کیا توہینِ رسالت کی ہر نئی جسارت پر ہماری بے غیرت بریگیڈ کی اچھل کود کو روکنے کے لیے کسی ممتاز قادری کو کسی سلیمان تاثیر کے جسم میں ستائیس روشن دان کھولنا پڑیں گے؟ کیا قانون اور عدالتوں کے کسی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے ہم اپنے فیصلے دینے کی اپنی احمقانہ روش کو کبھی ترک کر پائیں گے؟ پاکستان کے مرکز اسلام آباد میں توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار ہونے والی عیسائی لڑکی کے کیس نے پاکستانی معاشرے میں موجود دو انتہاؤں کو دوبارہ ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ایک طرف مذہب کی اصل روح سے نابلد وہ انتہا پسند ہیں جو واقعے کی جزئیات کو پرکھے بغیر توہینِ رسالت کے قانون کے تحت گرفتار ہونے والے ہر ملزم کو مجرم سمجھتے ہیں اور جوشِ جنون میں یہ بنیادی نقطہ فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اسلام کسی بے گناہ کواذیت دینے یا اس کی جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف سمجھتا ہے تو دوسری طرف مغرب زدہ احمقوں کا وہ غول ہے جو پاکستان کو مادر پدرآزادمغرب کی بے حیا عینک سے دیکھتے ہیں چناچہ توہینِ رسالت جیسے قوانین انہیں نہایت لغو لگتے ہیں اور وہ اس قانون کے تحت گرفتار ہونے والے ہر شخص کو نہ صرف بے گناہ سمجھتے ہیں بلکہ اسے ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ہمارا مظلوم معاشرہ انہی دو جنونی گروہوں کے جاہلانہ خبط کا شکار ہے ۔
جب بھی توہین رسالت یا توہینِ مذہب کے تحت کسی کے خلاف الزام عائد کیا جاتا ہے تو تین ممکنات ہو سکتے ہیں۔پہلا یہ کہ ملزم نے واقعتا توہین کا ارتکاب کیا ہے چاہے کسی بہکاوے میں آکریہ قبیح حرکت کی ہو یا کسی ذاتی بغض نے اسے اس کام پر ابھارا ہو۔ دوسرا یہ کہ الزام عائد کرنے والے شخص کو غلط فہمی ہوئی ہو اور اس نے ملزم کی کسی غیر شعوری حرکت کی غلط تعبیر کی ہو اور تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ الزام عائد کرنے والا کسی ذاتی عناد ، ماضی کی کسی عداوت یا مذہبی و فرقہ وارانہ بغض کا مظاہرہ کر رہا ہو اور مذہب کی آڑ لے کر اپنا کوئی حساب برابر کرنا چاہتا ہو۔ اس حقیقت کا تعین کرنا کہ ملزم نے واقع ارتکابِ توہین کیا ہے یا اسے کسی سازش کے تحت پھنسایا جا رہا ہے نہ مذہبی جنونیوں کا کام ہے نہ ہی مغرب زدہ احمقوں کی ذمہ داری۔پولیس اور عدالتوں کی موجودگی میں یہ کام اپنے ذمے لے کر یہ دونوں طبقے خود کو عقلِ کل اور منصفِ کامل ثابت کرنے کی جو کوشش کرتے رہے ہیں اس نے ہمارے بٹے ہوئے معاشرے کو مزید انتشار زدہ کرنے میں نمایاں کردار اد کیا ہے۔
اس امر سے انکار کرنا انتہا درجے کی سادگی یا حماقت ہو گی کہ ہمارا قانون انتہائی کمزور اور ناقص ہے یہ طاقتور کے لیے کھلونے اور کمزور کے لیے کسی شکنجے کی طرح ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان جیسے ملک میں اس کے کمزور اور پیچیدہ قانون کو اکثر ذاتی مخاصمتیں مٹانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور خود قانون کے نام نہاد رکھوالے زیادہ تر اس گھناؤ نے کھیل کا حصہ ہوتے ہیں لیکن ہر دفعہ خاص توہینِ رسالت کے قانون کے مبینہ سقم کے خلاف بے غیرت بریگیڈ کی طرف سے اٹھنے والا طوفان جس میں ان کے مربی مغربی آقاؤں کی غراہٹیں بھی شامل ہوتی ہیں پاکستان کے عام لوگوں کے لیے ہمیشہ ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتا ہے۔