فلسطین کی سلگتی بستیاں دیکھ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل سلگ رہے
ہیں،فلسطینی مظلوموں کے کٹے پھٹے لاشے دیکھ کر مسلمانوں کے کلیجے پھٹے جارہے
ہیں، اسرائیل کی خون آشامی پر مسلمانوں کے خون کھول رہے ہیں لیکن بے بسی
کا یہ عالم ہے کہ سوائے مذمتی بیانات کے اور کچھ کرنے کی تاب و تواں
نہیں۔قابض اسرائیل ہر تھوڑے عرصے بعد فلسطینیوں پر آگ و آہن کی بارش برساتا
ہے اور کسی جنونی سیریل کلر کی طرح بے آسرا فلسطینیوں کی بے بسی کا لطف
اٹھا تا ہے۔ مسلم امہ ہر نئی اسرائیلی جارحیت پر خون کے آنسو روتی ہے
فلسطینی مظلوموں کی بے کسی پر نوحے پڑھتی ہے جوش آور تقریریں کر کے ناپاک
اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم کرتی ہے اور اسرائیل کے جنون کا ایک
اور دور انہی جھوٹے واویلوں میں گزر جاتا ہے ۔ کئی دہائیوں کے تجربے نے اب
اسرائیل کی دیدہ دلیری میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے وہ جانتا ہے کہ
فلسطینیوں کے آنسو پونچھنے کوئی نہیں آئے گا اس لیے ہر ایک آدھ سال کے بعد
یہ ان کے خون سے ہولی کھیل کر ساری دنیا کو اپنی طاقت اور مسلم امہ کو اس
کی اوقات یاد دلاتا ہے۔
مسئلہ فلسطین جنگِ عظیم اول میں ترکی کی شکست کا ثمرہ ہے ۔ مسلم امہ کے اتحاد کا مرکز خلافتِ عثمانیہ کا پارہ پارہ اور مسلمانوں کا رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جانا مسئلہ فلسطین کی بنیاد ہے ۔ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ و فرانس جیسی فاتح قوتوں نے ترکوں اور عربوں کو آپس میں لڑا کر مسلم امہ کے اتحاد پر کاری ضرب لگائی اور ترکی خلافت کے حصے بخرے کر کے مسلمان دنیا کو اپنی باجگزار کالونیاں بنا لیا۔ کئی دہائیوں تک ان کالو نیوں میں سامراج مسلمانوں کو رنگ و نسل اور زبان کے بتوں کی پوجا کرنے کا درس دیتا رہا ۔ دوسری جنگِ عظیم تک مسلمان ان بتوں کی پرستش کرتے کرتے اتنے راسخ ہو چکے تھے کہ جنگ کے اختتام پر سامراجی طاقتوں نے جب کالونیوں کو آزاد کرنا شروع کیا تو مسلمان زبان اور رنگ و نسل کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بٹ گئے۔ ملتِ واحد کانعرہ لگانے والے مسلمانوں کو نظریہ قومیت کی حشیش پلا کر چھوٹے چھوٹے ڈربوں میں بند کر نے کے بعد اب مغرب نے ساری دنیا سے یہودیوں کو اکھٹا کیا اور فلسطین کی سر زمیں پر ۱۹۴۸ کواپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو جنم دیا۔
اپنے وجود کے روز اول سے کر اب تک اسرائیل نے قتل و غارت گری کی ہر نئی قسط کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے استعمال کیا ہے۔ فلسطین کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اب اسرائیل بچے کچھے فلسطین پر نظریں گاڑے بیٹھا ہے ۔ غزہ کی پٹی اس کی جارحیتوں کا خاص مرکز اس لیے ہے کہ یہ باقی فلسطین سے کٹی ہوئی ہے ۔ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع یہ ۴۱ کلومیٹر لمبی پٹی اٹھارہ لاکھ فلسطینیوں کا گھر ہے ۔اس کے جنوب مغربی سرحد کا مختصر سا ۱۱ کلومیڑ کا علاقہ مصر کے جزیرہ نما سینا سے ملتا ہے جبکہ باقی اطراف سے اسے اسرائیل نے گھیرا ہوا ہے۔ ۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے غزہ اور جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا تھا ۔ مصر نے تو۱۹۷۹ میں اسرائیل سے فلسطینیوں کی مدد نہ کرنے کا امن معائدہ کر کے اپنے علاقوں کو واپس حاصل کرلیا جبکہ غزہ ۲۷ سال تک اسرائیلی جبر تلے سسکتا رہا۔ ۱۹۹۴ کے اوسلو معائدے کے تحت غزہ واپس فلسطینیوں کو ملا لیکن اسوقت تک اسرائیل یہاں درجنوں یہودی بستیاں بسا چکا تھا۔ ۲۰۰۶ میں حماس کی فتح نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی اور غزہ میں یہودی بستیوں کے قیام میں جو رکاوٹ ڈالی اس پر اسرائیل سیخ پا ہے ۔ منگل سے شروع ہونے والی غزہ پر اسرائیلی درندگی بھی اسی سلسلے کا ایک تسلسل ہے ۔
فلسطینیوں کا بہتا ہوا خون عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی آنکھوں پربندھی پٹی کو سرکانے میں اس لیے ناکام ہے کہ فلسطینی کمزور اور لاچار قوم ہیں جبکہ اسرائیل کی پشت پر امریکا و برطانیہ جیسی جارح طاقتیں کھڑی ہیں ۔ بدقسمتی سے مسلم امہ جسے ابتلا کی اس گھڑی میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہو نا چاہیے تھااسرائیل کی سر پرستی کرنے والے امریکا کی اتحادی ہونے کے ناطے گم سم کھڑی ہے۔ مصر سے لے کر شام تک تمام مسلمان ممالک کی افواج یا تو اپنی ہی ملک میں کشت و غارت گری میں مصروف ہیں یا امریکہ کی بچھائی گئی دہشت گردی کی جنگ میں دادِ شجاعت دے رہی ہیں اس لیے فلسطینیوں کے لیے ان کے پاس جھوٹی تسلیاں بھی نہیں۔ یورپ کے دیے گئے نظریہ قومیت نے مسلمان ملکوں کو ایسی نفسا نفسی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ سب وقتی طور پر اپنی جان بچنے پر خوش ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ امریکی تابع داریاں انہیں پڑوس میں لگی آگ سے بچا لیں گی۔ ’سب سے پہلے پاکستان‘ کے اصول پر عمل کرنے والے مسلمان ممالک یہ نہیں جانتے کہ وہ اپنی کھال میں چھپنے کی جتنی بھی کوشش کریں عالمی استعمار وقت آنے پر ان کی تکہ بوٹی کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔
فلسطینی مظلوموں کواس مسلم امہ کا حصہ ہونے کی سزا دی جارہی ہے جو فرقوں، زبانوں ، اور نسلوں میں بٹ کر قوتِ عمل سے محروم ہوچکی ہے۔ آپس میں دست و گریباں یہ کھوکھلی امت اپنے ہی خون کی پیاسی ہے اس لیے اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرات سے عاری ہے ۔ غزہ کی بستیوں میں جانیں لٹانے والے فلسطینی مظلوموں کو چھ دہائیوں تک اسرائیلی استبداد اور مسلمان ممالک کی بے حسی دیکھ کر اب سمجھ لینا چاہیے کہ انہیں یہ جنگ تن تنہا لڑنی ہے ۔ اسرائیلی کی اندھی طاقت تلے پستے بے کس فلسطینیوں کو اب یہ جان لینا چاہیے کہ مسلم دنیا سے ان کی مدد کے لیے کوئی نہیں آئے گا کیوں کہ سب کو ا اپنے اپنے ملک ، اپنی اپنی حکومتیں ، اپنے اپنے فرقے اور اپنی اپنی جانیں عزیز ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمران امریکی کاسہ لیسی میں ، مسلمان ممالک کی افواج اپنے اپنے ملک فتح کرنے میں اور مسلمان ممالک کے عوام فروعی اختلافات پر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اتنے مصروف ہیں کہ غزہ سے اٹھتی آہ و بکا ان کے کانوں تک نہیں پہنچ پا رہی۔ غزہ کے باسیوں کو امہ سے کوئی جھوٹی امید باندھنے کی بجائے اب اسرائیلی ظلم و جبر کوقسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے شاید اس سے ان کے دکھوں کی شدت کچھ کم ہو جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.