پاکستانی قوم کو روشن خیال اعتدال پسندی کے جھولے پے اٹھکیلیاں کرتے ابھی کچھ زیادہ مدت نہیں بیتی لیکن اس کے ثمرات نے اس دیس کے کوچہ و بازار کوابھی سے معطر کرنا شروع کر دیا ہے۔ چارسو پھیلتی حسینانِ توبہ شکن کے جاں فزا جلوں کی بہتات ، پروینانِ نیک آرا کے عاشقانِ پاک طینت کے ہمراہ بھاگنے کے روز افزوں واقعات اور رشوت ستانی و بد عنوانی کے پھلتے پھولتے کاروبار پہ ہمارے حکمرانوں کا شفقت بھرا ہاتھ یہ سب واضح علامات ہیں اس امر کی کہ روشن خیالی کے نخل نے برگ و بار لانا شروع کر دیے ہیں اور اب پاکستان بھی ترقی و خوشحالی کی ریس میں سرپٹ دوڑنے کے قابل ہو گیا ہے۔
وہ انتہا پسند اور قدامت پرست طبقہ جو پاکستان کو روشن خیالی کے زینے پر چڑھتے کسی صورت نہیں دیکھ سکتا اور جو ہمیشہ اس تاک میں رہتاہے کہ کب موقع ملتے ہی پاکستان کی ٹانگیں کھینچ کر اسے واپس رجعت پسندی کے دوزخ میں دھکیل دیا جائے حالاتِ موجودہ پر نہایت غمگین ہے اور اس بے چارے کو سمجھ نہیں آرہی کہ روشنیوں کے اس سیلاب کا کیسے مقابلہ کیا جائے۔ چناچہ کو ئی مناسب صورت نہ پاکر اب یہ طبقہ اوچھے ہتھکنڈوں سے اس شمع کو بجھانے کے درپے ہے جسے حضرت مشرف اپنے مبارک ہاتھوں سے روشن کر گئے تھے۔ سوات والی ویڈیو کے خلاف حالیہ دنوں اٹھنے والا طوفان درا صل انتہا پسندوں کا ایسا ہی ایک اوچھا وار ہے جس کی مدد سے وہ روشن خیالی کے خوبصورت چہرے تلے چھپی مکر و فریب کی جھریوں کی اشاعت عام کر کے اسے چاروں شانے چت گرانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس خبر نے کہ ایک سال پہلے سوات آپریشن سے قبل منظر عام پر آنے والی وہ ویڈیو جس میں ایک نوجوان لڑکی کو سرِ عام کوڑے ماے جاتے دکھایا گیا تھا اور جس کا سہرا طالبان کے سر باندھا گیا تھا کلی طور پر جعلی تھی ہمارے انتہا پسند طبقے کے شکستہ حوصلوں اور پست امیدوں میں جان ڈال دی ہے ۔ چناچہ اس ویڈیو کلپ کی کامیاب ڈائریکٹر اور پروڈیوسر محترمہ ثمر من اللہ کی شان میں نہایت نامناسب گستاخیوں کا ایک غیر مختتم سلسہ شروع ہو گیا ہے جس میں انہیں اور ان کی این۔ جی۔ او ایتھنو میڈیا کو امریکا کی پالتو ایجنٹ اور مغرب کی زرخرید آلہ کار ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف قدامت پرست اس واقعے کے ذریعے ہماری پیاری این ۔ جی۔ اوز کے ان چہروں کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اب تک نہات کامیابی سے تہذیب و شائستگی کے میک اپ تلے چھپے ہوئے تھے تو دوسری طرف روشن خیال اس فتنہ ساماں ویڈیو کو اصلی ثابت کرنے کے لیے کمر کس کر میدان میں اتر آئے ہیں اور ایسے ایسے دلائل اور نکات اٹھا رہے ہیں جن میں دلیل سے زیادہ ان کے جدت طبعی اور نکتہ رسی جھلکتی ہے۔غرض ان دونوں متحارب گروپوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے اور ہمارے جیسے ضروریاتِ زمانہ اور سیاستِ حاضرہ سے ناواقف سر بہ گریباں ہیں کہ کس کی بات مانیں اور کس کو جھو ٹا گردانیں۔ البتہ حالیہ دنوں میں ہماری حکومت کے کارپرداز خصوصاََہمارے وزیر داخلہ صاحب نے جس شدومد سے اس ویڈیو کے اصلی ہونے کا بار بار اعلان کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے ہمیں گمان ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو واقعتا جعلی تھی ۔
