شمالی وزیرستان سے بنوں جانے والا راستہ آج کل ان خانما ں بربادوں کی شکستہ
دھول سے اٹا ہوا ہے جو ’’ ضربِ عضب ‘‘کی ضرب کا پہلا شکار ہوئے ہیں۔ناکردہ
گناہوں کی سزا کا ٹنے والے ان بدنصیبوں کو حکومت نے اپنے گھر بار چھوڑ کر
ان جانی منزلوں کی طرف جانے کے لیے صرف پانچ دن دیے۔ شمالی وزیرستان کے سات
لاکھ مکینوں میں سے کچھ سر پھرے قبائل نے تو اپنی دھرتی کو چھوڑنے سے صاف
انکار کر دیا ہے کہ شاید در بدری کاٹنے کی ان میں سکت نہیں،باقی مانندہ اب
شب و روز محفوظ علاقوں کی طرف رواں دواں ہیں ۔جون کی چلچلاتی دھوپ میں
کچھایسے بھی ہیں جو پیادہ پا ہی ان راستوں کی خاک چھان رہے ہیں کیونکہ ان
کی عسرت گاڑیوں پر ہجرت کرنے کی عیاشی افورڈ نہیں کر سکتی ۔ کاش پاکستان سڑ
سٹھ سالوں میں ان کو اتنا تو عطا کر دیتا کہ جب ان کی بستیوں کو بموں سے
جلایا جانے لگے تو ان کی جیبوں میں اتنے پیسے تو ہوں کہ گاڑیوں پر ہجرت کر
سکیں ۔ بے گھری کے کرب سے گزرتے ایک قبائلی نے درست کہا کہ حکومت اگر
سنبھال نہیں سکتی تو ہم پر ایک ایٹم بم مار کر سارا قصہ ہی ختم کر دے۔
ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے شمالی وزیرستان آپریشن کا فیصلہ کسی کولیشن سپورٹ فنڈکی رکی ہوئی ناہنجار قسط جاری کروانے کے لیے جلدی میں کیا ہوبلکہ اطلاعات کے مطابق یہ آپریش کئی سال سے حکومت کے زیرِ غور تھا اوراس نے تین محاذوں پر اس کی تیاری کی ہوئی تھی جس میں آپریشن کے ہدف گروہوں کو الگ کرنا، فوجی کاروائی کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنا اور شہروں کوآپریشن کے ممکنہ ردِعمل سے بچانے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔ انتظامی سطح پر حکومت کے ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ہماری فوج نے بھی اس کے لیے جامع عسکری منصوبہ بندی کر رکھی تھی ۔ غرض اس ہم آپریشن کی تمام جزئیات طے ہو چکی تھیں بس حکومت یہ طے کرنا بھول گئی کہ وہ سات لاکھ قبائلی جو اس بدقسمت سر زمین کے باسی ہیں جب گھروں سے نکالے جائیں گے تو کہاں جائیں گے۔ وہ جن کی کل کائنات کچے گھر اور دو چار مویشی ہیں جب اپنی زمین سے بے زمیں کیے جائیں گے تو کہاں کہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے۔ اس چھوٹی سی بھول کی وجہ سے اب شمالی وزیرستان کے باسیوں کو چند چھوٹے چھوٹے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے سروں پر چھت نہیں، پیٹ میں کھانا نہیں اور کرنے کے لیے حکومت و طالبان کو کوسنے کے علاو ہ اور کوئی کام نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ آپریشن کے لیے یک زبان ہو کر عرصہ دراز سے راگ الاپنے والی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے صوبوں کے دروازے اس آپریشن کے متاثرین پر بند کر چکی ہیں۔اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں کے نغموں پر قوم کوتھر کانے والے لیڈر خود کو علاقائیت کے حصار میں بند کر کے شمالی وزیرستان کے حرماں نصیبوں کا بوجھ اٹھانے سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ انکاری ہو چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی جس کے نو آمو ز چئیر مین آپریشن کے اعلان پر ایک انہونی خوشی سے سر شار ہو کر دما دم مست قلندر کے نعرے لگا رہے تھے شمالی وزیرستان کے لٹے پٹے بے کسوں کو سندھ کی دھرتی پر قدم نہیں رکھنے دینا چاہتے۔
حیرت ہے کہ وہ
سیاسی جماعتیں جو آپریشن کی سب سے بڑی حامی تھیں صرف آگ و بارود کو اپنانے
پر مصر ہیں وزیرستان کے لٹے پٹے باسیوں کے لیے ان کے دلوں میں ہمدردی کی
کوئی رمق نہیں۔بھلا ہوخیبر پختونخواہ کی حکمراں تحریکِ انصاف اور جماعتِ
اسلامی کا جنہوں نے اپنے بازو آپریشن کے متاثرین کے لیے وا کر کے پاکستانی
قوم کے جعلی اتحاد کا بھرم رکھ لیا۔ خیبر پختونخواہ پچھلے کئی سالوں سے
قبائلی علاقوں کے آپریشنوں سے متاثر ہونے والے خانماں بربادوں کے لیے اپنے
دل اور در وا کیے ہوئے ہے ۔آپریشن سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اس صوبے
کی حکومت کو آخری لمحے تک آپریشن کے فیصلے سے آگاہ کرنے کی زحمت نہیں کی
گئی اور نہ ہی اسے کوئی خصوصی فنڈ جاری کیا گیا لیکن اب سارا بوجھ اسے ہی
اٹھا نا ہے ۔وفا قی حکومت تحریک انصاف کو نیچا دکھانے کے لیے اس نادر
موقعے کو بھی شاید ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی۔
دوسری طرف سارے جہاں کا درد رکھنے والی ہماری این جی اوز کے دلوں میں ابھی تک شمالی وزیرستان کے متاثرین کے لیے کوئی درد نہیں اٹھا۔ خیبر پختونخواہ حکومت میں شامل جماعتِ اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن باقی این جی اوز کی بے حسی کا کفارا تن تنہا ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن لاکھوں متاثرین کا بوجھ خیبر پختونخواہ یا الخدمت فاؤنڈیشن کے بس کی بات نہیں ۔ شمالی وزیرستان آپریشن دو چار ہفتوں کا کھیل نہیں نہ جانے کب تک متاثرین کو اپنے ہی ملک میں مہاجر بننے کے عذاب سے گزرنا پڑے۔ شمالی وزیرستان کے باسیوں کا جرم یقینابہت بڑاہے کہ انہوں نے تین دہائیوں سے دہشت گردوں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی تھی۔ ان دہشت گردوں کو جو کبھی ہماری حکومت اور فوج کی آنکھوں کا تارا تھا۔ ہم نے امریکا کے کہنے پر جنہیں مجاہدکہا امریکا ہی کے اشارے پر انہیں دہشت گرد مان لیا۔ پسماندہ قبائلی ہماری طرح ہوا کے رخ کے ساتھ نہ چل سکے ا ورآج اسی لیے در بدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ لیکن ہمیں ان کی سادہ لوحی کے سبب اب انہیں معاف کرنا ہو گا۔ اپنے دل اور دروازے ان کے لیے کھولنے ہوں گے ورنہ ہجرت کا ایک اور المیہ ہماری ناقابل فخرِ تاریخ میں رقم ہونے جا رہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.