نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

نیا پاکستان عظیم تر پاکستان

اگست 11, 2013

بے انت مرثیہ


اقبال کے خیال میں دین سیاست سے جدا ہوتوصرف چنگیزیت رہ جاتی ہے لیکن ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مذہب کا سیاست میں استعمال جس بھیانک چنگیزیت کو جنم دے سکتا ہے اس کا تصور شاید اقبال نہ کر سکے۔ شام کی سر زمین سیاست میں مذہبی جنون کے استعمال کی نہایت ہی ہولناک مثال بن کر ہمارے سامنے آ رہی ہے۔ بشار الاسد کی آمریت کے خلاف جب جنوری 2011 میں اجتجاج شروع ہو ا تو یہ عرب دنیا میں اٹھنے والی اپنے حکمرانوں سے نفرت اور بیزاری کی اسی لہر کا تسلسل تھا جو اس سے پہلے تیونس ، یمن، الجیریا اور مراکش کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی اور آہستہ آہستہ مصر اور لیبیا کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ لیکن دوسرے ممالک کے برعکس بشار الاسد نے اس اجتجاج سے نپٹنے اور اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے جو طریقہ اختیارکیا اس نے شام کو ایک خون ریز خانہ جنگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔دنیا بھر کے آمروں کو ملک کی سلامتی ،قانون کی سر بلندی اور لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو سے بڑھ کر اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے یہ جب ڈوبنے لگتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنے ملک کے امن اور سلامتی کو بھی ڈبونے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ آنے والوں کے لیے حکومت کرنا ناممکن ہو جائے ۔بشارالاسد نے بھی اسی راستے کا انتخاب کیا۔



ابتدا میں شام میں اٹھنے والی اجتجاج کی لہر کسی بھی طرح کے مذہبی رنگ سے مبرا تھی۔ فری سیرئین آرمی سیکولر لوگوں پر مشتمل وہ گروہ ہے جو شام میں اسدی خاندان کی آمریت کا خاتمہ چاہتا ہے ۔ اجتجاج کی پہلی لہر اسی سیکولر گروہ کی طرف سے اٹھی تھی ۔ بشار الاسد نے اپنے اقتدار کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کے لیے شیعت کی چھتری تلے پناہ لی اور ایران اور لبنان میں موجود اپنے ہم مذہب جنونیوں کو یہ بادر کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ شام میں بغاوت کا علم بلند کرنے والے دراصل اس کی آمریت کے خلاف نہیں بلکہ شیعت کے دشمن ہیں اور شیعت کی شا م میں بقا اس کی اقتدار کی کرسی سے جڑی ہوئی ہے۔ دوسری طرف شامی افواج اور بشار الاسد کے کے غنڈوں کے مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے مخالف گروہوں نے اپنی قوت کو بڑھانے کے لیے اسے سنی اکثریت پر شیعہ حکومت کے جور و جبر کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔ ایران سے شیعہ انقلابی اٹھے اور سنی باغیوں کو تہس نہس کرنے کے کارِ خیر میں اپنے شیعہ بھائی بشار الاسد کی مدد کے لیے شام پہنچ گئے۔ لبنان سے حزب اللہ اللہ کی رسی کو تھامے شا می عوام کے قتلِ عام میں اپنا حصہ ڈالنے دمشق آ وارد ہوئے۔ سنی جہادیوں کے لیے ایک شیعہ حکومت کو گرانے کا اس سے نادر موقع اور کہاں مل سکتا تھا چناچہ دنیا بھر سے جنگجو عازمِ شام ہوئے۔ سیکولر بشار الاسد کی سیکولر حکومت کے خلاف سیکولر فری سیرین آرمی کی بغاوت اب ایک ہولناک فرقہ وارانہجنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔ باغی گروہوں میں سیکولر قوتیں دم توڑ رہی ہیں اور القاعدہ اور اس سے منسلک گروہ زور پکڑ رہے ہیں ۔ عرب سپرنگ شام میں پہنچ کر ایک ایسی خوں چکاں خزاں بن چکی ہے جو عالم اسلام کے لرزیدہ نخل کو مزید کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہی ہے۔



