پاکستانی قوم دنیا کی سب سے محبِ وطن قوم ہے ۔ یہ انکشاف ایک ایسے تازہ
ترین سروے میں کیا گیا ہے جس میں لوگوں سے یہ پوچھا گیا کہ اگر ان کے ملک
پہ مشکل وقت پڑا تو وہ اس کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے یا نہیں۔ اپنے وطن کے
لیے جان ہتھیلی اور ہتھیار کندھے پر رکھ کر لڑنے کا عزم کرنے والوں میں
پاکستانی سر فہرست رہے جن میں سے ۸۸ فیصد نے ہاں میں جواب دیا ۔ باقی
مانندہ بارہ فیصد نے اس اہم ملکی و ملی فریضے سے کیوں مونہہ موڑایہ ایک
پریشان کن سوا ل ہے جس کی جزئیات میں نہ جانا ہی مناسب ہے ۔ قرین قیاس یہی
ہے کہ ان کا تعلق غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں یا طالبان سے ہو گا۔ سروے کے
نتائج نہایت چشم کشا ہیں اور ان کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایک
ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب پاکستانی فوج شمالی وزیرستان میں ایک
فیصلہ کن جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔ اس اہم مرحلے پر سروے کے یہ نتائیج
یقیناًایک ’غیبی امداد‘ ہیں اور ان سے معرکہ حق و باطل میں ڈوبے ہمارے
فوجی جوانوں کو بھی یہ حوصلہ ملے گا کہ اگر کبھی ضرورت پڑی تو پوری قوم یا
قوم کا ایک بڑا حصہ ہتھیار اٹھائے ان کے پیچھے کھڑا ہو گا۔ مشرقی پاکستان
آپریشن سے پہلے بھی اگر ایسا ہی ایک سروے کر لیا جاتا تو ہمارے فوجی جوانوں
کو حوصلہ ہوتا اور وہ ہتھیار نہ ڈالتے۔ بحرحال دیر آید درست آید۔
شمالی وزیرستان آپریشن نے جہاں ہمارے بہت سے قومی لیڈروں کی باچھوں کے طول و
عرض میں اضافہ کر دیا ہے وہیں بہت سے لوگوں کو بھو نچکا ہونے پر مجبور بھی
کر دیا ہے ۔ عمران خان جو آپریشن سے دو دن قبل تک اسے خود کشی قرار دے رہے
تھے اب اچانک اس کی حمایت پر آمادہ تو ہو گئے ہیں لیکن انہیں حکوت سے پھر
بھی یہ گلہ ہے کہ اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ کم
از کم وہ حکومت سے گلہ تو کر سکتے ہیں ورنہ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے
ہیں کہ خود حکومت کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ بے چاری کس کے آگے
اپنا رونا روئے۔
بحر حال سونامی کی طرح دھاڑتے عمران کو پچھلے ایک سال میں ہماری سیاست کے جوار بھاٹے کا یقیناًپتہ چل گیا ہے اس لیے وہ اب ’بروقت ‘ فیصلے کرنے لگے ہیں۔ اپنے دیرینہ موقف سے الٹے پھرنے کا بروقت فیصلہ اگر وہ نہ کرتے تو ان کی سیاست الٹ پھیر کا شکار ہو سکتی تھی جس سے یقیناًوہ بچنا چاہتے ہیں۔ جذباتی ہو نے کے باوجود عمران اب اتنا سمجھ گئے ہیں کہ حکومت کو کوسنا آسان ہے ’اصلی حکمرانوں ‘ پہ انگلی اٹھا ناآسان نہیں۔
آپریشن کے بین الاسطور میں تمام بڑے شہروں میں فوج کی تعیناتی پر شیخ رشید نے فرمایا ہے کہ ملک میں منی مارشل لا لگ چکا ہے ۔ بوٹ ہمارے اعصاب سے کبھی اترے ہی نہیں اس لیے لگ چکنے کی بات غلط ہے۔ شیخ صاحب کا ٹرین مارچ آپریشن کی وجہ سے پسِ پشت چلا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ آپریشن کی ٹائمنگ پہ جز بز ہو رہے ہیں ۔ دوسری طرف کینیڈا سے انقلاب کی رتھ پر سوار طاہر القادری کو بھی اب اپنے انقلاب کو کچھ دنوں کے لیے کولڈ سٹوریج میں رکھنا پڑے گا ۔ آپریشن نے انقلابیوں کو جون کی گرمی میں خوار ہونے سے بچا لیا! عمران ، قادری اور شیخ رشید کی تکون کو فوج نے حکومت پر دباؤ ڈال کر آپریشن کے لیے آمادہ کرنے کے لیے استعمال کیا یا حکومت نے فوجی آپریشن کو ان تینوں کے فن فئیر سے ہوا نکالنے کے لیے استعمال کیا یہ سوال بڑا اہم ہے اور اس کا جواب آنے والے چند دن دیں گے۔
جنگی ترانے گاتی اور جوش آور رزمیوں پہ جھومتی ہماری قوم کو آپریشن مبارک ہو! اس آپریشن سے مرض ختم ہو گا یا بیماری بگڑ جائے گی ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ہماری دعا ہے جو بھی ہو مریض بچ جائے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.