ایسا نہ تھا کہ اس دیس کے کوچہ و بازار میں پرویزیت کا طاعون پھیلنے سے پہلے دودھ کی نہریں بہتی ہوں، خوشیوں کے زمزمے گونجتے ہوںیا امن و آشتی کی ہوائیں چلتی ہوں۔ ظلم و جبر کی سیاہ آند ھیاں اہلِ گلشن کے چین کو تب بھی اجاڑے رکھتی تھیں، بھوک و افلاس کے ناگ ان کے سکون پر تب بھی اپنا بد رو پھن پھیلائے پھنکارتے رہتے تھے اور اہلِ حکم امریکی در پر سجدہ ریزی کو تب بھی حزرِ جاں بنائے ہوئے تھے پراس دورِ سیاہ سے قبل ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ ہوسِ اقتدار میں اندھے ہو کر کسی نا عاقبت اندیش نے اپنے دیس کی عفتوں کادام و درہم کے عوض کسی استعماری سوداگر سےسودا کر لیا ہواورایسابھی کبھی نہ ہو ا تھا کہ قوم نے اجتماعی بے غیرتی کی چادر اس سہولت کے ساتھ اتنے طویل عرصے تک تانے رکھی ہو۔
جب پرویز مشرف اور اس کے چوہوں نے سرزمینِ پاک کے کھیتوں اور کھلیانوں کو اپنی خر مستیوں سے اجاڑنا شروع کیا تو اہلِ نظر کا ماتھا اس وقت ہی ٹھنک گیا تھا کہ یہ چوہے وہ عام دراندازیےنہیں جو کچھ وقت کے لیے چند باغوں کو ادھیڑیں گے ، کچھ کھلیانوں میں کتر بیونت کریں گے اور اپنا راستہ ناپیں گے بلکہ یہ تو وہ طاعون زدہ نسل ہے جو ساری بستی کو مرگِ انبوہ میں مبتلا کر دیں گے۔ پاکستانی
قوم جوہمیشہ سے صبر کے گھاٹ پرقومی مفادات کو قربان کرتی چلی آئی ہے چوہا گردی کے اس دور میں بھی خاموش تماشائی بنی گلشن کے اجڑنے کا تماشا دیکھتی رہی ۔ سب سے پہلے پاکستان کے تھیٹر پر مشرف اور اس کے گر گوں نے جو مضحکہ خیز کرتب دکھائےاب تاریخ کا حصہ بن کر تا قیامت حساس پاکستانیوں کے احساسِ تفاخر و خودداری کو گھائل کرتے رہیں گے۔
سن 2003 ء کے نامسعود لمحوں میں جب مشرف نے وطن کی ایک بیٹی کا اپنے صلیبی یاروں سے سودا کیا تو اس کی رگوں میں بہنے والے رقاص خون کی گردش پر یقیناًکوئی اثر نہیں پڑا ہوگا کہ غیرت و حمیت کے جملہ مسائل سے وہ یکسر پاک تھا۔ مشرف کے گرد جمع ضمیر فروشوں کے ٹولے پر بھی اسلامی تاریخ کے اس شرمناک ترین سانحے کا کوئی اثر نہیں ہوا ہو گاکہ ہوسِ اقتدار میں وہ اس حد تک جا چکے تھے جہاں انہیں سب ہرا ہی ہرا نظر آرہا تھا۔ مشرف ایسے ابلیس صفت مسخرے کی کاسہ لیسی نے ان کے اندر بھی اسی جیسے خصائص پیدا کر دیے تھے چناچہ وہ سیاسی کرتب دکھانے کے علاوہ اور کچھ نہ کر سکتے تھے۔ لیکن ہمیں حیرت ہے تو پاکستان کے ان اداروں پرکہ بظاہر جن کا محور و مرکز کسی فرد کا اقتدار نہیں بلکہ پاکستان کی بقا و سلامتی ہے۔ وطن کی سالمیت کے ٹھیکیدار ان اداروں کے وہ اہلکار جنہوں نے مشرف کے حکم پرڈ اکٹر عافیہ کو نجس امریکیوں کے حوالے کیا یقیناًاپنے اس فعل کے گھناؤنے پن سے اچھی طرح واقف تھے۔ مشرف اور اس کے گر گے تو ایسے قبیح افعال امریکی خوشنودی کے ذریعے اپنے ناجائز دورِ آمریت کو طول دینے کے لیے کرتے رہے لیکن وطن کے ان رکھوالوں کو اس سے بجز ابدی لعنت گلے میں ڈالنے کے اور کیا حاصل ہوا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو اس شرمناک فعل سے آلودہ کر بیٹھے؟ یہ تسلیم کرنا مشکل ہےکہ مشرف کے یزیدی احکامات پر عمل کرنے والے ان تمام اہلکاروں میں غیرتِ ملی اور حمیتِ قومی کی آخری رمق تک سوکھ چکی تھی تاہم اتنا بحر حال ماننا پڑتا ہے کہ وہ تاریخ اسلامی کے بابِ غیرت و عزیمت کو یقیناً فراموش کرچکے تھے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ پاکستانی قوم کبھی اِن سیاہ کاروں کو جان سکے گی یا وہ یوں ہی چپ چاپ مشرف کی معیت میں سوئے جہنم روانہ ہو جائیں گے لیکن اتنا ہمیں یقین ہے کہ امریکی اذیت گاہ میں سسکتی ہماری مظلوم بہن کی آہیں ان کے خرمنِ سکون پرصدا بجلیاں گراتی رہیں گی۔
امریکا کے متعصب نظام انصاف نے مظلوم عافیہ کو جن جرائم کی سزا سنائی خود امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ عافیہ کا اصل جرم یہ نہیں۔ اسلامی نظامِ حیات اور احیائے اسلام کی تڑپ وہ اصل جرائم ہیں جو امریکی استعمار کے نزدیک ناقابلِ معافی ہیں کہ یہ امریکی چو دھراہٹ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عافیہ اور اس جیسے ہزاروں اسلام پسند ان ہی مقدس جرائم کی سزا پا رہے ہیں۔ مصائبِ قید و بند اسیرانِ اسلام کے لیے کوئی نئی بات نہیں کہ شعبِ ابی طالب سے لے کر گوانتانامو بے تک کی چودہ سو سالہ داستانِ عزیمت ان کی ہمیشہ سے زادِ راہ رہی ہے ۔ عافیہ صدیقی اسی بے مثل سلسلے کی کڑی بن کر اپنے نحیف و نزار جسم پر وہ اندو ناک مظالم برداشت کر رہی ہے جن کو صرف سوچنے سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ساری دنیا پر غرانے والا امریکا صرف ایک کمزور لڑکی کے جذبہ ایمانی سے کس قدرخوفزدہ ہے کہ اسے پھسپھسے الزامات کے ذریعے ہر صورت پابندِ سلاسل رکھنا چاہتا ہے۔ عافیہ کا دکھ ساری قوم کا دکھ ہے پر اس قوم کا جو فالج زدہ ہو کر قوتِ عمل کھو چکی ہے اور اب سوائے غم زدہ ہونے کے کچھ نہیں کر سکتی۔
پرویز مشرف کے سبز قدم اس دیس سے اٹھے تو امید کی اس حو صلہ افزا کرن نے سر اٹھایا تھا کہ شاید اب عوام کے کندھوں پر چڑھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والی جمہوری حکومت پاکستانی قوم کو خود مختاری اور خودداری کی دولتِ گم گشتہ واپس دلوا دے گی۔ آس کے بوٹے پر خوش گمانی کی اس کونپل نے آنکھ کھولی تھی کہ اس دیس کے وہ جگر گوشے جنہیں مشرف کا ڈالر زدہ عفریت امریکی استعمار کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے بیچتا رہا اب ہمیں واپس مل جائیں گے۔ رجائیت کی اس لہر نے چند ساعتوں کے لیے ہماری رگوں میں حیاتِ نو کی یہ رو دوڑا دی تھی کہ امریکی اذیت خانوں میں سسکتے ہمارے تیرہ بخت بھائیوں اور بہنوں پر اتری سیا ہ رات کو اب سویرا نصیب ہو گا پر ہمیشہ کی طرح ہماری امیدیں ریت کے وہ کچے گھروندے ثابت ہوئیں جنہیں جمہوری آندھی کے پہلے ریلے نے ہی خاک میں ملا دیا۔ پرویزی نظام تلے اس آس پر قطرہ قطرہ جیتے تھے کہ جمہوریت کی دیوی آکر اس دیس پر تنی بد بختی اور بے غیرتی کی سیاہ چادر تار تار کر دے گی اور ہماری آنکھوں سے بے بسی کے آنسو پونچھ کر لبوں پر امید کی مسکراہٹیں بکھیر دے گی پر جمہوریت کی گھمبیرتا میں اب ہم سر بہ گریباں ہیں کہ کس امید پر زندگی کریں؟
