نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

جولائی 05, 2014

تحفظِ پاکستان بل

تحفظ پاکستان بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پاکستان کے پہلے سے بے حال ،سسکتے بلکتے بنیادی انسانی حقوق پر بجلی بن کر گری ہے ۔اس بل کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں میں کچھ ایسی جادہ کی چھڑیاں دے دی گئی ہیں جن کے ذریعے ان کے لیے اب کوئی بے نوا پاکستانی عارضی یا دائمی طور پر روئے ارضی سے غائب کرنا مسئلہ نہیں رہے گا۔ پاکستانی آئین کی دسویں شق سے براہِ راست متصادم یہ بل عرش کے جس کونے سے بھی نازل ہوا ہو لیکن منظور اس اسمبلی سے کروایا گیا ہے جس کا گلا آئین کی حکمرانی کے راگ گاتے گاتے رندھ چکا ہے۔ ہنگامی حالات یقیناًہنگامی قوانین کے متقاضی ہوتے ہیں لیکن ان قوانین کو بنانے کے لیے جس ہنگامی شعور کی ضرورت ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ موجودہ اسمبلی کے قانون سازوں میں مفقود نظر آرہا ہے۔ یہ قانون اسمبلی کی اجتماعی سوچ سے زیادہ فرشتوں کی فکراور ضروریات کاترجمان لگتا ہے ۔ اس بل کے شانِ نزول کو سمجھنے کے لیے پاکستان کے دفاعی اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں پچھلی ایک دہائی میں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور اغوا کے اس طویل سلسے پر نظر ڈالنی ضروری ہے جسے عدالتِ عالیہ کے پے در پے سو موٹو بھی ختم نہ کر سکے۔
 
نائین الیون کے بعد جب دہشت زدہ پاکستان نے امریکہ کی سجائی گئی جنگِ دہشت گردی کی بساط پر ایک بے وقعت مہرے کی طرح سر پٹ دوڑنا شروع کیا تو پاکستان کو اپنے ہی تخلیق کردہ ان انتہا پسندوں کی مخالفت کاسامنا کرنا پڑا جنہیں پاکستان ایک طویل مدت سے بھارت اور افغانستان میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اسلامی نشاطِ ثانیہ کے خوابوں پر پلنے والی یہ نسل جسے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جہاد کے انجکشن لگا لگا کر پروان چڑھایا تھا پرویز مشرف کے یوٹرن پر بوجوہ کوئی ٹرن لینے سے قاصر تھی چناچہ پاکستان کے مسلح اداروں اور ان جنگجوؤں کے درمیان ایک خون ریز جنگ کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے اورنہ جانے اندھی جنگ کی یہ بھٹی کب تک دہکتی رہے۔
 
اس بے سروپا جنگ کے ساتھ ہی پاکستانیوں کی جبری گمشدگیوں کے ایک پر اسرار سلسلے کا آغاز ہوا ۔کچھ مخصوص مذہبی یا قوم پرستانہ سوچ کے حامل افراد کو دن دیہاڑے اٹھا لیا جاتا اور کچھ دنوں بعد ان میں سے اکثر کی مسخ شدہ لاشیں کسی کھیت کھلیان سے ملتیں ۔ غائب ہو جانے والوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی سلامتی کے ڈر سے آواز اٹھانے سے ڈرتے تھے چناچہ اس سلسلے میں شدت آتی گئی ۔ عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد ریاست کی اندھی طاقت کے ڈسے ہوئے لوگوں کے اند ر انصاف کی آس پیدا ہوئی ۔ چناچہ سپریم کورٹ کے دروازے پر کھوئے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ کچھ دنوں تک عدالت کا خوب ڈنکا بجا ، اخبارات میں شہہ سرخیاں جمائی گئیں مگر وہ جو اندھیرے عقوبت خانوں میں کئی سالوں سے ناکردہ گناہوں کی سولی پر سسک رہے تھے بازیاب نہ کروائے جا سکے۔ سینکڑوں سماعتیں ہو ئیں جج گرجتے برستے رہے قانون کی بے بسی پر نوحے پڑھتے رہے لیکن نتیجہ صفر! حکومت نے تنگ آ کر کمیشن قائم کیا لیکن یہ بھی وقت گزاری کا ایک بے کار تماشا ثابت ہوا۔ تجربے نے پاکستانی عوام کے حقوق کی سب سے بڑی محافظ سپریم کورٹ کو یہ سکھا یا کہ منتخب وزیرا عظم کو گھر بھجوانا آسان ہے لیکن ماورائے عدالت قتل کی منڈیاں سجانے والوں کا احتساب ناممکن! کون کس کا گریبان پکڑتا سارے جمہوریے ریت میں مونہہ چھپا کے اس مسئلے سے بری الذمہ ہو گئے۔
 