مذہبی اور لبرل انتہا پسندی سے دور ایک عام پاکستانی کے لیے ہمیشہ سے یہ سوال نہایت اہم ہے کہ مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والی ہماری این۔ جی ۔اوز کے پیٹ میں صرف اسی وقت مروڑ کیوں اٹھتے ہیں جب معاملہ ناموسِ رسالت کے قانون کا ہو۔ قتل کے جھوٹے مقدموں میں ٹھوکریں کھاتے مظلوموں کے لیے ان کے پاس ہمدردی کا کوئی بول نہیں ، ناکردہ گناہوں کی سولی پر لٹکتے ہزاروں بے کسوں کے لیے ان کے دل میں کوئی درد نہیں اٹھتا ہاں جب بات ان کے آقاؤں کے ہم مذہب کسی توہینِ رسالت کے ملزم کی ہو تو ان کے مردہ دہن پٹر پٹر بولتے ہیں اور یہ رٹے رٹائیسبق پوری وفاداری اور جانبازی کے ساتھ دہراتی چلی جاتی ہیں اور اپنے خبط میں یہ حقیقت فراموش کر دیتی ہیں کہ توہینِ رسالت کے قانون کے خلاف ان کا سارا واویلا اور بیہودہ گوئی ان کے پسندیدہ ملزم کوفائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچا رہا ہے۔ چناچہ توہینِ رسالت جس کی سزا موت ہے آج تک اس قانون کے تحت تو کسی ملزم کو موت کی سزا پاکستان کی کسی عدالت نے نہیں سنائی ہاں عام لوگوں نے اکثر توہین رسالت کے ان ملزموں کو جن کے حق میں ان مغرب زدہ احمقوں نے مسلسل پروپیگنڈہ کیا خود سزا دی۔
وہ مذہبی جنونی جن میں سے زیادہ تر کا مذہب سے بس روایتی سا رشتہ ہوتا ہے اور وہ عام لوگ جو بھیڑ بکریوں کی طرح ریوڑ کے ساتھ دوڑنے کا وطیرہ رکھتے ہیں توہینِ رسالت کے ہر الزام پہ سیخ پا ہو کر مبینہ ملزم کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ مذہب کا دفاع کرنے اور ناموس رسالت کا تحفظ کرنے کے لیے ان کے مذہب نے کون سا راستہ بتایاہے۔ناموسِ رسالت پر کٹ مرنے کی تمنا رکھنے والے سچے عاشقانِ محمد ﷺ یقیناًاس بنیادی نقظے کو کبھی نہیں بھول سکتے کہ کسی بے گناہ کو کسی بد طینت کے لگائے گئے الزام کی بنیاد پر نشانہ بنا کر وہ کبھی بھی اپنے آقا ؐ کی نظروں میں بلند نہیں ہو سکتے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں زبانی جمع خرچ سے کام لینے والے نبی ؐ کے ایسے مصنوعی عاشقوں کی بہتات ہے جو مذہبی عبادات کی ریاضتوں سے دور بھاگتے ہیں اور ایسے موقعوں کو جب کسی پر توہینِ رسالت کا الزام لگے اپنی عمر بھر کی سیاہیاں دھونے کے لیے غنیمت سمجھتے ہیں۔چناچہ یہ گروہ ملزم کو گھیرنے ، زدو کوب کرنے، مارنے،جلانے جیسے افعال کو اپنے عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ سمجھتا ہے اور ایسے لرزہ خیزافعال سر انجام دے کر خود کو جنت کا حقدار سمجھتا ہے۔
مغرب زدہ احمقوں کے سوا ہر ہوش مند پاکستانی توہینِ رسالت کے قانون کی ضرورت و افادیت سے آگاہ ہے اور یہ جانتا ہے کہ یہ قانون در اصل پاکستانی معاشرے کی مذہب سے وابستگی اور اپنے نبی ؐ سے محبت کا اظہار ہے۔ اس گئے گزرے دور میں بھی پاکستان کا کوئی ادنی سیاہ کار مسلمان بھی اپنے نبیؐ کی شان میں ہونے والی ذرہ برابر گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس لیے ہماری مس این۔جی ۔