نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

اپریل 02, 2010

پاکستان کا دکھ

اس روح فرسا خبر نے کہ ہمارا ازلی دوست امریکا افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور سنگ دل طالبان سے کامل نو سال تک سر ٹکرانے کے بعد اب وہاں سے با عزت طور پر بھاگنے کے منصوبے بنا رہا ہے ہمیں شدید غم و اندوہ میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ امریکا ایک طویل مدت تک سرزمینِ افغانستان پر گولہ بارود کے ذریعے اپنی تہذیب و شائستگی کے پھول بکھیرتا رہے گااور دہشت گردی کی جنگ کے صدقے ہم پر امریکا اور آسمان سے رحمتوں کے نزول کا سلسہ جاری رہے گالیکن ایسا اندو ناک منظر تو ہم اپنے بدترین خواب میں بھی تصور نہ کر سکتے تھے کہ ہمارا فاتح عالم دوست اجڈ اور گنوار طالبان کے چھوٹے چھوٹے حملوں سے ڈر کر اتنی جلدی سر پر پائوں رکھ کر بھاگنے کی نیت کر لے گا۔


ہم جانتے ہیں کہ افغانستان کی ستم گرآب وہوا ہمارے گلفام دوست کی طبع نازک کے لیے کسی طرح مناسب نہیں ۔ ہمیں اس کا بھی پورا پورا ادراک ہے کہ ویت نام کے جنگلوں سے اٹھنے والے بخارات اور افغانستان کے پہاڑوں سے اٹھنے والی گرد ہمارے نازو و نعمت کے پلے دوست کی صحت کے لیے کس حد تک زہر ناک ہیں پر گزشتہ نو سال کی قربت اور نگاہِ یار کے افسوں نے ہمیں اس قدر دیوانہ بنا دیا ہے کہ اب اس کے ہمارے پہلو سے رخصت ہونے کا خیال ہی ہم پر اداسی طاری کر دیتا ہے۔یہ سوچ کہ جیبِ یار سے آنیوالی ڈالروں کی وہ مدھر مہک جس نے پچھلے نو سال سے ہمارے مشامِ جاں کو معطر کیے رکھا اب بہت جلد داغِ مفارقت دینے والی ہے ہمیں ابھی سے گلوگیر کر رہی ہے۔ ایک باوفا اور ناز پرور دوست کی قربت کسی دوست آشنا کے لیے کیا معنی رکھتی ہے اس کا اندازہ وہی لوگ بہتر کر سکتے ہیں جنہوں نے کسی تنِ سیمیں کی نزدیکیوں سے لذتِ کام و دہن کیا ہو اور فرقتِ یار قلب و نظر پے ستم کے کیا پہاڑ ڈھاتی ہے اس کا اندازہ بھی صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے ہجر کی کٹھنائیاں کاٹی ہوں۔ ہمارا درد بھی کوئی اہلِ نظر ہی سمجھ سکتاہے۔

