ہے۔ مشرف لیگ کے ستاروں کی تنک تابی دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ صبحِ روشن طلوع ہونے میں اب تھوڑی ہی کسر رہ گئی ہے یعنی اگر مشرف صاحب کے انداز میں کہا جائے تو سیاست میں سارے گاما پادھا نی سا ہونے کو ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.