نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

مئی 01, 2010

قاید تحریک کی للکار

ایم کیو ایم کے تا ریخی پنجاب کنونشن نے بدامنی اور مہنگائی کے ستائے ہوئے پنجاب کے مظلوم عوام کو جہاں ایک طرف سستی تفریح فراہم کی ہے وہیں اس اجتماع نے ستم رسیدہ پنجابیوں کو الطاف حسین جیسے عظیم راہنما کی صورت میں وہ نجات دہندہ بھی فراہم کیا ہے جو ان کے تمام مسائل و مصائب کو بوریوں میں بند کر کے انہیں ان سے دائمی نجات دلانے کے فن میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے۔اس کنونشن میں ظالم جاگیرداروں کے خلاف الطاف حسین کے نعرہِ مستانہ نے جو اہلِ پنجاب کی اصطلاح میں بڑھک کہلاتاہے بے چارے چو دھریوں اور سرداروں پر لرزہ طاری کر دیا ہے اور انہیں اپنی چودھراہٹیں اور سرداریاں شدید خطرے میں نظر آنے لگی ہیں۔

قائدِ تحریک کے پنجابی عوام سے براہِ راست تخاطب کے اس کامیاب مظاہرے کو ملاحظہ کرنے کے بعد اب ان کو تاہ نظر حضرات کو بھی اپنی رائے فوراََ بدل لینی چاہیے جو اب تک اس عظیم جماعت کو مسخروں اور جو کروں کا ایک بگڑا ہوا ٹولا سمجھتے تھے ا ور آتشِ تعصب انہیں ایم کیو ایم کو متحدہ کی بجائے مسخرہ قومی موومنٹ کہنے پر مجبور کرتی تھی۔
الطاف حسین جب پنجاب کے تین بڑے شہروں کی فضاؤں کو اپنی شعلہ بیانی سے گرما رہے تھے تو حاضرینِ مجالس ان کی قوت تقریر کے ساتھ ساتھ تخیل آرائی پر غیر معمولی گرفت کی بھی مبہوت ہو کر داد دے رہے تھے ۔ پنجاب کے عوام جو اب تک بی بی اور با بو کی بے رنگ تقریریں سننے کے عادی تھے اب جب انہیں الطاف حسین کی سات سروں میں گندھی ظرافت آمیز تقریر سننے کو ملی تو ان کا خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو جانا کچھ ایسے اچنبھے کی بات نہیں۔اہلِ پنجاب کی حسِ مزاح یوں بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے اس لیے امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں قا ئدِ تحریک کے خطابِ خندہ انگیز سے لطف لینے کے لیے وہ جوق در جوق ایم کیو ایم کے کنو نشنوں میں آیا کریں گے۔ قیاس یہ کیا جا رہا تھا کہ پنجاب حکومت قائدِ تحریک کی انقلابی آواز کو پنجاب کے عوام کے کانوں تک نہیں پہنچنے دے گی اور عوامی انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکائیں جائیں گے لیکن شہباز حکومت کو قائدِ تحریک کی مقبولیت کا کچھ اس قدر یقین تھا کہ نہ صرف ایم کیو ایم کے کنونشن کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی بلکہ شہباز شریف نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایم کیو ایم جہاں چاہے جلسہ کر سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں شہباز شریف پنجاب میں آلات و وسائلِ تفریح کی کمی سے اچھی طرح واقف ہیں چنا چہ انہوں نے ایم کیو ایم کے پنجاب کنونشن کے ذریعے اہلِ پنجاب کو ہنسنے بولنے کا ایک موقع فراہم کیاہے۔


قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک بد قسمتی سے پاکستانی عوام کی تقدیروں سے کھیلنے کا حق چند مخصوص افراد اور جماعتوں تک محدود تھا ۔ کبھی بنیادی جمہوریتوں کا جھانسا دے کر کبھی روٹی کپڑے اور مکان کانعرہ لگا کر کبھی مذہب کے دھوکے سے اور کبھی روشن خیالی کے سبز باغ دکھا کر پاکستان کے سادہ لوح عوام کوچند گنے چنے افراد اول روز سے ہی تابہ مقدور بے وقوف بناتے آئے ہیں۔ اکیسویں صدی نے سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے معلومات کا وہ طوفان برپا کیا ہے کہ اب عوام الناس کو الو بنا کراوران کے حقوق غصب کر کے چین کی بنسری بجانا اتنا آسان نہیں رہا جتنا پہلے تھا۔ میڈیا کے ذریعے عوامی شعور کی بیداری نے روایتی سیاست دانوں کے کھوکھلے اور زنگ آلود نعروں کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے چناچہ اب عوام کو مزید بے وقوف بنانے کے لیے ان خالی کارتوسوں سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم جو زمانہ شناس نوجوانوں کی ایک نہایت ہی منظم جماعت ہے حالاتِ حاضرہ کی اس کروٹ پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ۔ ایم کیو ایم جانتی ہے کہ فرسودہ نعروں سے عوام کو گمراہ کرنا اب ممکن نہیں رہا ۔ چناچہ متوسط طبقے کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کا نیا نعرہ لگا کر اس منفرد جماعت نے پاکستان کی روایتی سیاست میں کھلبلی مچا دی ہے۔وہ ظالم جاگیر دار جو روزِ ازل سے غریب کسانوں اور پسے ہوئے مزارعوں پر ظلم و ستم کے کوہِ گراں توڑتے آئے ہیں ایم کیو ایم کی للکار کا نشانہِ خاص ہیں۔ مشرف دور سے قبل الطاف بھائی ظالم جاگیر دار وں کے ساتھ جملہ آمروں کو بھی بے نقط صلواتیں سنایا کرتے تھے ارو ان کی مٹی پلید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے لیکن مشرف کی گود میں چند سال بیٹھ کراقتدار کے جام سے اصولی لذت کوشی کے بعد اب انہیں آمریت اتنی قابلِ نفرت نہیں لگتی کہ ہر تقریر میں اس کے لتے لیے جائیں۔ اگر پنجاب کے ظالم جاگیر داروں نے بھی مشرف کی طرح ایم کیو ایم کو مناسب مقدارمیں گھاس ڈال دی اور اسے پنجاب میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا تو امید کی جاسکتی ہے کہ قائدِ تحریک ظالم جاگیر دار کےخلاف بھی اپنی للکار پر نظر ثانی فرما لیں۔


پنجاب کے عوام جو اب تک ڈنڈوں اور سوٹوں والی ڈھیلی ڈھالی سیاست سے آشنا تھے ایم کیو ایم کے پنجاب میں نزول کے بعد اب انہیں تڑ تڑاتی ہوئی گولی بردار سیاست کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو جانا چاہیے۔ اس انوکھی جماعت سے پنجاب کے عوام کو نت نئے دلچسپ تجربوں سے شناسائی کا موقع ملے گامثلاََ وہ بوریاں جنہیں وہ اب تک دانہِ گندم و دھان وغیرہ کو محفوظ رکھنے کیلئے استعمال کرتے آئے ہیں اب ان کے نئے نئے حیرت انگیز استعمال ان کے سامنے آئیں گے۔اسی طرح بھتہ خوری کا فنِ خصیص جو اس سے پہلے اچکے بدمعاش نہایت ہی بھونڈے اور اجڈ انداز میں برت رہے تھے اب ایم کیو ایم کی آمد کے بعد اسے منظم انداز میں جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا جائے گا۔غرض ایم کیو بہارِ تازہ کے جھونکے کی طرح گلستانِ پنجاب کو ہر معاملے میں ترو تازہ کر دے گی۔