آج سے نو سال قبل جب ہمارے دوست امریکا نے نائن الیون کی جادوئی رتھ پے سوار ہو کراپنے پورے طمطراق کے ساتھ گرجتے برستے سر زمینِ افغانستان پر قدم رنجہ فرمائے تھے تو ہمیں یقینِ کامل تھا کہ اب چودہ سو سال قبل کے فرسود ہ خیالات و نظریات رکھنے والے طالبان کی گھگی بندھ جائے گی۔ قربتِ یار کی لذت اور اس لذت سے اٹھنے والے نشے نے ہمیں کبھی یہ سوچنے کی کی فرصت ہی نہ د ی کہ یوں شیر کیطرح دھاڑتے ہوئے ہمارے پڑوس میں وارد ہونے والا ہمارا یہ دوست کبھی گیدڑ کی طرح دم دبا کرتشریف لے جانے کی بھی سوچ سکتا ہے۔ دورِ نو کی برکات عالیہ سے سے محروم اور تہذیبِ حاضر کے تقاضوں سے ناآشنا ہمارے وہ تنگ نظرعوام جو طالبان کے ساتھ ہمارے طوطاچشم رویے پر چیں بہ جبیں تھے اور جنہیں ہمارا یوں امریکا کی پہلی جھلک کے ساتھ ہی اس پر فریفتہ ہو کر طالبان سے نظریں پھیر لینا شائستگی اور انسانیت کے جملہ قواعد کے خلاف لگتا تھا ہم نے انہیں اپنے ان نامور دانش وروں کے ذریعے جو ہم نے خاص ایسے ہی مواقع کے لیے پال رکھے ہیں اور جن کی دانش ان کی توند کی حد وں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتی یہ باور کروا دیا تھا کہ اب طالبان کا روئے ارضی سے مٹ جانا لوحِ تقدیر پر ثبت ہو چکا ہے کہ منطقی طور پر دیکھا جائے تو بی-باون طیاروں کا مقابلہ کلاشنکوفوں سے کرنا ایسے ہی ہے جیسے چیونٹی کو ہاتھی کے مقابل کھڑا کر دیا جائے۔ ہم نے اپنے ان خلاق تجزیہ نگاروں کو جنہیں دکانِ مغرب سے خوشہ چینی کرنے میں کمال حاصل ہے او ر جو دانش افرنگ سے اپنے تجزیوں کے دیے اس جادوگری سے جلاتے ہیں کہ عقل اور شرافت دنگ رہ جاتے ہیںخاص اس کام پر مامور کر دیا تھا کہ وہ برکاتِ قربتِ امریکیہ پر دن رات لیکچر دیا کریں اور اپنی اصلی اور نقلی دلیلوں سے ہمارے جاہل عوام کو یہ سمجھائیں کہ طالبان سے ہمارے دیرینہ تعلقات ،تہذیب وشرافت اور حقوقِ ہمسائیگی کے جملہ نظریات امریکا کی ایک نگاہِ ا فسوں ناک کے سامنے کس طرح خاک ہیں۔

ہم نے اپنے تئیں طالبان کو بھی صراطِ مستقیم پر چلانے کی مقدور بھر کوشش کی تھی۔امریکا کی آتش مزاجی کے تاریخی حوالے دے دے کر ہم نے ناسمجھ طالبان کو بارہا یہ درس دیا تھا کہ امریکی مطالبات کے سامنے سر بسجود ہو جانا ہی عقل و خرد کا تقاضا اور افغانستان کے وسیع تر مفاد کے عین مطابق ہے۔ ہم نے گنوار طالبان کو سو سو طرح سے احساس دلایا تھا کہ امریکا کے ان ہولناک بموں اور میزائلوں سے مقابلہ کرنے کا خیال خام جو پہاڑوں تک کا سینہ چیر کر رکھ دیتے ہیں اورجو جہاں گرتے ہیںاردگرد کی آکسیجن سلب کر کے جینے کے سارے اسباب بھسم کر دیتے ہیں نہایت درجے کی حماقت کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ طالبان ہماری نافرمانی کرنے کے باوجود اورہماری صدیوں کی آزمودہ صائب رائے کو پائوں تلے روندنے کے باوصف آج بھی نہ صرف افغانستان میں دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ کمال دیدہ دلیری سے ہمارے دوست کے مورال کا تیاپانچہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارے خیال میں طالبان کے اتنے ہیبت ناک بموں اور میزائلوں کو خاطر میں نہ لانے کی صرف دو ہی وجوہات ہو سکتی ہے کہ یا تو ان بموں میں کسی وجہ سے تکنیکی خرابی رہ گئی ہے جس نے انہیں ان کی تاثیر سے محروم کر دیا ہے یا پھرطالبان سائنس سے نابلد ہونے کی وجہ سے انسانی زندگی میں آکسیجن کی اہمیت سے ہی ناواقف ہیں۔

