پیپلز پارٹی نے سابقہ دورِ حکومت میں اپنی روز افزوں کرپشن اور نااہلیوں پر
پردہ ڈالنے کے لیے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کاجوشوشہ چھوڑا تھا وہ
اب بر گ و بار لاناشروع ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں لسانی تعصب کو ہوا دے
کرپیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکارکھیلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلم لیگ
نون کی سیاسی قوت توڑنے کے ساتھ ساتھ اس شوشے کا بڑا مقصد محرومی کے شکار
عوام کے دکھوں کا استحصال کر کے اپنی شرمناک پرفارمنس سے ان کی توجہ ہٹانی
تھی۔مئی 2013 کے الیکشن میں جنوبی پنجاب کے عوام نے پیپلز پارٹی کو یکسر مسترد کر
کے یہ واضح پیغام دیا کہ نئے صوبے کے سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بنانے
کا زمانہ اب گزر چکا ہے ۔ سرائیکی صوبے کے نعرے پر خود جنوبی پنجاب والوں
سے زیادہ ایم کیو ایم کو جو خوشی ہوئی وہ دیدنی
تھی۔ ایم کیو ایم نے نہ صرف
اس مطالبے کی دل و جان سے حمایت کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر صوبہ ہزارہ کی
پھلجڑی بھی چھوڑ دی۔ اہلِ نظر کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ ہو نہ ہو دال
میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے خیال
پر یوں ریجھ ریجھ نہ جاتی۔
اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائےجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔حیرت ہے کہ جب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔
اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائےجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔حیرت ہے کہ جب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔
پنجاب کو تقسیم کرنے اور سندھ کو تقسیم نہ ہونے دینے کا دعویٰ کر کے پیپلز پارٹی دراصل خود کو ایک قومی جماعت کی بجائے
علا قائی پریشر گروہ بنانے پر مصر ہے ۔ یہ منطق نہایت مضحکہ خیز ہے کہ پنجاب میں چونکہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک محدود ہے اور اس کی تقسیم کی صورت میں نون لیگ کو زک پہنچنے کا چانس ہے اس لیے یہ تقسیم نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے جبکہ سندھ میں چونکہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے اس لیے تقسیم کی صورت میں اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے پس یہ تقسیم نہ صرف ناجائز بلکہ سخت حرام ہے ۔ جہاں مخالف جماعت کی طاقت توڑنے کی بات ہو وہاں تقسیم مباح اور جہاں اپنے مفادات کو ٹھیس لگنے کا احتمال ہو وہاں حرام، پیپلز پارٹی کے اس فلسفے کو سمجھنا آسان نہیں۔ پنجاب کی تقسیم کے خوشی خوشی منصوبے گھڑتے ہوئے اگرپیپلز پارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ انگارے سندھ میں اس کے گھر تک نہیں پہنچیں گے تو یہ اس کی بہت بڑی خوش فہمی تھی۔ پنجاب کی تقسیم کا آئیڈیا پیش کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے یہ ثابت کرنا آسان نہیں کہ سندھ کی موجودہ جغرافیائی حد بندی چونکہ آسمانی صحیفہ ہے اس لیے اس میں ردو بدل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دلیل یہ دی جائے کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ہے تو سندھ کی آبادی بھی کچھ کم نہیں۔ اگر دس کروڑ آبادی والے صوبے کو تقسیم کیا جا سکتا ہے تو پانچ کروڑ کی آبادی والے صوبے کو تقسیم کرنے میں کیا حر ج ہے؟
ایم کیو ایم بھی انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کے پردے میں اپنے لسانی
تعصب کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ اس کی نظریں کراچی
کے الگ صوبے پر ہیں جس کو بھلے ہی انتظامی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے لیکن
اس میں لسانی عنصر بحرحال غالب رہے گا۔ یہی حال ہزارہ اور سرائیکی صوبے کا
ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ترقی کے کتنے بھی زینے کیوں نہ طے کر
جائیں ان کی سوچ اور نظر کی تنگی چھپائے نہیں چھپتی۔ نئے صوبے کے قیام کا
خیال برا نہیں بلکہ وقت کی عین ضرورت ہے لیکن جہاں نیتوں میں کھوٹ ہو وہاں
اچھے اچھے منصوبے فتنہ و فسادکا موجب بن جاتے ہیں ۔سیاسی بحران کی جس کیفیت
سے ملک گزر رہا ہے اس میں ایک نئے مسئلے کو چھیڑ دینا بے وقت کی راگنی
نہیں بلکہ ایم کیو ایم کی نہایت نپی تلی چال ہے۔ اب اس چال کی لپیٹ میں کون
آتا ہے ، کون پٹتا ہے اور کس کی نیا پار لگتی ہے اس کا تعین آنے والا وقت
کرے گا۔ یوں لگ رہا ہے کہ ’لے کے رہیں گے اور بٹ کے رہے گا‘ کے نعرے
دوبارہ گونجنے کا وقت آ پہنچا ہے ۔
میری رائے میں نئے صوبوں کے قیام کا فیصلہ سیاسی یا لسانی بنیادوں کے بجائے سماجی اور ٹیکنیکل بنیادوں پر ہونا چاہئے۔ دوسرے ممالک میں جہاں صوبوں کی مزید اتنظامی تقسیم کی گئی ہے ان ممالک کا جائزہ لیا جائے کہ اس تقسیم سے انہیں کیا سیاسی یا سماجی فوائد یا نقصانات ہوئے ہیں۔ اور اس تحقیق کی روشنی میں اربن پلانرز اور شوسیالوجسٹس پر مشتمل ٹیکنیکل کمیشن یہ فیصلہ کرے کہ انتظامی یونٹس میں اضافہ کیا جائے یا نہیں۔
جواب دیںحذف کریںلیکن ہمارے جیسے ملک میں جہاں عوام کی اکثریت ناخوندہ ہو ٹیکنکل معاملات پر بس سیاست کی جاتی ہے ۔۔۔ جیسے ڈیمز کا معاملہ ہے۔
بالکل صائب مشورہ ہے آپ کا۔ میرے نزدیک انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام میں کوئی حرج نہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتیں لسانیت کے بھوت سے جان نہیں چھڑا پا رہیں اس لیے اب اس ایشو پر سیاستیں ہوں گی، نعرے لگائے جائیں گے اور لاشیں گرائی جائیں گی۔
حذف کریں