رویت ہلال حسبِ روایت اس سال بھی اسلام کے قلعے میں متنازع رہا ۔ پشاور کی
مسجد قاسم خان میں بیٹھے مفتی شہاب الدین پاپولزئی کو چاند نظر آ گیا
کراچی میں بیٹھے مفتی منیب الر حمن اس سعادت سے محروم رہے ۔ فرقہ واریت
ہمارے خون میں یوں رچ بس گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اس سے دامن نہیں بچا
سکتے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین کو خیبر پختونخواہ سے ملنے والی
شہادتیں قبول نہیں کہ ان شہادتوں کا فرقہ مختلف ہے ۔ مفتی پاپولزئی سرکاری
کمیٹی کو اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کاتعلق ایک دوسرے فرقے سے
ہے۔ ہر فرقے کو دوسرے فر قے کی شہادتیں ہضم نہیں ہوتیں۔ ہٹ دھرمی کو اگر
مجسم صورت میں دیکھنا مقصود ہو تو پاکستانی فرقہ پرستوں سے بہتر کوئی اور
مثال نہیں۔
ہر سال رویتِ ہلال ہمارے لیے جگ ہنسائی کا سامان لے کر آتا ہے۔ دنیا ہنستی ہے کہ مسلم امہ کے عالمی اتحاد کی ان تھک راگنی گانے والا ملک اپنے رمضان اور اپنی عیدیں بھی ایک ساتھ نہیں کر سکتا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لیے ایک کرنے کا خواب دیکھنے والے پاکستانی مسلمان خود ایک ہونے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں مذہبی تہوار اور رسومات مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کو اکٹھا کرتے ہیں ہمارے تہوار نفاق کی خلیج کو کچھ اور گہرا کر کے ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتے ہیں ۔ دنیا اپنے تہواروں سے محبت اور یکجہتی کے پھول سمیٹتی ہے ہم نفرتوں کے کانٹوں سے اپنے دریدہ دامن کولیر لیر کر لیتے ہیں۔
یہ بحث علمی اور سائنسی نوعیت کی ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں اور ان سے منسلکہ خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں چاند کو جلدی نظر آنے کی کیا پڑی ہوتی ہے اور کراچی میںیہ بے چارہ نکلتے ہوئے کیوں ہچکچاتا ہے لیکن اتنا واضح ہے کہ ہمارا کوئی بھی فرقہ چاند میں ساجھے داری برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر فرقہ اپنا اپنا چاند اپنی اپنی مرضی سے چڑھاتا ہے اور پھر دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے چاند کے پیچھے پیچھے چلیں۔ خیبر پختونخواہ والے جغرافیائی لحاظ سے کراچی سے زیادہ افغانستان کے قریب ہیں اس لیے انہیں اگر چاند جلدی نظر آ جائے تو یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں کیونکہ چاندڈیورنڈ لائین کیتفریق سمجھنے سے قاصرہے لیکن باقی مانندہ پاکستان نا خواندہ قبائلیوں کی شہادتوں پر اپنے روزے اور عیدیں کیوں برباد کرے جبکہ ان کا فرقہ بھی مختلف ہے۔
جب اسلام کے اس انوکھے قلعے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو مخالفوں نے لاکھ سمجھایا تھا کہ ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں بنا کرتے لیکن ہمارے اکابرین دنیا کو کچھ نیا کر کے دکھانے پر بضد تھے ۔ وہ صدیوں سے قائم وطنی نظریہ قومیت کے مقابلے میں مذہبی نظریہ قومیت پیش کر کے دنیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ مذہب کی طاقت سے بھی قوم وجود میں آ سکتی ہے۔ آج وہ بھاگوان اگر واپس پلٹ کر اپنے اس تجربے پر ایک نظر ڈال سکتے تو یقیناًاپنے نظریات سے رجوع کر کے تائب ہو جاتے۔ کیا ہمارے اکابرین کانظریہ قومیت اتنا ہی پھسپھسا تھا کہ وہ اس نام نہاد قوم کو اکھٹے عیدیں منانے اور ایک ساتھ روزے رکھنے پہ بھی قائل نہ کر سکا ؟ یا پھر ان کے بعد آنے والوں نے اپنے اپنے ذاتی اور فروعی مفادات کی چھریوں سے اس کے تانے بانے یوں ادھیڑ کر رکھ دیے کہ اب قوم کے نام پر افراد کا ایک بے سمت ہجوم ہے جسے آئینِ پاکستان ایک قوم بنانے پر بضد ہے۔
مذہب کا وہ مجہول تصور جس نے ہماری قوم کو ان گنت خانوں میں بانٹ کراس کے اتحاد کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ اس سے جان چھڑائی جائے۔ مذہب کے فرقہ وارانہ تصور کو دیس نکالا دیے بغیر پاکستانی ہجوم خود کو قو م کہلوانے کا کسی طرح مستحق نہیں۔فرقہ واریت کا زہر پھیلانے والوں کو اتحاد کی لاٹھی سے کچلے بغیر پاکستانی قوم اجتماعیت سے ہمیشہ محروم رہے گی اور ہر فرقہ اپنی اپنی بغل میں اپنا اپنا چاند لیے اپنا اپنا راگ گاتا رہے گا۔ نغموں کی حد تک ہم جھوم جھوم کر سو سال بھی اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں کے نعرے لگاتے رہیں لیکن جب تک ہماری خوشیاں اور غم مشترک نہیں ہوتے ہم ایک نہیں ہو سکتے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.