قطع نظر اس امر سے کہ یہ ویڈیو اصلی تھی یا نقلی اس سے نہایت مختصر مدت میں متنوع فوائد حاصل ہوئے۔ طالبان کے خلاف اس ویڈیو نے ہمارے سادہ لوح عوام کی رائے ہموار کرنے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ پاکستانی عوام جو پچھلے کئی برسوں سے طالبان کے خلاف پھس پھسی حکومتی دلیلیں اور آئی۔ ایس ۔ پی۔ آر کے مضحکہ خیز بھاشن سن سن کر عاجز آچکے تھے اور جنہیں یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ جارح امریکی استعمار سے بر سرِ پیکار طالبان کے خلاف ہماری اس حکومت کی بات کیسے مان لیں جو غلامیِ مغرب میں اپنا تن من نچھاور کر کے کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے ۔ یہ ایک تاریخی امر ہے کہ یہود و نصاری کی دوستی پاکستانی عوام کے گلے سے کبھی بھی نہیں اترپاءی۔ چناچہ منظر نامہ یہ تھا کہ امریکی ڈور پر تھر کتی ہماری حکومت کا اپنی ہی سر زمین پر آپریشن کرنے کا فیصلہ عوام الناس میں سخت غیر مقبول تھا کہ اچانک مارچ 2009 کو ایک بے بس لڑکی کو مبینہ طالبان کے ہاتھوں کوڑے کھاتے دکھا کر کایا پلٹ دی گئی۔ پاکستان کی بھولی بھالی عوام جو 1971میں بھی مکتی باہنی اور بھارتی افواج کے خلاف ہماری بہادر افواج کی فتوحات پر آخری دم تک سر دھنتی رہی اب پھر جھانسے میں آگئی۔ ہماری فوج کے جوانوں کے ڈانواں ڈول مورال کے لیے اس ویڈیو نے مہمیز کا کام کیا اور محمد بن قاسم کے فرزند ایک بے کس لڑکی کی مظلومانہ پکار پر لبیک کہتے ہوئے میدانِ کارزار میں دیوانہ وارکود پڑے۔ سوات آپریشن کی برکت سے آپریشن در آپریشن کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس نے پاکستان کی معاشی اور سماجی حالت کو بے حال کر دیا۔ ان آپریشنوں میں بہنے والے خونِ ناحق کی ذمہ داری جہاں امریکہ کی بے لگام استعماری خواہش اور پاکستان کی دا ئمی ہوسِ زر ہے وہیں اس ویڈیو جیسے چھوٹے چھوٹے عوامل نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس ویڈیو کے جعلی ہونے کے انکشاف نے جہاں ان تمام تجزیہ نگاروں اور دانش وروں کو کھسیانا کر دیا ہے جو اس کے ظہور پذیر ہونے پر گھنٹوں اس کی مذمت میں نہایت پر مغز اور پر اثر تبصرے کرتے رہے وہیں وہ سیاسی پارٹیاں جو اس کے سامنے آنے پر انسانی حقوق کے چیمپین بننے کے شوق میں اس کے خلاف نہایت جوشیلے مظاہروں کا اہتمام کرتی رہیں اب اصل حقیقت کے کھلنے پر دَم سادھے اور دُم دبائے بیٹھی ہیں۔ ہمارے میڈیا نے جو اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے پہ نہایت جوش و خروش سے اس کی ترویج میں دن رات مشغول رہا اب دوسری تصویر سامنے آنے پر نہایت ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے چپ ہے۔