او کی یہ کوشش نہایت بھونڈی ہے کہ توہینِ رسالت کے قانون کو ختم کرنے سے پاکستانی مسلمان گستاخانِ رسول ؐ کوچھوڑ دیں گے۔یہ قانون دراصل انارکی کی راہ میں ایک بند کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی عدم موجودگی میں ہر شخص خود توہین کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے راستے پر چل پڑے گا جس سے معاشرہ بد نظمی کا شکار ہو گا۔ اس لیے اس قانون کو ختم کرنے کی مغرب اور اس کے ٹکڑوں پر دم اور زبان ہلانے والی ہماری این ۔ جی ۔اوز کی دیرینہ خواہش تو کبھی پوری نہیں ہو سکتی کیوں کہ پاکستان کا کوئی حکمران بھی اس حماقت کا ارتکاب کرنے کی جراء ت نہیں کر سکتا۔ہاں اس قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے مزید قانون سازی کی جاسکتی ہے کیوں کہ انسانوں کا بنا یا ہو ا کوئی بھی قانون حرفِ آخر نہیں ہوتا اور اس میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔توہینِ رسالت کے تحت درج کروائے جانے والے بہت سے الزامات میں یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قانون کو ذاتی عداوتوں یا فرقہ وارانہ رنجشوں کو مٹانے کے لیے بعض بد بخت افراد کی طرف سے ایک ہتھیا ر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کوئی ایسا قانون بنا یا جا سکتا ہے جس کے تحت ان افراد کے خلاف جو کسی بے گناہ شخص کے خلاف کسی سازش کے تحت توہینِ رسالت کا الزام عائد کریں مقدمہ چلایا جائے اور انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے کیوں کہ کوئی بھی ایسا سیہ کار جو نبی ؐ کی حرمت کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والے قانون کو اپنی ذاتی مخاصمتیں مٹانے کے لیے استعمال کرتا ہے نبی کریم ؐ کا سب سے بڑا گستا خ ہے اس لیے کسی ہمدردی اور رعایت کا مستحق نہیں۔
توہینِ رسالت کے قانون کے خلاف واویلا کرنے والے مغرب کے کٹھ پتلے چند بنیادی امور کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اول یہ کہ مذہب بیزار اور ہوس پرست مغرب اورروایت پسند مسلمان معاشروں کے نقطعہ نظر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مغرب جو حضرت عیسیٰ ؑ کا تمسخر اڑانے کو اظہارِ رائے کی آزادی اور ان کے مجسمے پر (نعوذ باللہ) پیشاب کر کے اس قبیح عمل کی تصویر کشی کو آرٹ کا شاہکار سمجھتا ہے کبھی بھی مسلمانوں کے دل و دماغ میں محمد ؐ عربی کے لیے پائی جانے والی محبت کو نہیں سمجھ سکتا ۔مغرب اپنی بیہودہ گوئی نما آزدی کا جو درس اپنی این۔ جی ۔اوز کے ذریعے مسلمان معاشروں کو سکھانا چاہتا ہے وہ اس میں کبھی کامیا ب نہیں ہو سکتا کیوں کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق ان دونوں کی سوچ کبھی ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہماری بے غیرت بریگیڈ آنکھوں پر بندھی ڈالروں کی پٹی کو ہٹاکر اور دل و دماغ پر چھائے بد بختی کے بادل سرکا کر اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے مغربی آقاؤں سے کم از کم اس مسئلے میں ان کا ساتھ دینے سے معذرت کر لے۔ ڈالر بٹورنے کے دستیاب سینکڑوں طریقہ ہائے واردات پر مہارت ہونے کے باوجود اس معاملے میں بھی مغرب کی زبان بول کر سوائے شرمناک ناکامی اور ازلی رسوائی کے اسے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.