کارزارِ سیاست ہو یا کارِ عشق ہردو میدانوں کے جگر آزماؤں کو ملامتوں اور
تہمتوں کے تیر کھانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے اس لیے گالیاں کھا
کے بھی بے مزہ نہ ہونے کی صفت ان کے اند ر بدر جہ اتم پائی جاتی ہے ۔ ان
میدانوں کے شاہ سوار دشنام کو انعام سمجھ کر سینے سے لگاتے ہیں کیوں کہ
گالیاں ان کے لیے مفت کی ناموری کا سامان لے کر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے سیاست دانوں کو اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہ کبھی تہمتوں کے
اس جوہڑ سے گزرنا پڑتا ہے ۔بہت کم سیاستدان تدبر کی کاریگری سے اپنا دامن
ان ملامتی آلائشوں سے بچا پاتے ہیں ۔ جدید مغربی سیاست مخالفین کو نیچا
دکھانے کے لیے ہر نیچ
پن کو مباح سمجھتی ہے اس لیے سیاست دانوں کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کی مجلسی زندگی تک کو تنقید کی سولی پر چڑھا کر پرکھا جاتا ہے ۔ سخت جان جانبر ہو جاتے ہیں جو ذرا کم ڈھیٹ ہوں رسوائیاں گلے میں لٹکا کر اس کوچے سے کنارہ کر جاتے ہیں ۔
مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصا تہمتوں کا بازار خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔ سیاست کے اس حمام میں چونکہ سارے ہی ننگے ہیں اس لیے کسی کو اپنا ننگا پن معیوب نہیں لگتا ۔ یہی مغربی سیاست کا اصول ہے اسی پر مغرب و مشرق کے جملہ سیاست دان عمل پیرا ہیں ۔
مغربی طرزِ سیاست کی اس ملامتی روایت کا تازہ ترین شکار ترکی کے طیب اردگان ہوئے ہیں ۔ جرمنی میں قائم ایک ترک نائٹ کلب نے طیب اردگان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اس نائٹ کلب نے اپنی ویب سائٹ پر ’باذوق‘ لوگوں کو اگلے مہینے ہونے والے ترکی کے صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایک سال کی مفت ممبر شپ کی پیش کش کی ہے ۔ سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ شراب و کباب کی بیخ کنی کرنے والے طیب اردگان کے صدر بننے میں مے خواروں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ۔ سیکولر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یر غمال ترکی کی گھٹن زدہ سیاست میں طیب اردگان اور ان کی جسٹس پارٹی ۲۰۰۳ ء میں بہارِ نو کا وہ جھونکا بن کر آئی تھی جس نے نہ صرف ترکی کی سسکتی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ بہت سرعت سے ترکی کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے بھی کام کیا۔ مسلسل تین دفعہ وزیراعظم منتخب کرنیکے بعد اس سال یکم جولائی کو جسٹس پارٹی نے طیب اردگا ن کو اپنا صدارتی امیدوار منتخب کر کے سیاسی مخالفوں کو بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیاہے۔ جہاں عوام میں طیب اردگا ن کی مقبولیت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے وہیں ان کے مخالفین کی فرسٹریشن بھی عروج پر ہے ۔ نائٹ کلب والا قضیہ اسی فرسٹریشن کا ایک بیہودہ اظہار ہے۔ گذشتہ سال مصری ہنگاموں سے متاثر ہو کر ترکی کے انتشار پسندوں نے بھی طیب اردگان کے خلاف طوفان برپا کرنے کی کوشش کی تھیں ان پر کر پشن کے کن ٹٹے الزامات لگانے کی سازشیں بھی کی گئیں لیکن اردگان کی سیاسی بصیرت نے مخالفین کی حسرتوں کو بن کھلے ہی مرجھانے پر مجبور کر دیا۔ نائٹ کلب والی شرارت طیب اردگان کے روایتی ووٹروں کوبد ظن کرنے کی ایک ایسی ہی مضحکہ خیز کوشش ہے جس سے اردگان کی صحت پر یقیناًکوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اردگان ہی کی طرح ہمارے انقلابی عمران خان بھی کچھ تہمتوں کی زد میں ہیں ۔ تہمتوں کا یہ بھوت پچھلے کئی سالوں سے عمران کا پیچھا کر رہا ہے لیکن عمران ہیں کہ گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ٹیرین جیڈ خان کی ولدیت کے الزام پر عمران خان نہ صاف چھپتے ہیں اور نہ کھل کر سامنے آتے ہیں اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی کونے سے ان کا کوئی مخالف دیارِ مغرب میں ان کی ترک تازیوں کی اس یاد گار کو سامنے رکھ کر ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا شروع کردیتا ہے ۔ عمران خان ایک ایسے روایتی معاشرے میں سیاست کر رہے ہیں جہاں اس الزام کو تسلیم کرنا اپنی سیات کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے لیکن دوسری طرف عمران کے اندر کا شریف آدمی اس سے کھل کر انکار کرنے پر بھی راضی نہیں اس لیے عمران کی مشکل سمجھ میں آتی ہے ۔ اپنی جوانی کے غیر انقلابی دور میں عمران سے جو لغزشیں ہوئیں کیا وہ نئے پاکستان کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ ڈال پائیں گی یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن اتنا تو بحر حال عمران کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاستدان وہ پبلک پراپرٹی ہے جس کی ذاتی زندگی بھی ذاتی نہیں ہوتی اس لیے جن کو دین و دل عزیز ہوتا ہے وہ سیاست کی گلی میں قدم نہیں رکھتے۔ مخالفین کے اوچھے واروں سے بچ نکلنا نہ صرف اردگان اور عمران دونوں کی بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کے ملکوں کا مستقبل بھی اسی سے جڑا ہے۔ یقیناًترکی اور پاکستان، عمران اور اردگان شکستہ حال مسلم امہ کا مستقبل ہیں ۔
پن کو مباح سمجھتی ہے اس لیے سیاست دانوں کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کی مجلسی زندگی تک کو تنقید کی سولی پر چڑھا کر پرکھا جاتا ہے ۔ سخت جان جانبر ہو جاتے ہیں جو ذرا کم ڈھیٹ ہوں رسوائیاں گلے میں لٹکا کر اس کوچے سے کنارہ کر جاتے ہیں ۔
مغرب کے آزاد منش معاشرے ہوں یا روایتوں کے پابند مشرقی معاشرے اپنے سیاسی لیڈروں سے کچھ ایسی الوہی صفات کی توقع رکھتے ہیں جو انسانوں کے اندر کم ہی پائی جاتی ہیں ۔ یہ خود ہر گناہ اور خطا کواپنے لیے جائز سمجھتے ہیں لیکن اپنے لیڈروں کو ہر قسم کی خطاؤں سے مبرا دیکھنا چاہتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران خصوصا تہمتوں کا بازار خوب دہکتا ہے ۔ لیڈری کے خواہش مند امیدواروں کی زندگیوں کے ایسے ایسے خفیہ اور خفتہ گوشوں سے پردہ اٹھایا جاتا ہے کہ عام آدمی ایسی پردہ دری کے بعد کسی کو مونہہ دکھانے کے قابل نہ رہے لیکن لیڈری کے خواہش مند یہ امیدوار چونکہ عام لوگو ں سے بلند ہوتے ہیں اس لیے یہ مونہہ چھپانے کی بجائے اسی مونہہ کے اشتہا ر چھپوا کر گلی کوچوں میں چپکا دیتے ہیں اور پھر اسی مونہہ سے لوگوں سے گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے ہیں۔ سیاست کے اس حمام میں چونکہ سارے ہی ننگے ہیں اس لیے کسی کو اپنا ننگا پن معیوب نہیں لگتا ۔ یہی مغربی سیاست کا اصول ہے اسی پر مغرب و مشرق کے جملہ سیاست دان عمل پیرا ہیں ۔