موجودہ حکومت جس کے وزیر اعظم زمام کار سنبھالنے سے پہلے بذات خود اجتجاجی لواحقین کو سیاسی تسلیاں دینے جا یا کرتے تھے اقتدار میں آتے ہی اس مسئلے کے ’باعزت ‘ حل کے لیے تگ ودو میں مصروف ہو گئی۔ جب نیت صاف ہو تو آسمانوں سے مدد اترتی ہے چناچہ موجودہ حکومت کیلئے بھی آسمانوں سے تحفظِ پاکستان آرڈیننس اتا را گیا جسے اس نے سینے سے لگا کر فرشتوں کا شکریہ ادا کیا۔ یہ بل یقیناًحکومت اور مسلح اداروں کو سپریم کورٹ کی راہداریوں میں خوار ہونے سے بچائے گا ۔ اب عدالت میں کسی اندھے قتل یا اغوا کی صفائی پیش کرنے کی بجائے اس قانون کی شق کا حوالہ دینا ہی کافی ہو گا۔ پاکستانی قوم کو فرشتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے اس بر وقت صحیفے کے ذریعے ہماری حکومت اور ہمارے مسلح اداروں کوخواہ مخواہ کی شرمندگی سے ہمیشہ کے لیے بچا لیا ہے ۔

 
ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بل کے بعد اب غیر معمولی صلاحیتوں اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ کسی بھی مشکوک شخص کودیکھتے ہی ہمارے انسپکٹر یا صوبیدار صاحب کو پلک جھپکنے میں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ یہ مجرم ہے یا نہیں ۔ اگر ان کی رائے میں مشکوک شخص کی شکل پر کسی دفعہ کے آثار نظر آئیں تو اسے بلا توقف گولی ماری جاسکے گی ۔ اس بل کی رو سے اب ہمارے مسلح اداروں کے جوان اپنی ذات میں ایک انجمن ہوں گے جو بہ یک وقت مدعی ، گواہ، منصف اور جلاد کی صلاحیتوں کے حامل ہو ں گے۔ پلک جھپکتے میں یہ شکلیں پڑھ کر لوگوں کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا فیصلہ کریں گے اور انکی فیصلے کو دنیا کی کسی عداالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی طرح ہمارے مسلح اداروں کے وہ خفیہ عقوبت خانے جو انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظروں میں مدت سے کھٹک رہے تھے اب نہ صرف جائز قرار پائیں گے بلکہ ان میں بغیر وجہ بتائے کسی بھی بشر کو قید رکھا جا سکے گا۔ انصاف اتنا سستا اور اتنا برق رو دنیا کے کسی ملک نے یقیناًنہ دیکھا نہ سنا ہو گا۔
 
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بہت سا قیمتی وقت ملزموں کو مجرم ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے لیکن اس نئے بل کی صورت میں ان کی یہ مشکل حل کر دی گئی ہے اب ان اداروں کا کام صرف گرفتار کرنا ہو گا انہیں ان جھمیلوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ جسے پکڑا گیا اس کے خلاف گواہ اور ثبوت موجود ہیں یا نہیں۔ اپنی بے گناہی ثابت کرنا پکڑے جانے والے کا کام ہوگا۔ اگرچہ یہ شق دنیا بھر میں مروج قوانین کی بنیادی روح سے متصادم ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ہماری دیکھا دیکھی یہ باقی دنیا میں بھی رواج پا جائے ۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد اب خروٹ آباد یا کراچی کے سرفراز شاہ جیسے کیس قانون نافذ کرنے والے اداروں کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکیں گے۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ کے چند روز کے اندر اندر ہی اس قانون کا پاس ہو جانا ہماری حکومت کی نیک نیتی اور بالغ نظری کا کھلا ثبوت ہے ۔ ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے اگر وادیوں کے خلاف لڑنے والے اپنے مظلوم پولیس والوں کو بھلا ہم اکیلا کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.