پچھلے نو سالوں میں جیسے جیسے طالبان کی تخریبی سر گرمیاں ہمارے دوست کے سکونِ قلب کو تہہ وبالا کرنے لگیں ہم نے اپنے تئیں اس کی ہر ممکن مدد کی ۔ اپنے دوست کے سر سے آفات و بلیات کے منحوس سائے ہٹانے کے لیے ہم نے دہشت گردی کی دیوی کے چرنوں میں اپنے ہزاروں قربانی کے بکروں کی بھینٹ نہایت شان سے چڑھائی ۔ افغانستان کے طالبان کی امریکا کش کاروائیوں کا بدلہ ہم نے اپنی زمین پر پاکستانی طالبان کا قلع قمع کر کے لیا۔ تبسمِ یار کی ایک جھلک کے حصول کے لیے ہم نے جس خشوع و خضوع سے اپنے قبائلی علاقوں پر آگ و آہن کی بارش کی اس کا عشر عشیر بھی اگر71ء میں ہم بھارت کے خلاف استعمال کرتے تو ہمیں یقین ہے کہ مشرقی پاکستان کبھی بنگلہ دیش نہ بنتا۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ امریکا کی گود نشینی میں ہمارے جی کے ساتھ ایمان کے ضیاع کا بھی خدشہ ہے لیکن اس امر میں ہمارا اصول یہ ہے کہ جس کو دین ودل عزیز ہو امریکا کی گلی میں جائے ہی کیوں؟

اب جب کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری ساری تگ و دو اور قربانیوں کے باوجود ہمارا دوست افغانستان سے اپنابوریا بستر اور گولہ بارود گول کرنے کے چکر میں ہے ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کس کو اپنا دکھڑا سنائیں ؟ اپنی آہِ بے اثر کو کوسیں یا اپنی تقدیرِ شکستہ کا ماتم کریں ۔ ہم سوچتے ہیں کہ جب امریکا رخصتِ سفر باندھے گا تو ہمارا قلبِ حزیں کیسے اس المناک منظر کی تاب لائے گا ؟ گزرے ہوئے لمحاتِ خوش کن کی یاد سے کلیجہ منہ کو آئے گا اور وہ تمام گیت جوعاشقانِ نامراد اپنے محبوبوں کے بچھڑنے پے کبھی سر میں اور زیادہ تر بے سرے گایا کرتے ہیں ہمارے ہونٹوں پر آ آکر دم توڑیں گے۔ دلدار دوست کی ناز پروریاں اور زود رنجیاں ہمیں رہ رہ کر یاد آئیں گیا اور وہ ادائیں اور گھاتیں کہ جب کھبی ہمارے دوست کی پیشانی کسی وجہ سے شکن آلود ہوتی ہم اپنے قبائلی علاقے کی کسی مسجد ، کسی مدرسے یا کسی گائوں پر بمباری کر کے اس کے نازک ہونٹوں کی مسکان واپس لے آتے اور اسی طرح جب کھبی ہمیں غصہ آتا ہمارا ادا شناس دوست ڈالروں کے نئے توڑے بھیج کر ہمیں ہشاش بشاش کر دیتایہ ساری باتیں ایک ایک کر کے یاد آئیں گی اور ہمیں بے طرح رلائیں گی۔

موسمِ ہجر کے بڑھتے سائے ہیں اور ہم دشتِ یاس میں حواس باختہ و برہنہ پا سر گرداں ہیں۔جب وہ گل رو رخصت ہو گا کہ جس کے دم سے ہماری نگاہ میں چمک اور اور قلب میں رونق ہے تو ہم کس طرح ان اجڈ طالبان کےطعنے سنیں گے جنہیں دنیا کے 44 ممالک مل کر بھی نو سالوں میں انسانیت کا سبق نہ سکھا سکے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے دوست کی دم پر طالبان کا پائوں زیادہ زور سے پڑ رہا ہے اور اس کی دردناک چیائوں ہماری نیندیں اڑا رہی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ دوست کے رخصت ہونے پر طالبان کی نظر کہیں ہماری دم پر نہ پڑ جائے۔ لوگو کیا ستم ہے کہ طالبان کو امریکا سے ڈراتے ڈراتے ہم خود ڈر کی صورت بن گئے ہیں۔ جس کھونٹے کے زور پر ہم دہشت گردی کی جنگ کے کارزار میں اندھا دھند اچھلتے رہے اب اس کے اکھڑنے کا سن کر جانے ہماری سانسیں کیوں اکھڑ رہی ہیں! ہمارا دکھ کون سمجھ سکتا ہے ۔ ہمارے دوست کو طالبان کی شر پسندیوں سے ذرا فرصت ملتی تو ہمارا دکھڑا سنتا اور سمجھتاپر اسے تو جانے کی پڑی ہے ہم اب کس کو اپنا دلِ ریزہ ریزہ دکھائیں؟؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.