بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ہندو بنیا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے اسکی شاطر نظریں وہ سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں جس کا ہم عموماََ ادراک نہیں کر پاتے ۔تشکیلِ پاکستان کے وقت نہرو ریڈکلف گٹھ جوڑ اسی ذہنیت کو آشکار کرتا ہے ۔ ایک سازش کے تحت جونا گڑھ کا مسلم اکثریتی علاقہ بھارت کو دے دیا گیاتا کہ وہ اس کے رستے کشمیر جنت نظیر میں اپنی ناپاک فوجیں داخل کر سکے۔وہ جانتا تھا کہ کشمیر نہ صرف سیاحت کے اعتبار سے سونے کی چڑیا ثابت ہوگابلکہ یہ پاکستان میں بہنے والے تمام بڑے دریاوں کا منبع بھی ہے اور اس پر قابض ہو کروہ کسی بھی وقت پاکستان کو بنجر و بیابان کرسکتا ہے۔
اُس وقت پاکستان کو خوش قسمتی سے قائدِ اعظم جیسے لیڈر کی مدبرانہ قیادت میسر تھی ۔ آپ نے باطل کے اس گٹھ جوڑ کو بھانپتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ۔ جسطرح شہ رگ کے بنا زندگی کا وجود ممکن نہیں بلکل اسی طرح کشمیر کے بنا پاکستان ادھورا اور نامکمل ہے ۔ اپنی اس شہ رگ کو عیار دشمن سے چھڑانے کے لیے بے سروسامانی اور ناگفتہ بہ حالت کے باوجو د آپ نے کشمیری حریت پسندوں کی کلی حمایت کا اعلان کیا اور پاکستانی فوج کو اپنے کشمیری بھائیوں کو ہندو بنیے کے چنگل سے بچانے کے لیے متحرک ہونے کا حکم دیا اور قوم کو اس کڑی گھڑی میں یک جہتی سے اپنے حقوق کے لیے لڑنے کا درس دیا۔ مجاہدینِ اسلام کی پیش قدمی جاری تھی اور قریب تھا کہ وہ اپنی دھرتی کو ہنو مانیت کے ناپاک پنجوں سے بچا لیتے کہ مکار بنیا اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیااور اقوامِ عالم سے وعدہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو ان کی امنگوں کے مطابق انہیں بھارت یا پاکستان سے الحاق کا حق دے گا۔ قائد کی رحلت کے بعد پاکستان کی نا عاقبت اندیش قیادت ہندو بنیے کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئی اور ہندو سرکار نے شیخ عبداللہ کو وزارت کا لالچ دے کر اپنا ہمنوا بنا لیااور جب اس نے کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تو بھارت نہ صرف استصوابِ رائے کے وعدے سے مکر گیا بلکہ کشمیر کو اپنا اٹو ٹ انگ قرار دینے کا راگ بھی الاپنے لگااور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔ اردو بنگلہ زبان کا تنازعہ پیدا کر کے مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک دوسرے کے لیے بد گمانیاں اور نفرتیں پیدا کرنے لگا اور گاہے بہ گاہے مختلف تنازعات کو ہو ا دیتا رہا اور بالا آ خر 1971 کو اپنے مذموم مقاصدمیں کامیاب ہو گیا۔پاکستان جو شروع دن سے ہی علاقائی تفریق کا شکار تھا بھارت کی سلگائی ہوئی آگ اس کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوئی اور اس نے اس شکستہ قوم کو مزید پارہ پارہ کر دیا۔