تاریخی اعتبار سے شام سنی اکثریتی علاقہ ہونے کے باعث سنی حکو متوں کا مرکز رہا ہے ۔ 1970 میں حافظ الاسد کے اقتدار پر قبضے سے لے کر موجودہ خانہ جنگی تک شام میں شیعہ حکومت کے خلاف کئی بغا وتیں اٹھیں جنہیں اسدی خاندان کی مضبوط حکومت کامیابی سے کچلتی رہی ۔ 1976 میں مختلف سنی گروہوں کی طرف سے حافظ الاسد کے خلافت بغاوت کی ایک لہر اٹھی جو کئی سالوں تک اسدی خاندان کی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بنی رہی اس بغاوت کا خاتمہ حافظ الاسد نے چالیس ہزار لوگوں کے خون کی بلی چڑھا کر کیا۔ فروری 1982 کو ستائیس دن تک حافظ الاسد کی فوج اس کے چھوٹے بھائی رفعت الاسد کی زیرِ کمان حامہ شہر کا محاصرہ کر کے قتلِ عام کرتی رہی۔ یہ شہر سنی اخوان المسلمون کا مرکز تھا جس کی نصف سے زائد سولین آبادی کو قتل کر کے حافظ الاسد نے اس بغاوت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ اسدی خاندان کا اقتدار شامیوں کے خون سے پروان چڑھا اور اب بشا رالاسد اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہزاروں شامیوں کے خون سے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ حافظ الاسد چالیس ہزار شامیوں کو مروا کر 18 سال حکوت پر قابض رہا بشار الاسد ایک لاکھ شامیوں کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگ چکا ہے لیکن ابھی تک اس کا پایہ تخت بغاوت کے نعروں سے لرز رہا ہے ۔دنیا بھر کا اجتماعی ضمیر بشارالاسد کی خون ریزی کی مذمت کر رہا ہے لیکن مسلمان ممالک خاموش ہیں ہاں ایران کا اسلامی انقلاب ابل ابل کر شامی آمریت کو بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عربوں کو بادشاہتوں کا طعنہ دینے والا انقلابی ایران آج خود ایک باشاہت کو بچانے کے لیے مرا جا رہا ہے۔ 



مہذب دنیا آمریتوں کے گھن چکر سے نکل کر عوام کی رائے کا احترام کرنا سیکھ چکی لیکن دنیا بھر کے مسلمان ملک ابھی تک بادشاہتوں، آمریتوں اور فوجی بوٹوں کے آسیب سے نہیں نکل پائے ۔ ایک ایسا دور جب مغرب جانوروں تک کے حقوق کے لیے جنون کی حد تک سنجیدہ ہے بے چارے مسلمان اپنے حکمران چننے کا حق بھی ابھی تک حاصل نہیں کر پائے۔ کیا اس کی دجہ یہ ہے کہ اسلام آمریت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے یا پھر مسلمان قوتِ عمل سے محرومی کے باعث بے زبان ریوڑ بن چکے ہیں؟ وجہ کچھ بھی رہی ہوعملی طور پر یوں لگ رہا ہے کہ آمریتوں کو نہ صرف مسلمان پسند کرتے ہیں بلکہ ان کو بچانے کے لیے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ تہذیب سے ناآشنا قوموں کے لیے ون مین شو ہمیشہ سے بڑا پر کشش رہا ہے شاید مسلمان ابھی تک ون مین شو کے سحر سے نہیں نکل پائے یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مسلمانوں کی کوکھ حسنی مبارک ، بشار الاسد اور پرویز مشرف کو جنم دے رہی ہے۔ شام مسلمانوں کی یبوست زدہ آمریت سے رائے عامہ کے احترام پر مبنی جمہوریت کی طرف سفر کا ایک ٹیسٹ کیس ہے اگر بشار الاسدفرقہ واریت کے جھنڈے تلے اپنے اقتدار کو دوام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو عرب دنیا کو بالخصوص اور مسلمان دنیا کو بالعموم کئی دہائیوں تک آمریتوں کے جبر تلے سسکنا پڑے گا ۔ افسوس کہ اسلام جو رنگ و نسل اور فرقوں و قبائل میں بٹی انسانیت کے لیے اتحاد کا پیغام تھا اس دورِ زوال کے مسلمانوں کے ہاتھوں یوں مسخ ہوا کہ اب اسی سے آمریتیں فرقہ واریت کا ہتھیار استعمال کر کے اپنی طوالت کا کام لے رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بلادِ شام دور نو کاامید افزا پیغام بنتی ہے یا دورِ زوال کا بے انت مرثیہ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Your feedback is important to us!
We invite all our readers to share with us
their views and comments about this article.