مغربی طرزِ سیاست کی اس ملامتی روایت کا تازہ ترین شکار ترکی کے طیب اردگان ہوئے ہیں ۔ جرمنی میں قائم ایک ترک نائٹ کلب نے طیب اردگان کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے ۔ اس نائٹ کلب نے اپنی ویب سائٹ پر ’باذوق‘ لوگوں کو اگلے مہینے ہونے والے ترکی کے صدارتی انتخابات میں طیب اردگان کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دیتے ہوئے ایک سال کی مفت ممبر شپ کی پیش کش کی ہے ۔ سیاسی مبصرین حیران ہیں کہ شراب و کباب کی بیخ کنی کرنے والے طیب اردگان کے صدر بننے میں مے خواروں کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ۔ سیکولر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یر غمال ترکی کی گھٹن زدہ سیاست میں طیب اردگان اور ان کی جسٹس پارٹی ۲۰۰۳ ء میں بہارِ نو کا وہ جھونکا بن کر آئی تھی جس نے نہ صرف ترکی کی سسکتی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا بلکہ بہت سرعت سے ترکی کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیے بھی کام کیا۔ مسلسل تین دفعہ وزیراعظم منتخب کرنیکے بعد اس سال یکم جولائی کو جسٹس پارٹی نے طیب اردگا ن کو اپنا صدارتی امیدوار منتخب کر کے سیاسی مخالفوں کو بھونچکا ہونے پر مجبور کر دیاہے۔ جہاں عوام میں طیب اردگا ن کی مقبولیت ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے وہیں ان کے مخالفین کی فرسٹریشن بھی عروج پر ہے ۔ نائٹ کلب والا قضیہ اسی فرسٹریشن کا ایک بیہودہ اظہار ہے۔ گذشتہ سال مصری ہنگاموں سے متاثر ہو کر ترکی کے انتشار پسندوں نے بھی طیب اردگان کے خلاف طوفان برپا کرنے کی کوشش کی تھیں ان پر کر پشن کے کن ٹٹے الزامات لگانے کی سازشیں بھی کی گئیں لیکن اردگان کی سیاسی بصیرت نے مخالفین کی حسرتوں کو بن کھلے ہی مرجھانے پر مجبور کر دیا۔ نائٹ کلب والی شرارت طیب اردگان کے روایتی ووٹروں کوبد ظن کرنے کی ایک ایسی ہی مضحکہ خیز کوشش ہے جس سے اردگان کی صحت پر یقیناًکوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اردگان ہی کی طرح ہمارے انقلابی عمران خان بھی کچھ تہمتوں کی زد میں ہیں ۔ تہمتوں کا یہ بھوت پچھلے کئی سالوں سے عمران کا پیچھا کر رہا ہے لیکن عمران ہیں کہ گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ٹیرین جیڈ خان کی ولدیت کے الزام پر عمران خان نہ صاف چھپتے ہیں اور نہ کھل کر سامنے آتے ہیں اسی لیے ہر تھوڑے عرصے بعد کسی نہ کسی کونے سے ان کا کوئی مخالف دیارِ مغرب میں ان کی ترک تازیوں کی اس یاد گار کو سامنے رکھ کر ان پر طعن و تشنیع کے تیر برسانا شروع کردیتا ہے ۔ عمران خان ایک ایسے روایتی معاشرے میں سیاست کر رہے ہیں جہاں اس الزام کو تسلیم کرنا اپنی سیات کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے لیکن دوسری طرف عمران کے اندر کا شریف آدمی اس سے کھل کر انکار کرنے پر بھی راضی نہیں اس لیے عمران کی مشکل سمجھ میں آتی ہے ۔ اپنی جوانی کے غیر انقلابی دور میں عمران سے جو لغزشیں ہوئیں کیا وہ نئے پاکستان کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ ڈال پائیں گی یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن اتنا تو بحر حال عمران کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاستدان وہ پبلک پراپرٹی ہے جس کی ذاتی زندگی بھی ذاتی نہیں ہوتی اس لیے جن کو دین و دل عزیز ہوتا ہے وہ سیاست کی گلی میں قدم نہیں رکھتے۔ مخالفین کے اوچھے واروں سے بچ نکلنا نہ صرف اردگان اور عمران دونوں کی بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کے ملکوں کا مستقبل بھی اسی سے جڑا ہے۔ یقیناًترکی اور پاکستان، عمران اور اردگان شکستہ حال مسلم امہ کا مستقبل ہیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں
Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.