ایم کیو ایم کے ان جانثار کارکنوں کو جنہیں یہ کنونشن کامیاب کرنے کے لیے کراچی سے بطور خاص در آمد کیا گیا تھا اگر شرکائے مجلس کی مجموعی تعداد میں سے منہا بھی کر دیا جائے تو پیچھے کرسیوں کے علاوہ خاصی تعداد ان حاضرین کی بچتی ہے جو بقائمی ہوش وحواس اس محفلِ دلپذیر سے حظ اٹھانے آئے تھے۔ اس کثیر تعداد میں اہلِ ذوق کا پنجاب کنونشن میں حاضری دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ایم کیو ایم کا سورج پنجاب میں بھی طلوع ہونے کو ہے اور قائدِ تحریک کے وہ دلچسپ خطاب جو اہلِ کراچی کی سماعتوں میں رس گھولا کرتے تھے اب پنجاب کے عوام بھی ان سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ سلطان راہی مرحوم کے قتل کے بعد یوں بھی اہلِ پنجاب ایک طویل عرصے سے اپنے صوبے کی فضا میں جوش آور بڑھکوں کی کمی شدت سے محسوس کر رہے تھے امید ہے کہ قائدِ تحریک کی پاٹ دار للکار یہ کمی بہت حد تک پوری کر دے گی۔ اسی طرح لاہور کے مزا حیہ تھیٹر جو قابل فنکاروں کی عدم دستیابی کے باعث تیزی سے زوال پذیر ہیں قائدِ تحریک کی تقریریں ان کے احیا کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔


محرومیوں اور مجبوریوں کے پنجے میں جکڑے ہوئے پنجاب میں یوں تو ایم کیو ایم کو اپنے اصولوں کی سیاست کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا تاہم چند معمولی نوعیت کے مسائل ہیں جن سے نپٹنا ہی ایم کیو ایم کا پنجاب میں اصل امتحان ہو گا۔ کراچی کے تعلیم یافتہ عوام کے بر عکس جو پچھلے لگ بھگ ڈیڑھ درجن سالوں سے الطاف بھائی کے ٹیلیفونک خطابوں کو سنتے سنتے اس فنِ لطیف میں کمال حاصل کر چکے ہیں پنجاب کے نسبتاََکم تعلیم یافتہ عوام کو اس نازک فن پر عبور حاصل کرنے کے لیے کچھ وقت درکار ہو گا۔ ایم کیو ایم کو اپنی فکری نشستوں کے ذریعے جن میں ٹیلیفونک خطاب سننے کے آداب و فوائد پر مفصل بحث کی جائے اہلِ پنجاب کی تہذیب و تربیت کا فوراََ انتظام کرنا چاہیے ۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ قائدِ تحریک دیارِ فرنگ چھوڑ کر اپنے اس پیارے دیس واپس تشریف لے آتے جس کی فلاح و بہبود کا خیال انہیں ایک دم کے لیے بھی چین نہیں لینے دیتااور وہ اپنے کارکنوں کے درمیان رہ کر متوسط طبقے کے انقلاب کی راہنمائی کرتے لیکن بدقسمتی سے قتل ،اغوا اور ریپ کے وہ 234 جھوٹے مقدمات جو مخالفین نے قائدِ تحریک کی مقبولیت سے خائف ہو کر ان کے خلاف درج کروائے تھے قائد کی واپسی میں سدِ راہ ہیں۔ ہمارے خیال میں ایم کیو ایم کو ان 234 کیسوں کے مدعیان، گواہان اور وارثان کی صفائی کا کام تیزتر کر دینا چاہیے تا کہ قائدِ تحریک کی واپسی کی راہ میں حائل تمام روڑوں کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگا کر پاکستانی سر زمین کو قائدکی قدم بوسی کا اعزاز جلد سے جلد بخشا جا سکے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے پر ن لیگ و پیپلز پارٹی کا اجارہ ختم کر کے عوام کی جماعت کو عوام کی خدمت کا بھر پور موقع دیا جائے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا درخشاں ریکارڈ بتاتا ہے کہ جیسی عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ اور صلاحیت اس جماعت میں ہے اور کسی کو نصیب نہیں۔ قائدِ تحریک کی للکار سے اگر اونگھتے ہوئے پنجابی جاگ پڑے تو یہی بیداری نویدِ انقلاب ثابت ہو گی۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.