ہم یہ تو نہیں جانتے کہ طالبان کو رسوا کرنے والے اس منفرد آئیڈیے نے محترمہ ثمر صاحبہ کے خلاق دماغ میں جنم لیا یا ہمیشہ کی طرح اس کی پشت پر دانشِ افرنگ کار فرما ہے لیکن اتنا بحرحال واضح ہے کہ کسی قوم کو بحیثیتِ مجموعی الو بنانے کی شاید ہی کوئی ایسی مثال اس سے قبل موجود ہو۔اگر یہ محترمہ ثمر صاحبہ کی تخلیق ہے تو ان کے ذہنِ رسا کی داد دینی چاہیے اور ہمیں بحیثیتِ قوم فخر کرنا چاہیے کہ ہماری سر زمین نے مشرف کی روشن خیالی کے صدقے ایسے دیدہ ور پیدا کرنے شروع کر دیے ہیں جو کسی عالی مقصد کے حصول کے لیے ملی، ملکی یا اخلاقی اقدار کو پاؤں تلے روندتے ہوئے ذرا نہیں ہچکچاتے ۔
اس ویڈیو کے جعلی ثابت ہونے پر لوگوں کا مضطرب ہونا ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ اگر یہ الزام درست بھی ہے کہ اس ویڈیو کی تخلیق کے لیے امریکی لابی نے لاکھوں ڈالر محترمہ ثمر صاحبہ کو دیے تو بھی بھلا اس سے پاکستان کے مفادات پر کہاں زک پڑتی ہے؟ غیروں سے ڈالر لے کر اپنوں کی گردنیں مارنا ہمارے ملک میں اب اتنا انوکھا فعل نہیں رہا کہ محترمہ کی اس حرکت پر ان کے خلاف واویلا برپا کر دیا جائے۔ آخر امریکا و یورپ سے ڈالر کھینچ کھانچ کر پاکستان لانا ہی تو ہماری حکومت کا اول و آخر مقصد و منشور ہے جس کے حصول کے لیے ہم پچھلے کئی سالوں سے اپنے قبائلی علاقوں میں آگ و خون کا ہولناک کھیل رہے ہیں۔ پس اگر محترمہ نے اس مقصد کے لیے ذرا مختلف انداز اپنا لیا تو کیا برا کیا ؟
مذکورہ ویڈیو سے محترمہ ڈائریکٹر صاحبہ اور ان کی این۔ جی۔ او کو توجو فوائد و ثمرات حاصل ہوئے وہ ان کی محنت کا پھل ہیں اور انہیں ملنا ہی چاہیے تھے لیکن خود پاکستان بھی اس کے ثمرات سے نہال ہوئے بغیر نہیں رہا۔ اقوامِ عالم میں شہرتِ عام کا جو تمغہ اس ویڈیو کے صدقے پاکستان کے گلے میں ڈالا گیا اس نے ہمارے نام کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس خیال انگیز ویڈیو کے حق میں محترمہ ثمر صاحبہ کی یہ دلیل مخالفین کی دراز زبانیں بند کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس میں وہی تو دکھایا گیا تھا جو طالبان کے زیرِ سایہ سوات میں آئے روز ہو رہا تھا۔ ہم ان کی بے نظیر منطق کی نہ صرف تائید کرتے ہیں بلکہ ان سے استدعا کرتے ہیں اس معاشرے میں دندناتی دوسری قبیح برائیوں جیسے زنا ، چوری ، ڈکیتی اور قتل و غارت وغیرہ کو بھی فلما کر ساری دنیا کے سامنے پیش کریں تا کہ پاکستان کے نام اور مقام کو مناسب طور پربلند کیا جاسکے۔
جو لوگ مشرف کو ایک ناکام اور نکما ڈکٹیٹرسمجھتے ہیں مذکورہ ویڈیو ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے بھی کافی ہونی چاہیے ۔ مشرف کے لگائے گئے روشن خیالی کے بوٹے نے ثمر من اللہ جیسے پھل دینے شروع کر دیے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب اور کتنے ثمر ٹپکنے کو ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.