ہماری کو تاہ نظری کہ ہم ان بونوں کو اپنے قد آور حکمران سمجھ بیٹھے جو خود بے چارے تار پر تنےکٹھ پتلوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے کہ ان کا مالک جس حد تک چاہتا ہے انہیں نچاتا ہے جہاں چاہتا ہے ڈور کھینچ کر انہیں صمم بکمم کر دیتا ہے۔ان خالی ڈبوں سے ہم نے یہ توقع باندھی تھی کہ وہ اس دیس کی مظلوم بیٹی کو امریکی قید سے نکال لائیں گے جو خود امریکی آکسیجن پر اپنے فریبِ اقتدار کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ا ہلِ حکم ہونے کے سراب میں گرفتار یہ تو وہ مکروہ مہرے ہیں جو امریکی سامراجیت کے جنگلی پودے کو اپنے وطن کے خون سے سیراب کرنے کے صلے میں حکومت کا پروانہ حاصل کرتے ہیں۔ شیطانِ عظیم کے پنجوں سے عافیہ کو نکال لانا تو رہی دور کی بات یہ تو اپنے ملک کی منہ زور ایجنسیوں کے عقوبت خانوں میں زندہ درگور سینکڑوں حرماں نصیبوں پر طاری تیرگی کو صبحِ نور سے بدلنے کی ہمت بھی نہیں رکھتے۔
تو اے لوگو ہم ان کاٹھ کے الوؤں کے آگے بین بجانے کی بجائے کیوں نہ ان بازی گروں سے مخاطب ہوں جو طاقت کی اصل رتھ پر سوار ہیں؟ ہم کیوں نہ باوردی جوکروں ، ٹائی زدہ روبوٹوں اور پتھر دل مجسموں سے التجا کریں؟ جی کڑا کر ہم یہ فریاد باوردی جوکروں تک کیوں نہ پہنچا دیں کہ حضور آپ نے اس دیس کی بہت حفاظت کر لی اب خدارا اپنے اس مقدس فریضے کی قربان گاہ پر اس مظلوم دیس کی سلامتی کو صلیب مت دی جیے۔ ہم کیوں نہ ٹائی زدہ روبوٹوں تک ان کی سریا دار گردنوں کا واسطہ دے کر یہ عاجزانہ التجا پہنچا دیں کہ سر کار آپ کے نظمِ ملکی نے اس دیس کو نمونہ جنت بنا دیا ہے اب برائے مہربانی اپنی خداداد انتظامی صلاحیتوں کو واپس اپنی زنبیل میں ڈال لی جیے۔ ہم کیوں نہ خفیہ آستین والے سنگ دل مجسموں کو اپنے ان بینوں سے پگھلانے کی کوشش کریں جو ان کی اندھی قید میں سسک سسک کر جرمِ بے گنہی کی سولی پر لٹکتے ہمارے سینکڑوں اہلِ وطن کے دکھ نے ہمارے سینے میں ڈال دیے ہیں۔
پر ہم کیسے بولیں کہ ہماری زبانیں تو بے حسی کے بخار نے گنگ کر دی ہیں ۔ ہم کیسے کچھ کہیں کہ ہماری گویائی تو بے غیرتی کے وائرس نے چھین لی ہے اور ہم بجز اس کے کہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے وطن کے اجڑنے کا تماشا دیکھیں اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ وطن کی فضائیں مظلوموں کی آہوں سے لرز رہی ہیں ، وطن کے کھیتوں کھلیانوں میں حسینی لشکرکے لاشے بکھرے پڑے ہیں، وطن کے دریا بے کسوں کے خون سے رنگین ہو چکے ہیں اور ہم چپ ہیں کہ ہمیں ابھی بہت سے کام کرنے ہیں۔ ہم چپ ہیں کہ ہمیں اپنی تجارتیں، اپنی ملازمتیں اور اپنی سیاستیں اپنے ملک سے زیادہ عزیز ہیں۔71 ء میں جب مشرقی پاکستان جل رہا تھا ہم اسی طرح بت بنے تماشا دیکھ رہے تھے آج جب باقی مانندہ ملک جل رہا ہے ہم چپ کا تالا زبانوں پر ڈالےبدستورمحو تماشا ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.