کٹھے پٹھے پاکستان کی نر گسیت زدہ قیادت ان دگرگوں حالات میں بھی اپنے سودو زیاں کا ادراک کرنے میں ناکام رہی اور بھارت پہلے کی طرح باقی مانندہ پاکستان میں بھی صو بائیت کے مکروہ بیچ بونے لگا۔ قوم پرستی کے مرض میں مبتلا اپنے ذاتی مفادات کی آلائشوں میں گھرے وہ نام نہاد علاقائی راہنما جو ہمیشہ سے بھارتی مفادات کے فروغ کے لیے دانستہ یا نادانستہ آلہ کار کے طور پر استعمال ہوتے رہے اور انہوں نے چھوٹے صوبوں کی عوام کے دلوں میں یہ بات پختہ کر دی کہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ انہیں کبھی بھی ان کے جائز حقوق خوشی سے نہ دے گی ۔پختون ، بلوچ اور سندھی قومیت کے فتنے کو ہوا دی گئی اور کالا باغ ڈیم جیسے بے ضر ر منصوبے کہ جس کے بارے میں جملہ بین الاقوامی ماہرین متفق ہیں کہ اس سے کسی شہر کے ڈوبنے کا کوئی اندیشہ نہیں اور نہ ہے اس سے کسی علاقے کے بنجر و ویران ہونے کا خطرہ ہے کو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا منصوبہ قرار دے کر اسے کے خلا ف شور و واویلے کا طوفان برپا کر دیا گیا۔ اگر اس عظیم منصوبے کو حقیقت بننے دیا جاتا تو نہ صرف لاکھوں ایکڑ اراضی سیراب ہو کر پاکستان میں سبز انقلاب کی بنیاد رکھتی بلکہ نہایت ارزاں بجلی کا حصول بھی ممکن ہوتا اور اس سے ہماری صنعت و حرفت دن دگنی رات چوگنی ترقی کر تی ا ور ہم یوں کاسہ گداءی لے کر اغیار کے قدموں میں نہ لوٹ رہے ہوتے اور امریکی غلامی کا وہ طوق جو کالا باغ اور اس جیسے دوسرے منصوبوں کی پایہ تکمیل تک پہنچنے کی صورت میں یوں آج ہماری جان کا روگ نہ بن چکا ہوتا۔
ہماری ناعاقبت اندیشی اور نا اتفاقی ہمیں آج اس نہج پر لے آئی ہے کہ غلیظ امریکی ہمیں ڈالروں کے عوض اپنی مائیں تک بیچنے کا طعنہ دے رہے ہیں۔ ہمارے بے حمیت اور بزدل حکمران ہوسِ زر اورحکومت کے لالچ میں اندھے ہو کر ہماری قوم کے سینکڑوں غیور بیٹے اورپاکدامن بیٹیاں امریکی سامراج کے ہاتھ بیچنے جیسے قبیح فعل کے مرتکب ہو کر در اصل ہماری اجتماعی قومی بے حسی کو عیاں کر رہے ہیں۔ بزدلی اور بے حسی کی چادر تانے پاکستان کے سترہ کروڑ عوام آج اپنی ایک عافیہ کو یہوو نصاری ٰ کے چنگل میں یوں مجسم فریاد دیکھ کر بھی سوائے کرلانے اور ممنانے کے کچھ نہیں کر پا رہے۔
آج کا پاکستان اجتماعیت سے کوسوں دور ذاتی مفادات کی کبھی ختم نہ ہونے والی دوڑ میں اندھا دھند شریک ایک ایسی راہِ گم کردہ قوم کا دیس بن چکا ہے جنہیں قوم کہنا بھی لفظ قوم کی تو ہین ہے۔ چھوٹے چھوٹے فروعی مفادات کے گھناؤنے کاروبار میں مشغول یہ ان سوداگروں کا دیس بن چکا ہے جو پاکستان کے حال و مستقبل سے لاپرواہ اپنی اپنی ڈفلی بجانے میں مست ہیں۔ایک طرف ہماری اجتماعی بے حسی اپنے کریہہ ترین روپ میں ہمارے ملکی مفادات کے درپے ہے تو دوسری طرف ہمارا ازلی دشمن ہمیں زک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستان کے حصے کا پانی روک کر زراعت پے انحصار کرنے والے اس بد قسمت دیس کی زمینوں کو بنجر کرنے کا خوفناک منصوبہ ہو یا بلوچستان میں علیحدگی کے بیچ بونے کیہولناک سازش بھارت کا ہندو بنیا ہر دم پاکستان پے ضربِ کاری لگانے کے لیے بے چین نظر آتا ہے۔ جہاں ہمارے کو تاہ بیں حکمران بھارت سے دو طرفہ تعلقات کی پینگیں بڑھانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں وہیں انڈیا قدم قدم پے اپنے بغضِ باطن کا اظہار کر کے اپنی پاکستان دشمنی کا ثبوت فراہم کر رہا ہے۔اپنوں کی بے اعتنائی اور غیروں کی سازشوں میں گھری ہوئی پاکستانی قوم جانے کب اپنی کھوئی ہوئی منزل پہ اپنے سفرِ گم گشتہ کو دوبارہ شروع کر پائے گی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.